(امیر سے ملاقات ) امیر سے ملاقات (42) - محمد رفیق چودھری

10 /

بعض اوقات اجتماعی سطح کے عذاب اور مصائب قوموں پر

اُن کی اجتماعی بداعمالیوں کی وجہ سے بھی آتے ہیں،

اس کے باوجود بھی اگرہم نافرمانیوں سے باز نہیں آتے تو

پھر ہم کسی بڑے عذاب میں بھی گرفتا ر ہو سکتے ہیں،

ہم نے اس عہد کی بنیاد پر ملک حاصل کیا تھا کہ اس کو

اسلام کا قلعہ بنائیں گے لیکن اس عہد کو پورا کرنے میں 

بُری طرح ناکام رہے ، راستے صرف دو ہی ہیں ،اگر کوئی

اللہ کے نظام کو نہیں چاہتا تو وہ لازمی طور پر حزبِ شیطان کی

طرف جارہا ہے، متفقہ ترجمہ قرآن اتحاد تنظیمات مدارس کے تحت

پانچوں بڑے وفاق المدارس کے اتفاق ِرائے سے ترتیب دیا گیا ہے ۔

خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میزبان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:عالمی سطح پرحالات میں کوئی بہتری آتی ہوئی نظر نہیں آرہی ، اسی طرح ملکی سطح پر بھی حالات خاصے خراب ہیں ، ملک سیلاب کی زد میں ہے جس سے بہت بڑے نقصان کا اندیشہ ہے ، اس تباہی اور بربادی کے مادی اسباب تو بیان کیے جارہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی اس کو اللہ کی ناراضگی کے ساتھ جوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ :
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا}(النساء:58) ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو۔‘‘
عہدے اور منصب بھی امانت ہیں ۔ آپ یہ بتائیے کہ آج ملکی اور عالمی سطح پر جن حالات کا سامنا ہے کیا وہ اللہ کی نافرمانی کا نتیجہ نہیں ہیں ؟
امیرتنظیم اسلامی : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ دنیا ایک امتحان ہے ۔ جو کچھ بھی بیت رہا ہے اس میں ہم سب کا امتحان لیا جارہا ہے ۔ قرآن میں اللہ فرماتاہے :
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
امتحان میں ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے اسی پر آخرت میں فیصلے بھی ہونے ہیں۔ قرآن حکیم یہ بھی کہتا ہے کہ:
{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ ط} (التغابن:11)’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔‘‘
تقدیر پر بھی ہمارا ایمان ہے ۔ جو کچھ بھی وارد ہو رہا ہے ، خیر ہے یا شر ہے ، وہ اللہ کے حکم سے ہے ، لیکن کئی مرتبہ مصائب انسانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے بھی آتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا :
{وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ (30)} (الشوریٰ)’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کر تا رہتا ہے۔‘‘
بہت سی باتیں اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن جب پکڑنے پر آجائے تو کوئی ایک جرم بھی وجہ بن سکتاہے :
’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب تاکہ وہ اُنہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا،تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘(الروم : 41)
ایک مقصدیہ بھی ہوتاہے کہ اللہ کے بندے گناہوں سے باز آجائیں اور اللہ کی طرف رجوع کرلیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا محاسبہ بھی کریں اور دیکھیں کہ ہم سے کیا غلطیاں ہورہی ہیں ، اُن کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتاہے کہ :
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا}(النساء:58) ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل ِامانت کے سپرد کرو‘‘
بعض اوقات اجتماعی سطح کے عذاب اور مصائب قوموں پر ان کی اجتماعی بداعمالیوں کی وجہ سے بھی آتے ہیں ۔ قرآن مجید میں سابقہ قوموں کا ذکر بار بار آتاہے جن پر عذاب آئے ، کسی پر زلزلہ نازل ہوا ، کسی کو آندھی اور طوفان نے مٹا دیا ، کہیں آسمان سے پتھر برسے اور کوئی قوم سیلاب اور طوفان کی وجہ سے تباہ ہوگئی ۔ قرآن مجید نے ان قوموں  کے بد اعمال کا ذکر بھی کیا ہے جس کی وجہ سے ان پر عذاب آئے ، مثلاً حضرت شعیب ؈ کی قوم ناپ تول میں کمی کرتی تھی، حضرت لوط ؈ کی قوم جنسی بے راہروی میں مبتلا تھی ، فرعون اور اس کی قوم شرک اور ظلم میں ملوث تھے ، ہر قوم پر کسی نہ کسی بڑے جرم کی وجہ سے عذاب آیا ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ  فرمایا کرتے تھے کہ آج دجالی فتنے کی وجہ سے ہماری مادی سطح پر دیکھنے والی آنکھ کھلی ہے جس کی وجہ سے ہمیں مادی اسباب تو نظر آتے ہیں لیکن باطن کی آنکھ بند ہونے کی وجہ سے ہم وحی کی روشنی میں چیزوں کو نہیں دیکھ پاتے ۔ محض عقلی توجیحات تک ہی نگاہ محدود رہ جاتی ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مادی اسباب بھی ہیں ، مثال کے طور پر ندی نالوں کے قریب ، پانی کے بہاؤ کے راستے میں لوگوں نے مکانات بنالیے ، سوسائٹیاں بنالیں ، ظاہر ہے جب سیلاب آئے گا تو یہ آبادیاں متاثر ہوں گی ۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ ان لوگوں کو اجازت کس نے دی ؟ کس نے این او سی جاری کیے ؟ ظاہر ہے کہ انتظامی سطح پر نااہلی کا معاملہ بھی ہے۔ گویا ہمارے اپنے اعمال بھی مصائب کا سبب بنتے ہیں اور گناہوں کی پاداش میں بھی عذاب آتے ہیں ۔ بعض لوگ سوالات اُٹھاتے ہیں کہ پھر یہ عذاب طبقہ اشرافیہ پر کیوں نہیں آتے جو کہ سب سے زیادہ اللہ کی نافرمانیوں اور ظلم میں ملوث ہے ، غریب ہی کیوں متاثر ہوتے ہیں ؟ معاملہ یہ ہے کہ امتحان امیر اور غریب سب کا ہورہا ہے ، مصائب ہر جگہ آتے ہیں البتہ نوعیت مختلف ہوتی ہے ۔طبقہ اشرافیہ کے لیے بھی کئی مصائب ہیں جن کا اندازہ صرف انہی کو ہے ۔ کئی مرتبہ نیک لوگ بھی ان مصائب کا شکار ہو جاتے ہیں ، جیسا کہ سیلاب میں کئی نیک لوگ بھی شہید ہوگئے۔ ان کو بہترین اجر آخرت میں مل جائے گا اور جو گناہگار ہوں گے ان کو بھی ان کے کیے کی سزا مل جائے گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :قیامت کے روز ہر بندہ اپنی نیت پر اُٹھایا جائےگا ۔ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا(95)} (مریم)’’اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اُس کے پاس اکیلے اکیلے۔‘‘
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ کوئی نیک بندہ کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے یا وباء کی وجہ سے دنیا سے چلا گیا ، جل کر یا ڈوب کر مرگیا، تو وہ شہید ہے ، کوئی خاتون بچے کو جنم دیتے ہوئے انتقال کر گئی تو وہ شہید ہے ۔ نیک لوگ اپنی نیتوں پر اٹھیں گےاور اجر پائیں گے ۔البتہ دنیا کے لیے اصول یہ ہے کہ قوموں کے فیصلے قوموں کے اجتماعی اعمال کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ اجتماعی مصائب اور عذاب میں قوموں کے لیے تنبیہ کا سامان بھی ہوتاہے کہ وہ باز آجائیں اور اللہ کی طرف رجوع کرلیں، اس میں  قوموں کی آزمائش بھی ہوتی ہے کہ بندوں کا ردعمل کیا ہوتاہے ۔ اگر اِس کے باوجود بھی ہمارے دل نرم نہیں ہوتے ، نافرمانیوں سے باز نہیں آتے ، اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے تو پھر یہ طرزعمل آخرت کے دائمی عذاب کا باعث بھی بن سکتاہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے ۔
سوال: اس سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اہل پاکستان کیا کچھ کر سکتے ہیں؟
تنظیم اسلامی : سب سےپہلے تو ہمیں وحی کی روشنی میں صورتحال کو سمجھنے اور اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ، عہدے اور ذمہ داریاں اہل لوگوں کو دی جائیں ، حکومتی اور انتظامی سطح پر جو کمزوریاں ہیں، ان کو دور کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ، بے گھر ہیں یا جن کا جانی و مالی نقصان ہوا ،ان کی مدد کی جائے ۔ کوئی غیر مسلم بھی متاثر ہوتو انسان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ اُس کی مدد کریں لیکن بحیثیت مسلمان ہم پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ قوم کےا ندر اس حوالے سے درد اور جذبہ بھی موجود ہے اور بہت سی مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں چاہیے کہ متاثرین کے لیے دعا بھی کریں ۔ پڑوسی ملک افغانستان میں بھی زلزلے سے بہت جانی اور مالی نقصان ہوا ہے ۔ وہاں بھی امدادی قافلے بھیجے جائیں ۔ ہم نے تنظیم اسلامی کے اپنے نظم کے تحت حسب ِتوفیق زلزلہ اور سیلاب متاثر ین کے لیے تعاون کی کوشش کی ہے ۔ ہم نے تنظیم کے رفقاء کے لیے ہدایات بھی جاری کی ہیں کہ جہاں ممکن ہو اپنے قریبی علاقوں میں متاثرین کی مدد کریں ۔ دینی طبقہ اس میدان میں سب سے زیادہ متحرک نظر آرہا ہے۔ دینی جماعتوں کے فلاحی ادارے ، مدارس کے طلبہ اور اساتذہ سب امدادی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن وہ موم بتی مافیا اور سیکولر طبقہ جو مغربی ایجنڈے کے دفاع میں ہمیشہ چیخ و پکار کرتا ہے، آج جب مسلمان مشکل میں ہیں تو کہیں نظر نہیں آرہا ہے ۔ یہ بھی امتحان ہے اور ہر کسی نے حساب دینا ہے ۔
سوال: ڈاکٹر اسرار احمدؒکے کلپس سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہو رہے ہیں ۔ اس وجہ سے اس وقت یوٹیوب پر تقریباً 80 سے 90ہزار چینلز ڈاکٹر صاحب کا مواد استعمال کررہے ہیں ۔ بعض لوگوں نے ڈاکٹر صاحب ؒ کی مقبولیت کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے ، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو آڈیو ، ویڈیو میں ایڈٹنگ کرکے اور غلط تھمب نیل لگا کر غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
امیرتنظیم اسلامی : سب سے پہلے تو جو لوگ ڈاکٹر صاحب کی تقاریر کو کٹ پیسٹ کرکے یا غلط تھمب نیل لگا کر غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں ، ہم ان کے اس فعل کی مذمت کرتے ہیں ۔ اسی طرح جو لوگ ڈاکٹر صاحب ؒ کی دعوت کو کمائی کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ بھی غلط کر رہے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:((إن لكل أمة فتنة وفتنة أمتي المال)) ہر اُمت کا کوئی نہ کوئی فتنہ ہوتا ہے اور میری اُمت کا فتنہ مال ہے ۔ یعنی اس اُمت کی سب سے بڑی آزمائش مال کے ذریعے ہوگی ۔ ڈاکٹرصاحب ؒ کے زمانے سے ہی ایک اصول طے ہے کہ دینی دعوت کا معاوضہ کسی صورت نہیں لیا جائے گا ۔ یہی پالیسی تنظیم نے بھی قائم رکھی ہے اور ہم نے اپنے کسی بھی چینل یا میڈیا کو مونیٹائز نہیں کیا ۔لیکن جیسا کہ آپ نے بتایا کہ80 سے 90 ہزار یوٹیوب چینل ڈاکٹر صاحبؒ کا content استعمال کر رہے ہیں ۔ غیر مسلم بھی ڈاکٹر صاحب کو سنتے ہیں ۔ اس لیے کچھ لوگوں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے ، ہم ایسے لوگوں کو واضح طور پر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی دینی دعوت کو اپنی کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں ، جو لوگ باز نہیں آرہےاُن کے چینلز کو سٹرائیک کرنے کا اختیار ہمارے پاس موجود ہے ۔ اِسی طرح جولوگ ڈاکٹر صاحبؒ کے مواد کو کٹ پیسٹ کر کے اور واہیات قسم کے تھمب نیل لگا کر شرانگیزی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان کے خلاف بھی ہم متعلقہ اداروں میں شکایات درج کروا رہے ہیں ۔ البتہ جو لوگ ڈاکٹر صاحب ؒ کےcontent کوبغیر تبدیل کیے اور بغیر کمائی کے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو ایسا کر بھی رہے ہیں ، ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ تنظیم اسلامی کی ویب سائٹ پر ہم نے اس حوالے سے بنیادی اصول و ضوابط لکھ رکھے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ کا اصل contentہم سے حاصل کیا جاسکتاہے اور کہیں بھی شرانگیزی والا معاملہ سوشل میڈیا پر نظر آتاہے تو اس کی اطلاع تنظیم اسلامی کو دی جا سکتی ہے ۔ اگلے مرحلے کے طور پر ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ہم شرانگیزی پھیلانے والوں اور کمائی کا ذریعہ بنانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی بھی کریں گے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ ایک عظیم شخصیت تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کر دی ۔ ان کی دعوت کو غلط رنگ دینا یا ردوبدل کرکے شرانگیزی پھیلانے کے لیے استعمال کرنا گھناؤنا فعل ہے ، ایسے ہر فعل کو اب ان شاء اللہ FIAکے سائبر کرائم ونگ کے ذریعے نمٹا جائے گا۔ پیکا کا قانون اِس حوالے سے موجود ہے اور ہم نے کچھ چینلز کی فہرست ریاستی اداروں کو فراہم بھی کر دی ہے ۔
سوال: شیخ الہند نے فرمایا کہ جب میں انگریزوں کی قید میں تھا تو میں نے اُمت ِمسلمہ کے زوال کی وجوہات پر بہت غور کیا۔دو بنیادی وجوہات میری سمجھ میں آئیں ۔ ایک قرآن سے دوری اور دوسری فرقہ واریت ۔ میں نے تہیہ کیا کہ رہائی کے بعد عوامی درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کروں گا ۔ اُن کا یہ خواب ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے پورا کیا اور ڈاکٹر صاحب کی بھی بڑی خواہش تھی کہ تعلیم و تعلمِ قرآن کا معاملہ مزید عام ہو ۔ کچھ سال قبل اس ضمن میں ایک اور خیر کا بہت بڑا کام ہوا کہ قرآن مجید کا متفقہ ترجمہ کیا گیا جس پر تمام مکاتب فکر کے علماء نے اتفا ق کرلیا ۔ اس کے کیا ثمرات ظاہر ہوئے اور ہوں گے ؟
امیرتنظیم اسلامی : دی علم فاؤنڈیشن کراچی کا کا ایک ادارہ ہے جو 2009ء میں قائم ہوا اور 2010ء  میں اس ادارے نے متفقہ ترجمہ قرآن پر کام شروع کیا ۔ بطور پروگرام ڈائریکٹر میں بھی اس ادارے سے وابستہ ہوں ۔ 2010ء میں جب پہلی کتاب شائع ہوئی تو کراچی کے 22 سکولوں میں 2700 طلبہ کو پڑھائی گئی ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ بھی اس بات کے قائل تھے کہ مذہبی جماعتوں کو اور مکاتب فکر کو اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مشترکات پر جمع ہو جاناچاہیے ۔ 2017ء تک 2.5لاکھ طلبہ کو یہ ترجمہ پڑھایا جارہا تھا ۔ اس وقت تک دیوبندی علماء ہی اس کام کو جاری رکھے ہوئے تھے پھر بریلوی ، اہل حدیث اور شیعہ علماء سے بھی رابطے شروع ہو ئے۔ 2017ء میں  وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمان صاحب نے بھی اس منصوبے کو پسند کیا اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب سے منظوری لےکر بہاولپور کے سکولوں میں اس ترجمہ کوپڑھانا شروع کیا گیا ۔مئی 2017ء میں اُنہوں نے پانچوں وفاق المدارس سے اس ترجمہ کو منظور کروانے کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی ۔ اسی دوران نیشنل اسمبلی میں ایک بل پاس ہوا کہ گریڈ 1 سے 5 تک ناظرہ قرآن اور گریڈ 6 سے 12 تک ترجمہ قرآن پڑھایا جائے گا ۔ ایک سرکاری حکم نامہ جاری ہوا کہ اتحاد تنظیمات مدارس کا متفقہ ترجمہ پڑھایا جائے گا۔ اتحاد تنظیمات مدارس میں پانچ وفاق ہیں: دیوبندی، بریلوی، اہل الحدیث، جماعت اسلامی اور اہل تشیع۔ جنوری 2020ء تک اس کمیٹی کے 20 کے قریب اجلاس ہوئے اور میں علم فاؤنڈیشن کی جانب سے ان اجلاسوں میں شرکت کرتا رہا ۔
سوال: کمیٹی کے ارکان پر حکومت کا کتنا پریشر تھا؟
امیرتنظیم اسلامی : حکومت کی جانب سے کوئی پریشر نہیں تھا ۔ بریلوی مکتبہ فکرسے علامہ ارشد سعید کاظمی صاحب کمیٹی کے رکن تھے اُن کی 20 منٹ کی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے جس میں انہوںنے سارا ماجرہ بیان کیا ہے ۔ بلیغ الرحمان صاحب تو ایک دو مرتبہ بیس پچیس منٹ کے لیےخیر سگالی کے طور پر آئے تھے ۔ وفاقی وزارتِ تعلیم کی جانب سے ڈاکٹر داؤد شاہ صاحب کوآرڈینیٹر کی ذمہ داری ادا کررہے تھے ۔ اصل کام 5 مکاتب فکر کے علماء کا تھا جو صبح 10 بجے اجلاس میں آتے تھے اور شام پانچ چھ بجے تک ایک ایک آیت اور احادیث پر بحث کرتے تھے اور ان سب کی رائے سے متفقہ ترجمہ قرآن لکھا گیا ۔
سوال:کمیٹی کے اس اجلاس کو آرگنائز کون کر رہا تھا؟
امیرتنظیم اسلامی : اجلاس وفاقی وزارت تعلیم کے تحت اس کے اسلام آباد آفس میں ہوتا تھا ۔ ساڑھے تین سال میں 20 اجلاس ہوئے ۔ 28 جنوری 2020ء کو ان سب علماء نے متفقہ ترجمہ قرآن پر دستخط کر دیئے اورتین صفحات پر مشتمل ایک خط ان تمام علماء کی جانب سے شائع کر دیا گیا ۔ ان 7 درسی کتب میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی ہے ، سورتوں کا تعارف بھی شامل ہے ، پیغمبروںؑ کے واقعات بھی ہیں ، اخلاقی اسباق بھی ہیں ۔ کئی مقامات پر احادیث کے ترجمے بھی ہیں۔ اب تک وفاقی حکومت ، کے پی کے حکومت اور پنجاب حکومت کے تحت گریڈ 6 سے 12 تک پڑھایا جارہا ہے جبکہ گریڈ9 سے 12 تک 50 نمبروں کا لازمی پیپر ہو رہا ہے۔ بلوچستان گورنمنٹ نے بھی تقریباً فیصلہ کر لیا ہےالبتہ سندھ حکومت ابھی شش و پنج میں ہے ۔ اب تک کی معلومات کے مطابق سوا کروڑ سے زائد طلبہ اِس ترجمہ کو پڑھ رہے ہیں۔ 2030ء تک لاکھوں بچے قرآن کا مکمل ترجمہ اور مختصر تشریح پڑھ چکے ہوں گے ان شاء اللہ ۔
سوال: ایک اعتراض یہ بھی آیا کہ متفقہ ترجمہ قرآن میں اہل تشیع کی کتب سے بھی ترجمہ اور حوالہ جات لیے گئے ہیں جو کہ اہل سنت کے نزدیک متنازعہ ہیں اور وہ ہمارے بچوں کو پڑھائے جارہے ہیں ۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
امیرتنظیم اسلامی : اس ترجمہ کو پاکستان کے پانچوں بڑے وفاق المدارس نے پاس کیا ہے ، ان کےنمائندوں کے دستخط موجود ہیں ۔ ان پانچوں وفاقوں ( اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی ، اہل تشیع اور جماعت اسلامی ) میں سے کسی ایک وفاق کے علماء کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہے ۔ صرف ایک مکتبہ فکرکے کچھ لوگ سوشل میڈیا پر اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور اُن کو جوابات بھی علماء دے رہے ہیں ۔ 7 کتب کے 1800 صفحات ہیں ۔ جو لوگ اعتراض کررہے ہیں انہوں نے ان کتب کو کھول کر مکمل پڑھا بھی نہیں ہوگا ۔ یہ لوگ صرف مخالفت برائے مخالفت کر رہے ہیں ۔پانچوں وفاق کے علماء کا تین صفحات پر مشتمل خط بھی موجود ہے ، اس میں لکھا ہوا ہے کہ اصلاح کی گنجائش انسان کےہر کام میں ہوتی ہے ، آئندہ بھی اگر اصلاح کی ضرورت محسوس کی گئی تو اسی فورم پر آئیں گے جہاں ہم نے پہلے اتفاق کیا ۔ علامہ ارشد سعید کاظمی صاحب نے بھی اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ اپنے وفاق کے علماء کے پاس چلا جائے ۔ اگر وہ ضرورت محسوس کریں گے تو ہم اجلاس دوبارہ بلا لیں گے ۔
سوال: اگر ایک مسلم ملک میں اسلامی نظام نہ ہو توکیا وہاںسے کسی ایسے ملک میں ہجرت کرنا فرض ہے جہاں  اسلامی نظام ہو ؟( عطا اللہ منیم صاحب صوابی)
امیرتنظیم اسلامی : اگرایک خطے میں اسلام پر عمل کرنے کے مواقع نظر نہیں آرہےاور کہیں اور اسلامی نظام قائم ہو تو بالکل جانا چاہیے۔ یہ اصولی جواب ہے لیکن زمینی حقیقت کو اگر دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں افغانستان ایسا ملک ہے جہاں امارت اسلامی قائم ہے لیکن ان کو ابھی اپنے ملک کامکمل کنٹرول سنبھالنے میں کافی وقت لگے گا ۔ دوسری بات یہ بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ دوسرا ملک آپ کو آنے کی اجازت دے گا بھی یا نہیں ۔ یہی سوال ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دور میں بھی اُٹھا تھا کہ کیا ہمیں امارت اسلامی افغانستان میں ملاعمرؒ کی بیعت کرلینی چاہیے یا نہیں؟جواب یہ آیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین یہ بوجھ اُٹھانے کے لیے ابھی تیار نہیں لہٰذا آپ اپنے ملک میں رہ کر دین کی خدمت کیجئے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا ، اس کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا ہوا ہے۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم دوسرے ممالک کی طرف دیکھیں کیوں نہ اللہ سے کیے ہوئے اس عہد کو پورا کریں  جس کی بنیاد پر ا س ملک کو حاصل کیا گیا تھا ۔ہم نے عہد کیا تھا کہ پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ بنائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سوال:ڈاکٹر اسراراحمدؒ اور آپ کی گفتگو میں اکثر صہیونی اورالومیناتی وغیرہ جیسے خفیہ نام سننے کو ملتے ہیں ۔ یہ دونوں ایک ہیں یا ان میں فرق ہے ؟ان کا اپنا کوئی مخصوص مذہب ہے یا ہر مذہب کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں ، ان کا ایجنڈا کیا ہے اور اگر مسلمانوں میں بھی پائے جاتے ہیں تو ان کی کیا نشانیاں ہیں ؟(محمد فاروق حیدرآباد)
میزبان: الومناتی ایک خفیہ تنظیم ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر سے نامور اور ذہین لوگوں کو اپنا ہمنوا بنایا جائے، ان کی برین واشنگ کی جائے ، ان کو پروموٹ کیا جائے، ان کو ایک حیثیت دی جائے تاکہ لوگ ان کو فالو کریں اور پھر ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے ۔ ان کا ایک پورا پلان ہے جس کے تحت وہ دنیا پر رحمان کے مقابلے میں شیطان کا ورلڈ آرڈر قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ جبکہ صہیونی گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ذریعے دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ صہیونی ہر مذہب میں ہو سکتے ہیں جوکہ اسرائیل کے حامی ہیں ۔
امیرتنظیم اسلامی : بنیادی طور پر دنیا میں اصل جماعتیں صرف دو ہی ہیں ۔ ایک حزب اللہ ااور دوسری حزب شیطان ہے ۔ اگر کوئی اللہ کا نہیں ہو رہا، اللہ کے نظام کو نہیں چاہتا ، اللہ کے رسولوںؑ کی تعلیمات پر نہیں چل رہا تو وہ لازمی طور پر حزب شیطان کے راستے کی طرف جارہا ہے ۔ آگے حزب شیطان کی مختلف شاخیں ہو سکتی ہیں ، ان کے الگ الگ نام ہو سکتے ہیں لیکن ان کا مشن ایک ہی ہے۔ قرآن میں ان منافقین کو بھی حزب شیطان میں شمار کیا گیا ہے جو زبان سے تو کلمہ پڑھتے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پکار پر لبیک نہیں کہتے تھے ۔
(سورۃ المجادلہ : )
آج ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے اور خود اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ کیا ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین پر عمل پیرا ہیں ؟ ایک بندہ اگر اپنے ایمان کی کمزوری کا اعتراف کرتا ہے، اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے تو ہم اس کو کمزور ایمان والا کہیں گے۔ یہاں پر ایک امکان ہے کہ اصلاح ہو جائے گی۔ لیکن ایمان کا دعوی کرنااور دین پر عمل نہ کرنا ، پھر غلطی تسلیم کرنے کی بجائے جواز پیش کرنا شیطان کا طرزعمل ہے جو اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اس پر اڑ گیا اور جواز پیش کرنے لگا۔ ہم سب کو اپنا جائزہ لینا چاہیے ۔
سوال: تنظیم اسلامی کو بنے 50 سال ہو چکے ہیںلیکن ابھی تک صرف 10 ہزار افراد شامل ہوئے ہیں ۔ اگر رفتار یہی رہی تو آنے والے 50 سے 100 سالوں میں کچھ نہ ہو پائے گا، انقلاب کیسے آئے گا؟(محمد بلال لاہور)
امیرتنظیم اسلامی :سب سے پہلے تو ہمیں اپنی کمزوری کا اعتراف کرنا چاہیے، ہماری محنت میں کمی ہے، ہماری دعوت میں کمی ہے، ہماری تربیت میں کمی ہے، یہ اعتراف کرنے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اصلاح اور بہتر انداز سے محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم اپنی طرف سے بہتر سے بہتر محنت کرنے کے مکلف ہیں باقی نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں ۔ اللہ جب چاہے گا تو حالات پیدا کردے گا ۔انقلابی عمل فصل کو پانی دینے کی طرح ہوتاہے ۔آپ بیج کو پانی دیتے ہیں ، اندر ہی اندر ایک عمل جاری رہتا ہے اور پھر ایک دن کونپل پھوٹتی ہے اور تن آور درخت بن جاتاہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے 13 برس تک مکہ میں محنت کی ، صرف 125 افراد ایمان لائے ، لیکن پھر اگلے چند سالوں میں ہی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی اور اسلام غالب ہوگیا ۔ جبکہ کئی انبیاء دنیامیں  آئے، انہوں نے بہت محنت بھی کی لیکن دین کو قائم نہ کرسکے لیکن اللہ کے ہاں وہ کامیاب ہیں ۔ بحیثیت فرد ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ آج اگر میری موت واقع ہو جائے تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گا ؟ اس احساس کے ساتھ ہم اللہ کے دین کے قیام کے لیےاپنا تن من دھن لگانے کی کوشش کریں باقی نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں تو ہم کامیاب ہیں ۔
سوال: نبی اکرم ﷺکے بعد افضل ترین دور خلفائے راشدین کا دور تھا لیکن صرف حضرت عمر؄ کا دور ایسا تھا جوفتوحات، کامرانیوں اور کامیابیوں سے بھرپور تھا، اس دور میں اسلامی ریاست کی توسیع ہوئی اور انصاف کا بول بالا ہواجبکہ باقی تینوں خلفائے راشدین کا دور اندرونی فتنوں اور انتشار کا دور رہا اور بالآخر کہانی کربلا کے واقعے پر منتج ہوئی۔ کیا ہم صرف عبداللہ بن سبا پر الزام دے کر اپنا دامن چھڑا سکتے ہیں؟ حالانکہ ایسے صحابہ کرام؇ موجود تھے جو آپ ﷺ کے تربیت یافتہ تھے ، ان میں عشرہ مبشرہ بھی تھے ، ان کے ہوتے ہوئے کربلا جیسا حادثہ کیسے ہوگیا؟ (محمد مجاہد لاہور)
امیرتنظیم اسلامی : یہ زندگی امتحان ہے ،اس امتحان سے صحابہ کرام ؓ بھی گزرے ہیں اور پوری اُمت گزرے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب کسی علاقے میں انقلاب آتاہے تو اس کے ردعمل میں کاؤنٹر ریولوشنز بھی آتے ہیں ۔ خاص طور حضرت ابوبکر صدیق؄ کا دور کاؤنٹر ریولوشنری فورسز سے نمٹنے میں گزرا ہے ۔اس کے نتیجے میں جو استحکام آیا اس کی بدولت حضرت عمر؄ کے دور میں اسلامی ریاست نے خوب ترقی کی ۔ حضرت عثمان؄ کے ابتدائی دور میں بھی استحکام اور ترقی کا عمل جاری رہا ، بحری بیڑے آپ کے دور میں تیار ہوئے ، فتوحات کا تسلسل بھی جاری رہا۔ لیکن کاؤنٹر ریولوشنری فورسزپھر متحرک ہوگئیں کیونکہ روم اور فارس جیسی بڑی سلطنتیں فتح ہو چکی تھیں اور اب وہاں سے ردعمل آنا شرو ع گیا تھا ۔ یہ تمام کاؤنٹر ریولوشنری فورسز عبداللہ بن سبا اور خوارج جیسے فتنوں کے ساتھ مل کر دوبارہ انتشار اور فتنوں کا سبب بن گئیں ۔ اسی وجہ سے حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی؇ جیسے کبار صحابہ کی شہادتیں ہوئیں اور پھر کربلاکا سانحہ بھی پیش آیا ۔ حضرت حسین؄ جنگ کے ارادے سے نہیں گئے تھے ، اگر جنگ کے لیے جاتے تو اپنے ساتھ فیملی اور بچوں کو نہ لے کر جاتے ، جن صحابہ کرام ؓ نے رخصت کا پہلو اختیار کیا ، ہم ان کو بھی اخلاص پر ہی سمجھتے ہیں۔ بہرحال خلفائے راشدین کے دور میںجب اسلامی ریاست پھیلی اور قیصر و کسریٰ جیسی سپر پاورز سرنگوں ہوگئیں تو ظاہر ہے اس کے ردعمل کے طور پر کاؤنٹر ریولوشنز بھی آئے اور اس کے نتیجہ میں تین خلفائے راشدین سمیت کبار صحابہ؇ کی شہادتیں بھی ہوئیں ۔ خلفائے راشدین کا دور ہمارے لیے آئیڈل دور ضرور تھا مگر اسلامی فتوحات اس کے بعد بھی جاری رہیں ، خلافت کا نظام 1924ء تک قائم رہا ۔ اس خلافت کی بدولت مسلمانوں کی مرکزیت موجود تھی ۔ اس مرکزیت کےختم ہونے کی وجہ سے آج اُمت تقسیم در تقسیم ، افتراق اور انتشار کا شکار ہے ۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مرکزیت کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کریں ۔