دین کی مضبوط عمارت قرآن حکیم اور سیرت نبویﷺ ہی
کے دو بنیادی ستونوں پر قائم ہے؛ڈاکٹر عارف رشید
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ نئی نسل نے جو تعلیم
حاصل کی ہے اُس میں تو وہ بنیادی تعلیم ہے ہی نہیں
جس کا دین نے تقاضا کیا ہے ؛حماد لکھوی آپﷺ کا تجلیہ اور
تخلیہ تمام لوگوں کے سامنے تھا، کوئی چیز ایسی نہیں
تھی کہ جو مخفی ہو؛ڈاکٹر عارف رشید
’’سیرت النبی ﷺ اور ہم‘‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں ، علماء کرام اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : وسیم احمد
مرتب : خالد نجیب خان
سوال: قرآن حکیم اور نبی کریم ﷺکی تعلیمات کی روشنی میں ایک مسلمان کے بنیادی دینی فرائض کیا ہیں؟
ڈاکٹر عارف رشید : یہ سوال تو بہت ہی تفصیل طلب ہے۔ اس پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ ہر شخص جو مسلمان ہے، اِس بات پر اللہ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے مسلمان گھرانے میں پیدا کیا۔ اس لیے کہ ہم میں سے کسی کی اگر ولادت کسی ہندو، سکھ یا عیسائی گھرانے میں ہو جاتی تو شاید ایک فیصد سے بھی کم امکان ہوتا کہ ہمیں اسلام اور قرآن جیسی دولت ملتی۔ اور واقعتاً یہ اپنی جگہ بہت بڑی بات ہے کہ جب ہماری شعور کی آنکھ کھلی تو ہم نے اپنے بزرگوں کو نماز پڑھتے آتے جاتے، جمعہ کے لیے جاتے اور ہمیں بھی ساتھ لے جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک خصوصی محبت کا معاملہ دیکھا ۔ جہاں تک قرآن حکیم اور سیرت النبیﷺ کا معاملہ ہے تو یہ ہی اصل میں وہ دو بنیادی ستون ہیں کہ جس پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ جہاں تک معاملہ اللہ پر ایمان کا ہے ،اِس میں اطاعت اور محبت دو چیزیں جمع ہوں گی یعنی عبادتِ رب۔’’ عبادت رب ‘‘ کی اصطلاح والد محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بہت عام کی کہ عبادت سے مراد صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ہی نہیں ہے بلکہ پوری زندگی میں اللہ کی بندگی اختیار کرنا اصلاً عبادت ہے۔ اور محمدرسول اللہ ﷺپر ایمان کا تقاضا اتباع رسول ﷺ ہے اور اتباع رسول ﷺ بھی اُسی اطاعت اور محبت دونوں جذبات کے ساتھ ہے جو اللہ کے لیے ہے۔ اِن دونوں کے بغیر نہ عبادت مکمل ہوگی نہ ہمارا اتباع مکمل ہوگا۔ قرآن حکیم کامطالعہ کریں تو ہمیں پوراضابطہ حیات ملتا ہے قران حکیم نے واضح کر دیا ہے کہ ہمیں زندگی کیسی بسر کرنی ہے؟سورۃ البقرہ میں اِس کی تفصیل کے ساتھ ساتھ عائلی اور معاشرتی نظام کے بارے میں احکامات ملتے ہیں اور بہت ہی باریکی سے تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ دین ہے۔ مذہب توچند عقائد و مراسم ِعبودیت کا نام ہے جبکہ اللہ کے نزدیک تو اصل دین صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔
اس حوالے سے اصل شے جو ہمیں مطلوب ہے وہ ہماری دینی ذمہ داریاں ہیں۔ قرآن حکیم اورسیرت مطہرہﷺ کا مطالعہ کریں تو یہ مکمل تصویر ہمارے سامنے واضح ہو جاتی ہے۔ گویا فرائض دینی کا تصور مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ عبادت رب یعنی اللہ کی بندگی پوری زندگی میںداخل نہ ہو۔ جیسا کہ فرمایا کہ:
{ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص} (البقرۃ:208) ’’ اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
قرآن حکیم میں یہ حقیقت بیان کر دی گئی ہے کہ جزوی عبادت یاجزوی بندگی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے کہ ا س کی بنیاد پر نجات ہو جائے گی۔
سورۃ البقرہ میں اگرچہ تذکرہ یہود کا ہےلیکن اصل میں جگہ جگہ ہمیں آئینہ دکھایا گیا کہ تم سے پہلے جو سابقہ اُمّتِ مسلمہ تھی اُن کا کیا طرز عمل تھا اور ہم سے پہلے سابقہ اُمّت یہودہی تھی،تو وہاںصاف کہہ دیا گیا اللہ کی کتاب، اللہ کی شریعت کے ایک حصہ کو ماننا، اُس پر ایمان رکھنا، اُس پر عمل کرنا اور اللہ کی دی ہوئی شریعت جس کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہے،قول و فعل سے ہے ، لین دین سے ہے، سیرت و کردار سے ہے، اُس کو بالکل بھلا دینا یہ تو گویاجزوی اطاعت ہوگی۔ دین میں پوری زندگی آتی ہے۔ ہماری زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو اس سے خالی ہو۔ تو قرآن حکیم کا مطالعہ کر لیں یا سیرت مطہرہﷺ کا مطالعہ کر لیجئے، تو وہاں سے جو چیزیں ہم اخذ کرتے ہیں، وہی اصل میں ہمارے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی کی بنیاد بنے گئیں۔
{وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} (آل عمران) ’’اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘
تم ہی لازماً سر بلند رہو گے۔ اگر واقعتاً تمہارے اندر ایمان موجود ہے۔ اور یہ بھی واضح فرمایا کہ اسوہ اور طریقہ صرف اللہ کے رسول ﷺ کا مقبول ہوگا جو اُس پر چلے گا وہی کامیاب ہوگا۔
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ}(الاحزاب:21)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
سوال: دور حاضر میں ہماری نوجوان نسل کو جو چیلنجز درپیش ہیں، اُن سے نپٹنے کے لیے وہ سیرت مطہرہؐ سے کیا اور کیسے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں؟
ڈاکٹر حماد لکھوی :آج کے دور کے نوجوان کو اگرچہ بےشمار چیلنجز کا سامنا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ سب سے پہلا چیلنج ہمارے گھروں کا ماحول ہے۔ ہمارے گھروں کے ماحول میں نہ قرآن ترجیح ہے، نہ نبی پاکﷺ کی سیرت ترجیح ہے، (الا ماشاء اللہ) ایسے ماحول میں جو بچہ آنکھ کھولتا ہے تو پھر ہم اُس کو پلے گروپ سے ہی آؤٹ سورس کر دیتے ہیں۔ایسے سکولوں میں پڑھاتے ہیں جہاں نصاب غیر ملکی ہو،پھر جب وہ بڑا ہوتا ہے تو ڈگری بھی کسی ایسی ہی یونیورسٹی سے لینی ہے۔یعنی اُس کی تعلیم اور اُس کی تربیت دونوں کی ذِمّہ داری سکول اور کالج پر ڈال کر پھر ہم بیٹھے پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارا نوجوان ہمارے ہاتھ میں کیوں نہیں ہے۔ تو جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ والدین کی طرف سے دی گئی تربیت اور پرورش ہے۔ اس میں ابتدائی تعلیم اہم ترین ہے یعنی اتنی دینی تعلیم دینا کہ قرآن سوچ سمجھ کر انسان پڑھنے کے قابل ہو جائے اور نبی پاک ﷺ کی سیرت سے اُس کو اتنا تعلق پیدا ہو جائے کہ پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام معاملات اُس کو سمجھ آجائیں کہ دین نے کیا ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ اتنی تعلیم حاصل کرنا ہر فرد کے لیے فرض ہے۔((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ))’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ علم سے مراد دنیوی علم نہیں۔یہ پرائمری پاس کرنا فرض نہیں ہے۔ یہ میٹرک پاس کرنا فرض نہیں ہے۔ یہ جو فرض ہے یہ العلم کی تعلیم ہے اور العلم سے مراد کتاب و سنت ہے تو کتاب و سنت کی اتنی تعلیم حاصل کرنا فرض ہے کہ کم از کم وہ پیدائش سے لے کر موت تک کے مسائل سے آگاہ ہو جائے۔ اگر ہمارے والدین اپنے بچوں کواتنی تعلیم نہیں دیتے تو وہ گنہگار ہیں اور اگر ہم اتنی تعلیم نہیں لیتے تو ہم گنہگار ہیں۔
سپیشلائزڈ ایجوکیشن کہ مدارس میں پڑھا جائے، امہات الکتب کے تفکر میں جایا جائے یہ فرض نہیں ہے۔ یہ سپیشلائزڈ ایجوکیشن ہے، کسی نے لینی ہے لے، نہیں لینی نہ لے۔ لیکن قرآن سےاُس کا تعلق اتنا ہونا چاہیےکہ شروع سے آخر تک قرآن سمجھ کر پڑھنا آ جائے (یعنی تدبر القرآن) اور نبی پاک ﷺ کی سیرت کے ساتھ بھی تعلق ہو۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’لوگوں پر دھوکے کے سال آئیں گے، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا، خائن پر اعتماد کیا جائے گا اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا۔‘‘ پوچھا گیا یہ کون ہے؟ فرمایا: ’’حقیر (کم علم)کمینہ شخص جو عوام کے بڑے بڑے معاملات میں رائے دے گا۔‘‘(صحیح ابن ماجہ )
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ا فسوس کا مقام ہے کہ نئی نسل نے جو تعلیم حاصل کی ہے، اُس میں تو وہ بنیادی دینی تعلیم ہے ہی نہیں ۔اس کی ابتدا کارٹون سے ہوتی ہے ۔ میں نے اس نئی نسل کو دیکھا ہے کہ جو کام مشکل ہو، اس کو ناممکن سمجھ کے چھوڑ دیتی ہے ۔
اس کاعلاج یہی ہے کہ اِس نسل کو دوبارہ قرآن اور سیرت النبی ﷺسے جوڑا جائے۔ ان کی سمجھ ٹھیک ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَـتَّقُوا اللہَ یَجْعَلْ لَّـکُمْ فُرْقَانًا}(الانفال:29) ’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کے تقویٰ پر برقرار رہو گے تو وہ تمہارے لیے فرقان پیدا کر دے گا۔‘‘
• اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر ایک پیمانہ رکھ دے گا حق اور باطل کو سچ اور جھوٹ کو سمجھنے کا اور اس کی تفریق کرنے کا لہٰذا وہ فرقان ہر شخص کے اندر آسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ملے ہوئے اور بھی کئی چیلنجز ہیں ۔ معاشرے کا چیلنج ہے ،ماحول کا چیلنج ہے پھر میڈیا کا چیلنج ہے۔ سوشل میڈیا تو ایک بہت بڑا عفریت ہے۔ سمجھیں کہ بندر کے ہاتھ میں ماچس آ گئی ہے تو وہ نقصان پرنقصان کرتا چلاجا رہا ہے۔
سوال: کیا وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں جس رواداری اور اخلاقیات کا درس ہمیں دیا، اُس کا عکس ہمارے اسلامی معاشروں میں نظر نہیں آتا؟
ڈاکٹر عارف رشید:اس کی سب سے بڑی وجہ تو وہی ہے کہ ہماری جوگرومنگ ہوئی ہے ،اُس میں اللہ کی ذات پرایمان اور اللہ کے رسولﷺ کے اسوۂ جو ہمارے لیے آئیڈیل ہونا چاہیے تھے اُن کا عمل دخل نہیں رہا ۔ تحمل، برداشت، رواداری یہ تمام چیزیںتو وہ ہیں جس کا تعلق انسانیت کے ناطے صرف دین اسلام سے نہیں ہے بلکہ واقعتاً اگر انسان میں انسانیت ہے تو اس میں یہ خوبیاں ہونی چاہیں۔ ہمارا دین تو اس کا سبق دیتا ہے۔ نبی اکرم ﷺکا مکی دورہمارے سامنے ہے۔13سال آپ ﷺ نے جو محنت کی ہے وہ سب کے سامنے ہیں۔ آپﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کو کیا کچھ نہیں کہا گیا، لیکن وہاں وہی برداشت تھی،یہ الگ بات ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ ہجرت فرما کے مدینہ تشریف لے آئے تو یہ صفات اپنی جگہ رہیں مگر وہاںاینٹ کا جواب پتھر سے دینا بھی ضروری تھا کیونکہ اللہ کے دین کا غلبہ مطلوب تھا۔
{اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(5)} (المزمل) ’’ہم عنقریب آپؐ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔‘‘
لہٰذا وہی رسول اللہﷺ گھوڑے کی پیٹھ پر ننگی تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
بےشک مسلمان تو ہے ہی وہ کہ جس کے ہاتھ اور اس کی زبان کی ایذا رسانی سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
سوال: یہ فرمائیں کہ ہم نے دینی تعلیم کو صرف دینی مدارس تک محدود کر دیا ہے تو کیا یہ نبی کریمﷺ کی تعلیمات، کے خلاف بات نہیں ہے؟
ڈاکٹر حماد لکھوی : مدارس نے دین کے تحفظ کے لیے بڑی شاندار خدمت کی ہے اور یہ وہ این جی اوز ہیں کہ انہوں نے بغیر کسی حکومتی سرپرستی کے اور بغیر کسی حکومتی تعاون کے ہر دور میںدین کو قائم رکھا ہے۔ آج معاشرے میں دین سے متعلق جتنا بھی علم عوام الناس کے پاس ہے اور اس پر اگر وہ عمل بھی کر رہے ہیں تو اِس میں مدارس اور اہلِ حق علماء ہی کے مرہون منت ہے۔ وہاں جتنی بھی دین کی تعلیم دی جا رہی ہے وہ سپیشلائزائشن ہے۔ اِن کی دی گئی تعلیم میںوہ جامعیت پائی جاتی ہےجس کا تقاضا ہے جبکہ دوسری طرف کالجز ، یونیورسٹیز میں خاص طور پہ ہائر ایجوکیشن میں ہر شعبے کی الگ تعلیم دی جاتی ہے اورہرشعبے کی الگ تعلیم میں جو دینیات یا اسلامیات ہے یہ ایک ڈسپلن کی حیثیت رکھتا ہے ۔
سوال:اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔحیات ہے اور نبی کریم ﷺ رحمت اللعالمین ﷺہیں۔ آپ فرمائیے کہ نبی کریم ﷺ نے تجارت میںذخیرہ اندوزی اورسود کی ممانعت کی اور اسلام کا مکمل معاشی نظام دیا ہے، ان ساری تعلیمات کو لے کر آج کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟
ڈاکٹر عارف رشید:ہم اپنی زندگیوں کاجائزہ لیں تو شروع کے تقریباً 25 برس تو اُس میں سے نکال دیجیے کہ جس میں بچپن بھی ہے، لڑکپن بھی ہے، اس کے ساتھ سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کی تعلیم بھی ہے، اِس کے بعد انسان عملی زندگی میں آتا ہے۔ اب 25 برس سے لے کر ساٹھ یا ستر برس تک کا دورانیہ ہے، اس کا تجزیہ کریں تو واقعتاً ہماری جو وقت کی تقسیم ہے ، 24 گھنٹے میں سے8گھنٹے تونیند اور استراحت کے نکال دیجیے۔ بقیہ کچھ اورمصروفیات بھی ہیں اور بقیہ جووقت بچتا ہے اُس کا بڑا حصہ ہماری معاش سے متعلق ہے۔ اس ضمن میں دین نے ہمیں تعلیم دی ہےکہ نمونۂ کامل محمد رسول اللہﷺ ہیں، اِس لیے کہ یہ تمام وہ چیزیں ہیں کہ جس سے ہر شخص گزرتا ہے۔اب حضورﷺکی تعلیم کو اگر ہم اپنے سامنے رکھیں تو حضورﷺنے فرمایا :((مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا))’’جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘(جامع ترمذی)کوئی شخص ملاوٹ کر رہا ہے۔ تو اُس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو یہ تمام چیزیں وہ ہیں کہ جن کا تعلق ہماری معاش سے ہے اور ہماری زندگیوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ کوئی شخص صبح 8 بجے گھر سے نکلتا ہے اور رات 8 بجے واپس آتا ہے یہ بارہ گھنٹے جو اُس نے گزارے، کس کام کے لیے گزارے ہیں کچھ کمائی کر رہا ہے معاش کے لیے گزارے۔
جو شخص بھی قرآن پر ایمان رکھتا ہے اور واقعتاً ایمان اس درجے کا جو اس کے عمل، سیرت و کردار پر بھی اثر انداز ہو اور اس کے ساتھ ہی اسوۂ محمدیﷺ اور فرامین نبی ﷺ اُس کے سامنے رہتے ہیں تو حضورؐ نے فرمایا ایک شخص وہ ہے جس نےصبح سے شام تک لگاتا ر محنت کی لیکن یہ کہ شام کو گھر لوٹا تو اپنی گردن کو آگ سے آزاد کرا کر لوٹا، راست باز رہا ،اُس نے کسی قسم کی بددیانتی نہیں کی اور دوسرا شخص وہ ہے کہ اُس نے صبح سے شام تک جوکیا اُس میں وہ اُس اخلاق سے کوسوں دور رہا جو ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے۔
ہمارا اصل فوکس اگر صرف دنیا اور یہاں کی چمک دمک اور یہاں کی زیب و زینت ہو جائے گی تو یہ تمام چیزیں اسی کے مظاہر ہیں کہ جس میں سے آدمی گزرتا ہے۔
واقعتاًیہ اپنی جگہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہماری زندگی کا ایک بڑا حصّہ جس کا تعلق ہماری معاش سے ہے،کچھ اچھا نہیں ہے۔ آپ نےسوال میں سود کا ذکر بھی کیا تھا، اس حوالے سے میں عرض کروں کہ سالہا سال کی محنت تھی اور کتنا کچھ کام اِس میں کیا گیا اور موٹی موٹی فائلیں مرتب کر لی گئیں، پھر وفاقی شرعی عدالت نے بھی فیصلہ دے دیا کہ واقعتاً بینک انٹرسٹ سودہی ہے لیکن آج اِس فیصلے کوبھی کم و بیش ساڑھے تین سال گزر چکے ،ہماری کوئی پیشرفت نہیں۔ سوائے اِس کے کہ لمبی لمبی ڈیڈ لائنز دے دی جاتی ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ تو طور طریقے وہ نہیں ہیں جن سے اللہ کی رحمت کے بھی ہم امیدوار ہوں۔
سوال:سمارٹ فون کے ساتھ ہم لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ اس کو خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی کہ ہماری سوسائٹی میڈیا گائیڈڈ سوسائٹی بن چکی ہے، یہ فرمائیے کہ سوشل میڈیاکے ذریعے سےنبی کریم ﷺ کی تعلیمات جو نوجوان نسل تک پہنچ رہی ہیں ،کیا یہ درست تعلیمات پہنچ رہی ہیں؟
ڈاکٹر حماد لکھوی :اگر ہم آج کے دور کے بحران کی بات کریں تو سب سے بڑا بحران اخلاقی بحران ہے اور اخلاقیات میں سب سے پہلی بات وہ ہے جس کی طرف ڈاکٹر عارف رشید صاحب اشارہ کر رہے تھے کہ سچ بولنا اور جھوٹ سے بچنا اور پھر اس کے ساتھ جڑی ہوئی ساری چیزیں ہیں۔ اب نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ مومن کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ مومن بزدل ہو سکتا ہے، کنجوس ہوسکتا ہے مگر کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
سوشل میڈیا پر جو ایکٹیویٹیز مل رہی ہیں اور خصوصاً نوجوانوں کو وہ ساری اس طرح کی ہی ہیں۔ رہ گئی بات سیرت کی تواگر کہیں کبھی کوئی حدیث آجاتی ہے تو اس کا تعین نہیں کیا جاسکتاکہ جھوٹ ہے کہ سچ ہے۔ یعنی حدیث کہی ہوگی حوالہ بھی نیچے دیا ہوگا مگر وہ حدیث سرے سے ہوتی ہی نہیںہےمگر وہ شیئر ہو رہی ہے۔ اس طرح سے جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے۔ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے پہنچائے اور ہم ہر سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے پھیلاتے جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ آپ پڑھیں مگر اس کی تصدیق اصل کتاب سے ضرور کرلیں۔ سیرت کا علم حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے سوشل میڈیا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا آپ کو مستند بات نہیں بتائے گا۔ سیرت کے لیے آپ کو پڑھنا ہے تو نبی پاکﷺ کی سیرت کی جومستند کتابیں ہیں، اُنہی کو پڑھنا پڑے گا۔ البتہ آن لائن سورسز میں پی ڈی ایف کتابیں موجود ہیں۔ پی ڈی ایف کتاب پڑھ لیں وہ اوریجنل کتاب ہی ہوگی۔
سوال:ایک عام مسلمان جب کسی سکالر کی گفتگو سنتا ہے تو وہ سوچتا اور ارادہ کرتا ہے کہ اب میںتوبہ کرتا ہوں اور اپنے اللہ کی طرف لوٹتا ہوں۔کوشش کرتا ہے کہ اپنے اعمال درست رکھے۔ اور نبی کریم ﷺکی تعلیمات پر چلے اور اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے میں لگ جاتا ہے۔ ایک ایسے عام آدمی کے لیے سیرت النبی ﷺسے ہمیںکیا رہنمائی ملتی ہے؟
ڈاکٹر عارف رشید: ہمارے لیے تو سب سے بڑی موٹیویشن نبی اکرمﷺ کا اسوۂ اور آپ ﷺکی ذاتِ مبارک ہے اور آپ ﷺکی ذات کے ساتھ اِس درجے کی محبت کہ جس میں حضور ﷺ نے فرمایا:
((لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ))(صحیح بخاری)
’’ تم میں سے کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اُس کے دل میں میری محبت تمام انسانوں سے حد یہ کہ اپنے والدین سے بھی بڑھ کر نہ ہو۔‘‘
اگر یہ محبت زبانی کلامی ہے، اگر کسی مسلمان کا نبی اکرم ﷺکے ساتھ تعلق ایک جذباتی تعلق نہیں ہے تو گویا کہ وہ تو ابھی پہلی سیڑھی پر قدم ہی نہیں رکھ رہا۔ حضوراکرمﷺ کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہk سے سوال کیا گیا تھاکہ حضورﷺ کی گھر کے اندر کی زندگی کیسی تھی ، ظاہر ہے کہ نبی اکرمﷺ کی زندگی تو ایک کھلی کتاب کی طرح تھی لیکن اِس کے باوجود بھی صحابہ ؓ کے اندر یہ پیاس تو ہوتی تھی کہ اس کے بارے میں بھی کچھ سوال کریں؟ تو حضرت عائشہ صدیقہkنے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ کہا کیوں نہیں پڑھتے؟ قرآن تو پڑھتے ہیں توپھر انہوں نے فرمایا :’’آپؐ کا اخلاق سراسرقرآن تھا۔‘‘(رواہ مسلم)
گویا کہ نبی اکرمﷺ تو قرآن مجسم تھے ۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے زیادہ تو آپ ﷺ کی تخلیہ کی زندگی سے بڑھ کر کوئی واقف نہیں ہے، اگرچہ آپﷺ کا تجلیہ بھی تمام لوگوں کے سامنے تھا، اُس میں کوئی چیز ایسی نہیں تھی کہ جو مخفی ہو۔
جہاں تک بات عام آدمی کی ہے جو گناہوں سے تائب ہو کر صحیح راستے پر چلنے کا ارادہ اور پھر کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے سابقہ گناہوں کو مٹا کر اُن کی جگہ نیکیاں لکھ دیتا ہے اور ایسا شخص اگر اِس صحیح راستے پر مرے تو جنت میں جائے گا۔ ان شاء اللہ!