(گوشۂ خواتین) قرآن ہوا ٹکڑے ٹکڑے… - ادارہ

10 /

قرآن ہوا ٹکڑے ٹکڑے…

امۃالمحیی

{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّـفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ  اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِط وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(85)}(البقرۃ)’’(یہ) کیا( بات ہے کہ ) تم کتاب (اللہ) کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کیے دیتے ہو‘ تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں اُن کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں۔ اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اُن سے غافل نہیں۔‘‘
یہ آیۂ مبارکہ یہود کے غلط طرزِ عمل پر وعید کے طور پر نازل ہوئی تھی کہ انہوں نے شریعتِ اسلامی کے حصے بخرے کر دیئے تھے۔ صرف مرضی کے احکام مانتے تھے‘ باقی پسِ پشت ڈال دیتے تھے۔ یوں انہوںنے نہ صرف عملی تحریف کی بلکہ الفاظ تک بدل ڈالے۔ لہٰذا وعید آئی کہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہے۔
یہ حقیقت ہمارے ذہنوں میں واضح رہنی چاہیے کہ شریعت اسلامی کے ساتھ جو اُمت بھی یہ سلوک کرے گی‘ اسی وعید کی حق دار ہو گی۔ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو معلوم ہو گا کہ مسلمان امت کتاب اللہ کے ساتھ شریعت ِ الٰہی کے ساتھ بعینہٖ یہی سلوک کر رہی ہے ۔ ہم قرآن مجید کے الفاظ نہیں بدل سکتے کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے انسانوں پر ڈالی ہی نہیں‘ وہ اللہ کے ذمے ہے (بحمداللہ) ورنہ نجانے ہم قرآن کے کتنے ہی صفحات غائب کر دیتے یاالفاظ بدل ڈالتے۔ لہٰذا ہم نے بھی عملی طورپر شریعتِ الٰہی کی واضح نافرمانیاں شروع کر دیں اور اپنا وکیل بنا لیا’’معاشرہ‘‘۔ 
ہمارا اچھا خاصا مذہبی ذہن رکھنے والا طبقہ بھی اس  بے راہ روی کا شکار ہے۔ جہاں تک معاملہ اجتماعیت کا ہے‘ حکومت کا ہے ‘ حکومتی فیصلوں کا ہے، اس گوشے میں احکامِ الٰہی کے منافی جو بھی اقدامات ہو رہے ہیں۔ اس میں ذمہ دار وہ ہیں ہم نہیں۔ ہمیں تو دیکھنا ہے کہ انفرادی طور پر ہم کیا کر رہے ہیں؟
{وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا(95)} (مریم) ’’اور سب قیامت کے دن اُس کے سامنے اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے۔‘‘
ہمیں خصوصاً ہم خواتین کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں کن فرائض کو ادا کرنے کے لیے تخلیق کیا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم فرائض کی طرف نہیں دیکھتے صرف حقوق کی بات کرتے ہیں۔قرآن پڑھتے وقت ہماری انگلی قرآن کے اُن الفاظ پر ہوتی ہے جن میں ہمارے نفس کی پسندیدہ چیزوں کا ذکر ہے۔ جو بات پسند آئے مان لیتے ہیں اور جو ناگوار اور گراں گزرے وہ ’’معاشرے کے حوالے‘‘۔
ایک خاتون‘ بہت پابندِ صوم و صلوٰۃ‘ کہنے لگیں جب سے قرآن ترجمے سے پڑھنا شروع کیا ہے‘ بہت تبدیلی آئی ہے‘ پانچ وقت نماز شروع کر دی‘ روزے پورے رکھنے کا اہتمام کیا، پردہ کے بارے میں اللہ کے احکام کا علم ہوا لیکن بھئی پردہ نہیں کر سکتی‘ معاشرہ اجازت نہیں دیتا!اسی طرح ایک اور خاتون نے پردہ تو کر لیا لیکن رسوم و رواج چھوڑنے کو تیار نہیں کیونکہ بقول اُن کے معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
اسی طرح ایک صاحبہ جن کے شوہر ان پر باقاعدہ ظلم ڈھا رہے ہیں‘ بیوی کے علاوہ ہر کسی کے پاس جاتے ہیں۔ نان نفقہ بھی نہیں دیتے‘ خود ہی کماتی ہیں‘ رات کو تنہا سوتی ہیں‘ لیکن خلع لے لوں! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معاشرے میں ناک کٹ جائے گی۔ میں نے سمجھایا‘ دیکھو قرآن کے احکام یہ ہیں کہ جب زندگی اتنی مشکل ہو جائے تو پھر علیحدگی ہو جائے۔
{وَاِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلاًّ مِّنْ سَعَتِہٖ} (النساء:130)’’اور اگر میاں بیوی (میں موافقت نہ ہو سکے اور) ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی دولت سے غنی کر دے گا۔‘‘
نہیں جی! وہ معاشرہ اور تھا اور یہ اور ہے۔ گویا قرآن صرف اسی زمانے کے لیے نازل ہوا تھا۔ اسی طرح ایک صاحب کے اولاد نہیں ہوئی۔ تڑپتے پھر رہے ہیں۔ کسی نے دوسری شادی کا مشورہ دیا تو دو فٹ اونچا اچھلے ’’اس معاشرے میں دو بیویاں…توبہ توبہ‘‘۔
بیوہ یا مطلقہ کی شادی کا تصور ہی دوبھر ہو جاتا ہے کیونکہ معاشرہ آڑے آتا ہے‘ حالانکہ اللہ کا حکم ہے :
 {وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ}(النور:32)’’اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔‘‘
گویا نعوذ باللہ ہم زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیںکہ قرآن مجید ابدی ہدایت اور رہنمائی نہیں ہے۔ یا ہم نے قرآن کے حصے بخرے کر لیے ہیں۔ قرآن کا صرف وہ حصہ قابل عمل ہے جس کی اجازت معاشرہ دے۔ کیا( نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ نہیں ہے؟ کیا اُسے علم نہیں تھا کہ معاشرہ اتنا بگڑ جائے گا یا پھر اس معاشرے کے لیے اللہ کو کوئی اور قرآن نازل کرنا چاہیے جو ہماری امنگوںپر پورا اُترے۔
آج ہماری قوم قرآن پاک کو شہید کرنے اور رسالت کی توہین پر سیخ پا ہو رہی ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ لیکن یہ کیوں نہیں سوچتی کہ ہم روزانہ کتنے ہی قرآن     ’’ شہید‘‘ کرتے ہیں اور کتنی ہی بار رسولؐ ‘کی’’ توہین‘‘ کرتے ہیں۔ میراتھن‘ ویلنٹائن اور پھر بسنت… تمام تر احتجاج کے باوجودہم جشنِ بہاراں اسی جوش و خروش سے منائیں گے اور اس وقت بھول جائیں گے کہ’’ توہینِ رسالتؐ ‘‘ کیا ہوتی ہے؟؟
آج ہم ٹائر جلا رہے ہیں‘ دکانیں نذر آتش کر رہے ہیں۔ بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں۔ سوچیے ذرا! اُس وقت ہمارے صدمے اور حیرت کا کیا عالم ہو گا جب روزِ قیامت رسول اکرمﷺ فریاد کریں گے:
{وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًاo}(الفرقان:30)’’اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔‘‘
      اور اللہ تعالیٰ رسولﷺ کو دلاسا دیں گے:
{الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(91) فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ(92) عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(93)} (الحجر)’’جنہوں نے یعنی قرآن کو (کچھ ماننے اور کچھ نہ ماننے سے) ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تمہارے پروردگار کی قسم ہم اُن سے ضرور پرسش کریں گے۔ اُن کاموں کی جو وہ کرتے ہیں۔‘‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ
اے اللہ! ہمیں اُن میں سے نہ کرنا ۔(آمین)