(گوشۂ تربیت) زکوٰۃ… اسلام کا تیسرا بنیادی رکن - مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی

11 /

زکوٰۃ… اسلام کا تیسرا بنیادی رکن

مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت، تنظیم اسلامی

 

زکوٰۃ کا لغوی مفہوم ہے : پاک ہونااور بڑھنا (Growth) ۔شرعاً اصطلاح میں زکوٰۃ کا مفہوم ہے: ’’وہ مال جوحدِ نصاب کو پہنچ جائے، اس کے ایک مقررہ حصہ کا کسی کو مالک بنا دینا۔‘‘
زکوٰۃ ایک ایسی مالی عبادت ہے جو تمام انبیاء کرام ؓ کی شریعتوں کا لازمی جزرہی ہے۔ جسمانی امراض وعوارض کی طرح انسان کو روحانی اور اخلاقی امراض بھی لاحق ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بہت نمایاں اخلاقی بیماری مال کی محبت کا غلبہ اور اس میں بے پناہ اضافہ کی خواہش ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ (۱) حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ(2)} (التکاثر)’’تمہیں غافل کیے رکھا ہے، بہتات کی طلب نے!یہاں تک کہ تم قبروںکوپہنچ جاتے ہو۔‘‘
مال کی محبت کے غلبے کی وجہ سے انسان کے دل میں تکبر ،حرص ،بخل ،ہَوَ س اور خود غرضی جیسی حقیر صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ عربی میں مال کو مال کہتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کا دل اس کی طرف بہت جلد مائل ہوجاتا ہے۔ اس اخلاقی مرض کے ازالے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے زکوٰۃ کی مالی عبادت فرض کی ہے۔ چنانچہ اللہ جل شانہٗ فرماتے ہیں:
{خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا}(التوبہ:103) ’’ان کے اموال میں سے صدقات قبول فرما لیجیے‘ اس (صدقے) کے ذریعے سے آپؐ انہیں پاک کریں گے اور ان کا تزکیہ کریں گے۔‘‘
اسلام ہمیں مال کمانے اور ضرورت کی حد تک خرچ کرنے اور جمع کرنے سے منع نہیں کرتا۔ قرآن مجید نے اُس مال کی مذمت فرمائی ہے جس میں سے زکوٰۃ ادا نہ کی جائے۔ سورہ توبہ کی آیات34، 35 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتےتو آپؐ اُن کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیں۔جس دن اس (سونے چاندی) کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا (کہا جائے گا): یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا، پس اب چکھو اس جمع کیے ہوئے مال کا مزہ۔‘‘
علامہ راغب اصفہانی  ؒ نے کنز کے معنی بیان کئے ہیں : ’’ مال کو اُوپر تلے رکھنا۔ مال جمع کر کے اس کی حفاظت کرنا۔ ‘‘
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت (وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ) نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ آیت بہت شاق گزری۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا چلو میں تمہارے لیے اس معاملے کو کشادہ کراتا ہوں ۔پھر انہوں نے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اللہ کے نبیﷺ آپؐ کے اصحابؓ پر یہ آیت بہت شاق گزر رہی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ صرف اس لیے فرض کی ہے تاکہ تمہارا باقی مال پاکیزہ ہو جائے اور وراثت فرض کی ہے تاکہ مال تمہارے بعد والوں کے لیے ہو۔‘‘( سنن ابی داؤد)
حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے سونے کی پازیب پہنی تھی ،میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ!   کیا یہ’’کنز‘‘ ہے ؟ (ایسا مال جس پر آگ عذاب کی وعید ہے ) آپ ﷺنے فرمایا جو مال زکوٰۃ کی حد تک پہنچ گیا اور اس کی زکوٰۃ ادا کر دی گئی، وہ ’’کنز‘‘نہیں ہے۔ (سنن ابی داؤد)
یہاں دو باتیں مزید یاد رکھنے کے قابل ہیں پہلی بات تو یہ کہ حلال کمائی ہی میں سے زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد مال پاکیزہ ہوگا۔ حرام کمائی سے نکالی گئی زکوٰۃ نہ تو قبول ہوگی نہ ہی بقایا مال پاکیزہ ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ حلال کمائی سے زکوٰۃ نکالنے سے بقایامال تو پاک ہو جائے گا مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اب اس مال کو ہم جہاں چاہیں خرچ کریں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’ میدانِ حشر میں آدم کے بیٹے کے قدم ہل نہیں پائیں گے ،جب تک اس سے پانچ سوالوں کے جو اب نہ پوچھ لیے جائیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ مال کیسے کمایااور کہاں خرچ کیا ۔‘‘(رواہ الترمذی)
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’جب زکوٰۃ کا مال کسی مال میں مخلوط (Mixed) ہو گا تو وہ اسے ہلاک کر دے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح) 
اس کی دو صورتیں ممکن ہیں: ایک تو یہ کہ وہ مال کسی نہ کسی وجہ سے ضائع ہو جائے ، دوسرا یہ کہ اس مال سے برکت اُٹھ جائے۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں بڑی شدیدوعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ 
سورۃ آلِ عمران آیت 180 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
’’جو لوگ اللہ کے دئیے ہوئے فضل میں سے بخل کرتے ہیں، وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ اُن کے لیے بہتر ہے، بلکہ یہ اُن کے لیے بُرا ہے۔ وہ مال جس میں وہ بخل کرتے ہیں، قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق (پھندا) بن جائے گا۔ اور آسمانوں اور زمین کا وارث اللہ ہی ہے، اور اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان فرماتے ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا، قیامت کے دن وہ اس کی گردن میں ایک (زہریلے) سانپ کی صورت میں طوق بنا کر لپیٹا جائے گا‘‘، پھر آپ ﷺ نے اللہ عزوجل کی کتاب سے ہم پر اس کے مصداق کی آیت (سورۃ آلِ عمران آیت 180) کی تلاوت فرمائی۔‘‘ ( سنن ترمذی)
کچھ لوگ صدقہ و خیرات کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ زکوٰۃ کا حق ادا ہوگیا ۔ حالانکہ زکوٰۃ فرض ہے اور اس کا معاملہ بہت نازک ہے۔ صاحب نصاب ہونے کی صورت میں ہر سال ایک مقررہ وقت پر اپنے پورے مال ، جائیداد اور زیورات کی مالیت کا اس وقت کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق حساب کر کے 2 ½   فیصد زکوٰۃ ضرور نکالنی چاہیے۔ 
پس اگر ہم صاحبِ نصاب ہیں تو ہمیں چاہیے کہ زکوٰۃ کے معاملہ میں تساہل نہ برتیں اور وقت پرلازماً زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام کریں۔ علاوہ ازیںاہل ِعلم کےپاس جائیں اور ان سے زکوٰۃ کے تفصیلی مسائل سیکھیں۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مال کے لالچ اور بخل سے محفوظ فرمائے ۔آمین یا رب العالمین!