مغرب میں حیاتِ نو!
عامرہ احسان
دنیا افراتفری کی لپیٹ میں ہے۔ اب تو افراتفری مچانے والی قوتیں خود بھی گھبرا اٹھی ہیں، کیونکہ دنیا ہلا ماری گئی اور جاگ اٹھی ہے! جس رب کی خدائی کا انکار کیا اور اپنی تہذیب (اصلاً بد تہذیبی) کی بنیاد مغرب نے اس انکار پر اٹھائی، اب اس کے عوام الناس نے گویا سر کی آنکھوں سے حقائق دیکھ لیے، پرکھ لیے۔ ایک طرف یہ زمینی خدائی کے دعوےدار تمام تر قوت صرف کر کے بھی ناکامی کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ ’لڑا دے ممولے کو شہباز سے‘ !اس کا آغاز ممولوں نے ایٹمی قوت اور خونخوار اسرائیل (یعنی اس کے باپ امریکہ) کو 7 اکتوبر کو للکارکرکیا۔ بظاہر غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا۔ مگر حقائق پسِ پردہ کچھ اور مناظر بھی دکھا رہے ہیں۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائرلا بید نے چینل 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ۔’غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ یہ جنگ ’اسرائیلی افغانستان‘ میں بدل چکی ہے۔ امریکی فوج شکست کھا کر افغانستان سے بھاگ گئی تھی۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسرائیل کا یہی انجام ہو۔ اسرائیلی حکومت فلسطینی مزاحمت کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو رہی‘۔ چینل 13 نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ دو سال بعد بھی حماس کے ہزاروں کارکن موجود ہیں، اور جنگ روکنے کا مطالبہ کیا ۔ عبرانی چینل کا انکشاف ہے کہ اسرائیلی فوج خوفزدگی کی انتہا پر ہے۔ لڑکھڑاہٹ، مجاہدین کی ہیبت سے لرزتے دل۔ فوجی اپنے کمانڈروں کے سامنے روئے کہ ہمیں بغیر بکتر بند جیپوں کے غزہ کے اندر نہ بھیجو!
دم تواُن کا یوں بھی نکل رہا ہے کہ وہاں سے حماس نے اپیل کی کہ جمعہ، ہفتہ، اتوار کو غزہ کا دن بنا دو۔ پوری دنیا، حتیٰ کہ کوریا، افریقہ سے بھی جواب آیا، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا کے علاوہ۔ جمعہ مسلمانوں کے لیے تھا۔ پاکستان تو (امریکہ کی ہمنوائی سے شاید )بھاری موسمیاتی بحرانی تھپیڑوں کی زد میں ہے۔ عین وہی خوفناک ’فلیش فلڈ‘، ان میں بہتے گھر، بڑے پتھر، لکڑیاں، درخت، جو ٹیکساس میں 9 جولائی کو دم بخود ہم نے دیکھے، اب جون کے اواخر سے شروع ہو کر آٹھواں راونڈ خلیجِ بنگال سے روانہ ہو کر پھر پاکستان پر برسنے کو تلا کھڑا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کر دے۔ توبہ کی توفیق اور مغفرت سے نوازے۔ (آمین)
مسلم ممالک میںصرف ملائشیا کی خبر آئی ہے۔ باقی تمام خبریں حیران کن یوں ہیں کہ بالخصوص آسٹریلیا میں غزہ کو بچانے کی تحریک نہایت متاثر کن ہے۔ 40 مظاہرے ملک بھر میں! جنگ بندی، فوری مدد کی حقیقی فراہمی کا مطالبہ اور اسرائیل کے خلاف دیدنی غم و غصہ۔ 3 لاکھ افراد نے ان مظاہروں میں شرکت کی۔ بڑے شہروں خصوصاً برسبین، ملبورن، سڈنی، پرتھ میں مظاہرے بے انتہا بڑے تھے۔ گویا یہ اُن کا اپنا مسئلہ تھا۔ اگر جمہوریت یعنی عوام کی آزادانہ رائے کی حکمرانی ہے تو آئیے جمہوری دنیا میں فلسطین پر ریفرنڈم دیکھ لیجیے۔ اسی میں امریکہ اورا سرائیل کے خلاف اظہارِ نفرت کے مظاہر پوری مغربی دنیا میں بے پناہ ہیں خصوصاً گزشتہ 2 سالوں میں فلسطین کے مسئلے پر۔
یوںتو گزشتہ دو سالوں میں امریکہ، یورپ کے سبھی باخبر باشعور لوگوں نے آواز اٹھائی ہے۔ مگر اب تو تسلسل ایسا ہے کہ ان گوروں کی کایا پلٹ چکی ہے۔ وہ جو اپنے والدین کو نہیں پہچانتے، وہ اولڈ ہومز میں اولاد کی دید کو سسکتے ہیں۔ انہی کی بے مروتی پر ’مدرز ڈے‘، اور ’فادرز ڈے‘ بنایا گیا کہ سال میں ایک بار تو مل لو۔ مگر پھر بھی وقت، پیسہ بچانے کو گل دستہ اور کیک، تحفہ بھیجنے پر اکتفا کرتے کہ وہ سستا پڑتا تھا! ڈگریاں، نوکریاں، پیسہ جان سے زیادہ عزیز تھا۔ مگر غزہ نے ایسا سحر پھونکا کہ قم باذن اللہ! حضرت عیسیٰd کی قوم کو ان کی آمد سے پہلے مردنی سے زندگی کی طرف لوٹا دیا۔ کلام اللہ کی حقانیت پر دلیل دیکھیے: ’تم ، لوگوں میں اہل ایمان پر سب سے زیادہ عداوت میں سخت پاؤ گے یہود اور اور مشرکین کو، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں، اور ان میں غرور ِنفس نہیں ہے۔‘ (المائدۃ :82)
غزہ کے شہر کی ایسی تکریم اور ننھے بچوں کی شہادتوں کا ایسا غم انہوں نے پالا کہ اپنی تعلیم، اپنا پیسہ، قیمتی ویک اینڈجھونک دئیے۔ ڈگریاں، قید و بند، پولیس کا تشد د سبھی کچھ سہہ گزرے۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے! شہید کا خون بہہ کر ضائع نہیں ہوتا وہ قوم کی رگوں میں اتر کر اُسے نئی زندگی، قوت عطا کرتا اور اٹھا کھڑا کرتا ہے۔ یوں غزہ والوں کا خون ’اونیگیٹو ہے! یہ خون کی وہ ٹائپ ہے جسے یونیورسل کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ دنیا کے ہر انسان کے خون سے میل کھاتا اور کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ سو یہ خون اہل مغرب نے بڑھ کر اپنی رگوں میں اتارا اور نئی زندگی پا گئے۔ حق پہچان لیا۔ اب تڑپ تڑپ کر اپنی حکومتوں، اپنے نظام تعلیم، سیاست اور میڈیا کو برا بھلا کہتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو کریہہ بنا کر پیش کیا۔ نیدر لینڈ میں وزیر خارجہ نے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے سے حکومتی پہلو تہی ،انکار پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد 4مزید وزراء اور نائب وزیراعظم نے استعفیٰ دے کر با ضمیر ہونے کا ثبوت دیا۔ سیاسی کیریئر کو لات ماردی! معروف ایکٹر مارک رو فیلو تڑپ تڑپ کر سبھی کو پکارتا ہے۔ یورپ کچھ کرو( غزہ میں قحط کے لیے!) برطانیہ، جرمنی کچھ کرو۔ غزہ کو بھو کا نہ مرنے دو۔…یہ آسمانی قحط نہیں، انسانی جرم ہے۔ سرحد کے ایک طرف پوری دنیا کی خوراک ہے۔ اور دوسری طرف کچھ بھی نہیں۔ یہ پاگل پن ہے۔ کچھ تو کرو!
آئر لینڈ میں خوبصورت فلسطینی جھنڈے کے رنگوں میں نہایت طویل دری بنائی گئی جو خوبصورت چوکھٹوں پر مبنی ہے غزہ کے شہید بچوں کی نمائندگی کرتے ہوئے۔ مغرب میں (بالخصوص خواتین)سب سے گہرا اثر بچوں کی شہادتوں، یتیمی، زخموں اور بھوک سے بلکنے کا ہوا ہے۔تڑپ اُٹھے ہیں۔ صہیونیوں سے شدید نفرت اس درندگی پر ان کے دلوں میں جاگزیں ہے۔ عورت کی ممتا مغرب نے کچل کر اسے کھلونا بنا کر چودہ، پندرہ سال کی عمروں میں ایسٹین سکینڈل نوعیت کی گندگیوں میں رگیدا تھا۔ اب مغربی عورت نے غزہ کی بچوں میں گھری قربانیاں دیتی مقدس عورت کو ماں کی عظمت پر ایستادہ دیکھا تو فدا ہو گئی! کتنی بے شمار گوریوں نے آنسوؤں کے دریا ان ماؤں بچوں کے لیے بہاتے ہوئے ٹک ٹاک بنائیں، اپ لوڈ کیں! ان کے آنسو اسرائیل، امریکہ کو ڈبو دیں گے! سویڈن، ڈنمارک جو کل تک یہودیوں، سیاست دانوں کی اکساہٹوں، سازشوں سے شعائر اسلام کی اہانت کے مرتکب تھے، آج ان کے چھوٹے چھوٹے بچے کفیہ پہنے فلسطینی جھنڈے لہراتے جلوس میں شامل ہیں۔ مردے زندہ ہو گئے۔یہ حیران کن واقعات بے شمار ہیں۔ دو سالوں میں غزہ نے بے بہا قربانیوں سے نئی دنیابنا دی ہے! اور ہم مسلمان جنہیں کلمہ طیبہ نے زندگی اور روشنی عطا کی تھی، مردہ ضمیر، پتھرائی آنکھوں سے بے حس و حرکت فلسطینیوں کا قتل عام دیکھ رہے ہیں۔ اپنی دنیا پر آنچ آنے کے خوف سے بات کرتے بھی ڈرتے ہیں۔ملک میں عذاب نما سیلاب کی خبریں دینے سے پہلے چینل ناچتی تھرکتی میکڈونلڈ کے چٹخارے دکھاتی ہے اور کھلکھلاتی خاتون: ’کھانے میں کیا بنارہی ہو‘ پوچھتی ہے، غموں کے دریا میں ڈبکی دینے سے پہلے!
اُدھر ٹیکسا س، امریکہ میں غم و غصے سے مظاہرین نے اسرائیلی سفارت خانے کو گھیر رکھا ہے۔ برسلز (بلجیم) میں بوڑھے، جوان پوری شدت سے اسرائیلی جنگ کے خلاف پولیس سے لڑرہے ہیں۔ زخمی ہو رہے ہیں ہمارے لیے! کہ تم بیٹھو پاکستان آئیڈل میں، آڈیشن دو خوبصورت ترین گلوکارہ کے انتخاب کے لیے (جیو کی فخریہ پیش کش) تمہارے غزاوی بھائیوں بچوںکے لیے ہم لڑلیں گے۔ تم تو ہم وطنوں کے سیلابوں میں ڈوبنے کے باوجود موج میلا، عیش مستی میں کھوئے ہو! امریکی نمائندگان ( اسرائیل نواز) کی خبر خود امریکی بری طرح لے رہے ہیں۔ کانگریس ممبران ایلس اور ویسلی بیل کی تقاریر پر انھیں بولنے نہ دیا۔ اسرائیل نوازی اور ان سے پیسہ کھانے پر تنقید، نعرہ زنی کی! امریکی صدر ونیس اور وزیر دفاع ریسٹورنٹ آئے یونین سٹیشن پر تو امریکیوں نے لعنت ملامت کی بوچھاڑکردی۔ اٹلی، سوئٹزر لینڈ، نیروبی، فرینکفرٹ، کوپن ہیگن مناظر لائق دید۔ غزہ پر قیامت نہیں گویا ان مغربیوں کے دلوں، سینوں پر ٹوٹ رہی ہے۔ اللہ اکبر! ہم اپنے ایمان کی خیر منائیں۔ کوپن ہیگن میں تو کمال یہ ہوا کہ 100 بہت بھاری بھر کم انسانی حقوق، ہمدردی کی تنظیموں نے’ جنگ ختم کرو‘ پر مظاہرہ کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، آکس فیم، گرین پیس جیسی اور سیاسی جماعتوں، آرٹسٹ، بڑی نمایاں شخصیات، ڈنمارک پارلیمنٹ کے باہر، خاندان، کم عمر بچوں کے ساتھ! آزادیٔ فلسطین کے نعرے گونجتے رہے۔ ادھر اسرائیل نے ناصرہسپتال پر حملہ کر کے مزید 4 صحافی بشمول خاتون صحافی مریم ابو دقہ اور ڈرائیور سمیت 15 شہداءکو عازم جنت کر دیا۔ جنگی جرائم میں مزید اضافہ! اللہ رحم فرمائے۔ ہم پر مون سون کا آٹھواں راؤنڈ خلیج بنگال سے چڑھ اٹھنے کی اطلاعات ہیں۔ اللہ پاکستان کو سلامتی اور ایمان سے نوازے۔ (آمین)