نئی نسل کی بے راہ روی: اسباب و علاج
ڈاکٹر مبشرہ فردوس
انسان فطرتا ًامن پسند واقع ہوا ہےاور اپنی ذات، مذہب ، مال و متاع اور اپنی نسلوں کا تحفظ چاہتا ہے۔ ہر قوم کا اپنی خواتین اور لڑکیوں کی عصمت و عفت کی حفاظت کے تئیں حساس ہونا بھی فطری امر ہے۔ موجودہ حالات میںمسلم لڑکیوں کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں نے ہر مسلمان کو ہی بے چین کر رکھا ہے، ہرشخص فکر مند نظر آتا ہے، شرپسند افراد اپنے بیانات کے ذریعہ لوگوں کو مزید بے چین کرتے ہیں ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ اوریہ لوگ تم سے جنگ کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ لوٹا دیں تمہیں اپنے دین سے، اگر وہ ایسا کر سکتے ہوں۔ اور(سن لو) جو کوئی بھی تم میں سے اپنے دین سے پھر گیا اور اسی حالت میں اُس کی موت آگئی کہ وہ کافر ہی تھا تو یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے تمام اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت جائیں گے اور وہ ہوں گے جہنم والے، وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘(البقرۃ:217)
موجودہ حالات میں باطل اپنی پورے زور کے ساتھ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہے، وہ جانتا ہے کہ مسلمان دیگر قوموں کے مقابلے میں اس حوالے سے بہت حساس ہے،اس نفسیاتی حملہ کی وجہ سے اُس کے مذموم مقاصد کار گر ہوجائیں۔ ان مقاصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
نا انصافی پر مبنی نظام
ناانصافی پر مبنی کسی بھی نظام کا تقاضا ہے کہ اُس کی رعایا نااہل اور غیر تعلیم یافتہ ہو، اور مکمل غلامی اُس کا شعار ہو۔کیونکہ عوامی شعور کو پروان چڑھانا ظلم اور ناانصافی پر مبنی نظام کے لیے سم قاتل ہے۔ بیدار قومیں نہ باطل کی سازش سے بے خبر رہتی ہیں، نہ ہی اپنی صفوں کو درست کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت کرتی ہیں۔
اسلامی احکام سے لاعلمی
حقیقی رہبر اپنی نسلوں کو بے حیائی سے بچانے کی کوشش میں رہتے ہیں،جبکہ سیکولر حکمران اور میڈیا ہماری نوجوان نسل کو برائی پر اُکسا رہے ہیں، قرآن کریم میں رب العالمین کا فرمان ہے: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط}(العنکبوت:45) ’’یقیناً نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور بُرے کاموں سے۔‘‘
گویا مسلمانوں کی بنیادی عبادت ہی بے حیائی کے خاتمے کی صفت رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں ہر قسم کی بے حیائی سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے، ہم کسی بھی نامحرم سے تعلقات بنانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔
نوعمری کا زمانہ’’ جنسی دباؤ کا دور‘‘ کہلاتا ہے، نوجوان اِس دور میں تمیز کھودیتے ہیں ۔جس طرح ایک رینگے والا بچہ رینگتے ہوئے ہر چیز منہ میں ڈال کر چکھنا چاہتا ہے اور والدین اس کو روکتے ہیں، بچہ کبھی کبھی جھنجھلاہٹ کا شکار بھی ہوتاہے،کیونکہ ایک طرف بچے کی بھوک ،دوسری طرف تجربہ کرنے کی تڑپ اینگزائٹی بڑھادیتی ہے۔ کیا اِس مثال میں والدین کی خیر خواہی واضح نہیں ہے ؟ والدین نرمی سے بچے کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اُسے اپنی جبلت پر کنٹرول سکھادیتے ہیں ۔اسی طرح نوعمری میں بھی والدین اور بچوں کے درمیان بہت ہی حکمت پر مبنی میکانزم بنانے کی کوشش کریں مضبوط اور پر اعتماد تعلق ہی اس میکانزم کو ترتیب دے سکتا ہے ،اسلام ایک مکمل نظام ِحیات ہے اور یہ نظام بھی فطرت کے عین مطابق ہے اس لیے بہت ہی معقولیت کے ساتھ سمجھایا جائےتو بچہ اُسے لازماً قبول کرتا ہے اور اگر قبول نہ بھی کرے تو کم از کم اُس کی سوچ کو ایک نیا زاویہ مل جاتا ہے ۔ اوراُسے ایک ذمہ دار انسان بناتا ہے ۔ اُسے سکھانے کے لیے بچوں اور والدین میں اعتماد کا ماحول چاہیے ۔خوف پیدا کرنا اور عدم اعتماد کا ماحول پیدا کرناانھیں اپنے مذہبی نظام سے متنفر بنادیتا ہے، جو باطل قوتوں کا مقصد ہے ۔
گھر کا ماحول اسلامی بنائیں
موجودہ حالات میں نوعمر بچے سوشل میڈیا پر آئے دن صنفی تفریق کی بحث پڑھتے ،دیکھتے اور سنتے ہیں ۔اُن کا کچا ذہن ہر بات پر دیر تک سوچتا ہے، مشاہدہ کرتا ہے،پرکھتا ہے۔ وہ اپنے مشاہدے میں اپنے والدین کے درمیان کے تعلقات کا مشاہدہ کرتے ہیں، سماج کا مشاہدہ کرتے ہیں،اور سماج میں بالخصوص مسلم سماج میں بھی وہ ظلم و ناانصافی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے اور بچے کے درمیان کا احترام لمحہ بھر کے لیے بھی کمزور نہ پڑنے دیں ۔مائیں خود کو قطعاً مظلوم اور شوہر کو ظالم ظاہرنہ کریں ، کبھی کبھی خواتین اس معاملے میں زیادتی کا شکار بھی ہوجاتی ہیں، بعض معاملات میں وہ واقعی مظلوم ہوتی ہیں۔ لیکن زیرک والدین اس کی تپش سے بچوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ماؤں کو بڑی حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
رشتوں میں تاخیر
ہمارے معاشرے میں لڑکوں اورلڑکیوں کی بے راہ روی میں ایک وجہ نوجوانوں کی بروقت شادی نہ کرنا ہے۔حالانکہ اسلام کا حکم ہے’’ جب بیٹا یا بیٹی بالغ ہو جائے تو فوراً اس کی شادی کا بندوبست کرو۔‘‘ آج کل تعلیم کے چکروں میں بچیوں کی عمریں آگے نکل جاتی ہیں۔ہمیں اس معاشرے کو اسلامی اقدار سے متعارف کرانے کی سعی کو مزید تیز کرنا ہوگا ۔
اِس معاملے میںجہاں معاشرے کا کردار نا مناسب ہے وہیں خاندان کا بھی بڑا قصورہے۔ کیونکہ یہاں مسابقتی امتحان کی،فیشن کی اور آزادی کی تعلیم تو ہے، اپنے فیصلے خود کرنے کا احساس بھی ایک بالغ لڑکی کو ہے، مگر اسے اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہی نہیں ہے۔خدا خوفی اورخدا کے سامنے جوابدہی کا احساس اس کے اندر پیدا نہیں کیا گیا ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ذاتی مفاد کے حصول کے لیے اگر آسانی سے اسلام پر عمل کیا جا سکتا ہو تو کر لیا اور اگر اسلام پر عمل کرنا مشکل ہو تو اسلامی احکام کو پس پشت ڈال دینا درست ہے؟
حرمت کا خاتمہ
محرم رشتوں کا احترام اور غیر محرم رشتوں سے دوری کا جو تصور ہمیں اسلام سورۂ نور میں دیتاہے، وہ مسلمان خاندانوں سے اب رخصت ہورہا ہے ۔بیشتر گھروں میں بلا تامل چچا زاد، پھوپھی زاد، تایا زاد بھائیوں کا آنا جانا، ان سے کھلے ڈلے تعلقات کے حوالے سے کوئی قباحت اکثر مسلم لڑکیوں میں اب سرے سے نہیں رہی۔ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں میں بھی اپنی نظریں نیچی رکھنے اورنامحرم لڑکیوں سے دوری بنانے کی تعلیمات گھروں میں نہیں دی جاتیں۔جب کسی چیز کی قباحت ہی دل سے ختم ہوجائے تو فحاشی کے راستے بہت آسان ہوجاتے ہیں۔مغربی دنیا اور دیگر مذاہب کے آزاد تصورات نے مادر پدر آزادی کا جو تصور دیا ہے، اس کی سنگینیوں کا احساس کچھ وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔
بچوں میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اُنھیں بچپن سے ہی اپنا احترام کرنا سکھائیں، یہ احساس دلانا بے حد ضروری ہےکہ کسی کے سامنے جذباتی طور پر ایکسپوز ہونا اپنی خودی کی ارزانی ہے۔نگاہیں جھکانے کے حکم میں یہ بھی ایک حکمت ہے کہ جذباتی کمزوری کا پردہ رہ جاتا ہے، انسان کسی کے سامنے مجروح ہونے سے بچ جاتا ہے۔
سکول، کالج اور یونیورسٹی میں لڑکوں، لڑکیوں کا ایک دوسرے سے اتنی مرعوبیت رکھنا کہ قریب ہونے کی کوشش کی جائے، ایک دوسرے کو بغیر کسی رشتے کے دوست سمجھ لینا، یہ سب احساس کمتری میں شمار ہوتا ہے۔
اللہ نے تو ہر دو کو نظریں نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے، مضبوط بنیاد پریکساں حقوق اور جذبات کے ساتھ رشتے کی ہمواری کے لیے بزرگوں کی شمولیت اور نکاح کا نظام ترتیب دیا ہے۔یاد رہے کہ مرد ہو یا عورت، جو بھی اپنی کمزوری پر قابو رکھتے ہیں، جسے نفس پر کنٹرول کہا جاتا ہے، اُن کا اعتماد اُن کی شخصیت میں بحال رہتا ہے۔
والدین میں اظہار محبت کی کمی
اس میں دو رائےنہیں کہ والدین اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں،لیکن اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ ہمارے معاشرے میں والدین اور بچوں کے درمیان اظہار ِمحبت کا بڑا فقدان پایا جاتا ہے۔ایک خاتون سے کاؤنسلنگ کے دوران جب وہ اپنی بیٹی سے بات بات پر جھگڑے کی شکایت کررہی تھی، پوچھا گیا کہ آپ اپنی بیٹی کو Hug /معانقہ کرتی یا گلے لگاتی ہیں؟ بیٹی سے پوچھا کہ اپنی ماں سے گلے لگے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ تو کہنے لگی بچپن میں امی کی گود میں سر رکھتی تھی۔ یہ بتاتے ہوئے رونے لگی کہ کاش! میری امی مجھے کبھی گلے لگائیں،اُن کے کاندھے پر سر رکھ کر سوری کہہ سکوں، یہ میری خواہش ہی رہی۔
جذباتی طور پر گھروں کی یہ بے رنگی دراصل ان بچیوں کو کسی اجنبی کے جملوں پر فریفتہ کرتی ہیں۔اسی طرح والد کی محبت اور شفقت سے بچیاں گھروں میں محروم رہتی ہیں۔ پیارے نبی ﷺ سفر سے لوٹتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے۔ اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتے۔ پیشانی پر بوسہ دیتے۔ اپنے نواسوں سے کھیلتے، حتیٰ کہ پیارے نبیﷺ کےپاس وقت نزع بھی بی بی فاطمہ آئیں تو پیارے نبیﷺ نے خود سے قریب کیا، پیشانی پر بوسہ دیا۔والد کا بیٹی سے محبت بھرا تعلق والد کی عزت کے پاس ولحاظ کا احساس اجاگر رکھتا ہے،اعتماد بخشتا ہے۔مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اکثر لڑکیاں اپنے والد کی جلاد صفتی سے اتنی خائف رہتی ہیں کہ کسی تنگ کرنے والے اجنبی سے صرف اس لیے دوستی بنالیتی ہیں کہ اگر گھر میں شکایت کی تو والد اور بھائی تعلیم چھڑوادیں گے، اور اس طرح وہ برائی پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر رابطے کی سہولت
سوشل میڈیا پر روابط کی سہولت نے تعلقات کی راہ کو مزید آسان بنادیا ہے۔ یہاں ہر فریق کو سوائے خدا خوفی اور آخرت کی جوابدہی کے کسی قسم کی نگرانی، سختی اور پابندی نہیں بچا سکتی۔اور ان ہی اوصاف کا پیدا کرنا بہترین حل ہے۔کسی سے طویل گفتگو، کسی کے جذبات سے کھیلنا، وقت گزاری کرنا، رجھانے کے لیے لڑکیوں کا اپنی ڈی پی میں اپنی ذات کا اظہار کرنا، یہ ساری کوششیں انسان کے باطن میں رذالت پیدا کردیتی ہیں۔سوشل میڈیا پر جنس ِمخالف سے کھلی اور چھپی گفتگو ،اللہ کے سامنے جوابدہی اور خدا ہر جگہ دیکھ رہا ہے کی فکر سے بے نیاز ہونے کی علامت ہے۔یہاں حضرت لقمان علیہ السلام کی وہ نصیحت زیادہ کھلتی ہے کہ’’اے میرے بیٹے!اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تو بھی اسے معمولی نہ سمجھنا،وہ عمل ) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہویا پھر زمین کے اندر(زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو ) اللہ تبارک وتعالیٰ اُسے ظاہر فرمائیں گے،بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین وباخبر ہے۔‘‘
کھلے چھپے میں برائی کو برائی سمجھنے کا تصور ہی کسی فرد کو بچا سکتا ہے۔ضرورت اِس بات کی ہے کہ باطل قوتوں کی کھلی اور چھپی ہر سازش کا جواب اپنی نسلوں کی تربیت کا نظام ہے۔ تربیت کا نظام انفرادی اور اجتماعی کوششوں کےنتیجے میں انجام پاتا ہے ۔انفرادی کوشش کے طور پر ہم اپنے خاندانوں میں اسلامی اقدار اور احکام خداوندی کا شعور پروان چڑھائیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم اپنے گھر کو بچانے کی فکر کریں ،بلکہ سماج کے تحفظ کےلیے بھی اقدام کریں،ہماری انفرادی کوشش اور گھر کی تربیت ہمیں سماج اور معاشرے سے بے نیاز نہ کردے، کیونکہ جب آگ باہر بھی لگی ہو تو ہماری دہلیز کب تک محفوظ رہے گی؟ اس لیے ہم تماشائی بننے سے اللہ کی پناہ چاہیں!