(اداریہ) 7 اکتوبر 2023ء سے 7 اکتوبر 2025ء تک کا سفر - رضا ء الحق

10 /
 اداریہ
 
رضاء الحق
 
7 اکتوبر 2023ء سے 7 اکتوبر 2025ء تک کا سفر
 
 دو سال قبل 7 اکتوبر 2023ء کو تحریکِ مزاحمت نے ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی سر زمین پر ’’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘‘ برپا کیا اور اسرائیل ،جو اپنے قیام سے قبل بھی فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث رہا اور 77 سالوں سے فلسطینی مسلمانوں پر مسلسل اور مستقل حملے کرتا رہا ہے، جس کا فلسطین پر ناجائز قبضہ ہے اور یہودیوں کو دنیا بھر سے لا کر فلسطینی مسلمانوں کی زمینوں پر آباد کر رہا ہے، اُس نے اِن دو سالوں میں بہت کچھ کھویا البتہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو تیز تر کر دیا۔ اِن دو سالوں میں خصوصاً غزہ اور دیگر کئی ہمسایہ ممالک نے بے شمار قربانیاں دیں، لیکن ہمارے نزدیک وہ کھوئی ہوئی متاع نہیں بلکہ توشہ آخرت ہیں۔ بہرحال ہم تاریخی پس منظر کو اپنے گزشتہ دو سال کے اداریوں میں متعدد بار پیش کر چکے ہیں، لہٰذا اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔
 حقیقت یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے قبل کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی نہج پر پہنچ چکے تھے اور  تازہ ترین صورتِ حال میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’وہن‘ کی بیماری (حب الدنیا و کراہیۃ الموت) میں مبتلا یہ ممالک ابراہم اکارڈز کا حصّہ بن کر اب بھی ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کر لیں گے۔ وہی اسرائیل جس نے میڈیا اور وزارتِ صحت فلسطین (محمود عباس والی) کی جانب سے بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برس کے دوران غزہ میں مسلسل وحشیانہ بمباری کرکے 70,000 سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ غزہ کو ملیا میٹ کر دیا ہےاور اب بھوک کو غزہ کے مسلمانوں کی نسل کُشی کے لیے بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، اُس کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی آڑ میں قبولیت دے دی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ نتن یاہو کے اِس منصوبے پر عمل درآمد اُسی وقت شروع کر دیا گیا تھا جب اُس نے 2023ء اور پھر 2024ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں یہ منصوبہ نقشوں کے ساتھ پیش کیا تھا۔ اِسی دوران اسرائیل خود کو مشرق وسطیٰ میں امن کا علمبردار ثابت کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا اور خصوصاََ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا میڈیا اس کے اس بیانیہ کو آگے بڑھا رہا تھا۔ 
اِن دو سالوں کے دوران نتن یاہوخود اور اس کے سپاہی گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف رہے اور دورِ حاضر کا ابلیسی اتحادِ ثلاثہ یعنی اسرائیل، امریکہ اور بھارت اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے میں لگا رہا۔ بھارت کو تو پاکستان کے ہاتھوںمئی 2025ء میںمنہ کی کھانا پڑی اور مودی ابھی تک اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔اصل افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ 57 مسلم ممالک میں بسنے والے کم و بیش دو ارب مسلمان بھی اپنا فرض منصبی ادا نہ کر پائے۔ عوام بیچارے کیا کرتے جب مسلم ممالک کی حکومتیں اور افواج ناجائز صہیونی ریاست کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھانے کو تیار ہی دکھائی نہ دئیے۔ 
7 اکتوبر 2023ء کا معرکہ ’’طوفان الاقصٰی‘‘ غزہ کے مجاہدین اور عوام کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔ اگر وہ یہ حملہ نہ کرتے تو اسرائیل گزشتہ 77 سال کی تاریخ کو بھی مسخ و محو کر دیتا، لیکن گزشتہ دو سالوں کے دوران اسرائیل کا حقیقی مکروہ چہرہ کھل کر دنیا بھر کے عوام کے سامنے ضرور آیاہے۔ اسرائیل نے جس وحشیانہ طور پر گزشتہ دو سالوں کے دوران غزہ پر مسلسل بمباری کی ہے، اس سے کم از کم عوامی سطح پراسرائیل سے نفرت پیدا ہو چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ گزشتہ دو برس کے دوران سب سے بڑے مظاہرے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ہوئے جس پر ان ممالک کی حکومتوں نے، جو      انسانی حقوق کا پرچار کرتی تھکتی نہیں، اپنے ہی شہریوں پر لاٹھیاں برسائیں اور انہیں گرفتار کیا۔ یونیورسٹیوں کو یہ ہدایت جاری کی گئی کہ مظاہروں میں شرکت کرنے والے طلبہ کو ان تعلیمی اداروں سے نکال باہر کیا جائے۔ اس کے علاوہ عوامی سطح پر بھی یورپ، امریکہ،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے اور آج بھی جاری ہیں۔ اِن مظاہروں میں فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کے ظلم کی کھل کر مذمت کی گئی، اپنی حکومتوں سے اسرائیل کے مکمل بائیکاٹ اور اسے اسلحہ و دیگر عسکری ساز و سامان فراہم کرنےکے معاہدوں کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ گویا احادیث مبارکہ میں آخری دور کی وہ نشانیاں جن کے مطابق درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے کہ اے مسلم! میرے پیچھے یہودی چھپا ہے اسے قتل کر دو، کی ایک جھلک پوری دنیا میں عوامی سطح پر دکھائی دے رہی ہے۔ 
دوسری طرف امریکہ نے ایک اچھے غلام کی طرح اسرائیل کی ہر معاملے میں بھرپور معاونت کی اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جنگ بندی، جو حقیقت میں جنگ نہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی ہے، کو روکنے کی تمام قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا۔ اسی دوران گلوبل صمود فلوٹیلا، جس میں اکثریت مغربی ممالک کے افراد اور غیر مسلموں کی تھی، اور تین پاکستانی بھی جس کا حصّہ تھے، اسرائیل نے اِس پر بھی تین مرتبہ حملے کیے اور جیسے ہی 2 درجن نہتی کشتیوں کا یہ قافلہ امدادی سامان لے کر غزہ کے پانیوں میں داخل، اسرائیل نے ایک کشتی کے علاوہ سب کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔فلوٹیلاکی کشتیوں پر سوار کم و بیش 250 افراد کو گرفتار کر کے اسرائیل لے جایا گیا، جس میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فلوٹیلا کےتمام اسیران کی حفاظت فرمائے۔ آمین!
کچھ عرصہ سے ٹرمپ نے ابراہم اکارڈز 2 کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے۔ بحیثیت امریکی صدر اُس کے پہلے دورِ حکومت میں جو مسلم ممالک اِس ابلیسی معاہدہ کا حصّہ نہ بنے تھے، ٹرمپ کے مطابق وہ بھی جلد اِس میں شامل ہو جائیں گے۔ اگرچہ ابراہم اکارڈز 2  کے خدوخال اور اِس میں دیگر مسلم ممالک کی شمولیت کا لائحہ عمل کیا ہوگا، یہ واضح نہیں کیا گیا۔ عام تاثر یہ تھا کہ غزہ و ملحقہ ممالک میں اسرائیلی جارحیت بلکہ درندگی کے پس منظر میں کوئی مسلم ملک اپنا منہ کالا کرنے کو تیار نہ ہوگا۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر غزہ کے حوالے سے ٹرمپ نے جو 20 نکاتی مجوزہ  ’’امن منصوبہ‘‘ پیش کیا، اُس نے بہت سی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھا دیا ہے۔ اہم    مسلم ممالک کا اِس مجوزہ منصوبے کی تائید کرنا اور ٹرمپ کو امن کا علمبردار قرار دینا صاف ظاہر کرتا ہے کہ ابراہم اکارڈز کا یہ مرحلہ کیسے طے پائے گا۔ ایک ایسی فلسطینی ریاست جس کی نہ اپنی فوج ہوگی نہ پولیس، نہ وہ سیاسی فیصلے خود کر سکے گی اور نہ معاشی ۔ پھر یہ کہ غزہ کے مسلمانوں کو اسرائیلی غلامی قبول کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ ٹونی بلیئر جیسے جنگی مجرم کو اِس عبوری حکومت میں اہم ذمہ داری دی جائے گی۔ جو مجاہدین ہتھیار نہ ڈالیں گے اُن کو فلسطین بدر کر دیا جائے گا اور غزہ کا مکمل کنٹرول غیر مشروط طور پر اسرائیل کے پاس ہو گا۔ ’’ چنیدہ ‘‘مسلم و غیر مسلم ممالک اِس بات کے ضامن و نگران ہوں گے کہ فلسطینی اِس معاہدے کی خلاف ورزی نہ کریں ۔ یہی ابراہم اکارڈز کی موجودہ شکل ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی لنگڑی لُولی فلسطینی ریاست، جس کی نہ دین میں گنجائش ہے اور نہ بین الاقوامی قانون میں، کو اسرائیل جب چاہے گا ختم کر دے گا۔
 دنیا کی زندگی تمام انسانوں کے لیے دار الامتحان ہے۔ایک حدیث کے مطابق دنیا مسلمانوں کے لیے قید خانہ اور کافروں کے لیے جنت ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے غزہ و فلسطین کے مسلمان شہادتیں دے کر اس امتحان میںسرخرو ہو رہے ہیں، جب کہ اب تو یہ بالکل واضح ہوگیا ہے کہ دیگر مسلم ممالک کی افواج اور ان کے حکمران اس امتحان میںبُری طرح ناکام رہے ہیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان کا اِس حوالے سے معاملہ تو بانیانِ پاکستان نے قرآن و حدیث کے عین مطابق قیامِ پاکستان کے وقت ہی طے  کر دیا تھا۔ روزِ اول سے ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے حوالے سے     ریاستِ پاکستان کی ناقابلِ ترمیم پالیسی طے کر دی تھی کہ اسرائیل، جو مغرب کا ناجائز بچہ ہے، کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جائے گا!
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل لاتوں کا بھوت ہے، باتوں سے نہیں مانے گا۔لہٰذا پاکستان کی حکومت اور مقتدر حلقے معمولی دنیاوی منفعت کو چھوڑیں۔اپنی ساری توجہ اس بات پر مرکوز کرنا ہو گی کہ اپنی استطاعت کے مطابق بھرپور جنگی تیاری کریں۔جن  مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہیں، وہ انہیں مکمل طور پر منقطع کریں اور اُمت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ احادیثِ مبارکہ میں یہ حقیقت بیان کر دی گئی ہے کہ آخری معرکوں میں خراسان کے خطے، جس میں پاکستان کا شمالی حصّہ ، ایران کا ایک صوبہ، پورا افغانستان اور وسطی ایشیا کے دو ممالک کے کچھ حصّے شامل ہیں، سے حضرت مہدی ؒکی نصرت کے لیے فوجیں جائیں گی۔ یہ وہی خراسان ہے جس کے بارے میں ایک اور حدیث مبارکہ میں فرمایا گیاہے کہ سیاہ جھنڈوں والے لشکر یہیں سے روانہ ہوں گے جن کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہاں تک کہ وہ ایلیا ( یروشلم) میں گاڑ نہ دیں۔ پاکستان کو خراسان کے علاقے کو عملی شکل دینے کے لیے بھی کوشش شروع کر دینی چاہیے۔ اگر نتن یاہو گریٹر اسرائیل کے قیام کو اپنا ’تاریخی‘ اور ’روحانی‘ مشن قرار دے سکتا ہے، تو ہمیں بھی خراسان کے خطہ کو عملی شکل دینے کے لیے محنت کا آغاز کر دینا چاہیے۔ مسلم ممالک کی قیادتیں یہ بات بھی نہ بھولیں کہ مسجدِ اقصٰی مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی طرح تیسرے حرم کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن و حدیث سےواضح طور پر ثابت ہے کہ مسجد اقصٰی کی تولیت اور ارض مقدس پر حکومت قائم کرنے کا حق بلکہ فرض صرف مسلمانوں کو حاصل ہے۔مسلمانوں کے علاوہ کسی بھی دوسرے کو ارضِ مقدس میں اپنی حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں۔
 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلم ممالک کی قیادتوں کے دل بدلے اور وہ حقیقی طور پر اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کا درد محسوس کریں۔اِسی چار دن کی زندگی کے اسیر نہ ہوں، جس کے بعد اللہ تعالیٰ کو جواب و حساب دینا ہے۔ دشمن اتنا کچھ کھو کر بھی اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے پوری تندہی سے عمل کر رہا ہے۔ اگر پاکستان کی قیادت چاہتی ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو تو صحیح معنوں میں ’’بنیان مرصوص ‘‘ بن کر نہ صرف دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا بلکہ آگے بڑھ کر سیاسی، سفارتی، معاشی اور اخلاقی مدد کے ساتھ ساتھ عسکری سطح پر بھی فلسطین اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان دشمن کے ظلم کا شکار ہیں، اُن پر ظلم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ اُمّت کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کی سِول و عسکری قیادتوں کو حقیقی جزبۂ ایمانی عطا فرمائے۔ آمین!
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر