(نقطۂ نظر) احکم الحاکمین کے فیصلے - ابو موسیٰ

5 /

احکم الحاکمین کے فیصلے

ابو موسیٰ

فطرت کی کارگزاری صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں جانوروں اور نباتات و جمادات کے لیے بھی انتہائی مفید ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے پُرسکون رواں دریا کی مانند ہوتی ہے جو فصلوں کو ہی نہیں انسانی زندگی کو بھی سرسبز و شاداب کر دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگی انسان کی روحانی قوت کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ لیکن جس طرح دریا کے خاموش بہتے ہوئے پانی میں سنگ باری کی جائے تو اُس کی موجوں میں تلاطم اور  ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح فطری اصولوں کے  رد کرنے اور اُن کی سنگین خلاف ورزی سے اہلِ زمین کو اُس کی غضب ناکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فطرت کے لیے انگریزی کا لفظ (Nature) زیادہ موزوں اور مطلب بردار ہے۔ یوں کہہ لیں کہ جسے ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ خالق ہے اور قادر مطلق بھی ہے۔ مذہب سے فاصلہ رکھنے والے بعض لوگ اُسے (Nature) کہتے ہیں۔ 
بہرحال ہمارے نزدیک فطری تقاضوں سے متصادم رویہ درحقیقت اللہ، اللہ کے رسول ﷺ اور شریعت کی نافرمانی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کے رویے اور کون کون سے اعمال اللہ رب العزت کے غضب کا باعث بنتے ہیں۔ راقم کی رائے میں یوں توتمام خلافِ اسلام اور غیر شرعی اعمال اللہ رب العزت کے غضب کا باعث بنتے ہیں لیکن جو شے اللہ کے غضب میں شدت بلکہ انتہائی شدت پیدا کر دیتی ہے۔ اُن میں عدل سے انحراف اور ظلم کا ارتکاب سرفہرست ہے۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو شرک کو بدترین گناہ قرار دیتا ہے اور سودی لین دین کو اپنے خلاف اور اپنے رسول ﷺ سے جنگ کا اعلان کرتا ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ شرک کے بارے میں بھی تو اللہ فرماتا ہے:{اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(13)} 
(لقمان)’’ یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ اور سود خوری انسانیت کے خلاف بدترین استحصالی عمل ہے ۔ گویا یہ بھی انسان کا انسان کے خلاف بدترین ظلم ہے۔ راقم کی رائے میںنظریاتی طور پر شرک اور عملی طور پر سودی لین دین بھی اِس لیے اللہ کے ہاں بدترین گناہ ہیں کہ اِن سے عدل کا انکار اور ظلم کا ارتکاب ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب ظلم و ستم اور جبر و استبداد ایک حد سے بڑھ جائے۔ جب ریاست ہر اٹھنے والا سر کچل کر رکھ دے، جب عدالتیں ہی زنجیروں میں جکڑ دی جائیں ، جب قاضی خود عدل کے لیے دربدر ہونے لگیں، جب لاٹھی بھینس کو ہی یرغمال بنالے۔ جب سوال اٹھانے والے ہی کو اُٹھا لیا جائے۔ جب دیواروں کو کان ہی نہیں آنکھیں بھی لگ جائیں جب چادر چار دیواری کا تحفظ ریزہ ریزہ ہو جائے جب مظلوم کی چیخوں پر قہقہے لگیں۔ جب آزادی قوت کے در پر اوندھے منہ گری پڑی ہو۔ جب زبان گُنگ کر دی جائے اور جب سوچوں پر پہرے لگ جائیں اور سانس کو بھی مدہم کرنا پڑے اور جب محافظ قہر بن کر اپنوں پر ہی ٹوٹ پڑیں جب مظلوم کی صدا بہرے کانوںسے ٹکرا کر دم توڑ جائے اور جب آسمانوں کی طرف اٹھنے والی نگاہیں پتھرانے لگیں تو پھر آسمان بادلوں کو گرجنے اور برسنے کا ہی نہیں پھٹ جانے (Cloud burst) کا حکم بھی دیتا ہے۔ وہاں بھی سیلاب کی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے جہاں آس پاس کوئی دریا نہیں ہوتا۔ 
دنیوی عدل کے حوالے سے مصلحتیں، سیاست دانوں،  سیاسی و مذہبی جماعتوں اور واعظین کے لیے آڑ ہو سکتی ہیں لیکن آسمان کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں وہ بالآخر ہر قسم کی پردہ داری کو پاش پاش کرکے اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ آج یہ قوم فیصلہ بُھگت رہی ہے۔ وطن ِعزیز میں یوں تو عدل  روزِ اوّل سے ہی کسی مثالی حالت میں نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ تین سال سے آئین، قانون اور اُن کے تحت ادارے کا حلیہ بگاڑ کر انصاف کا جنازہ نکالا گیا اور سیاسی مخالفین پر ظلم روا رکھا گیا ہے اُس کی بھی مثال اور نظیر تلاش کرنا مشکل ہوگی یقیناً جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر بہت ظلم کیا گیا۔ اُنہیں جیلوں میں بھیجا گیا، اُنہیں کوڑے مارے گئے، لیکن یہ سب کچھ بہت کم وقت کے لیے تھا۔ پیپلز پارٹی کے کارکن جلد ہمت ہار گئے گویا ظلم    میں شدت تو تھی اور بہت زیادہ تھی، لیکن ظالمانہ کارروائیوں کا دورانیہ ہرگز زیادہ نہ تھا اور جلد ہی جنرل ضیاء الحق حالات پر کم از کم ظاہری طور پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور بقول اکثر قانونی ماہرین اُن کا عدالتی قتل ہوگیا تو پیپلزپارٹی کوئی واضح اور مستقل ردِعمل دینے میں ناکام رہی ۔  لاہور میں تو چند عیسائیوں نے خود سوزی کی کوشش کی جو پولیس نے ناکام بنا دی۔ ایم کیو ایم نے بھی اپنے خلاف ظلم ہونے کی آواز اُٹھائی۔ لیکن اِن کے بارے میں تو پہلے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایم کیو ایم ظالم زیادہ تھی یا مظلوم زیادہ تھی۔ اِس کا صحیح فیصلہ ہم نہیں کر سکتے آنے والے وقت میں مورخ ہی کر ے گا۔ یہ غالباً جنرل بابر کے آرمی چیف ہونے کے دوران کے واقعات ہیں، جب ایم کیو ایم کے کارکنوں کے گھروں کا تقدس پامال ہوا۔ چادر چار دیواری پر بھاری بوٹ چڑھ دوڑے۔ اُن پر تشدد ہوا لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایم کیو ایم کا اِس آپریشن سے پہلے اور جنرل بابر کی وفات کے بعد کیا رویہ تھا، اُس کی بھی کم ہی مثال ملے گی۔ سیاسی مخالفین کی بوری بند لاشیں سڑکوں پر عام دستیاب تھیں۔ سندھ کے شہروں میں ٹارچر سیل بنائے گئے تھے جہاں اپنے مخالفین سے انسانیت سوز سلوک کیا جاتا تھا ۔
ایک روایت کے مطابق جن پولیس اہلکاروں نے   ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے دوران کارکنوں سے زیادتیاں کیں تھیں، وہ وقت بدلنے پر پنجاب فرار ہوگئے تھے۔ نواز شریف کو مجبور کیا گیا کہ اُنہیں سندھ واپس بھیجا جائے۔ پھر اُن سے جو سلوک ہوا، وہ ناقابل بیان ہے۔ گویا ایم کیو ایم کے ساتھ ظلم ہوا اور یقیناً ہوا لیکن وہ بھی کبھی اِس ظلم کا جواب دینے میں پیچھے نہ رہے۔ ظلم، جبر کا معاملہ یہ تھا کہ کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری کے سینکڑوں ملازمین ہلاک کر دیئے گئے کیونکہ اُنہوں نے ایم کیو ایم کا مطالبہ مسترد کر دیا تھا گویا ظلم دو طرفہ تھا۔ لیکن گزشتہ تین سال سے یک طرفہ ظلم بدترین انداز میں ہو رہا ہے۔ اِس ظلم کی بنیاد 9 مئی کا سانحہ بتایا جاتا ہے، حالانکہ ظلم کسی نہ کسی صورت میں پہلے بھی ہو رہا تھا۔ 
اصل بات یہ ہے کہ 9 مئی کے سانحہ کی کون مذمت نہیں کرے گا لیکن پہلے یہ تو طے ہونا چاہیے کہ اِس بدنما واردات کا ماسٹر مائنڈ اور محرک کون تھا۔حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اِس کا ذمہ دار تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو قرار دے کر  دھڑا دھر دس دس سال کی قید سنا رہی ہے۔ پنجاب کا سابق گورنر سرفراز چیمہ، سینٹر اعجاز اور یہاں تک کہ 72 سالہ Cancer Survior یاسمین راشد بھی جو پہلے ہی دو سال سے قید ہیں، اُنہیں دس سال کی سزا کی نوید سنائی گئی ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے پر اِس سانحہ کے ارتکاب کا الزام لگا رہے ہیں تو ایک فریق خود جج کیسے بن سکتا ہے اور فیصلے صادر کر سکتا ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ غیر جانبدارانہ تفتیش کی جائے’’TV‘‘ فوٹیج کا بغور جائزہ لیا جائے اور باریک بینی سے شناخت کا عمل بروئے کار لایا جائے۔ اگر اُس میں تخریب کاری اور گھیراؤ جلاؤ کی کارروائیوں میں تحریکِ انصاف کے کارکن ملوث پائے جائیں تو اُنہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور قیادت معافی بھی مانگے، لیکن محض نعرہ بازی کو سزا کی بنیاد بنانا قرین انصاف نہیں۔
اب آخر میں ہم اُس ظلم کی طرف آتے ہیں جو  نصف صدی سے اِس ملک پر اور اِس کو عوام پر ہو رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کی معاشی حالت اتنی مضبوط تھی کہ بھارت کی کرنسی کا بھاؤ پاکستانی کرنسی سے نصف ہوتا تھا ۔ جاپان اور جرمنی جیسے ممالک جو آج معاشی استحکام کی بلندیوں پر ہیں، اُنہیں پاکستان نے قرض دیا تھا اور آج پاکستان کا حال یہ ہوگیا ہے کہ ہم بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ ڈیفالٹ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے حق اور سچ کی بات یہ ہے کہ گزشتہ  نصف صدی سے مسلط شریف، زرداری خاندان اور     وقتاً فوقتاً قابض طالع آزما اِس کے حقیقی اور اصلی ذمہ دار ہیں۔ 
دلچسپ بات کہہ لیں یا شرم ناک کہہ لیں پاکستان کی اقتصادی حالت اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے اور عوام کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ۔گرانی نے عوام کو زندہ   درگور کر دیا ہے گذشتہ تین سال میں عوام کی بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے لیکن دونوں سیاسی خاندانوں اور وقتاً فوقتاً مسلط ہونے والے طالع آزمائوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک بیلنس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گویا لوٹ کھسوٹ کا ایسا بازار گرم ہے کہ الامان الحفیظ۔حقیقت یہ ہے کہ 1947ء سے پہلے مارشل لاء  تک سیاسی عدم استحکام تو یقیناً تھا لیکن حکمران لوٹ مار     میں یوں ملوث نہیں تھے۔ بعدازاں ملک دولخت ہوا تو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ باری باری اقتدار میں آنا شروع ہوئے اور آج تک آ رہے ہیں۔ دلچسپ بلکہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جب کوئی فوجی طالع آزما قوم پر مسلط ہو جاتا تو اِن دو خاندانوں میں سے کبھی ایک خاندان مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر لوٹ مار کرتا اور کبھی دوسرا کرتا ہے۔ قوم کی بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ اب یہ دونوں خاندان یک جان    دو قالب ہوگئے ہیں اور یہ خبر عام ہے کہ گزشتہ پون صدی میں اتنی کرپشن نہیں ہوئی جتنی 2022ء سے اب تک ہوئی ہے اور ہو رہی ہے اور اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ آسمان سے عذاب کیوں نازل ہو رہاہے تو اُس کی سادگی پر مرنے کو جی چاہتا ہے۔
ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ سیاسی ظلم یا معاشی لوٹ مار تو یہ بڑے بڑے کرتے ہیں اور عذاب میں غریب مارا جاتا ہے تو جواب عرض ہے کہ ایک تو اِس سیلاب اور Cloud brust میں امیر بھی مرا ہے۔ پھر یہ کہ فطرت کا اصول ہے کہ دنیوی عذابوں میں گیہوں کے ساتھ گُھن بھی پستا ہے۔ علاوہ ازیں عام لوگ غریب ہوں یا امیر اُن کا بہت بڑا قصور بھی یہ ہے کہ وہ شروع میں ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ کسی ایک جماعت یا طبقے کے ساتھ ظلم ہو رہا ہو تو باقی تماشا دیکھتے ہیں۔ سوچ یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی ہے ہم تو محفوظ ہیں بلکہ اِس ظلم کے نتیجہ میں کوئی فائدہ نظر آئے تو اُسے سمیٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عدل اِس وقت پاکستان میں جان کنی کی حالت میں ہے اور آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ لہٰذا ظلم بڑھتا چلا جاتا ہے اور بالآخر آسمان اپنا فیصلہ صادر کر دیتا ہے۔ چھوٹے بڑے، امیر غریب سب اِس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور ہمارے پاس رونے پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں تک حالیہ یعنی 2025ء کے اس سیلاب کا تعلق ہے، حقیقت یہ ہے کہ2010ء کے سیلاب کے بعد فلڈکمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے انتہائی محنت اور عرق ریزی سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائو کے حوالے سے انتہائی مفید اور  گراں قدر سفارشات پیش کی تھیںلیکن مجال ہے کہ گزشتہ پندرہ سال میں بلااستثنیٰ کسی ایک حکومت نے بھی اِن سفارشات پر عمل کیا ہو۔ اس سیلاب میں بے شمار انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو گئے لوگوں کی جائیدادیں تباہ ہو گئیں، مال مویشی ہلاک ہو گئے لیکن سیاست دانوں کے پاس وہی رٹے رٹائے بیانات ہیں کہ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے اور پھر یہ کہ عوام بھی اپنا حق لینے کے لیے کھڑے ہونے کو تیار نہیں لہٰذا آسمان سے فیصلے نازل ہو رہے ہیں۔
یاد رکھیں! یہ عذاب اُس وقت تک نہیں ٹل سکتے جب تک اِس ملک میں عدل و قسط کا نظام قائم نہیں ہو جاتا۔ ایسا عادلانہ نظام جو ظلم ہونے پر فوراً مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور کون نہیں جانتا کہ اسلام ہی وہ واحد نظام ہے جو ہمارے لیے ہی نہیں ساری دنیا کے لیے امن و سلامتی کا پیغام ہے۔ آسمان کے غضب سے بچنے کے لیے آسمان والے کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ورنہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا م}(بنی اسرائیل:8) ’’اور اگر تم نے وہی روش اختیار کی تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے۔‘‘ یہ کسی انسان کا نہیں، احکم الحاکمین کا فیصلہ ہے۔ جو نافذ ہو کر رہتا ہے    اور ہمارے پاس اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور رجوع الی اللہ کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اے اللہ ہماری توبہ کو  قبولیت بخش اور ہم پر رحم فرما۔ آمین ثم آمین!