(الہدیٰ) سُورۃُ الرُّوم تمہیدی کلمات - ادارہ

10 /
الہدیٰ
 
سُورۃُ الرُّوم
 
تمہیدی کلمات
 
سورۃ الروم کا آغاز رسول اللہﷺ کے زمانے کی دو بڑی سلطنتوں یعنی ایرانی سلطنت اور سلطنت ِروما کی باہمی چپقلش کے ذکر سے ہواہے اور اسی حوالے سے ابتدائی آیا ت میں ایک بہت بڑی پیشین گوئی کا ذکر بھی ہے۔ اس موضوع اور اس سے متعلق پیشین گوئی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔ 
حضورﷺ کی ولادت(۵۷۱ء )کے زمانے میں دونوں طاقتوں کی روایتی کشمکش جاری تھی۔ ۶۰۲ء میں اس کش مکش نے باقاعدہ ایک جنگ کی صورت اختیار کر لی۔ اس وقت حضورﷺ کی عمر مبارک ۳۱برس تھی۔ یہ جنگ بالآخر۶۱۴ء میں ایران کے بادشاہ خسرو پرویز (کے خسرو ثانی ) کے ہاتھوں رومیوں کی بدترین شکست پر ختم ہوئی۔
رومیوں کی اس شکست کے وقت مکہ میں حضورﷺ کی دعوت شروع ہوئے تقریباًپانچ برس ہو چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اہل ایمان کے ساتھ مشرکین کی زیادتیاں روز بروز بڑھتی جا رہی تھیں اورمقامی آبادی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی ۔ایرانیوں اور رومیوں کی جنگ میں مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایرانیوں کے ساتھ تھیں‘ اس لیے کہ وہ ایرانیوں کو آتش پرست (مشرک) ہونے کی وجہ سے اپنا ہم مذہب خیال کرتے تھے ۔ دوسری طرف رومی چونکہ اہل کتاب تھے اس لیے مسلمان فطری طور اُن کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور وہ ان کی شکست پر دل گرفتہ بھی تھے۔ ان حالات میں مشرکین مکہ رومیوں کی شکست پر بغلیں بجا رہے تھے اور دن رات اس پروپیگنڈا میں مصروف تھے کہ جس طرح آج آتش پرست ایرانیوں کے ہاتھوں پیغمبروں اور الہامی کتابوں کے ماننے والوں کو شکست ہوئی ہے، کل اِسی طرح ہم بت پرستی کے علمبردار بھی مسلمانوں کا قلع قمع کر دیں گے۔ اُس وقت مکہ کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ کر دی گئی تھی اور ۶۱۵ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ کی عیسائی سلطنت میں (جو سلطنت روم کی حلیف تھی) پناہ لینا پڑی تھی۔
ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی اور اس کی ابتدائی آیات میں واضح پیشین گوئی کی گئی کہ قریب کی سرزمین میں اس وقت واقعی رومی شکست کھا چکے ہیں ‘مگر چند ہی سال میں یہ صورت تبدیل ہو جائے گی اور وہ پھر سے ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے۔ بظاہر چونکہ یہ بالکل اَنہونی بات تھی اس لیے مشرکین مکہ نے اِسے بھی تضحیک کا نشانہ بنایا۔ وہ اس پیشین گوئی کو اکثر موضوعِ گفتگو بنا کر مسلمانوں کو زچ کرنے کی کوشش کرتے۔
دوسری طرف روم کا ہرقل اعظم (Heraclius)اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی میں مصروف رہا۔ آٹھ سال بعد(۶۲۲ء میں جب نبی مکرمﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے) ہرقل نے حالات کو سازگار سمجھتے ہوئے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا اورایک بڑے لشکر کے ساتھ خفیہ طور پرایک لمبا چکر کاٹ کر بحیرہ کیسپین (Caspian Sea)کی طرف سے ایرانیوں   کی پشت پر زور دار حملہ کر دیا۔ ایرانیوں کے لیے یہ حملہ بالکل غیر متوقع تھا۔ چنانچہ وہ اس کی تاب نہ لا سکے۔نتیجتاً انہیںاس معرکے میں   ذلت آمیز شکست ہوئی اور ہرقل اُن سے اپنے مقبوضہ علاقے واگزار کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ اُسی سال اللہ کی مدد سے بدر میں مسلمانوں کو بھی فتح (الفرقان)نصیب ہوئی اور اس طرح اِن آیات کی دونوں پیشین گوئیاں حرف بحرف پوری ہو گئیں۔