(الہدیٰ) تخلیقِ کائنات کا مقصد : لوگوں کی آزمائش - ادارہ

10 /
الہدیٰ
 
تخلیقِ کائنات کا مقصد : لوگوں کی آزمائش
 
 
آیت 7{یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج} ’’یہ لوگ دنیا کی زندگی کے بھی صرف ظاہر کو جانتے ہیں۔‘‘
یہاں سے موضوع ’’التذکیر بآلاء اللہ‘‘ (اللہ کی نعمتوں کے حوالے سے نصیحت اور یاددہانی) کی طرف موڑا جا رہا ہے اور اس مضمون کے اعتبار سے سورۃ الروم اور سورۃ النحل میں بہت گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ 
{وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَG}’’اور وہ آخرت سے بالکل ہی غافل ہیں۔‘‘
یہ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے‘ لیکن یہ لوگ دنیا کی اس حقیقت کو بالکل فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ انہیں یاد ہی نہیں کہ آج وہ یہاں جو بوئیں گے،  کل آخرت میں وہی کچھ اُنہیں کاٹنا ہو گا۔ اُن کے سامنے دُنیوی زندگی کا صرف یہی پہلو رہ گیا ہے کہ کھائو پیئو اورعیش کرو ‘جبکہ آخرت کی زندگی کا تصور ان کے ذہنوں سے بالکل ہی اوجھل ہو گیا ہے۔ 
آیت 8 {اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قف}’’کیایہ لوگ اپنی ذات میں غور نہیں کرتے؟‘‘
{مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی ط} ’’نہیں پیدا کیااللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے مگر حق کے ساتھ‘اور ایک وقت ِمعین ّ تک کے لیے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات ایک مقصد کے تحت پیدا کی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اقرار ہر وہ شخص کرتا ہے جو چشمِ بصیرت سے کائنات کا نظام دیکھتا ہے۔ چنانچہ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۹۱ میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی ایک خصوصیت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ جب وہ کائنات کی تخلیق کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں تو بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں:{رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًاج }’’اے ہمارے پروردگار!(ہم سمجھ گئے ہیں کہ) تو نے یہ سب کچھ عبث پیدا نہیں فرمایا۔‘‘
{وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمْ لَــکٰفِرُوْنَ(9)}’’ اور یقینا بہت سے لوگ اپنے رب سے ملاقات کے منکر ہیں۔‘‘
 
درس حدیث
 
قیامت کی نشانیاں
 
عَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:((‏ يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيُقْبَضُ الْعِلْمُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيُلْقَى الشُّحُّ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ ‏))‏ قَالُوا وَمَا الْهَرْجُ ؟قَالَ ‏:((‏ الْقَتْلُ ‏))(صحیح مسلم)
 حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(ایک وقت آئے گا جب)زمانہ باہم قریب ہو جائے گا (وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہو گا)، علم اٹھا لیا جائے گا،فتنے نمودار ہوں گے، (دلوں میں) بخل اور حرص ڈال دیا جائے گا اور ہرج کثرت سے ہو گا۔‘‘صحابہ کرام ؓنے پوچھا: ’’ہرج کیا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قتل و غارت گری۔‘‘