پھٹتے برستے بادل ،سیلاب اور دیگر آفات
(قرآنی تعلیمات کی روشنی میں)
مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے22اگست 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
سوات اور بونیر سمیت شمالی علاقہ جات کے بیشتر مقامات پر گزشتہ دنوں بادلوں کے پھٹنے اور لینڈ سلائیڈنگ سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہےجس پر دل بہت غمزدہ ہے، دوسری طرف باجوڑ اور گرد و نواح کے علاقے میں ایک بار پھر فوجی آپریشن کے نتیجے میں لوگوں کو نقل مکانی کا سامنا ہے ،میڈیا میں اس حوالے سے کھل کر خبریں سامنے نہیں آرہیں لیکن علاقہ کے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اسی طرح کراچی میں بھی بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی سی صورتحال کا سامنا ہے ۔ ان تمام آفات اور مصائب میں ہم سب کے لیے آزمائش ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط} (الملک:2)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
جو بیت رہاہے، خوشی یا غم ہے ، آسانی ہے یا مشکل ہے ، تنگدستی ہے یا خوشحالی ہے ، جو کچھ بھی ہے، یہ بہرحال امتحان ہے۔ اس امتحان کا نتیجہ آخرت میں جاکر نکلے گا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
{وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃًط}( الانبیاء: 35 ) ’’اور ہم آزماتے رہتے ہیں تم لوگوں کو شر اور خیر کے ذریعے سے۔‘‘
انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کچھ ہمارے ساتھ اچھا ہو رہا ہے ، یا بُرا ہورہا ہے ، تقدیر میں لکھا ہے ، یہ سب کا سب امتحان ہے ۔ آگے فرمایا :
{وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(35)}( الانبیاء) ’’اور تم سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹا دئیے جائو گے۔‘‘
اگر آخرت کی منزل مدنظر ہو تو ہر قسم کے حالات کو ، عروج و زوال، نشیب و فراز کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنا آسان ہو جاتاہے ، ورنہ کفراور ناشکری کے الفاظ بھی زبان پر آجاتے ہیں : اللہ کو ہمارا ہی گھر ملا تھا ،ہمارے ساتھ ہی یہ ہونا تھا، انا للہ وانا الیہ راجعون!
امتحان ہمارا بھی ہے اور امتحان غزہ کے مسلمانوں کا بھی ہے ۔ حالیہ دنوں میں آسٹریلیا کی ایک غیر مسلم خاتون ایک عالم کے پاس آئی اور اصرار کیا کہ مجھے اسلام میں داخل کرو ۔ عالم نے پوچھا: یہ تبدیلی کیسے آئی ؟ کیا تم نے تورات ، انجیل یا قرآن کا مطالعہ کیا ہے؟ بولی : میں نے کچھ نہیں پڑھا ، بس غزہ کی اُن عورتوں کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں ان کے معصوم بچے شہید ہورہے ہیں اور وہ زبان پر ناشکری کے کلمات تک نہیں لاتیں ، بلکہ کہتی ہیں کہ ہم ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہیں ۔ 7اکتوبر 2023ء کے بعد کئی ایسے واقعات ہم نے دیکھے اور سنے کہ اگربیوی پہلے شہید ہوگئی تو شوہر کہہ رہا تھا کہ : تم کتنی خوش نصیب ہو مجھ سے پہلے شہادت پالی اور اگر شوہر شہید ہوگیا تو بیوی اس کو خوش قسمت قراردیتی ہے ۔ آسٹریلوی خاتون نے کہا : مجھے بھی ایسے ایمان کی جستجو ہے جو اُن جیسا صابر اور پُرعزم بنادے ۔ عالم صاحب خطاب جمعہ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے زارو قطار رو رہے تھے ، بولے : ہم پیدائشی مسلمان ہیں ، ہمارا ایمان آج کدھر ہے ؟ جبکہ ایک غیر مسلم عورت غزہ کی مسلم خواتین کی استقامت دیکھ کر اور اللہ کے فیصلے پر راضی ہونے کے جملے سن کر کہتی ہے کہ مجھے بھی ان جیسا صابر بننا ہے ۔ کہا مجھے امام ہو کر شرم آتی ہے کہ میرا ایمان تو ایسا نہیں ہے۔
جو لوگ سخت آزمائشوں کے باوجود بھی صبر ، ایمان اور تقویٰ پر قائم رہیں، وہی حقیقی مومن ہیں اور وہی آخرت کی دائمی زندگی میں کامیاب ہوں گے ۔ یہ سخت حالات کبھی انسانوں کوجھنجھوڑنے کے لیے ، بیدار کرنے کے لیے بھی ہوتے ہیں کہ بندے اپنی اصلاح کرکے اللہ کی طرف رجوع کرلیں ۔ کبھی اللہ سخت عذاب بھیج کر بندوں کو تنبیہہ بھی کرتاہے کہ باز آجائیں ۔ کبھی بُرے حالات انسانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں ۔ فرمایا :
{ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ}( الروم: 41 )’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب۔‘‘
کبھی سونامی، کبھی طوفان، کبھی سیلاب، کبھی بارشیں، کبھی لینڈ سلائیڈنگ، کبھی بادلوں کا پھٹنا اور کبھی زلزلے ، یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں اور اللہ کی جانب سے وارننگ بھی ہوسکتے ہیں ۔ آگے فرمایا :
{لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(41)}( الروم) ’’تاکہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا‘تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ وہ صرف کچھ اعمال کی وجہ سے پکڑتا ہے ورنہ سب اعمال کی وجہ سے پکڑ ہو جائے تو پھر دنیا میں کوئی انسان باقی نہ رہے ۔ دوسری جگہ فرمایا : {وَلَنْ یُّؤَخِّرَ}(المنافقون:11)
’’اور اللہ ہرگز مہلت نہیں دے گا ۔‘‘
اللہ تعالیٰ سزا کو موخر کرتا رہتاہے ، مہلت دیتا رہتا ہے کہ بندہ سنبھل جائے ، اللہ کی طرف رجوع کرلے ، یہ سختیاں، یہ تکالیف کبھی اس وجہ سے بھی بندے پر آتی ہیں کہ اس کا دل نرم ہو جائے اور وہ اللہ کے دین کی طرف پلٹ آئے ۔ سورہ السجدہ میں فرمایا:
{وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(21)}(السجدہ) ’’اور ہم لازماً چکھائیں گے انہیں مزہ چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے‘ شاید کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔‘‘
حضرت نوح ، ہود ، صالح ، شعیب ، لوط ؑ کی قوموں پر بڑے عذاب آنے سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب بھی آئے تھے تاکہ وہ سمجھ جائیں ، باز آجائیں اور اپنی اصلاح کرلیں ، لیکن وہ قومیں باز نہیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے پھر بڑا عذاب بھیج کر اُنہیں نشانِ عبرت بنادیا ۔ اگر اس اُمت کے لیے حضور ﷺ کی دعائیں نہ ہوتیں ، اگر اہل غزہ جیسے مومن لوگ اُمت کی جانب سے فرض کفایہ ادا نہ کر رہے ہوتے تو ہمارے اجتماعی اعمال نے پوری اُمت کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی جس طرح پہلی قومیں پوری کی پوری نیست و نابود ہو جایا کرتی تھیں مگر اس کے حوالے سے اللہ کا فیصلہ ہے کہ ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی ۔ باقی والوں کو اگرچہ چھوٹے چھوٹے عذابوں کے ذریعے سزائیں اور تنبیہات ملیں گی لیکن بحیثیت مجموعی پوری اُمت کو غرق نہیں کیا جائے گا ۔ یہ جو چھوٹے چھوٹے عذاب اور مصائب ہم پر آرہے ہیں ، ان کا مقصد یہی ہے کہ ہم رجوع کرلیں ۔ دوسری جگہ فرمایا :{وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ(42)}(الانعام ) ’’اور ہم نے بھیجا ہے بہت سی اُمتوں کی طرف آپؐ سے قبل (رسولوں کو) ‘ پھر ہم نے پکڑا انہیں سختیوں اور تکلیفوں سے ‘ شاید کہ وہ عاجزی کریں۔‘‘
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے عذابوں کا ذکر کیا ہے :
’’کہہ دیجیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر بھیج دے کوئی عذاب تمہارے اوپر سے‘یا تمہارے قدموں کے نیچے سے‘یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھائے۔‘دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیات کی تصریف کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔‘‘(الانعام:65)
حضرت لوط ؑ کی قوم شرک میں تو مبتلا تھی ہی لیکن ہم جنس پرستی کے گندے کام میںبھی ملوث تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بستی کو اُٹھا کر پٹخ دیا ، پھر اوپر سے پتھر برسائے ، ان کو اندھا کیا گیا ، پھر ان کو بحر مردار میں غرق کر کے ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنادیا ۔ ہم جنس پرستی ایسا گناہ ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ شدید غضبناک ہوتاہے ، لیکن آج دجالیت کے ایجنڈے کے تحت دنیا کے کئی ممالک اس گناہ کو قانونی تحفظ دے رہے ہیں ، ہمارے ہاں بھی ایک متنازعہ ایکٹ پاس کرکے اس کو قانوناً سہارا دیا جا رہا ہے ۔ موجودہ حالات میں بھی جب ملک سیلابوں ، طوفانوں اور مختلف آزمائشوں میں گھرا ہوا ہے ، لاہور میں ہم جنس پرستی کے مغربی ایجنڈے کو پروموٹ کرنے کے لیے باقاعدہ ایک پروگرام کیا گیا جس میں ٹرانسجینڈزنےدجالی ماسک پہن کر سٹیج پر برہنہ ڈانس کیا ۔ اگر عذاب نہیں آئیں گے تو اور کیا ہوگا ؟یہ کلاؤڈ برسٹ اور طوفانی بارشیں اوپر سے عذاب کی ایک مثال ہیں ، نوح ؑ کی قوم پر آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین سے بھی پانی اُبل پڑا اور قوم مٹا دی گئی۔ حضرت شعیب ؑ کی قوم پر آسمان سے شعلے برسائے گئے ، زمین پر زلزلہ بھی آیا ۔ پچھلی قوموں کے واقعات قرآن میں صرف کہانی کے طور پر بیان نہیں ہوئے بلکہ ان میں ہمارے لیے عبرت اور ہدایت رکھی گئی ہے ۔ قرآن بتارہا ہے کہ عذاب لوگوں کے اعمال کی وجہ سے بھی آیا کرتے ہیں ۔ اوپر سے عذاب کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ظالم اور بے رحم حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں ۔ آج پاکستان کے 25 کروڑ عوام اپنے حکمرانوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ جب اوپر ظالم ، جابر اور کرپٹ لوگ مسلط ہوں گے تو قوم کے لیے وہ حالات کسی بڑے عذاب سے کم نہیں ہوتے ، اسی طرح اگر اولاد نافرمان ہو جائے تو یہ بھی ایک عذاب ہوتاہے ، آج ہم میڈیا کے ذریعے سنتے ہیں پب جی گیم کے لیے بھائی کو قتل کردیا ، ماں کو قتل کر دیا ، کہیں ماں کو زودکوب کیا ،بوڑھے والدین کو گھر سے نکال دیا ۔
تیسرابڑا عذاب گروہوں میں تقسیم کرکے ایک کے ذریعے دوسرے کو سخت مزہ چکھانا بیان ہوا ، بدقسمتی سے آج ہماری قوم بھی گروہوں میں تقسیم ہے اور یہ آپس میں ہی لڑ لڑ کر دشمن کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں ، ہمارے ملک میں نسلی ، لسانی ، مسلکی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی وجہ سے کتنے قتل ہوئے ہیں ، کتنا خون بہا ہے ، یہاں تک کہ مسجدوں پر جھگڑا اور لڑائیاں ہوتی ہیں،کئی بڑے بڑے علماء شہید ہوئے ، سیاست کی بنیاد پرجھگڑے اور قتل وغارت گری ہوتی ہے ، انتقامی کارروائیاں ہوتی ہیں ، اپنی طاقت کا گھمنڈ انسان سے بڑے مظالم کرواتاہے مگر آخرکار پکڑ میں ضرور آتاہے ، چاہے کوئی جتنا بڑے سے بڑا فرعون نماشخص کیوں نہ ہو، اللہ کہتا ہے :
{فَالْیَوْمَ نُـنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَـکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃًط}(یونس:92) ’’تو آج ہم تمہارے بدن کو بچائیں گے تاکہ تُواپنے بعد والوں کے لیے ایک نشانی بنا رہے ۔‘‘
فرعون کی لاش آج بھی پوری دنیا کے انسانوں کے لیے نشان عبرت ہے ، آج جو لوگ بیرونی ایجنڈے پر چل کر اپنے لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں ، ان کو سبق سیکھنا چاہیے ۔ ہم نے شروع میں پڑھا کہ یہ زندگی امتحان ہے ،اللہ کسی کو طاقت اور اختیار دے کر آزماتاہے اور کسی کے لیے غربت اور کمزوری کے حالات میں آزمائش ہے ، اسی طرح خوشی ، غمی ، زوال و عروج ، تنگی وخوشحالی سب امتحان ہیں ۔ اسی طرح آج ہم جن عذابوں میں مبتلا ہیں یہ ہماری تنبیہہ کے لیے بھی ہوسکتے ہیں ، ہمارے اعمال کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں ، آزمائش بھی ہوسکتے ہیں ۔ ان سب کا ایک ہی مقصد ہے :{ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(41)} ( الروم) ’’تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
کوئی آفت آتی ہے ، زلزلہ ہو ، طوفان ہو ، سیلاب ہو اس میں اللہ کے نیک بندے بھی لقمہ اجل بنتے ہیں ، اس بارے میں احادیث میں ہے کہ ہر شخص آخرت میں اپنی نیت پر اٹھایا جائےگا۔کئی صحابہ کرام ؇طاعون کی بیماری کی وجہ سے بھی شہید ہوئے ، ان کو اللہ کے ہاں اجر ملے گا ، کئی مرتبہ نیک لوگوں کے لیے ایسے حالات ان کے لیے معافی ، درجات کی بلندی اور اجر کا باعث بن جاتے ہیں لیکن جو لوگ باقی رہ جاتے ہیں ان کے لیے ایسے عذاب تنبیہہ ہوتے ہیں کہ وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں سے باز آجائیں ، توبہ کرلیں اور اللہ کے دین کی طرف لوٹ آئیں ۔
آج ہماری قوم کو سیلاب اور طوفانی بارشوں کا سامنا ہے ، کلاؤ برسٹ کی وجہ سے بہت بڑا جانی اور مالی نقصان ہورہا ہے ، کراچی میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے تباہی کا سامناہے ، باجوڑ میں آپریشن کی وجہ سے لوگوں کو نقل مکانی کا سامنا ہے ، لوگ بے گھر ہورہے ہیں ، کہیں جائیداد کے لیے اور کہیں قبضہ و تسلط کے لیے قتل و غارت گری ہورہی ہے ، اسی طرح مہنگائی کا طوفان ہے، ایک رپورٹ کے مطابق 6 ماہ میں ساڑھے 3 لاکھ لوگ پاکستان چھوڑچکے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایک پیغام ہے کہ ہم اللہ کے دین کے لیے مخلص ہو جائیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے کہ قیامت سے پہلے زلزلے اور دیگر آفات کا سلسلہ بڑھ جائے گا ۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری قوم اس کے باوجود بھی سیکھنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے ،دل نرم نہیں ہورہے ، سوشل میڈیا پر میمز(memes) بن رہی ہیں ، لوگ انجوائے کر رہے ہیں ، سیر و تفریح کر رہے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون ! قرآن میں اللہ کہتاہے :
{اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ لا}(الحدید:16) ’’کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے اور اُس (قرآن) کے آگے کہ جو حق میں سے نازل ہو چکا ہے؟‘‘
یہ قرآن تو پہاڑوں کو ہلا دے۔ فرمایا:
{لَــوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْـتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ط} (الحشر : 21) ’’اگر ہم اس قرآن کو اُتار دیتے کسی پہاڑ پر تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے۔‘‘
آج ہم پر کوئی اثر ہورہا ہے ؟ اس کو بے حسی کہیں یا بے حمیتی ؟انتظامی کمزوریاں بھی ہیں ، ندی نالوں کی صفائی کا مسئلہ ہے ، برساتی نالوں میں لوگ مکانات اور مارکیٹیں بناتے ہیں ، سیلابی گزرگاہوں میں ہاؤسنگ کالونیاں بن رہی ہیں ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، زرعی زمین کو ختم کرکے ہاوسنگ سوسائٹیاں بنائی جارہی ہیں اور دوسری طرف ٹماٹر اور پیاز بھی بھارت سے منگوائے جارہے ہیں ،قوم پر مشکلات نہیں آئیں گی تو اور کیا ہوگا ۔
قبائلی علاقہ جات میں آپریشن
ہمارے قبائلی علاقہ جات میں پھر آپریشن شروع ہو گیا ہے ۔ پاکستان کی سالمیت ہمیں عزیز ہے ، اگر کوئی واقعی دہشت گرد ہے ، دراندازی کر رہا ہے تو اُسے پکڑ کر سزا دیں مگر ایک بات یاد رکھیں ، دشمن یہ چاہتے ہیں کہ اس علاقے میں امن نہ ہو کیونکہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے اسلامی لشکرحضرت مہدیؒ کی نصرت کے لیے جائیں گے اور دجال کےلشکر کے خلاف لڑیں گے ۔ لہٰذا دجالی قوتیں چاہتی ہیں کہ اس خطے کے مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا جائے تاکہ احادیث کی پیشین گوئیاں پوری نہ ہوں ۔ ہم نے حکومت کو بھی لکھا ہے اور ریاستی اداروں کو بھی لکھا ہے ، انگریزی میں بھی لکھا ہے اور اردو میں بھی لکھا ہے کہ خدارا امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنے ہم وطنوں کو دشمن مت بنائیں ،یہی قبائلی تھے جو پاکستان کے محافظ تھے ، ان کے ہوتے ہوئے مغربی بارڈر پر پاکستانی فوج کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، مگر ہم نے امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہو کر انہیں ناراض کیا ، ان پر بمباریاں کی، ڈمہ ڈولا میں مدرسے پر بمباری کرکے 82 معصوم بچوں کو شہید کیا گیا ، ہم نے اس وقت بھی احتجاج کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ اس واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داروں کو سخت سزادی جانی چاہیے اور جو متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کریں ، ان کی دلجوئی کریں ۔ ہمیں جوڑنے والی واحد چیز اسلام ہے ، ہم پنجابی ، پٹھان ، سندھی ، بلوچی ، اردو بولنے والے مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے لوگ ہیں مگر ایک کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ایک قوم بنے ہیں ، اِس بنیاد کو مضبوط کریں گے تو ہم متحد ہوں گے اور ہمارے درمیان سے نفرتیں بھی ختم ہوں گی اور اسلام کی طرف پیش قدمی کر کے ہم ان ساری مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
بہرحال باجوڑ میں اس وقت کرفیو لگا ہے ، لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں ، ہمارے تنظیمی نظم کے تحت بھی معلوم ہورہا ہے کہ لوگوں کو بہت زیادہ پریشانیوں اور مسائل کا سامنا ہے ۔ ہم نے اپنے تنظیمی نظم کو ہدایت جاری کی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے بے گھر بھائیوں کی مدد کریں ، انہیں رہائش اور کھانا فراہم کریں ۔ تنظیم اسلامی کے اپنے نظم کے تحت ہمیں جتنی توفیق ہوئی ان شاء اللہ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کریں گے ۔ یہ بھی ہمارا امتحان ہے اور روزقیامت ہمیں اس کا جواب دینا ہے ۔
ایسی تمام آفات کے موقع پر لبرل اور سیکولر لوگ جو دین داروں پر بہت زیادہ حملے کرتے ہیں وہ عام طور پر نظر نہیں آتے ، متاثرین کی مدد کے لیے آپ کو یا تو مدارس کے لوگ میدان میں نظر آئیں گے یا مذہبی جماعتوں کے، الخدمت فاؤنڈیشن نظر آئے گی جو کہ جماعت اسلامی کی ہے ، اسی طرح اس میدان میں دیندار طبقہ ہی نظر آئے گا ، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ان اداروں سے تعاون کریں اور ان میں سے جس پر اعتماد ہو اس کے ذریعے مالی تعاون بھی کریں ۔
غزہ کے محصور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل بھوک اور پیاس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ، صورت حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ غیر مسلم قومیں بھی پریشان ہو گئی ہیں اور احتجاجی مظاہرے کر رہی ہیں ، مگر افسوس کی بات ہے کہ نہ تو مسلم دنیا کی طرف سے کوئی ردعمل آیا ہے اور نہ مسلم حکمرانوں کی جانب سے کوئی قدم اٹھایا گیا ہے ،عوام سے اپیل ہے کہ جہاں تک ہو سکے غزہ کے مظلوم مسلمان بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کی مالی مدد کریں اور جس ادارے پر آپ کو اعتماد ہے اس کے ذریعے ان تک امداد پہنچانے کی کوشش کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا اُمتی اور سچا مسلمان بننے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !