(زمانہ گواہ ہے) الحادی فتنوں کا مقابلہ کیسے کریں؟ - محمد رفیق چودھری

11 /

الحاد کے پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جدید تعلیمی

اداروں میں علمائے دین کا کردار اور اثر رسوخ نہ

ہونے کے برابر رہ گیا ہے : ڈاکٹر انوار علی

اسلام الحاد سمیت تمام دجالی فتنوں کی سرکوبی کی

بھرپور صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا ہمیں ڈٹ کر اِن فتنوں

کا مقابلہ کرنا چاہیے اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار

استعمال کرنا چاہیے : قیصر احمد راجہ

الحادی فتنوں کا مقابلہ کیسے کریں؟ 

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:الحاد کی بحث تو بہت پرانی ہے لیکن حالیہ دور میں یہ بحث د وبارہ زندہ ہورہی ہے ، آپ یہ بتائیے کہ الحاد کیا ہے اور کیا اس موضوع پر بات ہونی چاہیے یا نہیں ؟
قیصر احمد راجہ:برائی جب کسی معاشرے میں داخل ہوتی ہے تو سنجیدہ لوگ اُس پر بات کرتے ہیں ، الحاد تو ایسی برائی ہے کہ اِس کی وجہ سے ہماری نسلوں کا ایمان خطرے میں پڑتا جارہاہے ، لہٰذا اس پر کھل کر بات ہونی چاہیے اور اس فتنے کو بے نقاب کرنا چاہیے ۔ الحاد کیا ہے ؟ اِس کی وضاحت آسان بھی ہے اور مشکل بھی ہے کیونکہ اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں ۔ آسان الفاظ میں جو شخص خدا کا انکار کرتاہے، وہ ملحد ہے لیکن بہت سے ملحد ایسے بھی ہیں جو خدا کو مانتے ہیں ۔ جون گرے ملحدین کا ایک بڑا فلاسفر ہے، اس نے 7 قسم کے ملحدین کو بیان کیاہے ۔ میں نے دو طبقے ایسے دیکھے ہیں جو اپنے نظریے کے سوا باقی سب پر بات کرتے ہیں ۔یعنی قادیانی اور ملحدین ۔ یہ دونوں اسلام کے خلاف بات کریں گے ، عیسائیت کے خلاف کریں  گے، دیگر مذاہب پر تنقید کریں گے مگر اپنے نظریات پر کبھی بات نہیں کریں گے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہ ٹھیک ہیں ، باقی سب غلط ہیں ۔
سوال:قادیانیوں کی بنیاد جھوٹ پر کھڑی ہے ، وہ مرزا قادیانی کے ساتھیوں کو صحابی کہہ رہے ہیں اور اُن کے ناموں کے ساتھ ؄ لگاتے ہیں ، بالکل وہی معاملہ ملحدین کا بھی ہے ان کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ کیا یہ سچ ہے؟
ڈاکٹر انوارعلی:ملحدین اور قادیانی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں ۔ جیسے ملحدین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے ، اسی طرح اُن کے بعض گروہ کہتے ہیں کہ کائنات خود وجود میں آئی ہے اور مادے کا سبب خود مادہ ہے ۔جیسا کہ قرآن میں بھی ایک ایسے گروہ کے بارے میں فرمایا :
{وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَاوَمَا یُہْلِکُنَآ اِلَّا الدَّہْرُج وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ج اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ(24)} (الجاثیہ )
’’وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے (کوئی اور زندگی) سوائے ہماری دنیا کی زندگی کے‘ ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیں‘اور ہمیں نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ‘ حالانکہ ان کے پاس (اس بارے میں) کوئی علم نہیں ہے‘ وہ تو صرف ظن سے کام لے رہے ہیں۔‘‘
یہ دونوں نظریات ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں ۔ ایسے لوگوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ دنیا اُن کے نظریات کو قبول کرلے مگر ہمیشہ اکثریت میں لوگ کسی نہ کسی مذہب کے پیروکار رہے ہیں جبکہ خدا کا انکار کرنے والے ہمیشہ اقلیت میں ہی رہے ہیں ۔ ایک کم تر فہم رکھنے والے شخص کو بھی ایسے بے وقوف لوگ مل جاتے ہیں جو اس کے باطل نظریہ کو مان لیتے ہیں ۔ ان کو بھی ان کے حصے کے بیوقوف ملے ہوئے ہیں جو کچھ نہ کچھ الحاد کی بحث کو جاری رکھتے ہیں ۔ موجودہ دور میں اُنہوں نے صرف پینترا بدلا ہے ۔ دلیل تو ان کے پاس پہلے بھی نہیں تھی، آج بھی نہیں ہے ، یہ لوگ مذہب کو دلیل کی بنیاد پر ہرا نہیں سکتے کیونکہ آج سائنس کی سطح پر بھی تسلیم کیا جارہا ہے کہ اس کائنات کو بنانے والی کوئی ایک ہی عظیم ہستی ہے ۔ اس لیے اب ملحدین نے بحث کا رُخ بدلا ہے اور کہتے ہیں کہ خدا کا میری عملی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ معنوی انداز میں یہ بھی ایک الحادی سوچ ہے۔اس سوچ کو پروان چڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ مذہب کو عملی زندگی سے بے دخل کر دیا جائے ۔ ظاہر ہے جب خدا کو درمیان سے نکال دیا جائے گا تو پھر اعمال میں وہ چیزیں بھی شامل ہو جائیں گی جن سے مذہب منع کرتاہے ۔ مادہ پرستی کو اُن لوگوں نےہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے ۔ موجودہ زمانے کی سوچ کے مطابق ہر شخص کا بڑا مقصد دولت کمانا ہے اور الحادی سوچ کے مطابق دین اس میں بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ دین حرام سے منع کرتاہے ۔ یہ چاہتے ہیں کہ دین کو درمیان سے نکال دیا جائے تاکہ انسان جس طرح چاہے دنیا کمائے اور جو جی میں آئے ،وہ کرے ۔
سوال: قرآن میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’آپؐ ان سے پوچھئے کہ یہ زمین اور جو اس میں ہے سب کس کے ہیں؟ اگر تم جانتے ہو(تو بتائو)!‘یہ کہیں گے کہ اللہ ہی کے ہیں! آپؐ کہیے تو کیا تم غور نہیں کرتے؟‘‘(المومنون:84،85)
یعنی دنیا کے ہر مذہب میں خدا کا تصور موجود ہے ۔لہٰذا ملحدین کا یہ نظریہ کہ’’ خدا نہیں ہے ‘‘اپنی موت آپ مررہا ہے ، اس لیے اب انہوں نے پینترا بدلا ہے کہ خدا ہے تو سہی مگر اس کا انسانی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اب چونکہ مسلمانوں سمیت بہت سے مذاہب کے ماننے والوں نے اپنی زندگی کو دین اور دنیا میں تقسیم کرلیا ہے کہ مخصوص اوقات میں خدا کی عبادت بھی کرنی ہے ، عبادت گاہوں میں بھی جانا ہے مگر باقی اوقات میں دین کو اپنی عملی زندگی سے نکال دیا ہے ۔ کیا دین و دنیا کی اس خود ساختہ تقسیم اور جدت پسندی سے ملحدین کے اس نظریہ کو تقویت مل سکتی ہے ؟
قیصر احمد راجہ: مغرب تو جدت پسندی سے بھی آگے نکل چکا ہے ۔ اب دوبارہ و ہ مذہب کی طرف آرہا ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی کلچر مذہب سے الگ نہیں رہ سکتاہے کہیں نہ کہیں جا کر وہ مذہب سے جڑجاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رچرڈ ڈوکنز جیسا بہت بڑا ملحد بھی کہتا ہے کہ میں کلچرل عیسائی ہوں ۔ گویا کہ ملحدین کو بھی کلچر سے کچھ نہ کچھ چیزیں جینے کے لیے لینا پڑتی ہیں ۔ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو کہیں نہ کہیں خدا کو نہ مانتا ہو، فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شعوری طور پر اس کا اقرار کرتاہے اور کوئی لاشعوری طور پر مانتاہے ۔ مثال کے طور پر انسان اپنی جن خواہشات کو پورا نہیں کر سکتاہے مگر ان کو ختم بھی نہیں کرسکتا تو کہیں نہ کہیں اُس کی درخواست جارہی ہوتی ہے ۔ لہٰذا لاشعوری طور پر تو سارے ہی مانتے ہیں ۔ مغرب کی پبلک پالیسی میں اب مذہب کی واپسی نظر آرہی ہے ۔ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ ملحدین کی فنڈنگ بند کردے گا ۔ جب فنڈنگ بند ہوگی تو ملحدین کو جدت پسندی سے جو تقویت مل رہی تھی وہ بھی ختم ہو جائے گی ۔
سوال: انسان کی سرشت آزادی ہے ، آج کل سلوگنز بھی چلائے جارہے ہیں کہ جیسے چاہو جیو ! گویا مذہب سے آزادی اور بغاوت کے لیے لوگوں کو اُبھارا جارہا ہے ۔ کیا ایسے تصورات ملحدین کے ایجنڈے سے تعلق رکھتے ہیں ؟
قیصر احمد راجہ: ایک پرانے ٹرینڈ کا اُلٹ ہے ۔ یورپ میں دہریت کی جو تحریک چلی تھی اس کے تحت یہ کہا جارہا تھا کہ آپ کا شعور جس چیز کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتا اُس کو چھوڑ دو اور جو چیز شعور ی طور پر سمجھ میں آجائے اس کو اپنا لو ۔ یعنی ماورائی چیزوں کو بھی شعور کے دائرے میں  لانے کی کوشش کرو جوکہ کبھی نہیں آسکتی ۔اس کا نتیجہ الحاد تھا۔ غامدی صاحب بھی اسی فارمولے پر کام کر رہے ہیں۔ اب خالق کا انکار کرنا چونکہ موجودہ دور میں  ناممکن ہے اس لیے الحاد کی تحریک نے نئی شکلیں اختیار کرلیں ہیں ۔ مثلاً تخلیق کو تو مان لو لیکن خالق کی نہ مانو ۔
ڈاکٹر انوارعلی:خدا کو ماننا مگر خدا کی نہ ماننا ، اس طرزعمل کے مختلف پہلوؤں پر اگر غور کیا جائے تو بات دور تک جائے گی ۔ اس طرح تو ایک شخص کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ وہ ملحد ہے اور نہ ہی وہ خود کو ملحد کہے گا ۔ اس الحاد کے تین پہلو ہیں ۔ ایک تو مغرب کی ترقی سے مرعوبیت ہے کہ ہر چیز مغرب کی اپنائی جارہی ہے ۔ دوسری چیز غلامانہ ذہنیت ہے ،اس میں وہ لوگ شامل ہیں جن کی نہ تو اپنی کوئی سوچ ہے ، نہ کوئی تحقیق ہے اور جاہلانہ سطح پر زندگی گزار رہے ہیں، مرعوبیت میں تو پھر بھی انسان کوئی فیصلہ کرسکتاہے مگر غلامانہ ذہنیت میں تو اپنی سوچ ہی کوئی نہیں ہوتی ۔ تیسری چیز بغاوت ہے ۔ مثال کے طور پر ہم سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ،اس پر فحاشی اور بے حیائی پر مبنی مواد بھی آرہا ہوتاہے جس کو دیکھنے سے ہمارادین منع کرتاہے مگر کتنے فیصد لوگ ہوں گے جو اس وجہ سے دیکھنا چھوڑ دیتے ہوں  گے ؟ اب تو یہ کلچر بن گیا ہے اور جن چیزوں کو پہلے بے حیائی سمجھا جاتاتھا اب عام سی چیز ہوگئی ہے حالانکہ یہ دین سے بغاوت ہے ۔اسی طرح پردے کی بات ہے ، عورت کا گھر میں رہنا اور بلاضرورت باہر نہ جانا دینی تقاضوں میں سے ہے لیکن آج اس بات کو نہیں مانا جارہا ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو الحاد بڑھ رہا ہے ۔
سوال: گویا اب الحاد اپنا سفر طے کرتا ہوا اس نکتہ پر پہنچ گیا ہے کہ خدا تو ہے مگر اس کا انسان کی عملی زندگی میں کوئی دخل نہیں ہے ؟
قیصر احمد راجہ:الحاد کا مقدمہ سائنسی، فلسفیانہ اور فکری بنیادوں پر ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ مثال کے طور پر اسلام میں انسانی حقوق طے شدہ ہیں ، بچوں کے حقوق ہیں ، پڑوسیوں کے حقوق ہیں ، یتیموں ، بیواؤں ، بڑوں ، غرض تمام انسانوں کے حقوق متعین ہیں ۔ اس کے برعکس الحاد کے پاس انسانی حقوق کا کونسا ماڈل ہے ؟اسی طرح اسلام سیاسی ، معاشی اور سماجی نظام دیتا ہے ، الحاد کے پاس کیا ہے ؟ سوائے خدا کے انکار کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے الحاد ہمیشہ شکست کھاجاتاہے ۔اس لیے اب انہوں نے حل یہ نکالا ہے کہ لوگوں کو مذہب سے دور کر دیا جائے ۔
سوال:ملحدین کا یہ نیا ایجنڈا کتنا کامیاب ہورہا ہے اور اگر ہورہا ہے تو کن وجوہات کی بناء پر کامیاب ہورہا ہے ؟
ڈاکٹر انوارعلی: اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک تو پروپیگنڈا اور مارکیٹنگ ہے ، ذہن سازی ہے ۔ اس کے لیے انہوںنے مختلف اصطلاحات وضح کرلی ہیں ۔ مثلاً ایک اصطلاح مذہبی جنونیت ہے ۔ ہر کام دین کے مطابق کرنا دین کا تقاضا ہے مگر ملحدین اس کو مذہبی جنونیت قراردیتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ جو بھی دین پر عمل پیرا ہوگا وہ اُن کے مطابق مذہبی جنونیت کا شکار ہے ، یہ پروپیگنڈا کرکے وہ نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہیں ۔ اس میں میڈیاکا بہت بڑا اور گھناؤنا کردار ہے، ہمارے تعلیمی اداروں کے ذریعے بھی اسی طرح کی ذہن سازی کی جارہی ہے ۔ اس کے لیے وہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اپنے تربیت یافتہ لوگ داخل کرتے ہیں۔ ڈراموں اور فلموں کے ذریعے بھی ذہن سازی کی جارہی ہے ۔ دوسری بڑی وجہ علماء سو ہیں ۔ جنہوں نے لوگوں کو دین سے متنفر کیا ، چاہے دہشت گردی ہو ، فرقہ واریت ہو ،توہم پرستی ہو یا جہالت پر مبنی بیانیہ ہو ، ان سب چیزوں نے بھی لوگوں کو دین سے دور کیا ہے ۔ تیسری بڑی وجہ آج کی زبان و اسلوب میں ، آج کی ذہنیت اور اپروچ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس لیول کی دعوت کا فقدان ہے ۔ صدیوں تک علماء کا شاندار کردار رہا ہے مگر آج کے دور میں جدید ذہن کو متاثر کرنے والی دعوت نظر نہیں آتی ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ جدید تعلیمی اداروں میں علمائے دین کا کردار اور اثر رسوخ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے ۔ ایسے لوگ چاہئیں جودنیا کے اس رُخ اور مسائل کو سمجھتے ہوں اور وہ ٹھوس علمی بنیادوں پر جدید اذہان کو خطاب کر سکیں ۔
سوال: رینڈ کارپوریشن نےمسلمانوں کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ان کے لیے الگ الگ اہداف مقرر کیے ۔ اِس لحاظ سے ـغیرملکی اداروں کابے دینی اور الحاد پھیلا نے میں کتنا کردار ہے ؟
قیصر احمد راجہ:؎ مغرب میں الحاد کی جتنی بھی تنقید تھی، وہ عیسائی مذہب پر تھی کیونکہ جب حضرت عیسیٰ ؑ دنیا سےزندہ اُٹھا لیے گئے تو پیچھے نہ عیسائی مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی نظام تھا ، نہ معاشی نظام تھا ،نہ معاشرتی نظام تھا۔ صرف ایک چرچ بنا دیا گیا اور اس کے پادری وہی لوگ تھے جو بت پرست روم کےد ور میں بھی پادری تھی۔ یہاں تک کہ سپریم پادری کے ٹائٹل میں آج بھی سپریم پونف کا لفظ آتاہے ۔ گویا اسی رومن ماڈل پر ہی عیسائیت کا لیبل لگا دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ارتقاء سے اختلاف بھی کیا اور ڈاروان کے نظریۂ ارتقاء کو مان بھی لیا۔ نظریہ ضرورت کے تحت وہ سب کرتے رہتے ہیں۔ ہم جنس پرستی کے خلاف بھی ہیں اور آج وہاں پر ہم جنس پرست پادری بھی ہیں۔ان حالات میںعیسائیت پر تنقید کا موقع ملحدین کو مل گیا ۔ جبکہ اس کے برعکس اسلام کا اپنا ایک مکمل معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام ہے ، جب حضور ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے تو اسلامی ریاست اور حکومت موجود تھی ، فوج اور ادارے موجود تھے۔ دفاعی نظام اور مستحکم مارکیٹ موجود تھی ۔ اس لیے اسلام پر تنقید کرنا ملحدین کے لیے بلا جواز ہے کیونکہ اسلام نے تو زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی دی ہے لہٰذا ان کو چاہیے کہ اسلام پر تنقید کرنے سے پہلے ایک بار اسے مکمل طور پر پڑھیں اور سمجھیں ۔ تاہم ایک مسئلہ ہمارے ہاں یہ ہے کہ فتنے جس قدر تیزی سے پھیل رہے ہیں ہمارے دینی نصاب کی اس تناسب سے تجدید نہیں ہوئی ، ہمیں اپنے دینی نصاب کو جدید دور کے مسائل اور چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے از سرنو ترتیب دینا چاہیے تاکہ ہم فتنوں کا سد باب کرسکیں ۔
ڈاکٹر انوارعلی: علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کراور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کرہم سے ایک غلطی یہ ہوگئی کہ ہم نے قرآن کو ہدایت کا اصل ذریعہ بنانے کی بجائے اپنے اپنے مسالک اور مکاتب کے افکار و نظریات پر زیادہ زور رکھا ۔ اس وجہ سے بھی ہم کافی پیچھے رہ گئے ۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے ہم قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنائیں اور اس سے رہنمائی اور ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کریں  کیونکہ قرآن روزقیامت تک کے لیے ہدایت ہے اور ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اس میں رہنمائی موجود ہے ۔
سوال:بڑھتے ہوئے الحادی فتنوں سے ایک مسلمان اپنے آپ کو کیسے بچائے ؟ خاص طور پر والدین کو کیا کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو اس فتنہ سے بچاسکیں ؟
قیصر احمد راجہ:سادہ سی بات ہے کہ الحاد کے نقصانات سے آگاہ کریں ، اس کی کمزوریوں اور اس کے نقائص بیان کریں ۔ ہم نے اس کے لیے کچھ کورسز تیار کیے ہیں ۔ ان کورسز کے ذریعے آپ اس فتنہ کے نقائص اور کمزوریوں سے اس حد تک واقف ہو جائیں گے کہ ان کا مقابلہ بھی کرسکیں گے اوران کو جواب بھی دے سکیں  گے۔ یہ کورسز والدین کے لیے بھی ہیں، بچوں کے لیے بھی ہیں ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آسٹریلیا اور امریکہ سے آکر لوگ یہ کورس کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ سائنس بمقابلہ الحاد کے عنوان سے بھی ہماری ایک سریز آرہی ہے ۔ میں  اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ ایسے فتنوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے ہم پیچھے ہٹ جائیں ۔ ہمیں اسلام پر فخر کرنا چاہیے کہ اس میں پورا نظامِ زندگی ہے جبکہ الحاد کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ ہمارے لائیو سٹریم میں لوگ آتے ہیں اور کلمہ پڑھتے ہیں ،کئی لوگ جو اسلام چھوڑ گئے تھے وہ دوبارہ مسلمان ہوئے۔ لہٰذا ہم کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ ڈٹ کر ان فتنوں کا مقابلہ کریں گے ۔
ڈاکٹر انوارعلی: لوگ الجھن کا شکار تب ہوتے ہیں جب تحقیق نہیں کرتے یا سوالات نہیں اُٹھاتے ۔ ہمارا دین ِاسلام ایک مکمل دین ہے اور آخری الہامی کتاب قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اُٹھایا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ یہ روزقیامت تک کے لیے تمام تر تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ۔ اس میں آج کے جدید فتنوں سے بھی نمٹنے کی بھرپور صلاحیت ہے ۔ جبکہ دوسری طرف الحاد کے پاس نہ کوئی نظام ہے اور نہ ہی اخلاقیات ہے ، وہ سب مل کر صرف شک ڈال رہے ہیں ۔
سوال: علمائے حقانی ایک تو میڈیا پر بہت کم آتے ہیں اور پھر نوجوانوں کو آج کے مسائل اور چیلنجز کے مطابق ایڈریس بھی نہیں کیا جارہا ہے ، ان کو مسائل کا کوئی حل بھی نہیں دیا جارہا۔ مثال کے طور پر مخلوط نظام تعلیم میں لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ پڑھتے ہیں ، ان کے لیے علیحدگی کا نظام ہی نہیں ہے تو ان کی شخصیت اور کردار اُسی ماحول کے مطابق پروان چڑھے گا ۔حل کیا ہے ؟
ڈاکٹر انوارعلی:درحقیقت یہ فتنوں کا دور ہےاور فتنوں کے دور میں اصل آزمائش یہی ہوتی ہے کہ حق کو کہاں اور کیسے تلاش کیا جائے ، باطل کو تو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ حق کو تلاش کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے لیے دین کو سیکھنا ، سمجھنا اور پھر اُس پر عمل کرنا پڑے گا ۔ صر ف سوشل میڈیا پر بیٹھ کر مذہبی بحثیں سننے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اس کے لیے قرآن کو خود پڑھنا ، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا پڑے گا تب ایمان کا نور آپ کے اندر پیدا ہوگا ۔ ایک بندہ نماز بھی نہیں پڑھتا تو اس کو ہدایت کیسے ملے گی ۔ اسی وجہ سے اکثر الجھن کا شکار لوگ بے نمازی پائے جاتے ہیں ۔
سوال:ہم کہتے ہیں کہ الحاد کو پروموٹ کرنے میں سوشل میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے ۔ کیا یہی سوشل میڈیا اسلام کو پروموٹ کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا ؟
قیصر احمد راجہ: اس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام زیادہ پھیلا ہے ۔ اس سے پہلے میڈیا کنٹرولڈ تھا ۔ مثال کے طور پر بی بی سی جیسے ادارے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہی زہر اُگلتے تھے جبکہ مغربی دنیا کو بڑا نیک بنا کر پیش کرتے تھے ۔ لیکن سوشل میڈیا آنے کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی ۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اہل غزہ کے حق میں اور اسرائیلی مظالم کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں ، بڑی تعداد میں نوجوان مسلمان ہو رہے ہیں ، کیونکہ انہوں نے تحقیق کی اور خود اس بات کو سمجھا کہ حق کہاں ہے اور ظلم کہاں ہے ۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد اس وقت 2 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادارتی سطح پر تھنک ٹینک بنا کر اس کام کو مزید بہتر کیا جاسکتاہے ۔
ڈاکٹر انوارعلی:رسول اللہﷺ کی مبارک زندگی سےہمیں یہ اصول ملتا ہے کہ دین کی دعوت کے لیے ہر جائز ذریعہ استعمال کیا جاسکتاہے ۔ سوشل میڈیا میں خطرات تو بہت ہیں ، ہر آدمی میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ خود پر کنٹرول رکھ سکے ۔ لیکن اگر تقویٰ کواختیار کرلیں تو اسی سوشل میڈیا کو آپ فتنوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں ۔ یہی سوشل میڈیا ہے جس کی وجہ سے اسلام کا پیغام اس لیول پر پہنچا ہے ۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اسراراحمدؒکی تقاریر سوشل میڈیا کے ذریعے ہی عام آدمی تک پہنچ رہی ہیںاور دین کا ایک جامع تصور لوگوں تک پہنچ رہا ہے ۔ اسی طرح اس کام کومزید بہتر بنایا جاسکتا ہے اگر ہم منظم منصوبہ بندی کے ذریعے محنت کریں ۔