اداریہ
رضاء الحق
قدرتی آفات !
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ گزشتہ 23 ماہ کے دوران مسلسل وحشیانہ بمباری سے میڈیا میں بتائے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب زخمی ہوئے۔امریکی اسلحہ کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کی دجالی فوج نے جس طرح غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہداء اور زخمیوں کی تعداد بتائے جانے والے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ اب اسرائیل بھوک اور پیاس کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ہمارے اور دیگر مسلم ممالک کے حکمران، مقتدر طبقے اور ’’دانشور‘‘ حضرات کبھی کھلے عام اور کبھی نجی محفلوں میں کہتے سنائی دئیے کہ یہ تو اہلِ فلسطین کا معاملہ ہے، اس سے ہمارا کیا لینا دینا۔ بعض حضرات اسرائیل کی دجالی فوج کے خلاف فلسطینی مجاہدین کی کارروائیوں کے حوالے سے جہاد و قتال کی نوعیت پر بحث کرتے نظر آئے، حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حرمتِ مسجِد اقصیٰ ایسے ہی ہے جیسے (خاکم بدہن )مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ پر (معاذ اللہ) دشمن حملہ کر دے۔ تفصیل کا موقع نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات غیور و حلیم ہے تو منتقم بھی ہے۔ ملک ِعزیز کو آج طوفانی بارشوں اور بدترین سیلاب نے گھیر رکھا ہے بلکہ صحیح تر الفاظ میں ڈبو دیا ہے۔ملک کے بعض علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے مناظر میں غزہ کی بربادی کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرتی آفات کبھی آزمائش، کبھی تنبیہہ اور کبھی عذاب کی صورت میں نازل ہوتی ہیں۔ حکمرانوں اور اشرافیہ کی نااہلی اور بدعنوانی (خاص طور پر دریاؤں، ندی نالوں کے قرب و جوار میں ناجائز ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور شمالی علاقہ جات میں دریاؤں کے قدرتی راستوںپر ہوٹل بنا لینا) آبیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ ظاہری اسباب میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بھی ہیں۔ حالانکہ 2007ء میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیاتھا، جس کا مقصد آفات سے بچاؤ کے لیے پیشگی حکمت عملی بنانا اور ہنگامی اقدامات کرنا تھا۔ لیکن ہر سال کروڑوں کا بجٹ ملنےکے باوجود اِس ادارے کا وجود صرف کاغذوں یا پریس کانفرنسوں تک محدود ہے۔ بہرحال ہمارا اِن سطروں میںمقصود یہ ہے کہ قدرتی آفات کے اسباب کی کسی درجہ میں نشاندہی ہوجائےتاکہ دینی و دنیوی دونوں سطحوں پر مقصود طرزِ عمل کو اپنانے کی ترغیب بن سکے۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اِذن سے۔‘‘(التغابن:11)
حقیقت یہ ہے کہ موجودات کا ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے اِذن کے بغیر نہیں ہل سکتا۔یہی معاملہ قدرتی آفات کا بھی ہے۔ سیلاب، طوفان، زلزلے، وبائیں، سب کے کچھ ظاہری و عارضی اسباب اور کچھ باطنی و حقیقی اسباب مقررہوتے ہیں۔ظاہری اسباب سے بحث کا تعلق ہمارے علم سے تو ضرورہوتا ہے لیکن ہمارے باطن اور عمل کے صالح یا غیر صالح ہونے سے ہونا ضروری نہیں، البتہ باطنی اسباب کا تعلق ہر حال میںہمارے علم اور عمل دونوں سے لازماً ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ظاہری اسباب بھی تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب باطنی و حقیقی اسبا ب لوگوں میں سرائیت کر جائیں۔ ماحولیاتی تبدیلی اور آلودگی ساری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔ سیلاب ہمارے ہی خطہ کے دیگر ممالک میں بھی آئے ہیں، لیکن وہاں انسانی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کا انتظام موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’جس (اللہ) نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘(الملک:2) گویا دنیا ایک امتحان گاہ ہے جس کا نتیجہ ہر فرد کو روزِ حشر تھمایا جائے گا۔ اِسی مضمون کو مزید کھول کر سورۃ البقرۃ میں یوں بیان فرمایا:’’اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے اور (اے نبیﷺ ) بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں کو، وہ لوگ کہ جن کو جب بھی کوئی مصیبت آئے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔‘‘( البقرۃ:155، 156)
شدید ترین بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب نے کھڑی فصلوں اور مال مویشیوں کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا یہ بات ہر مسلمان کو ہر حال میں مستحضر رہنی چاہیے کہ دنیا میں اُس کی مختلف طریقوں سے آزمائش ہو گی اور مسلمان کو ہر حال میں ،چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو، صبر سے کام لینا ہے۔ وہ یہ یاد رکھے کہ پلٹ کر ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اُخروی کامیابی ہی دائمی اور اصل کامیابی ہو گی، جیسا کہ فرمایا: ’’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ تو قیامت ہی کے دن دیا جائے گا تو جو کوئی بچالیا گیا جہنم سے اور داخل کردیا گیا جنت میں تو وہ کامیاب ہوگیا۔‘‘ (آل عمران: 185) البتہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو تو ایک بڑے مشن یعنی اللہ کے دین کو خود پرنافذ کرنے،اپنے گھر سے آغاز کر کےاسلام کی آفاقی دعوت کو چار دانگ عالم میں پھیلانے اور اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی یعنی اللہ کے دین کو اُس کی زمین پر قائم و نافذ کرنے کا مشن حضورﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر خود سونپ کر گئے ہیں، اور حجۃ الوداع کے خطبہ کے اختتام پر فرمایا: ’’جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔‘‘ ( رواہ مسند الدارمی) پھر یہ کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ مسلم اُمہ کی اِسی ذمہ داری کو یوں بیان فرماتا ہے: ’’تم وہ بہترین اُمّت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے ، تم حکم کرتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو بدی سے اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر ۔ ‘‘ (آل عمران: 110)
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ اُمت جسے اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہو بلکہ برپا ہی اس لیے کیا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت کو عام کرے یعنی دنیا والوں کے خلاف گواہ {شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ } (البقرہ: 143)کی حیثیت اختیار کرنے کی بجائے مستقلاً اپنے اِس فرضِ منصبی سے غفلت برتے اور دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کو misrepresent کرنے لگے، تو آزمائش سے بڑھ کر یہی قدرتی آفات اُس اُمت کے لیے تنبیہات اور بعض اوقات عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت حذیفہ بن یمان h سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم معروف (بھلائی) کا حکم دو اور منکر (برائی) سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے“۔ (رواہ الترمذی )اِس حدیثِ مبارکہ کے عربی متن میںآپ ﷺ کا فرمان: ”والذی نفسي بيده“ ایک قسم ہے، اس میں آپ ﷺ اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں، اس لیے کہ تمام لوگوں کی جانیں اس کے ہاتھ میں ہیں، وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے، جسے چاہتا ہے مارتا ہے اور جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ لہٰذا لوگوں کی جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، ہدایت و گمراہی، زندہ کرنا و مارنا اور ہر چیز میں تصرف اور اس کی تدبیر کرنا، اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔اور کبھی آپﷺ اس طرح قسم فرماتے: ”والذي نفس محمد بيده“۔ اس لیے کہ آپ ﷺ سب سے پاکیزہ جان ہیں۔ اس لئے یہاں آپﷺ سب سے پاکیزہ اور طیب جان کی قسم فرما رہے ہیں۔ پھر جس چیز کی قسم اٹھا رہے ہیں اس کا ذکر فرمایا اور وہ یہ ہے کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں ورنہ اللہ ہم پر اپنا عذاب بھیج دے گا اور ہماری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔
آج مسلمانانِ پاکستان اپنا جائزہ لے لیں کہ وہ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں۔ اچھے کو اچھا کہنا، برے کو برا کہنا اور دعوتِ دین کی گواہی تو دور کی باتیں ہیں۔ 78 سال گزر چکے لیکن اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکتِ خداداد پاکستان میں معیشت سود، جوئے اور سٹے، اشرافیہ کے گٹھ جوڑ اورمراعات یافتہ طبقوں کے دھندے پر چل رہی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے کم و بیش ساڑھے تین سال قبل ایک مرتبہ پھر ہر نو ع کے سود کو ربا اور حرام قرار دیا گیا تھا، لیکن حکومت کسی کی بھی ہو اس فیصلہ پر عمل درآمد کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کھلی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بے حیائی اور فحاشی تمام حدیں پار کر رہی ہے، جس میں الیکٹرانک میڈیا بڑھ چڑھ کر کردار ادا کر رہا ہے اور سوشل میڈیا کی بے لگامی نے تو حیا اور ایمان کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ پھر نام نہاد این جی اوز’’ عورتوں کے حقوق‘‘ اور’’مادرپدر آزادی ‘‘کے نام پر عورت کی عزت پامال کرنے اور خاندانی نظام کو برباد کرنے کا مغربی تہذیب سے درآمد شدہ ابلیسی ایجنڈا تندہی سے آگے بڑھا رہی ہیں۔لیکن غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف انسانی حقوق کے اِن نام نہاد علمبرداروںنے ’’چوں‘‘ تک نہ کی کہ کہیں آقا ناراض نہ ہو جائے۔ معاشرے کا عمومی طرزِ عمل یہ ہے کہ جھوٹ، دھوکہ دہی، خیانت، بدزبانی کے ساتھ ساتھ زنا، اراکینِ اسلام کی پامالی، مساجد میں شور، گھریلو ناچاکیاں، گانے باجے کی بہتات، کھلے عام شراب اور جوئے کی محافل، اللہ کے کلام کی مخالفت میں عدالتی فیصلے، دنیا کی چکاچوند نے دلوں پر اپنا سحر طاری کر رکھا ہے۔ الا ما شاء اللہ! اگرچہ حالیہ سیلاب میں بے گھر ہونے والے افراد اور خاندانوں کی مدد کے لیے دینی سیاسی جماعتوں سے وابستہ رفاحی اداروں نے ریلیف اور ریسکیو آپریشن میںاہم کردار بھی ادا کیا ہے اور عوام نے دل کھول کر متاثرہ خاندانوں کی امداد کے لیے رقوم فراہم کی ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے توپارلیمان کا یہ حال ہے کہ کبھی ٹرانسجینڈرز کے حقوق کے نام پر ہم جنس پرستی کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی کرتی دکھائی دیتی ہے تو کبھی ملک کے طاقتوروں کو غیر مشروط فائدے بہم پہنچاتی نظر آتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور بھائی بھائی کا گلاکاٹ رہا ہے۔ نظام تعلیم میں سائنس و ٹیکنالوجی اور انگریزی و حساب پر تو بہت زور ہے، جو ہونا بھی چاہیے، لیکن قرآن مجید اور صاحب قرآن ﷺکے اخلاق حسنہ، جو کہ آپ ﷺ کی ایک امتیازی شان ہے اور ایک مسلمان کے لئے تعلیمی نصاب کا اہم ترین جزو بھی، کی نصابِ تعلیم میں دور دور تک جھلک دکھائی نہیں دیتی۔
اللہ اللہ کر کے 1980ء کی دہائی میں ہونے والی فرقہ وارانہ دہشت گردی پر قابو پایاگیا تھا۔ لیکن افسوس کہ علماء میں بھی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو ایک ایسے ترجمہ قرآن، جس پر پانچوں وفاق متفق ہیں اور جس کی تعلیم بطور لازمی مضمون کے وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جاری ہے بلکہ اب بلوچستان میں بھی شروع ہو چکی ہے، جس سے مسلمانانِ پاکستان کی اگلی نسلوں میں قرآن سے جڑنے کا ذوق و شوق پیدا ہونے کا ”خدشہ “ہے، اُسے فرقہ واریت کا رنگ دینے کے لیے افکار کے جنگل یعنی سوشل میڈیا پر متنازع بنانے کی کوشش کر کے نہ جانے کس کا ایجنڈا پورا کیا جا رہا ہے۔ بیوروکریسی میں رشوت عام ہے۔ عدالتیں چھوٹی ہوں یا بڑی ان سے منسلک لوگ یہ تک کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وکیل کیوں کرنا ہے، جج ہی کر لو۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے اصل آئینی کردار پر پوری توجہ رکھنے کی بجائے سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی ہے اور ایک سیاسی پارٹی کے خلاف ہر طرح کا غیر سیاسی بلکہ غیر انسانی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مقتدر حلقوں نے بدترین سلوک کیا لیکن اس مرتبہ ہائبرڈسسٹم نے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ کہاں ہے عدل و انصاف اور اُن کے پہرہ دار؟ ایک ’’بڑے‘‘ کی یہ خواہش کہ نام کے ساتھ کوئی بڑا سابقہ یا لاحقہ لگ جائے، پوری ہو چکی ہے۔ سرحدوں پر ایک مرتبہ پھر آپریشن کے نام پر ’’ہرج‘‘ (عربی والا)جاری ہے۔ سیاست دانوں کا یہ حال ہے کہ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنی میں بدل چکے ہیں اور یہی معاملہ ایک ہی گھر میں دو مختلف پارٹیوں کو سپورٹ کرنے والوں کا بھی ہے۔ عوامی سطح پر بھی حالات زیادہ مختلف نہیں۔ریڑی والا ہو یا مزدور، خاکروب ہو یا دودھ بیچنے والا ،ہر کوئی اپنی مقدور بھر کرپشن میں ملوث ہے۔ مسلمانوں کی واحد ایٹمی قوت ہونے کے باوجود پاکستان نے اب تک مسجدِ اقصیٰ کی حرمت اور غزہ کے مسلمانوں کی عملی مدد کے لیے کوئی لائحہ عمل پیش نہیں کیا۔ سچ پوچھیں تو ہمیں اس میں آزمائش سے زیادہ تنبیہہ اور عذاب کا کوڑا دکھائی دیتا ہے۔واللہ اعلم! شنید ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے ان افراد جن کی املاک کو سیلابی ریلوں نے شدید نقصان پہنچایا کو ناجائز جگہ پر رہائش رکھنے کی وجہ سے معاوضہ نہ دینے کا فیصلہ کیا