ڈاکٹر اسراراحمدؒ اکثر فرمایا کرتے تھےکہ پاکستان کا قیام اللہ
کا خاص منصوبہ ہے ،اُس نے پاکستان سے کوئی بڑا کام لینا
ہے ، وہی ساری باتیں آج سامنے آرہی ہیں :آصف حمید
پاک سعودی مشترکہ دفاعی معاہدہ ایک تاریخی پیش رفت
ہے ۔ اب اِسے آگے بڑھاکر دیگر مسلم ممالک کو بھی اس
معاہدے میں شامل کیا جائے : رضاء الحق
اسلامی سربراہی کانفرنس : توقعات اور نتائج کے موضوع پر
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : وسیم احمد باجوہ
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسلم ممالک کی جانب سے کچھ ردعمل سامنے آیا ہے ۔کیا اسرائیلی جارحیت کے ردعمل کے طور پر مسلم ممالک متحد ہو جائیں گے ؟
آصف حمید :اسرائیلی حملے کے بعد قطر کی جانب سے دوحا میں کچھ مسلم ممالک کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس میں پاکستان اور سعودی عرب کے حکمران بھی شامل ہوئے۔ اگرچہ کچھ مسلم ممالک کے سربراہان شامل نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی خوشی ہے کہ کچھ مسلم ممالک نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر کسی عزم کا اظہار کیا ۔ 25 نکاتی قرارداد بھی پیش کی گئی ۔ پاکستانی وزیراعظم نے بھی تقریر کی ، ترکیہ اور ایران کی جانب سے بھی شرکت ہوئی ، اسرائیلی جارحیت کی مذمت بھی کی گئی لیکن اسرائیلی کے خلاف کسی عملی اقدام کی بات اب تک سامنے نہیں آئی اور نہ ہی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی بات کی گئی ۔ البتہ قطر کے امیر نے ہمت کرتے ہوئے وہی بات کہی ہے جو ڈاکٹر اسراراحمدؒ برسوں سے کہتے آئے تھے کہ صہیونیوں کا منصوبہ گریٹر اسرائیل کا قیام ہے اور اس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کی خود مختاری اور سالمیت خطرے میں ہے ۔ کافی عرصہ بعد مسلم ممالک اکٹھے ہوئے تھے تو امید تھی کہ اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بات کی جائے گی ۔ بجائے اس کے امریکہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا کہ اس نے امن کے لیے بڑی کوششیں کی ہیں حالانکہ امریکہ کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے ۔ اسی طرح اہل غزہ کی مدد کے لیے گلوبل صمود فلوٹیلا کے نام سے جو امدادی قافلہ غزہ کی جانب رواں ہے ، اجلاس میں اگر اس قافلے کی حمایت کی جاتی اور اعلان کیا جاتا کہ ہم اس کی حفاظت کریں گے تو بہت اچھا ہوتا لیکن اس کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔ صرف عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل پر معاشی پابندیاں عائد کرے ۔ بظاہر یہ اجلاس بھی روایتی قسم کا اجلاس تھا جس سے اسرائیل اور امریکہ کو کوئی سخت پیغام نہیں دیا گیا اور نہ ہی کسی جوابی کارروائی کا اعلان کیا گیا ۔ اسی طرح وہ مسلم ممالک جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے ،جیسے اُردن ، متحدہ عرب امارات ، مراکش وغیرہ اُن کی جانب سے بھی کوئی اعلان نہیں ہوا کہ اسرائیل سے تعلقات کو معطل کیا جائے ۔ اسی طرح وہ مسلم ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ غیر سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں جیسے ترکیہ ، آذربائیجان ،انڈو نیشیا، موریطانیہ ، سعودی عرب اور قطر وغیرہ ان کی جانب سے بھی کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا کہ اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کیے جائیں گے۔ بہرحال جو اُمید تھی کہ7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے اسرائیل مسلمانوں پر جو ظلم کر رہا ہے اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا ، ایسا کچھ اعلان نہیں ہوا ۔ اصل وجہ وہی ہے جو اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ عنقریب قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے پر دعوت دی جاتی ہے ۔ پوچھا گیا کہ کیا اُس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے ۔ فرمایا :تم تعداد میں بہت زیادہ ہوگے مگر تمہاری مثال سمندر پر جھاگ کی مانند ہوگی ، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن کی بیماری ڈال دے گا ۔ پوچھا گیا: یارسول اللہ ﷺ وہن کیا ہے ؟ فرمایا : دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔آج دنیا میں دو ارب مسلمان اور 57 مسلم ممالک ہیں لیکن خوف اتنا ہے کہ ٹرمپ جب عرب ممالک کے دورے پر آیا تھا تو اس کو اربوں ڈالرز کے تحائف صرف بھتے کے طور پر دیئے گئے کہ وہ اُن کی کرسی اور اقتدار کو بچائے ۔ لیکن ٹرمپ نے ان بھتہ وصولیوں کے بعد بھی عرب ممالک کو اسرائیلی حملوں سے نہیں بچایا ۔ اس وقت بھی مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ اجلاس کا اُمتِ مسلمہ کو کوئی اجتماعی فائدہ حاصل نہیں ہوا ۔
سوال: یو این او کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستانی مندوب نے کھل کر اسرائیل کی مخالفت کی ہے۔ پھر پاکستانی وزیر اعظم بھی فوری طور پر قطر گئے ، قطر سے اظہار یکجہتی کیا اور اعلان بھی کیا کہ ہم قطر کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اسی طرح اسلامی سربراہی کانفرنس میں بھی وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ اسرائیل کی اقوامِ متحدہ میں رکنیت کو معطل کیا جائے ۔ کیا پاکستانی حکومت کا ایسا کرنا آبیل مجھے مار والی بات نہیں ہو جائے گی ؟
رضاء الحق:قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت واضح فرمایا ہے کہ :
{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ ط} (البقرہ :120) ’’اور(اے نبیﷺ! آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘
آج پروٹسٹنٹ عیسائی خاص طور پر صہیونیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ اس میں امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپ کے عیسائی بھی شامل ہیں ۔ جب قطر پر حملہ ہوا تو برطانیہ کا جہاز قطر سے نکلا اور اسرائیلی طیاروں کوایندھن فراہم کرنے کے بعد دوبارہ قطر چلا گیا اور اس کے بعد اسرائیلی طیاروں نے بمباری کی ۔مسلم حکمران جتنا بھی یہودو نصاریٰ کو خوش کرلیں وہ کبھی ان کے نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ ان کی ملت کی پیروی نہ کرلیں ۔ اس وقت کچھ عرب ممالک ان جیسے بننے کی کوشش کررہے ہیں ، انہوں نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہے ، ان کی تہذیب بھی اختیار کی جارہی ہے ۔ دوبئی تو یورپ سے بھی آگے نکل گیا ہے ۔محمد بن سلیمان کا ویژن 2030ء بھی مغربی تہذیب کی پیروی کا پلان ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ان کی سالمیت خطرے میں ہے ۔ لہٰذا عرب ممالک کو سمجھ جانا چاہیےکہ اسرائیل کے خلاف متحد ہو کر اقدام کرنااُن کی اپنی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے لیکن اسلامی سربراہی کانفرنس میں ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔ امریکہ اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے لیکن اِس کے باوجود امریکہ کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی ۔ مذاکراتی عمل بھی اب ختم ہو چکا ہے ، اسرائیل نے اعلان کر دیا ہے کہ حماس کی اعلیٰ قیادت اور مجاہدین جس ملک میں بھی ہوں گے وہاں وہ حملہ کرے گا ۔ صہیونیوں کے گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کی وجہ سے عرب ممالک کی سلامتی خطرے میں ہے ۔ غزہ میں اب اُس نے باقاعدہ اپنی افواج کو داخل کر دیا ہے ۔ غزہ کے 40 فیصد علاقے پر اس کا قبضہ ہو چکا ہے ۔ کسی مسلم ملک نے ردعمل ظاہر نہیں کیا ۔ البتہ کچھ یورپی ممالک نے عملی قدم اٹھائے ہیں ۔ سپین نے اسرائیل پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں ، سارے معاہدے بھی ختم کر دیئے ہیں اور کہا ہے کہ ہماری بندرگاہوں سے ایسا کوئی جہاز نہیں گزرے گا جو اسلحہ لے کر اسرائیل جارہا ہو ۔ سپین کے وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں واضح کہا کہ اسرائیل دفاع کی جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔ پاکستان کی جانب سے اقوام متحد ہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق میں اچھے بیانات سامنے آئے ، اسی طرح پاکستانی وزیراعظم نے قطر کا دورہ کیا اور اچھے بیانات بھی دیئے لیکن عملی اقدامات نہیں کیے گئے، ا س لیے آبیل مجھے مار والی کوئی بات نہیں ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل کو معلوم ہے کہ یہ باتوں سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں کر تے ۔ اہل غزہ کی مدد کے لیے گلوبل صمود فلوٹیلا کے نام سے جو امدادی قافلہ غزہ کی جانب بڑھ رہا ہے، اس کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا ۔ 2012ء میں بھی اسی طرح کا امدادی قافلہ گیا تھا لیکن اسرائیل نے قافلے میں شامل تمام لوگوں کو گرفتار کرلیا تھا اور امدادی سامان اہل غزہ تک نہیں پہنچنے دیا تھا ۔ اگر اہل غزہ امدادی سامان کے پاس جمع ہوتے ہیں تواُن پر بھی فائرنگ کر دی جاتی ہے ، حتیٰ کہ جنازوں پر بھی فائرنگ کی جارہی ہے ۔ میزائل اور ڈرونز کے ذریعے بھی بمباری کی جارہی ہے ۔ اب مغربی کنارے پر بھی قبضے کرنے کا منصوبہ ہے اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے حالیہ دورۂ اسرائیل کے دوران اس منصوبہ کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔ اس نے اسرائیل میں یہودی عبادت میں بھی حصہ لیا ۔دراصل یہ سب لوگ مل کر دجال کی عالمی حکومت کے لیے کام کر رہے ہیں ۔
آصف حمید :پورے عالم اسلام سے اسرائیل کے خلاف جن ممالک سے شدید ردعمل آیا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ پاکستانی وزیراعظم نے اپنے دورہ قطر کے دوران اور پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف سخت ردِعمل دیا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کے خلاف بھارت کوئی جنگی چال چلتا ہے تو اسرائیل اس میں شامل ہوتا ہے ،را اور موساد کا گٹھ جوڑ بھی سب کا سامنے ہے ۔ پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہوں کی فنڈنگ میں بھی اسرائیل ملوث ہے ۔ ایک طرح سے اسرائیل پاکستان کے خلاف میدان جنگ میں ہے ۔ پاکستان کو چاہیے کہ عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرے اور عرب ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ انڈیا یا امریکہ کی وجہ سے پاکستان سے تعلقات خراب نہ کریں بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر ایک عسکری اتحاد بنائیں اور اپنے دفاع کو مشترکہ طور پر مضبوط کریں کیونکہ پاکستان ایک بہترین عسکری اور ایٹمی قوت ہے جس نے حالیہ پاک بھارت معرکہ میں خود کو ثابت بھی کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کی بھرپور تیاری کر رہا ہے جیسا کہ قرآن میں حکم بھی ہے :{وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ}(الانفال:60) ’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے ) لیے اپنی استطاعت کی حد تک ‘‘
عرب ممالک نے اس حکمِ الٰہی کے خلاف کام کیا، عیاشیوں میں دولت خرچ کی اور اپنے دفاع اور سلامتی کو امریکہ کے حوالے کر دیا ۔ اب انہیں شاید اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستانی وزیر اعظم کے حالیہ دورہ کے موقع پر سعودی عرب میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا ہے ۔
سوال: ایران نے اسرائیل کے خلاف مسلم ممالک کا مشترکہ آپریشن روم بنانے کی تجویز دی ہے۔ کیا یہ تجویز قابل عمل ہے؟
آصف حمید :اگرعالمِ اسلام کے خلاف نیٹو کا اتحاد بن سکتاہے تو مسلم ممالک متحد ہو کر اپنا عسکری اتحاد کیوں نہیں بنا سکتے۔ مسلم اُمّہ کا سب سے بڑا نقصان مغرب کی divide and ruleپالیسی کی وجہ سے ہوا ہے ۔ مغرب نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلم دنیا کو تقسیم کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ۔خاص طور پر اسرائیل کو اس کا بہت فائدہ ہوا ۔ اس وقت بھی وہ غزہ پر قبضے کی تیاری کر رہا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ان حالات میں ایران کی طرف سے جو تجویز آئی ہے اس پر مسلم ممالک کو غور کرنا چاہیے ۔ نتن یاہو جو ظلم کر رہا ہے اس کو وہ اپنا روحانی مشن قرار دے رہا ہے ۔ جبکہ مسلمان حق پر ہونے کے باوجود بھی اکٹھے نہیں ہوتے تو پھر ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ اگر اسرائیلی اپنے تئیں مذہبی مشن پر گامزن ہیں تو مسلمانوں کو بھی اپنے دین کو تھام لینا چاہیے ۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمان اس کے برعکس کر رہے ہیں ، سودی نظام اورغیر شرعی قانون سازی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اللہ کو ناراض کیا ہوا ہے ۔ اب بھی اگر اپنی اصلاح کرلیں تو نجات ممکن ہے ۔ وقت تیزی سے End Timesکی طرف بڑھ رہا ہے ۔ 30 سال قبل ڈاکٹر اسراراحمدؒ جو باتیں کرتے تھے وہ اجنبی معلوم ہوتی تھیں لیکن آج وہ سب چیزیں سامنے آرہی ہیں ۔ اب بھی اگر مسلم حکمرانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں تو ایک ایک کرکے سارے مسلم ممالک تباہ کر دیئے جائیں گے ۔ احادیث میں خراسان کا ذکر ہے کہ یہاں سے اسلامی فوجیں جائیں گی اور دجال کے لشکر کے خلاف لڑیں گی ۔ ہمیں مستقبل کے اس منظرنامہ کو سامنے رکھ کر اپنی تیاری کرنی چاہیے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ اس حوالے سے فرماتے تھے کہ افغانستان ، ایران اور پاکستان کو مل کر ایک بلاک بنانا چاہیے کیونکہ خراسان کا تعلق اسی خطہ سے ہے ۔
سوال: ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ عنقریب نیٹو کی طرز پر مسلم ممالک کا عسکری اتحاد بننے جارہا ہے ۔ اگر کوئی ایسا اتحاد بنتا ہے تو اس کو لیڈ کونسا مسلم ملک کرے گا ؟
رضاء الحق: یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ 1924ء میں نظام ِخلافت کے انہدام کے بعد سے عالمِ اسلام چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور اس کافائدہ اسرائیل اور مغرب نے اٹھایا ہے ۔ ایک تو شیعہ سنی کی تقسیم پیدا کرکے عرب اور ایران کو مدمقابل لا کھڑا کیا گیا ۔ پھر عرب اور ترک کی تقسیم پیدا کی گئی ۔ لیکن اب صورتحال سب کے سامنے ہے، ایران پر بھی اسرائیل نے حملہ کیا اور قطر پر بھی کیا ۔ اب ان کو متحد ہو جانا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلم حکمران اپنی خواہشات اور اپنی کرسی پر اُمت اور دین کو ترجیح دیں گے ؟کیا کسی دوسرے مسلم ملک کی قیادت کو تسلیم کرلیں گے ؟ کون اپنی جگہ چھوڑنے کے لیے تیار ہوگا؟ پاکستانی وزیراعظم کا عرب میں بہت اچھا استقبال ہوا ہے ۔ پھر یہ کہ پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ دفاعی معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں جو کہ ایک تاریخی قدم ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کے نائب وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی قوت عالم اسلام کی قوت ہے جوکہ خوش آئند ہے ۔ لیکن دوسری طرف امریکہ کی جانب سے پاکستان کا بازو مروڑنے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں ۔ امریکن ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز میں پاکستان فریڈم اینڈ اکاؤنٹیبلٹی کے نام سے ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کا محاسبہ کیا جائے کہ انہوںنے جمہوریت اور انسانی حقوق کی کونسی خلاف وزریاں کی ہیں اور پھر ان پر پابندیاں لگائی جائیں۔ گویا پاکستان کو لگام ڈالنے کے لیے چارج شیٹ تیار ہونا شروع ہو چکی ہے ۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر خزانہ بھارت کے دورے پر تھے اور انہوں نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے بھی کیے ہیں جن میں سب سے زیادہ زور سائبر سکیورٹی کے معاہدوں پر دیا گیا ہے ۔ یعنی پاکستان کے خلاف بھارت کو مضبوط کیا جارہا تاکہ دوبارہ پاکستان پر جنگ مسلط کی جا سکے ۔ مغربی پریس میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں بحث کی گئی ہے کہ اسرائیل کا اگلا ہدف ترکیہ ، مصر یا سعودی عرب ہوگا ۔ گویا اسرائیل پاکستان کے خلاف براہ راست نہیں لڑے گا کیونکہ پاکستان ایٹمی قوت ہے لیکن بھارت کے ذریعے جنگ مسلط کی جائے گی ۔ کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ نومبر میں پاکستان پر دوبارہ حملہ ہو سکتاہے ۔
آصف حمید :ڈاکٹر اسراراحمدؒ اکثر فرمایا کرتے تھے پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے اور اس کا قائم رہنا بھی ایک معجزہ ہے ۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کے ارباب و اختیار بھی اس بات کو مانتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان سے کوئی بڑا کام لینا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کا منصوبہ ہے ، وہ ساری باتیں آج سامنے آرہی ہیں ۔ پاکستان کوچاہیے کہ وہ اپنی عسکری قوت کو مزید بڑھائے اور مزید تیاری کرے ۔ اب شاید وہ وقت آنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان سے کوئی عظیم کام لے ۔ اللہ کے منصوبے کو اللہ ہی جانتاہے ۔ قرآن میں اللہ فرماتاہے :
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ(54)} (آل عمران)’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
7 اکتوبر 2023ء کے بعد جب اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی تھی تو بعض لوگ یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ہو سکتا ہے کہ حماس کے حملے کے پیچھے اسرائیل کی منصوبہ بندی ہو تاکہ بہانہ بنا کر غزہ پر قبضہ کر سکے ۔ لیکن ہمیں حماس کے مجاہدین کے اخلاص پر کوئی شبہ نہیں تھا اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس حملے کی وجہ سے اسرائیل دنیا میں عوامی سطح پر نفرت کا استعارہ بن چکا ہے ۔ حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اسرائیل سے نفرت کر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں جو نسلیں اب پروان چڑھیں گی اُن میں اسرائیل سے نفرت بڑھتی جائے گی کیونکہ اُنہوں نے اسرائیل کا اصل مکروہ چہرہ دیکھ لیا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ پتھر اور درخت بھی یہودیوں کے خلاف بولیں کہ اے مسلمان ! یہودی میرے پیچھے چھپا ہے اس کو قتل کر دو۔ اس طرح کبھی شر سے بھی خیر کا پہلو نکل آتا ہے ۔ اسرائیلی کے اقدامات کی وجہ سے اب مسلم ممالک بھی متحد ہونے کا سوچ رہے ہیں ۔
سوال: چین اور روس جیسی بڑی طاقتیں غزہ ، قطر ، شام ، یمن ، تیونس وغیرہ پر اسرائیلی جارحیت کو کس نظر سے دیکھ رہی ہیں ؟ اگرمسلم ممالک کا عسکری اتحاد بنتا ہے تو کیا وہ اُن کا ساتھ دیں گی ؟
آصف حمید :چین اور روس دیکھ رہے ہیں کہ مسلم ممالک خود کچھ نہیں کر رہے تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے ۔ چین اس وقت اکنامک وار فیئر میں دنیا کو لیڈ کر رہا ہے ۔ اس لیے فی الحال وہ کسی جنگ میں کودنا نہیں چاہتا ۔ روس آرتھوڈاکس عیسائیوں کا ملک ہے جو پروٹسٹنٹ امریکہ اور یورپ سے اختلاف رکھتا ہے ۔ یوکرین میں ان دونوں فریقین کے درمیان جنگ بھی چل رہی ہے ۔ روس کی ذہنی وابستگی نہ امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہے اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ ہے ۔ کیتھولک عیسائیوں کی بڑی تعداد بھی اسرائیل کے خلاف ہے ۔ یہ سب دیکھ رہے ہیں کہ اگر مسلم ممالک ہمت کریں تو وہ بھی اسرائیل کی مخالفت میں کھڑے ہوں گے ۔ حدیث میں بھی پیشین گوئی موجود ہے کہ آخری زمانے میں عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کی پیروی میں اسلام میں داخل ہو جائیں گے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ صلیب کو توڑ دیں گے ۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ مسلم ممالک ہمت کریں اور اسرائیل کے خلاف کھل کر بولیں ۔
سوال: مسلم ممالک متحد ہو کر کیا اقدامات کریں کہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو ان کا حق مل جائے اورصہیونی ریاست اپنے انجام کو پہنچ جائے؟
رضاء الحق:سب سے پہلے توگلوبل صمود فلوٹیلاکے نام سے جو امدادی قافلہ غزہ روانہ ہوا ہے ، تمام مسلم ممالک کھل کر اس کو سپورٹ کریں ۔ اس کی حفاظت اپنی فضائیہ کے ذریعے کریں ۔ اتحاد اُمت کی کوششوں کو تیز کیا جائے ۔ پاک سعودی عرب مشترکہ دفاعی معاہدہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتاہے ۔ اس کے بعد دوسروں کو بھی ساتھ ملائیں۔ مستقبل کی اپنی خارجہ پالیسی قرآن و حدیث کی روشنی میں ترتیب دی جائے ۔ اسلام کو بطور دین نافذ کیا جائے تاکہ ہمارا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام اسلام کے مطابق ہو ۔ خراسان کے حوالے سے جو احادیث موجود ہیں ان کی روشنی میں مستقبل کی تیاری کی جائے ۔ مسلکی اور علاقائی اختلافات کو بھلا کر اُمت کی سطح پر متحد ہونے کو ترجیح دی جائے ۔
آصف حمید : قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
{وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} (آل عمران)’’اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک شرط لگا دی گئی ہے کہ اگر ہم ایمان والے ہوئے تو ہم فاتح ہوں گے ۔ لہٰذا تمام مسلمان اپنے ایمان کو مضبوط کریں ۔ امریکہ سمیت جو دنیوی بت ہم نے بنائے ہوئے ہیں ان کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اگر اسرائیل اپنی جنگ مذہبی سمجھ کر لڑ رہا ہے اور ہم سمجھتے ہیںکہ وہ باطل پر ہیں تو ہم حق پر ہونے کے باوجوداپنی جنگ مذہبی بنیادوں پر کیوں نہیں لڑ رہے ؟ مسلم ممالک اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی معاہدے ختم کر دیں اور اس پر معاشی پابندیاں عائد کریں ۔ اسرائیل کے لیے اپنی فضائی حدود بند کردیں ۔اسرائیل واضح اعلان کر رہا ہے کہ وہ جہاں چاہے گا حملہ کرے گا ۔ پھر اسرائیل کا سیمسن پلان یہ ہے کہ اگر وہ سمجھے گا کہ اس کے عزائم مکمل نہیں ہو رہے تو وہ نیوکلیئر وار شروع کر دے گا ۔ یعنی وہ پورے مڈل ایسٹ کو آگ لگا دے گا ۔ لہٰذا عرب ممالک کو اب جاگ جانا چاہیے ۔ صرف زبانی مذمت تک محدود نہ رہیں بلکہ متحد ہو کر عملی اقدام کریں ۔