گرا ہے جس بھی خاک پر قیامتیں اُٹھائے گا
عامرہ احسان
امریکہ کی چالبازی، عہد شکنی، کھلے جھوٹ، دغا، فریب کے گھنے سیاہ سائے تلے اسرائیل نے اپنی ڈھٹائی اور بے حیائی سے لڑی جانے والی ہولناک غزہ جنگ سے عملاً دنیا بھر میں فرد فرد کو نفرت سے بھر دیا ہے۔ نہ صرف یہ دونوںممالک، بلکہ ان کے سبھی شراکت کار، افراد، قومیں، ادارے دنیا بھر کے عوام نے تاک رکھے ہیں۔ اس کا اظہار ہر سطح پر ہو رہا ہے۔ فلمی ایوارڈ کی تقریبات ہوں، کھیلوں کے میدان، تعلیمی ادارے، ہوٹل، ریسٹورانٹ، ہر جگہ فلسطینی پرچم پہنچ جاتے ہیں۔ دنیا میں کپڑے کی سب سے زیادہ کھپت فلسطینی جھنڈوں میں ہوتی لگ رہی ہے! اس جنگ کے سارے ’ویلن‘ اب بازی ہاتھ سے نکلتی دیکھ کر نت نئے گر آزما رہے ہیں۔ ٹرمپ زبان بدل بدل کر صفائیاں پیش کرتا ہے۔ قطر کا جہازجو اس بدمعاشِ اعظم کو ذاتی استعمال کے لیے تحفہ دیا گیا تھا، 400 ملین ڈالر کا، اب اس میں بیٹھتے وہم تو اُٹھتے ہوں گے، سوئیاں تو چبھتی ہوں گی۔ مسلمانوں کا ہوائی جہاز ہے قلا بازی نہ کھا جائے۔ یہ منظر دیکھیے، تین قاتل شیاطین کا۔ اسرائیل (یعنی فلسطین) میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی اور نیتن یاہو، دیوارِ گریہ پرمسکین بنے، ٹوپیاں پہنے، سر جھکائے اپنے عقیدے میں (شاید دجال کے آگے) گریہ زاری کر رہے ہیں! ’ہم برے پھنسے ہیں نئے کر تب سمجھا دے۔‘ یہ امریکی حکومت کے نمائندے ہیں؟
دنیا کے ہر ملک، ہر کونے کھدرے میں، ہر زبان میں یکساں نعرے اُن کے کان پھاڑے دے رہے ہیں۔ اسرائیل کے لیے موت، نسل کشی، قتل عام اور جنگ کا خاتمہ۔ جس پر یہ جنگ تیز ترین کرکے جلد از جلد اپنے مذموم ترین، ملعون مقاصد پورے کرنا چاہ رہے ہیں۔ 72 گھنٹے میں غزہ کی 200 رہائشی بلڈنگوں کا تباہ کیا جانا۔ ٹینٹوں کی کسمپرسی کے باوجود 350 ٹینٹ نشانے پر لینا۔ آٹھ سب سے بڑے ٹاور تباہ کر دئیے۔ بلند بانگ دعوئوں، وعدوں سے کیے ابراہمی معاہدے قطر پر بمباری سے نذر آتش کر دینا۔ یعنی یہ وقعت ہے تم سے ہمارے عہد، معاہدوں اور امریکہ کے موعودہ تحفظ، دوستی، سلامتی کی! رد عمل ہر سطح پر شدید ہے۔ عرب ممالک کلبلا رہے ہیں، بھنا اٹھے ہیں،خلیج میں زلزلہ آگیا ہے۔ ایک امریکی نے کہا: اگر قطر میں پسلی ہوتی تو ملک سے امریکی فوج کو نکال پھینکتا۔ تاہم قطر میں خلیجی ریاستوں کی روش کے برعکس ایک غیر معمولی بڑا مظاہرہ ہوا جس میں اسرائیل کو جواب دینے کا مطالبہ ہوا۔ دوحہ میں عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی اجلاس کا انعقاد ہوا۔
افراد کی سطح پر امریکہ، اسرائیل، فار رائٹ یعنی سفید فام نسل پرست( دہشت گرد، مسلمان دشمن اتحادیوں) سے نفرت کا مظہر چارلی کرک کا قتل ہے۔ جس نے ان تینوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کرک، دائیں بازو کا انتہائی انتہا پسند، ٹرمپ کا قریب ترین ساتھی، 2024 ء کے انتخابات میں اسے جتوانے میں اہم ترین کردار، ملک بھر میں 850 یونیورسٹیوں میںشا خیں ہیں اس کی تنظیم کی۔ غزہ میں اسرائیلی جرائم، بچوں کے قتل کو بھی زندگیوں کے تحفظ کے لیے اسرائیل کا حقِ دفاع قرار دیتا رہا۔ مسلمانوں کے خون کا پیاسا، سفید فام برتری اور فار رائٹ انتہا پسندانہ تصورات کا پرچارک۔ عین وہی سوچ جو نیوزی لینڈ کی مسجد میں لائیو کیمرے پر نمازیوں پر گولیاں برسانے والے فار رائٹ رکن کی تھی۔ ٹرمپ نے امریکی جھنڈا سرنگوں کروایا۔ اُسے آئندہ امریکی صدارت کے لیے تیار کیا جا رہا تھا کہ 22 سالہ ٹائیلر رابنسن نے تاک کر نشانے پر لیا۔ اس کی گولی کے کور پر’ او فاشسٹ‘ اور دوسری گولی کے کور پر بھی فاشزم مخالف نعرے کا ایک ٹکڑا لکھا تھا جو ان دنوں آن لائن مقبول تھا۔( دنیا امریکی، اسرائیلی، سفید فام برتری ،انتہا پسندی بھرے قہر و ظلم سے شدید متنفر ہے۔) اس قتل پررابرٹ کارٹر نے لکھا:’’کرک نے اپنی زندگی اسلام کے خطرات کے خلاف متنبہ کرتے گزاردی اور وہ سفید فام عیسائی کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ کیسی دنیا ہے یہ!‘‘ یہ دنیا اسرائیل ،امریکہ اور ٹرمپ، کرک، ایلون مسک جیسے فار رائٹ انتہا پسندوں نے خون ِ مسلم کی ندیاں بہا کر بنائی ہے! ان کا آلہ کارنتین یا ہو ہے صیہونیوں کا نمائندہ۔ اُس خونریزی کے رد عمل میں دنیا اب لرزا براندام ہے تو یہ گھبرا اُٹھے ہیں۔
گرا ہے جس بھی خاک پر قیامتیں اٹھائے گا
یہ سرخ سرخ ، گرم گرم ، تازہ نوجواں لہو
سیاسی معاشی تجارتی سطح پر مغرب کے لیے ایک خاموش چیلنج، شنگھائی کو اپریشن آرگنائزیشن (SCO )کی صورت اُبھرا ہے حالیہ اجلاس میں۔ بیس سربراہان مملکت اور بین الاقوامی تنظیموں کے سر برا ہوں کی شرکت اور چین کا تقریباً ایک متبادل ورلڈ آرڈر کا منظر دنیا کو دکھا دینے کے مترادف تھا۔ ٹرمپ بھارت کو بھی ناراض کر کے لنڈورے چوہے کی مانند تنہا دبکا دکھائی دے رہا تھا۔ بھارت اور چین کے قرب پر ماتھا ٹھنکا تو بعد ازاں بھارت کو مکھن لگانے پڑے۔
قطر پر حملے اور اسرائیل کے پہلے سے تیز تر غزہ میں قتل عام،مڈل ایسٹ مانیٹر میں ڈاکٹر رچرڈ ہل اور ڈاکٹر گڈین پولیا کے مطابق غزہ( ہولو کاسٹ) میں 6 لاکھ 80 ہزارفلسطینی بشمول 3 لاکھ 80 ہزار بچے دو سالوں میں شہید ہوئے ہیں۔اس کے نتیجے میں مغربی دنیا میں حکومتوں کی جان پر بن آئی ہے۔ نیوزی لینڈ میں ایسی مارچ کہ حد نظر تک سرہی سرتھے۔ فلوٹیلا الگ جابجاسمندروں میں اتر آئے۔ مقبولیتِ اسلام، اسرائیل سے نفرت، یونیورسٹیوں، Gen Z کی سطح پر خصوصاً مغرب کے لیے حلق کی پھانس بن رہا ہے۔ پولیس، سخت تر قوانین بھی مؤثر نہیں ہو رہے۔ لہٰذا اب انھوں نے اپنی اصلی نظریاتی پارٹی کو متحرک کیا اور لندن میں فار رائٹ نے تارکین وطن کے خلاف (بہانہ!) بڑی بھاری تیاری کے ساتھ لاکھ سے زائد جنونیوں کو اٹھا کھڑا کیا۔ یادر ہے کہ7اکتوبر سے برطانیہ بھر میں فلسطینیوں کے حق میں عظیم الشان مظاہرے، ریلیاں، سیمینارز، یونیورسٹیوں میں ہل چل بپا رہی۔ اس میں برطانوی آبادی کے ساتھ کافی بڑا حصہ تارکینِ وطن کا بھی تھا۔ ایک خطر ناک اتحاد تھا تمام مغربی ممالک میں مقامی و تارکین وطن آبادیوں کا، جو ان کی سیاست کے لیے ایک خطر ناک رجحان تھا۔ ان کی حکومتیں تو’ تقسیم کرو اور لڑاؤ‘ کی بنیاد پر قوت پاتی ہیں! سواب فار رائٹ ریلی میں (کنگڈم) ’بادشاہت‘ کو متحد کرو ،کا نعرہ تھا۔ برطانوی جھنڈے (فلسطینی جھنڈوں کی جگہ) لہرا کر پچھلی ریلیوں کی روش مٹانے، اظہارِ نفرت کی کوشش تھی۔ برطانوی معروف اسلام دشمن ٹامی رابنسن نے یہ مہم منظم کی۔ تصادم بھی ہوئے پولیس کے درجنوں افسر زخمی ہوئے۔ سنٹرل لندن میں ای لون مسک نے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا، جلتی پر تیل چھڑکنے کو۔ تارکین وطن اور حکومت کے خلاف بولا۔ برطانیہ میں نئی حکومت لانے کی ضرورت پر زور دیا! مقابلے میں برطانوی باشعور افراد دور دور سے اُبھارے جانے والی نفرت کے خلاف آئے۔ انھوں نے کہا کہ ہما را پیغام یہ ہے کہ لندن فاشسٹ شہر نہیں۔ فاررائٹ فسادیوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ وزیر اعظم سٹار مرنے متشدد رویے پراظہارِ ناراضگی کیا۔’ پولیس افسروں پر حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ ہماری سڑکوں پر لوگ اپنے نسلی پس منظر یا رنگت کی بنا پر ہراساں نہیں کیے جائیں گے۔ برطانیہ نسلی تنوع، احترامِ باہمی اور برداشت پر بنی قوم ہے۔ قومی جھنڈے کو جو تقسیم، تشدد اور خوف کی علامت بنانا چاہیں، ہم کبھی اس پر ہتھیار نہ ڈالیں گے۔‘
یہ کشادگی ہی مسک کے لیے تکلیف دہ ہے! مسک نے برطانوی عوام کو بھڑکا یا کہ ’ انتخاب تمھارا ہے۔‘ (یہ اس کی سیاہ قمیض پر دجالی ایک آنکھ کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔) تم اس صورتحال کے خلاف لڑو گے یا مرنا چاہو گے؟‘ اس پر تجزیہ سامنے آیا۔’ تم کتنے احمق ہوگے اگر تم سمجھو کہ دنیا کا امیر ترین آدمی تمھارے ساتھ ہے… اس کی واحد ترجیح یہ ہے کہ اس کی قوت اور دولت برقرار رہے۔ امراء تارکین کو الزام دیتے ہیں تاکہ تم انھیں الزام نہ دو۔‘ اہل غزہ کی استقامت حسب سابق ہے۔ حالات کی شدت و نزاکت بھوک، شہادتیں، زخم، دربدری بدستورہے۔ ہمارے سجدے، دعائیں ،حکومتوں پر دباؤ، قوم میں بیداری کی کوشش، خود مضبوط بننے، سول ڈیفنس، فرسٹ ایڈ کا اہتمام، دنیا پرستی، خودپرستی کے امراض سے بچاؤ لازم ہے۔ آنے والے وقت سبھی مسلمانوں کے لیے خطرات لیے ہیں۔ قطر سے زیادہ آپ امریکہ کو محبوب نہیں ہو سکتے۔ہماری امریکہ سے دوستی میں خوش فہمیاں؟ ناگ پالنے کے برابر ہے! الحذر… سبق حاصل کیجیے۔ ملک سنوار یے۔ سیاستیںبہتر وقتوں کے لیے اٹھا رکھیں! ہر سطح پر اتفاق و اتحاد دنیاوی اور اخروی مستقبل کی خاطر … سنجیدگی، کفایت شعاری در کار ہے۔ باہر کے دوروں میں ناگزیر افراد کمترین وقت کے لیے جائیں۔ ’قدر کھو دیتاہے ہر روز کا آنا جانا‘۔ غریب قوم کے بل پر سیر و سیاحت نہ کی جائے۔