(منبرو محراب) حضور ﷺ سے محبت کے تقاضے - ابو ابراہیم

5 /

حضور ﷺ سے محبت کے تقاضے


(قرآن و حدیث کی روشنی میں)


مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میں امیر تنظیمِ اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے29اگست 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج کی نشست میں نبی اکرمﷺ کے چند ارشادات کا یاد دہانی کے طور پر مطالعہ کرنا مقصود ہے۔ ماہ ربیع الاول کی نسبت سے سیرت النبیﷺ کے موضوع پر بھی کلام ہوتا ہے۔ البتہ کئی مرتبہ اس بات کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے کہ جو عملی تقاضے ہیں ان کو نمایاں کیا جائے۔ یہ عمل کے اعتبار سے بھی مفید ہے ، اجر کے اعتبار سے بھی اور نجات کے اعتبار سے بھی لازم ہے۔ چنانچہ آج کی نشست میں چندمعروف احادیث کا مطالعہ کریں گے ۔ 
پہلی حدیث جو تقریباً سب کو یاد ہوگی ۔ فرمایا :  ((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِىٍٔ مَّا نَوَى)) ’’تمام عمال کی قبولیت کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور بندے کو وہی کچھ ملے گا جیسا اس نے عمل کیا۔‘‘
اخلاص کے ساتھ تھوڑا عمل بھی ہو تو اللہ کے ہاں مقبول ہے، ورنہ دکھاوے کا عمل ایک نوع کاشرک ہے اور ریاکاری کی وجہ سے بڑی بڑی نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں ۔ لہٰذا کوئی بھی نیکی کا کام کرتے ہوئے ہمیں اس چیز کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔ دوسری حدیث سفیان بن عبداللہ ؄سے مروی ہے ، انہوں نے پوچھا :اے اللہ کے پیغمبرﷺ! اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات فرما دیجیے کہ میں آپ ﷺ کے بعد پھر کسی سے نہ پوچھوں۔ آپ ؐنے فرمایا: (( قُلْ آمَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ۔)) ’’تم کہو کہ    میں ایمان لایا اللہ پر اور پھر اس بات پر قائم رہو ۔‘‘   صحابہ کرامjبہت عظیم لوگ تھے ، ایسا سوال کرتے جس سے بڑی جامع بات اللہ کے رسولﷺ کی زبان مبارک سے جاری ہوتی اور ہمارے لیے رہنمائی کا سامان ہو جاتا ۔  استقامت باطن کی بھی ہے، ظاہر کی بھی ہے۔ انفرادی معاملات میں بھی مطلوب ہے ، اجتماعی معاملات میں بھی مطلوب ہے۔اللہ کو ماننا ہی کافی نہیں۔ اللہ کی ماننا بھی ضروری ہے۔ یہ پوری زندگی کا معاملہ ہے۔ ایمانیات، عبادات ، اخلاقیات، معاملات ، انفرادی ذمہ داریاں ، اجتماعی ذمہ داریاں، سب اس میں شامل ہیں۔ 
تیسری روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں : (( مَنْ أَحَبَّ لِلهِ وَأَبْغَضَ لِلهِ وَأَعْطَى لِلهِ وَمَنَعَ لِلهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ))’’جس نے اللہ کی خاطر محبت کی، اللہ کی خاطر کسی سے دشمنی رکھی، اللہ ہی کی خاطر کسی کو کچھ دیا اور اللہ ہی کی خاطر کسی سے کچھ روکاتو اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی۔‘‘ یعنی اللہ ہی مقصود و مطلوب اور محبوب اوّل بن جائے ۔ توحید محض ایک عقیدے کا نام نہیںہے بلکہ اس کا اظہار بندے کی زندگی میں بھی ہونا چاہیے۔انسان کے کردار و عمل سے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صرف ایک اللہ کو ماننے والا ہے۔  ایسے شخص کا ایمان مکمل ہے۔ 
چوتھی روایت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ((ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔)) ’’اس نے ایمان کی مٹھاس حاصل کرلی جو اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺکے اللہ کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا۔‘‘یعنی جو اللہ کا حکم اور فیصلہ ہے ، اسی  میں راضی ہوں ، اسلام کے تقاضوں پر راضی ہوں ۔ غزہ کے مسلمانوں کا ذکراکثر اس ذیل میں ہوتاہے کہ اس قدر آزمائشوں کے باوجود بھی اللہ کے فیصلے پرراضی ہیں اور زبان پر اللہ سے شکوہ تک نہیں لارہے ۔ 
اگلی حدیث بخاری شریف سے ہے۔ابن مسعود ؓ نے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ !  سب سے افضل عمل کون سا ہے؟فرمایا : ((الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا)) نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔پوچھا ؛ اس کے بعد افضل عمل کونسا ہے ؟ فرمایا : ((ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ)) پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔پوچھا : اس کے بعد؟ فرمایا :(( الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ)) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ یعنی ہر چند گھنٹوں بعد ہمارے ایمان کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اذان کی آواز آ گئی لیکن اس کے باجود اپنے کام میں مصروف ہیں تو کیا ظاہر ہو رہا ہے؟ اسی طرح والدین کے حقوق کے بارے میں بھی ہمارا امتحان ہو رہا ہے ۔ اس کے بعد اللہ کی راہ میں جہاد کرنا افضل ترین عمل ہے جو حقوق اللہ میں شمار ہوتاہے ۔ 
چھٹی روایت یہ بھی بہت مشہور ہے۔فرمایا :(( آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ)) ’’منافق کی تین علامات ہیں۔ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جاتی ہے تو وہ خیانت کرتا ہے۔‘‘  مسلم شریف میں چوتھی علامت کا بھی ذکر ہے کہ’’ جب جھگڑا ہو جائے تو گالی گلوچ پر اُتر آتاہے ۔ ‘‘فرمایا: جس میں ان میں سے جتنی علامات ہوں، وہ اتنا ہی منافق ہے ، اگر چاروں علامات ہوں تو وہ پکا منافق ہے ۔  بدقسمتی سے آج یہ سب چیزیں ہمارے قومی مزاج میں شامل ہو چکی ہیں ۔ عوام سے لے کر حکمرانوں تک سب ان برائیوں میں مبتلا ہیں اور پھر اُن کو بُرا بھی نہیں جانتے ۔ حالانکہ ایک مسلمان کا یہ طرزعمل نہیں ہوتا ، بلکہ یہ منافق کا کام ہوتا ہے ۔ 
ساتویں حدیث بہت مشہور ہے۔فرمایا : ((الْمُسْلِمُ مِرْآةُ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ))’’مسلمان مسلمان کا آئینہ ہوتا ہے۔‘‘ اگر آئینے میں اپنا کوئی عیب نظر آئے تو آئینے کو توڑتے نہیں بلکہ اپنے عیب کو دور کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایک مسلمان میں اگر کوئی عیب نظر آئے تو دوسرا اس کی اصلاح کی کوشش کرتاہے ۔ اِلا یہ کہ وہ کسی بڑی گمراہی میں مبتلا ہو جائے تو لوگوں کو اس گمراہی سے بچانے کے لیےدوسروں کو بتانا ضروری ہوتاہے ۔
آٹھویں حدیث مبارک مبارک میں فرمایا : ((اَلدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ)) ’’نیکی کی دعوت دینے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘ دعوت دین تو ہمارا فرض ہے ۔ ہمارے سمجھانے ، بتانے سے کوئی نیک عمل کرنے لگ جائے تو اس کا اجر ہمیں بھی ملے گا ۔
9ویں روایت میں ہے کہ:((مَا قَلَّ وَكَفَى خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهَى))’’جو تھوڑا ہو اور کافی ہو جائے اس سے بہتر ہے جو بہت زیادہ ہو اور بندے کو غافل کر دے۔ ‘‘کم ہونے میں امتحان بھی کم ہے، زیادہ مال کا حساب بھی زیادہ ہوگا ۔اور پھر زیادہ مال و متاع مل جائے تو غافل ہونے بہک جانے اور گمراہ ہو جانے کےخدشات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ 
دسویں حدیث، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((اَلْغِنَى غِنَى النَّفْسِ)) ’’اصل غنا تو دل کا غنا ہے۔‘‘ مال کی کثرت، آسائشوں کی کثرت اصل غنا نہیں ہے۔ دل کا سکون ایمان حقیقی میں ہے ۔ اگر دل میں ایمان کی کیفیت ہے تو پھر حضرت سلیمان ؑ کی بادشاہت بھی مبارک ہے ، سیدنا عثمان غنی ؓ کی دولت بھی مبارک ہے ۔  ورنہ ابولہب و ابوجہل کی سردار ی ، قارون کی دولت اور فرعون کی حکومت بھی باعث ہلاکت ہے ۔ دل میں ایمان کی کیفیت ہوگی تو اللہ پر بھروسا ہوگا ، قناعت، صبر اور اللہ کی عطا پر راضی رہنے کا جذبہ ہوگا ۔زندگی پرسکون ہو جائے گی ۔ 
گیارہویں حدیث بخاری شریف سے ہے ۔ ایک صحابی؄ نے پوچھا ؛یارسول اللہ ﷺ قیامت کب آئے گی ۔ فرمایا : ’’تم نے کتنی تیاری کی ہے ۔‘‘ عرض کی : حضورﷺ تیاری تو زیادہ نہیں ہے مگر مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے پیار ہے ۔ فرمایا:((الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ)) ’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ ‘‘سب سے بڑھ کر محبت اللہ سے ہو اور اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ سے ہو تو یہ بھی رحمت اور اجر کا باعث ہے ۔ 
بارہویں حدیث ابن ماجہ سے ہے ۔ فرمایا : (( التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ))  ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘ انسان سے غلطیاں ہو سکتی ہیں ، اس وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جانا درست نہیں بلکہ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے ۔سچی توبہ کرلی جائے اور اللہ کے دین سے مخلص ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ پاک صاف کردے گا ۔
13ویں حدیث بخاری و مسلم دونوں سے ہے ۔  فرمایا:’’ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں:سلام کا جواب دینا،مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں شرکت کرنا۔ دعوت کو قبول کرنا ، چھینک کا جواب یرحمک اللہ کہہ کر دینا ۔ ‘‘یہ وہ باہمی حقوق ہیں جن کے ادا کرنے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے ۔
14ویں حدیث بھی بخاری ومسلم دونوں میں ہے ۔  فرمایا : ((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ))’’قطع تعلقی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ‘‘ہر انسان کے جذبات اور احساسات ہوتے ہیں ، ناراضگیاں ہو جاتی ہیں لیکن مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے قطع تعلقی کرلے ۔ 
15ویں حدیث بھی بخاری و مسلم سے ہے ۔ فرمایا : ((إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ))  ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو سو کرو۔‘‘حیا فطری جذبہ ہے جو بندے کو غلط کاموں سے روکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر حیا بندے کو اللہ سے کرنی چاہیے کہ اس کے احکامات نہ توڑے۔ پھر بندوں کے معاملات میں بھی حیا ہے۔ حیا کا وہ پہلو بھی ہے جس میں نکاح کا حکم ہے ، ستر و حجاب کے احکام ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حیا کی تاکید تمام نبیوں کی دعوت میں شامل تھی ۔ حیا سے ہی انسان اور معاشرہ باوقار اور معزز بنتا ہے جبکہ حیا نہ رہے توپھر شیطنت ننگا ناچ نچاتی ہے ۔ آج یہ بے حیائی کا طوفان ، فحاشی اور بے راہروی حیا کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ فیشن شوز کے نام پر ، کنسرٹس کے نام پر کیا کچھ ہورہا ہے ۔ لہٰذا انفرادی سطح پر ایمان وصحت کی بربادی اور اجتماعی سطح پر گھر ، خاندان اور معاشرہ کی جو تباہی ہورہی ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔
16ویں حدیث بھی بخاری و مسلم میں ہے ۔ فرمایا : ((إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ أَحْسَنُكُمْ أَخْلَاقًا))’’بے شک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب میرے لیے وہ ہے جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں۔‘‘ ہم میں سے کون نہیں چاہتا کہ ہم حضورﷺ کے محبوب بن جائیں مگر یہ عزت صرف نعروں سے یاسال میں ایک بار جشن میلاد منانے سے نہیں ملے گی ۔نمازیں ضائع ہورہی ہوں ، مخلوط محافل ہمارے ہاں ہوں ، بے پردگی اور بے حیائی ہمارے ہاں ہو ، سڑکیں بلاک کی جارہی ہوں ، میوزک استعمال ہو رہا ہو، لوگوں کو پریشان کیا جارہا ہو ، شریعت کی خلاف ورزی جبکہ بدعات پر عمل ہورہا ہو توان سب کاموں سے ہم حضور ﷺ کے محبوب نہیں ہو جائیں گے ۔  بلکہ حضور ﷺ خود بھی اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز تھے جیسا کہ قرآن میں ہے:{وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (4)}(القلم) 
’’اور آپؐ یقیناً اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘
اسی طرح آپ ﷺ کی اُمت میں سے بھی جو اخلاق میں سے اچھا ہوگاوہ آپﷺکے نزدیک سب سے محبوب ہوگا ۔
17ویں حدیث بھی بخاری و مسلم میں ہے ۔ فرمایا : (( الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ))’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔‘‘ مومن ادھر پابند ہے جبکہ جنت میں آزاد ہو گا۔ جبکہ کافر دنیامیں آزاد ہےاور آخرت میں ہمیشہ کے لیے جہنم کا قیدی بنے گا۔ جل رہا ہو گا،چیخ وپکار کر رہا ہو گا ، موت کی بھیک مانگے گا لیکن موت نہیں آئے گی ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا : { ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی(13)} (الاعلیٰ)
’’پھر نہ اس میں وہ مرے گا نہ زندہ رہے گا۔‘‘
18ویں حدیث مسلم شریف میں ہے ۔ فرمایا: (( كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِع))۔ ’’بندے کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے پھیلا دے۔‘‘مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ کسی پر الزام تراشی کی جا رہی ہو، کسی پر الزام لگایا جا رہا ہو،کسی کوبدنام کیا جارہا ہو تو اس کھیل کا حصہ بنے بلکہ مسلمان کے لیے حکم ہے کہ وہ پہلے تحقیق کرے :
{فَتَبَیَّنُوْٓا} (الحجرات:6)’’ تحقیق کر لیا کرو۔‘‘
لیکن آج ہمارے معاشرے میں کسی کو بدنام کرنا ، بلا سوچے سمجھے الزام تراشی کرنا اور کردار کشی کرنا عام سا فعل بن گیا ہے جس پر کسی کو کوئی ندامت نہیں ہوتی ۔ جبکہ آخرت میںہم اس کاحساب چکائیں گے ۔
19 ویں حدیث بھی بخاری و مسلم میں ہے ۔ فرمایا : ((لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ)) ’’تم میں سے کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی بات پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
آج ہمارے معاشرے میں کیا ہورہاہے ؟ راستے میں یا گھر کے سامنے کوئی گاڑی کھڑی کردے تو سخت غصہ آتاہے لیکن خود وہی کام کریں تو کچھ محسوس نہیں ہوتا ،اپنی بیٹی کی شادی ہوتو ہم چاہتے ہیں کہ وہ رانی بن کر رہے اور دوسرے کی بیٹی بہو بن کر گھر میں آجائے تو ہم چاہتے ہیں کہ وہ نوکرانی بن کر رہے۔ کسی جنرل، کرنل کی میمز (memes) بن جائیں تو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوجاتے ہیں ، لیکن امام الانبیاء ﷺکی شان میں گستاخی ہو ، صحابہ کرام اور اہل بیت ؇کی شان میں گستاخی ہو، مقدسات کی توہین ہو رہی ہو تو ماتھے پر شکن تک نہیں آتی بلکہ گستاخوں کو بچانے کے لیے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپنے لیے معیار کچھ اور ہے دوسروں کے لیے کچھ اور ہے ۔ اس کے برعکس اگر ہم احادیث پر عمل کریں تو ہمارے آدھے مسئلے حل ہو جائیں۔ 
20 ویں حدیث بھی بخاری و مسلم میں ہے :(( أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔)) ’’میں خاتم النبیین ؐ ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اس عقیدے کا تحفظ بھی ضروری ہے اور اس عقیدے کا جو تقاضا ہے اس کو پورا کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ ختم نبوت کا تقاضا ہے کہ حضور ﷺ کے مشن کواب یہ اُمت لے کر آگے بڑھے اور دین کو قائم کرنے کی جدوجہدکرے ۔
21ویں حدیث بخاری شریف میں ہے ۔ فرمایا: (( لَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا۔))’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ، حسد نہ کرو ، ایک دوسرے کو دھوکہ مت دو ، قطع تعلق مت کرو ، اللہ کے بندو ، آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ ۔‘‘
22 ویں حدیث مسلم شریف میں ہے ۔ فرمایا : ’’جو کسی مسلمان کو دنیا کی کسی مصیبت سے چھڑائے گا اللہ اس کو قیامت کی مصیبتوں سے چھڑا دے گا اور جو کسی مشکل زدہ، مفلس، پریشان پر آسانی کا معاملہ کرے گا اللہ اس شخص کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں آسانی فرمائے گااور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے تواللہ اس بندے کی دنیا اور آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا اورجو بندہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتاہے اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتاہے۔ ‘‘ 
23ویں حدیث میں فرمایا :(( مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا)) جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ 10 مرتبہ اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔حضور ﷺ نے دعا کے شروع اور آخر میں درود کی تلقین کی ہے تا کہ دعا کے شروع میں بھی رحمت کا نزول ہو جائےاور آخر میں بھی ۔ درود شریف کی برکت سے دعا بھی ان شاء اللہ قبول ہو گی۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ مجھ پر درود بھیجا کرو۔ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔روز محشرجہاں ماں باپ بھی کام نہیں آئیں گے وہاں حضور ﷺ ہمارے لیے سفارش کریں گے ۔
24 ویں حدیث بھی معروف ہے ۔ فرمایا : ((الدِّينُ النَّصِيحَةُ)) ’’دین تو وفاداری اور خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ پوچھا گیا کس کے لیے ؟ فرمایا : اللہ کے ساتھ وفاداری، اللہ کی کتاب کے ساتھ ، اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ وفاداری، مسلمانوں کے آئمہ یعنی حکمرانوں اور عوام کی خیرخواہی ۔ نیک اور صالح ، اسلام کے مطابق فیصلے کرنے والے آئمہ اور حکمرانوں کے ساتھ وفاداری دین کا تقاضا ہے۔
25ویں حدیث  میں فرمایا :(( رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ))وہ شخص ہلاک و برباد ہو جائے (آپ ﷺ نے یہ تین مرتبہ فرمایا ) ۔ پوچھا گیا کون ؟ فرمایا :(( مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ، أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا، فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ))
’’ جس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں یا ایک کو  بڑھاپے میں پایا اور جنت نہ حاصل کی ۔‘‘والدین کی خدمت کرکے جنت حاصل ہو سکتی ہے ۔ جو شخص یہ موقع  گنوا دے اس سے بڑا بدقسمت شخص کون ہوگا۔
26 ویں حدیث قدسی ہے جس میں ذکر ہے کہ  اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں اللہ ہوںاور میں رحمٰن ہوں۔ میں نے رحمی رشتوں کو تخلیق کیا ، اور رحم میرے نام سے منسوب ہے ۔ لہٰذا جس نے رحمی رشتوں کو جوڑا ، میں بھی اس کو جوڑوں گا اور جس نےان کو توڑا میں بھی اس کو توڑ دوں گا ۔ یعنی اپنی رحمت سے دور کردوں گا ۔
27ویں حدیث میںشرک کی ممانعت ہے ۔ فرمایا : (( لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا))۔ ’’اگر میں کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ کرنے کے لیے کہتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘ یعنی اللہ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں ہے ۔ دوسرے پہلو میں بیوی کے لیے بھی ہدایت ہے کہ وہ شوہر کی فرمانبرداری کرے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو بیوی اپنے شوہر کی خدمت گزار اور فرمانبردار ہو اس کو آخرت میں اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔ 
28ویں حدیث حضرت عائشہ صدیقہk سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنےگھر والوں کے لیے بہترین ہو اور میں تم میں سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہوں۔‘‘اس میں شوہروں کے لیے ہدایت ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ میں اخلاقیات کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں ۔  
29ویں حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے تین مرتبہ اللہ کی قسم اُٹھا کر فرمایا :’’جس کی ایذا رسانیوں  سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو وہ مومن نہیں ہے ۔‘‘ آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں کہ ہم کس کس طرح دوسروں کو تکالیف دے رہے ہیں ۔
30 ویں حدیث میں فرمایا :’’وہ ہم میں سے نہیں  ہے جو چھوٹوں کے ساتھ شفقت نہ کرے اور بڑوں کا ادب احترام اور اکرام نہ کرے ۔‘‘
آج ہمارے معاشرے میں اللہ کے رسول ﷺ کے ان احکامات کی کس قدر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، وہ ہم سب کے سامنے ہیں اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لیں۔ صرف جشن میلاد النبی منا لینے سے یا حضور ﷺ  سے محبت کے زبانی دعوے کرنے سے ہم حضور ﷺ کے محبوب اُمتی نہیں بن سکتے ۔ سچا اُمتی اور سچا مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضورﷺ کے احکامات کی پیروی بھی کریں ۔کیا ہی اچھا ہو کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں حضور ﷺ کی احادیث مبارکہ کا بھی مطالعہ کیا اور کروایا جائے اور آپ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین بھی کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور ﷺ کا سچا اُمتی اور سچا مسلمان بننے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !