اداریہ
رضاء الحق
بحر و بر میں فساد!
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا انحصار دریاؤں کے پانی اور بارشوں پر ہے۔ لیکن یہی پانی جب اپنی حدود سے باہر نکل آئے تو تباہی کا منظر پیش کرتا ہے۔ سیلاب پاکستان کے لیے کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک وقفے وقفے سے آنے والے بڑے سیلابوں نے ہزاروں جانیں لیں، لاکھوں افراد کو بے گھر کیا اور کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔لیکن گزشتہ دو سیلابوں (2022ء اور اب 2025ء) نے ماضی کے سب ریکارڈ توڑ ڈالے۔یہ سوال ہمیشہ قائم رہا کہ آخر پاکستان میں سیلاب بار بار کیوں آتے ہیں؟ کیا یہ محض قدرتی آفات ہیں یا ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں؟ کیا یہ اللہ کی طرف سے تنبیہ یا عذاب ہیں، یا دنیا بھر میں جاری ماحولیاتی تبدیلیوں کی ایک کڑی؟ اللہ نے چاہا تو ہم ان تمام پہلوؤں کا مختصر جائزہ لیں گے۔ ان شاء اللہ!
وفاقی فلڈ کمیشن کی 2010ء اور 2012ء کی رپورٹس اس لحاظ سے انتہائی اہم تھیں کہ ان میں پاکستان کے حوالے سے اگلی دہائی میں بڑے پیمانے پر سیلاب آنے کے خدشہ کو ظاہر کیا گیا ۔ ان رپورٹس میں 2020ء سے شروع ہونے والے عشرہ میں ممکنہ شدید ترین سیلابوں کے حوالے سے انتہائی مفصل طور پر پیشگی خبردار کر دیا گیا تھا۔ پھر یہ کہ ان رپورٹس میںبڑے سیلاب آنے کی صورت میں جانی و مالی نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے سفارشات بھی پیش کی گئیں۔ رپورٹس میں حکومتی سطح پر نااہلیوں اور بدعنوانیوں کو بھی کھل کر بیان کیا گیا۔ اگرچہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بننے والی ایسی تمام رپورٹس دینی لحاظ سے قدرتی آفات کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات بیان نہیں کرتیں اور نہ ہی اِن میں قدرتی آفات کے تدارک کے لیے دین سے رہنمائی شامل ہوتی ہے، جو کسی المیہ سے کم نہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ آنے والی کسی حکومت نے ان تکنیکی رپورٹس کو در خور اعتنا نہ جانا اور یہ رپورٹس بھی دیگر کئی رپورٹس کی طرح سرد خانے کی نظر ہو گئیں۔قرآن مجید بار بار انسان کو کائنات میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان، سمندر و دریا، ہوا و بارش، درخت و پہاڑ سب کو ’’ آیاتِ الٰہی ‘‘قرار دیا ہے۔ فرمایا: ’’ بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے لوگوں کے اعمال کے سبب تاکہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا تاکہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘(الروم : 41)
پاکستان میں سیلاب کے اسباب میں سب سے اہم’’ انتظامی نااہلی‘‘ ہے۔پاکستان میں بڑےڈیم اور ذخیرۂ آب کے منصوبے انتہائی محدود ہیں۔ نتیجتاً پاکستان صرف چند دنوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب شدید بارشیں ہوں یا گلیشیئرپگھلیں تو پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے اور راستے میں بستیاں بہا لے جاتا ہے۔ نکاسیٔ آب کا نظام بھی انتہائی ناقص ہے۔شہری علاقوں میں بارش کا پانی گھنٹوں یا دنوں تک کھڑا رہتا ہے۔اگر نااہلی کے ساتھ بددیانتی اور کرپشن بھی شامل ہو جائیں تو نتائج مزید بھیانک ہو جاتے ہیں۔سیلاب سے بچاؤ کے لیے بند، پشتے اور پل تعمیر کیے جاتے ہیں لیکن اکثر یہ منصوبے کاغذوں تک محدود رہتے ہیں یا ناقص مٹیریل استعمال ہونے کی وجہ سے چند سال بھی نہیں چل پاتے۔پھر یہ کہ دریاؤں کے قدرتی راستوں ، کناروں اور برساتی نالوں پر بااثر افراد نے رہائشی سکیمیں اور پلازے تعمیر کر رکھے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں بیچ دریا ہوٹل قائم ہیں۔یہ سب غیر قانونی تعمیرات حکومتی اجازت سے ہی بنی ہوئی ہیں۔ جب بارش اپنا زور پکڑتی ہے یا دریائی پانی سیلاب کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہی تعمیرات سب سے پہلے متاثر ہوتی ہیں؛ جب پانی کو گزرنے کا راستہ نہیں ملتا تو وہ تباہی مچاتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں تیزی سے بہتے دریا ان ہوٹلوں کو تہس نہس کر دیتے ہیں جبکہ میدانی علاقوں میں غیر قانونی بستیاں اور ہاؤسنگ سوسائیٹز سب سے پہلے ڈوبتی ہیں۔ یوں بڑے پیمانے پر جان و مال کا نقصان ہوتا ہے۔ہر سال سیلاب متاثرین کے لیے اربوں روپے کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں مگر ان کا بڑا حصّہ بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں قدرتی آفات سے نقصان کو کم کرنے اور متاثرین کے ریسکیواورریلیف کےلیےنیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور صوبائی ادارے تو قائم ہیں مگر اِن کی عملی کارکردگی بہت محدود ہے۔ بروقت اقدامات نہ ہونے کے باعث نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ گویاانسانوں کے اپنے اعمال، اپنے ہاتھوں کی کمائی کے باعث بحر و بر میں فساد! متاثرین تک حقیقی ریلیف نہیں پہنچ پاتا ہے اور نہ سیلاب کا پانی اُتر جانے کےبعد متاثرہ افراد اور خاندانوں کی بحالی کا مؤثر انتظام کیا جاتا ہے۔ خدمتِ خلق کا یہ کام بھی رفاحی ادارے اور دینی جماعتیں سرانجام دیتی ہیں۔ لیکن کیا ان ہاؤسنگ سوسائٹیز اور تند و تیز دریاؤں میں ہوٹل کھڑے کرنے والوں کو بھی قانون اپنی گرفت میں لے گا؟ ان غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے والے محکمہ جات کے متعلقہ افسران کے خلاف بھی کوئی قانونی چارہ جوئی ہوگی؟
ملکی اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی (Climate Change) سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ(Global Warming) یعنی عالمی درجہ حرارت بڑھنے سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ نتیجتاً دریاؤں میں پانی کی سطح اچانک بلند ہو جاتی ہے۔موسمیاتی رجحانات میں غیر معمولی تبدیلی کے باعث کہیں خشک سالی اور کہیں ایک ہی وقت میں بے تحاشہ بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش جب کمزورانتظامی ڈھانچے والے ملک میں متواتر برستی ہے تو سیلاب کا روپ دھار لیتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی تعمیرات کھڑی کرنے اور ٹمبر مافیا کی بدولت بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کی گئی ہے۔درخت بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے اور کٹاؤ کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی نے سیلاب کو مزید تباہ کن بنا دیا ہے۔
اسے ایک المیہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ کسی حکومتی ادارے کی قدرتی آفات کے باطنی عوامل کی جانب توجہ نہیں۔ہمارا دین تویہ رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ قدرتی آفات کی وجہ محض مادے کا ارتعاش نہیں۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور بعض اوقات ایسی آفات لوگوں کی آزمائش کے لیے بھی وارد ہوتی ہیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا:’’ جس(اللہ) نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی ۔‘‘ (الملک:2) یہ بھی فرمایا :’’ اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے اور (اے نبیﷺ) بشارت دیجیے اُن صبر کرنے والوں کو، وہ لوگ کہ جن کو جب بھی کوئی مصیبت آئے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے۔‘‘ (البقرۃ: 155،156) ابتدائی اطلاعات کے مطابق زرعی شعبے کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔پنجاب میں تقریباً 31 لاکھ ایکڑ کھیتی کی زمین زیرِ آب آ گئی ہے۔ اہم فصلیں جیسے چاول، کپاس، گنا، مکئی، وغیرہ بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔پنجاب کے ضلع بہاولنگراورسندھ میںکپاس کی تقریباً 80 فیصدکھڑی فصل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ مال مویشیوں کا نقصان علیحدہ ہے۔بہرحال مومن کے لیے ہر مصیبت ایک آزمائش بھی ہوتی ہے تاکہ اس کے صبر و شکر کا امتحان لیا جا سکے۔ سیلاب سے متاثر ہونے والے جب اپنی جانوں اور مال کے نقصان کے باوجود صبر کرتے ہیںتو یہی صبر ان کے لیے باعثِ اجر بن جاتاہے۔دوسری جانب جیسا کہ سورۃ الروم کی آیت41 میں فرمایا کہ قدرتی آفات کا مقصد کئی مرتبہ بعض لوگوں پر عذاب جبکہ دوسروں کے لیے تنبیہ بھی ہوتا ہے۔ یہی قدرتی آفات بعض افراد کی سرکشی اور گناہوں میں حد سے بڑھ جانے پر عذابِ الٰہی کی صورت بن جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام دوسرے تمام افراد کے لیے تنبیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدرتی آفات انسان کو اپنی زندگی اور اعمال پر غور کرنے کا پیغام دیتی ہیں۔ ظلم، ناانصافی، بددیانتی اور گناہوں کے بڑھنے پر اللہ تعالیٰ انسان کو جھنجھوڑتا ہے تاکہ وہ انفرادی و اجتماعی سطح پر توبہ کریں، اللہ سے رجوع کریں اور صراطِ مستقیم پر چل پڑیں، نہ کہ سودی معیشت کو دوام دیں اور بے حیائی کو فروغ دینے والے 'Reality Show' بنا اور دکھا کر اپنی اور دوسروں کی دنیا اور آخرت برباد کریں۔
ہمارے نزدیک سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے بچاؤ یا کسی درجہ میں اُن سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے ایک مربوط حکمتِ عملی درکار ہے۔نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیرناگزیر ہے تاکہ بارش اور گلیشیئرکا پانی محفوظ کیا جا سکے۔ بڑے چھوٹے تمام شہروں، قصبوں اور دیہات میںنکاسیٔ آب کے نظام کو بہترکیا جائے۔درخت لگائے جائیں اور جنگلات کی حفاظت کی جائے۔اُن بااثر افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جو دریاؤں کے کناروںپر اور بیچ میں تجاوزات کھڑی کرتے ہیں۔سیلاب سے متاثرہ افراد اور خاندانوں کی ریلیف اور بحالی کے لیے فنڈز کو شفاف طریقے سے استعمال کیا جائے تاکہ سیلاب متاثرین حقیقی امداد حاصل کر سکیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے عوامی شعور کو بیدار کیا جائے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم انفرادی اور اجتماعی سطح پر توبہ کر کے اللہ کی طرف رجوع کرے ۔ ملک میں اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی قائم ونافذ کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمارے شامل حال ہو۔ اللہ تعالیٰ بارشوں اور سیلاب میں جان سے جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں و بے گھر افراد کی مدد فرمائے۔ آمین!
شذرہ: مسلم اتحاد میں تاخیر کیوں؟نتن یاہو اپنے ’تاریخی‘ او ر’ روحانی‘ مشن یعنی گریٹر اسرائیل کے شیطانی منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔حالیہ دنوں میںاسرائیل نے قطر، لبنان، شام، تیونس اور یمن میں حملے کر کے درجنوں افراد کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا۔اصل منصوبہ جنگ بندی کے لیےپیش کیے گئے ایک امریکی منصوبہ پر غور و خوص کے لیےقطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود حماس کی سیاسی قیادت کو صفحۂ ہستی سے مٹانا تھا۔ لیکن عین وقت پر مخبری ہو گئی اور حماس کی اعلیٰ قیادت نے عمارت خالی کر دی۔اگرچہ تحریک مزاحمت کے 5 مجاہدین اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے حماس کو ایک بڑے نقصان سے بچا لیا۔ جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے! دوسری طرف44 ممالک کی 50 سے زائد چھوٹی، بڑی کشتیوں پر مشتمل گلوبل صمود فلوٹیلا دنیا خصوصاً مسلم ممالک کے ضمیروں پر طمانچے مارتا اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ اسرائیل کم از کم دو بار اِس فلوٹیلا پر حملہ کر چکا ہے لیکن فلوٹیلا والے بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے ہیں۔ہمارے نزدیک اسرائیل کے ابلیسی منصوبوںکو روکنے اور اسے منہ توڑ جواب دینے کے لیے تمام مسلم ممالک کو ایک مؤثر، عملی اور عسکری اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ اگر نیٹو جیسا اسلام دشمن اتحاد بنایا جا سکتا ہے تو مسلم دنیا کیوں مشترکہ عسکری بندوبست نہیں کر سکتی، جس کا بنیادی ایجنڈا اسرائیل کےظلم کے خلاف تیربہدف عسکری کارروائی کرنا ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جلد اسرائیل کاہدف پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی کو نقصان پہنچانا ہو گا، لہٰذا ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کو ہر وقت چوکس رہنا ہو گا۔ کانفرنسوں میں شرکت کرنا اور اسرائیل کے خلاف سخت بیانات دینا نیز مسلم اُمّہ سے اُن کی حفاظت کا بیڑا اُٹھانے کے وعدے کرنا اپنی جگہ اہم ہیں۔ حالیہ پاک سعودی مشترکہ دفاعی معاہدہ یقیناً تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ لیکن ہم یہ نہ بھولیں کہ دشمن کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بھرپور عسکری تیاری انتہائی ضروری ہے۔ پھر یہ کہ صہیونی گریٹراسرائیل کے منصوبہ پر تیزی سے عمل پیرا ہیں؛ ہماری حکومت اور مقتدر حلقوں کو بھی گریٹر خراسان کے منصوبہ کو عملی شکل دینےکی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025