اسلامی اقدار کی پامالی اور ہماری ذمہ داریاں
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے26ستمبر 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج کی نشست میں ان شاء اللہ تذکیر بالقرآن کے ساتھ ساتھ کچھ اہم قومی ، بین الاقوامی اور ملی مسائل پر کلام ہوگا ۔ تذکیر بالقرآن چونکہ خطاب جمعہ کا اصل مقصد ہے اس لیے پہلے اس یاددہانی کی طرف آتے ہیں۔
تذکیر بالقرآن:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتاہے: {کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط} (آل عمران :185)
’’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہےاور تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ تو قیامت ہی کے دن دیا جائے گا۔‘‘
اللہ کو پہچاننے کے لیے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ نے قرآن کریم میں اپنے تعارف کے دلائل رکھے ہیں۔ اسی طرح اس کائنات اور انسان کے وجود میں بھی اللہ نے اپنی نشانیاں رکھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان پر غوروفکر کی دعوت دیتاہے ۔ لیکن موت کو پہچاننے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے سامنے دنیا سے لوگ جارہے ہیں ، ان میں بچے بھی شامل ہیں ، بوڑھے بھی ، جوان بھی ، عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کب اُس کی موت آجائے ۔ موت کے بعد ہر کسی نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔ لہٰذا ہر انسان کو نہ صرف موت کو یادرکھنا چاہیے بلکہ آخرت کی تیاری بھی کرنا چاہیے ۔ اسی لیے حدیث میں فرمان نبویﷺ ہے کہ مومن مردوں کو قبرستان بھی جاتے رہنا چاہیے تاکہ مرحومین کے لیے دعائے مغفرت بھی کریں اور اپنے لیے سبق اور یاددہانی بھی حاصل کریں کہ کل اُنہیں بھی جانا ہے ۔ آخرت کی تیاری ہمیں اِسی دنیا میں کرنی ہے ، موت آتے ہی یہ موقع ہم سے چھِن جائے گا، لہٰذا اِس سے پہلے پہلے ہم ایسے اعمال کرلیں کہ آخرت میں ہمارے کام آئیں ۔
اس آیت کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ جنگِ اُحد میں جب 70 صحابہ کرام ؇شہید ہوگئے تو منافقین نے کہا اگر ہماری بات مان لیتے تو ایسا نہ ہوتا ، کس نے کہا تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اس آیت کی ذریعے دیا کہ موت تو ہرذی نفس کو آنی ہے، چاہے وہ جنگ نہ بھی کرے ،یا ساری زندگی جنگ لڑتارہا ہو تب بھی موت کا جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے موت نہیں آئے گی ۔ حضرت خالد بن ولید کا بہت عمدہ قول ہے کہ جوسمجھتا ہے راہِ خدا میں قتال کے لیے نکلے گا تو لازماً مر جائے گا وہ آئے اور خالد کو دیکھے ، جس کے جسم کے ایک ایک حصے پر تیروں ، تلواروں اور نیزوں کے زخموں کے نشان موجود ہیں لیکن وہ بستر مرگ پر موت کا منتظر ہے ۔ اسی طرح جو ساری زندگی راہ خدا میں قتال سے چھپتا پھرے ، موت اُس کو بھی آئے گی۔ فرمایا :
{اَیْنَ مَا تَـکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَـوْکُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍط}(النساء:78) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تم کو پالے گی‘خواہ تم بڑے مضبوط قلعوں کے اندر ہی ہو۔‘‘
موت سے فرار ممکن نہیں لہٰذا ہماری پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم آخرت کی تیاری کریں ۔ لیکن کیا آج ہمارا میڈیا اس کی فکر دلاتاہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ ہمیں دنیا کے معاملات میں پھنسا کر رکھا ہوا ہے ، شوبزنس کی خبریں ، فحاشی اور بے حیائی پر مبنی چیزیں اور ہمارے معاشرے اور اقدار کو تباہ کرنے والی سب چیزیں موجود ہوں گی لیکن آخرت کی فکر دلانے والی کوئی بات نہیں ہوگی ۔ فرمایا: {وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط} (آل عمران :185) ’’اور تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ تو قیامت ہی کے دن دیا جائے گا۔‘‘
اللہ کی راہ میں کتنے نیک لوگ بھی شہید ہوگئے ، حتیٰ کہ انبیاء کو بھی شہید کیا گیا ، بظاہر دنیا میں ان کی محنتوں کا نتیجہ نہ نکلا لیکن آخرت میں ان کے اعمال کا پورا اجرانہیں مل جائے گا ۔ اسی طرح جو بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے یا مصیبتیں اُٹھائے ، اللہ اُس کا اجر ضائع نہیں کرے گا ۔ کتنے ہی نیک لوگ ہیں جو نیکی کی راہ پر چل کر تکلیفیں اُٹھاتے ہیں ، اُن کی کردار کشی کی جاتی ہے، طرح طرح سے ستائے جاتے ہیں ، بظاہر دنیا میں ان کی کامیابی نظر نہیں آتی لیکن اللہ کے ہاں اجر محفوظ ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے :
((اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ)) (رواہ مسلم) ’’یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔‘‘
مومن پابند ہے، اس کو حرام سے بچنا ہے، گناہوں سے بچنا ہے ،نافرمانی سے بچنا ہے، فرائض وواجبات پر عمل کرنے میں مشقت جھیلنی ہے، سردی میں فجر کی نماز میں کھڑا ہوگا تو گرم بستر چھوڑنا پڑے گا، کبھی ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا پڑے گا، گرمی کی راتیں چھوٹی ہوں گی تو نیند توڑنی پڑے گی، نماز کے لیے اُٹھنا پڑے گا۔ حلال پر اکتفا کرے گا، ممکن ہے روکھی سوکھی کھانی پڑ جائے۔ یہ تمام مشقتیں جھیل کر اگر وہ ثابت قدم رہتا ہے تو آخر ت کی دائمی زندگی میں اللہ کی جنتوں میں راحت اور سکون پائے گا ۔ یہ دنیا تو عارضی ہے جبکہ آخرت دائمی ہے ۔ اس دنیا کی چند روزہ زندگی کے لیے جو دوسروں کا حق مارے گا ، ظلم و جبر کرے گا ، کرپشن ، رشوت اور حرام میں ملوث ہوگا تو وہ آخرت کی دائمی زندگی میں جہنم کے عذاب سے دوچار ہوگا ۔ آگے فرمایا : {فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَط}(آل عمران :185)’’تو جو کوئی بچا لیا گیا جہنم سے اور داخل کر دیا گیا جنت میں تو وہ کامیاب ہو گیا۔‘‘
اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی میں جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے ۔ نمرود ، فرعون ، شداد ، قارون جیسے لوگ دنیا میں بہت کامیاب اور خوشحال تھے لیکن وہ چند روزہ اور عارضی کامیابی تھی لیکن موت کے بعد وہ دائمی عذاب سے دوچار ہوئے ۔ ان کے دردناک انجام سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ جس وقت فرعون غرق ہو رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اُس سے مخاطب ہوکر فرمایا :
{فَالْیَوْمَ نُـنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَـکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃًط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ0}(یونس:92 )’’تو آج ہم تمہارے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے ایک نشانی بنا رہے ۔اور یقینا ًبہت سے لوگ ہماری آیات سے غفلت ہی برتتے رہتے ہیں۔‘‘
بس اس دنیاکی اتنی سی حقیقت ہے ۔ اصل میں تو یہ دنیا امتحان ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃًط وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ0}(الانبیاء:35) ’’ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم آزماتے رہتے ہیں تم لوگوں کو شر اور خیر کے ذریعے سےاور تم سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹا دیئے جائو گے۔‘‘
دنیا کی زندگی میں کبھی خوشی ہے ، کبھی غم ہے ، کبھی خوشحالی ہے، کبھی تنگدستی ہے۔لیکن قبر میں جاتے ہوئے بادشاہ بھی خالی ہاتھ جاتا ہے اور جھونپڑی والا بھی خالی ہاتھ جاتاہے ۔ دنیا کی لالچ میں انسان آخرت کو بھول جاتاہے ، اس عارضی دنیا کے لیے اپنی زندگی کو کھپا دیتاہے ۔ جیسا کہ فرمایا:
{اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ (1) حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ(۲)} (التکاثر) ’’تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے!یہاں تک کہ تم قبروںکوپہنچ جاتے ہو۔‘‘
اصل میں کامیاب وہ لوگ ہیں جو آخرت کو مدنظر رکھ کر دنیا کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہتے ہیں ، جیساکہ انبیاء پر بھی آزمائشیں آئیں لیکن انہوں نے ثابت قدم رہ کر انسانوں کے لیے ایک درس چھوڑا ۔ حضرت ایوبؑ 18برس تک شدید بیماری سے گزرے ، حضرت سلیمان ؑ کو بھی آزمایا گیا، حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالا گیا ، اسی طرح تمام انبیاء پر آزمائشیں آئیں ۔
آج ہم تنہائی میں بیٹھ کر ذرا سوچیں کہ کیا ہم موت کے حوالے سے سنجیدہ ہیں ؟ آخرت کی جوابدہی کا خوف ہمارے دل میں ہے ؟جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے سنجیدہ ہیں ؟کیا اپنے گھروالوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے سنجیدہ ہیں ؟اس دنیا کی عارضی کامیابیاں ، عارضی سہولتیں ، عارضی خوشیاں دلانے کے لیے تو دن رات بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، کیا آخرت کی دائمی ناکامی اور جہنم کے دائمی عذاب سے بچانے کے لیے بھی کچھ کر رہے ہیں ؟یہ بھی غور کرلیں کہ پچھلے 24 گھنٹوں میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے کتنی مرتبہ جہنم کے عذاب سے بچانے اور جنت میں لے جانے کی دعا کی ہے ، اپنے پیاروں کی بخشش کے لیے کتنی مرتبہ دعا کی ہے ، اس سے ہمیں آخرت کے حوالے سے اپنی سنجیدگی کا اندازہ ہو جائے گا ۔ اللہ کی جنت اتنی سستی نہیں ہے ، چند ہزار یا چند لاکھ کی تنخواہ بغیر محنت کے نہیں ملتی تو کیا دائمی جنت اتنی آسانی سے مل جائے گی ؟اللہ تعالیٰ ہمیں غوروفکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آگے فرمایا :
{وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَـآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(185)}(آل عمران :185) ’’اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘
سیدنا علی نے فرمایا تھا:لوگو! تم آج سو رہے ہو جب موت آئے گی تب تم جاگو گے ۔دنیا کی حقیقت سے انسان غافل رہتا ہے لیکن جب موت آتی ہے تو پردہ اُٹھ جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحٰىہَا(46)} (النازعات)’’جس دن وہ اسے دیکھیں گے (انہیں یوں لگے گا ) گویا وہ نہیں رہے (دنیا میں) مگر ایک شام یا اس کی ایک صبح۔‘‘
جس دنیا کو نہ جانے کیا کچھ سمجھ رکھا ہے ، اور اس کے لیے اتنی بھاگ دوڑ اور ظلم و جبر ہو رہا ہے ، لوگوں کے حقوق چھینے جارہے ہیں ، زندگیاں پامال ہو رہی ہیں ، قتل عام ہورہا ہے، لیکن موت آتے ہی اس کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی ۔ اللہ کے رسول ﷺ ایک جگہ تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں کچرے کے ڈھیر پر بکری کا مردہ بچہ پڑا ہوا تھا ۔ آپ ﷺ نے اُمت کی تعلیم کے لیےفرمایا :اس کو کون خریدنا چاہے گا ۔ صحابہؓ نے گزارش کی : یارسول اللہ ﷺ ! اس مردار کو کون خریدے گا ؟ فرمایا: اللہ کی قسم ! یہ دنیا اور اس کا مال و متاع اس سے بھی زیادہ کمتر اور حقیر ہے۔ دنیا کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ ادھر جتنی مہلت ملتی ہے اس سے فائدہ اُٹھا کر آخرت کی تیاری کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین!
اسلامی اقدار کی پامالی اور ہماری ذمہ داری
ہمارے ٹی وی چینل پر ڈراموں میں جس کلچر اور تہذیب کو پروموٹ کیا جارہاہے وہ ہماری اقدار کے بالکل خلاف ہے ۔ گزشتہ دنوں ترکیہ میں ایک پاکستانی کی جانب سے تیار کیے گئے ایک ڈرامے کے بارے میں اخبارات اور سوشل میڈیا پر خبریں پھیلیں اور دینی طبقات کی جانب سے بھی توجہ دلائی گئی کہ اس میں نکاح کے بغیر بندھن، بے حیائی اور فحاشی کو پروموٹ کیا گیاہے ۔ یہ انتہائی قابل ِمذمت ہے اور مکروہ فعل ہے جس سے ہمارا معاشرہ اور ہماری اقدار کی پامالی کا اندیشہ ہے ۔ لیکن صرف ترکیہ کا وہ ڈراما ہی نہیں بلکہ ہر اس ڈرامے اور فلم کو ٹی وی چینلز پر دکھانے پر پابندی عائد ہونی چاہیے جو ہماری اقدار کے خلاف ہے ۔ اسی طرح ٹی وی چینلز پر ناچ گانے اور بے حیائی پھیلانے والی تمام چیزوں پر بھی پابندی لگنی چاہیے ۔ پیمرا کے کوڈ آف کنڈکٹ میں لکھا ہوا ہے کہ ہمارے میڈیا پر کوئی بات نظریۂ پاکستان کے خلاف نہیں دکھائی جائے گی۔نظریۂ پاکستان یہی ہے کہ’’ پاکستان کا مطلب کیا : لا الٰہ الا اللہ ۔‘‘ یہاں کلمے کا نفاذ ہونا چاہیے نہ کہ غیر اسلامی تہذیب کو پروموٹ کیا جائے ۔ نظریۂ پاکستان کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں پردے اور حیا کو پروموٹ کیا جائے ، نکاح کےمقدس بندھن کوعزت دی جائے ، محرم اور نامحرم کی تمیز نئی نسلوں کو سکھائی جائے ۔ مرد اور عورت کے لباس کے بارے میں اسلامی شعور کو اجاگر کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں( النور:31 )باقاعدہ یہ تمام احکامات نازل فرمائے ہیں ۔ اسی طرح سورۃ الاحزاب: 53تا 59 میں بھی ہدایات ہیں ۔ تنظیم اسلامی اور انجمن ہائے خدام القرآن کے زیر اہتمام پردے ، حجاب اور حیا کے موضوع پر کئی کتب بھی شائع ہوئی ہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا ایک اہم خطاب بعنوان ((شرعی پردہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں)) تھا ، وہ بھی کتابی شکل میں موجود ہے ۔ اللہ کے دین میں حیا ، پردے ، حجاب ، محرم اور نامحرم کی تمیز کے بارے میں تفصیل سے ہدایات دے دی گئی ہیں ۔ یہاں تک بھی فرمایا گیا ہے کہ : {وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی} ’’اور زنا کے قریب بھی مت جائو۔‘‘(بنی اسرائیل:32)
وہ تمام چیزیں جو فحاشی اور زنا کی طرف لے جانے والی ہیں، اُن کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا ۔ لہٰذا بے حیائی اور فحاشی پھیلانے والے ڈراموں اور فلموں کی صرف مذمت ہی کافی نہیں ہے ، بلکہ ان چیزوں کا سدباب بھی ضروری ہے ، ہمارے سکولوں ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں آج کل کیا ہورہا ہے ، اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پورے نظام کو ہی بدلنا ہوگا۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ جسم پر پھوڑے نکل آئیں تو ان پر مرہم لگانے سے وقتی آفاقہ تو ہوگا لیکن وہی پھوڑے دوسری جگہ سے نکل آئیں گے ۔ اصل حل تشخیص ہے کہ یہ پھوڑے نکل کیوں رہے ہیں ؟ اسی طرح انگریز کا بنایا ہوا یہ پورا نظام ہی فرسودہ ہے ، جزوی اصلاح سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ، پورے کے پورے نظام کو بدلنا ہوگا ۔
والدین پر بھی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ وہ اپنے بچوں کی اسلامی اقدار کے مطابق تعلیم و تربیت کا اہمتام کریں ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں باقاعدہ حکم دیتاہے:
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} (تحریم :6)’’اے اہلِ ایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے۔‘‘
آج دجالی فتنے اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں ، سوشل میڈیا پراسلام دشمن قوتیں اور این جی اوز پروپیگنڈا پھیلا رہی ہیں ، ملحدین کے گروہ متحرک ہیں ، اللہ کے وجود اور آخرت کے تصور پر سوالات اُٹھائے جارہے ہیں ،ان حالات میں والدین کا کام ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور ان کی تعلیم و تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کریں ۔ دین کا تقاضا ہے کہ بچہ جب بالغ سال کا ہو جائے تو اس کو مسجد میں باجماعت نماز کے لیے بھیجا جائے ۔ آج ہمارے ہاں بچوں کو مسجد میں لانے کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ۔
ایک امریکی تھنک ٹینک کی تحقیق نظروں سے گزری کہ آج اگر ہم نے اپنے دینی اجتماعات میں بچوں کی حاضری کو یقینی نہ بنایا تو ہماری آنے والی نسلیں مشین بن کر رہ جائیں گی(اپنی ذات تک محدود ہو کر رہ جائیں گی ) جن میں اخلاقیات اور احساس کا نام و نشان تک نہ رہے گا ۔ اندازہ کیجئے کہ غیر مسلموں کو بھی اپنی آئندہ نسلوں کی اتنی فکر ہے ۔ ہم تو مسلمان ہیں اور ہمارا دین بھی برحق ہے ۔ ہمارے دین کا باقاعدہ تقاضا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کی تربیت اسلام کے مطابق کریں ، روز محشر اس حوالے سے ہم سے حساب لیا جائے گا ۔ ہم اپنے بچوں کو دنیا جہاں کی تعلیم دلوا دیں ، جتنی مرضی ہے ڈگریاں دلوائیں لیکن اگر ہم نے انہیں قرآن نہیں پڑھایا ، شریعت کے مطابق زندگی گزارنا نہیں سکھایا تو گویا ہم نے اپنا دینی فرض پورا ہی نہیں کیا اور اس کا ہمیں آخرت میں جواب دینا ہوگا ۔ تنظیم اسلامی کی سطح پر ہم گھریلو اُسرہ کے اہتمام پر زور دیتے ہیں جس میں گھر والے بیٹھ کر قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور یہ اُسرہ ہفتہ وار ہوتا ہے ۔ والدین کے لیے یہ بہت آسان ہو سکتاہے کہ ہفتے میں ایک دن مقرر کرلیں جس میں آدھا گھنٹہ یا ایک گھنٹہ سب اہل خانہ بیٹھ کر قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں ، دینی موضوعات پر گفتگو کریں اور کوشش کریں کہ بچوں کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنا آجائے ۔ ورنہ وہ اپنی زندگی میں جتنے بھی غلط کام کریں گے، ان کا عذاب والدین پر بھی آئے گا ۔
ملکی وبین الاقوامی حالات
ہمارے ملک کے ایک اہم عہدیدار نے ایک مرتبہ پھر خلاف توقع بیان دیا ہے کہ افغانستان ہمارا دشمن ملک ہے ۔ ایک طرف ہم اتحاد ِاُمت کی باتیں کر رہے ہیں اور دوسری طرف اپنےپڑوسی مسلم ممالک کے خلاف اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ یہ طرزعمل اتحادِ اُمّت کے منافی ہے ۔ ایک طرف ہم کہہ رہے ہیں کہ بھارت ہمارا دشمن ملک ہے ۔ دوسری طرف افغانستان کو بھی اپنا دشمن بنالینے سے کیا ہم دشمن قوتوں کو موقع نہیں فراہم کر رہے؟ جبکہ احادیث رسول ﷺ موجود ہیں کہ خراسان سے اسلامی لشکر امام مہدی اور حضرت عیسیٰ ؑ کی نصرت کے لیے جائیں گے ۔ خراسان میں افغانستان ، شمالی پاکستان اور شمالی ایران بھی شامل ہیں ۔ بجائے اس کے کہ فرمان رسولﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ہم آپس میں متحد ہو کر مستقبل کی تیاری کریں ، اُلٹا ہم دشمنوں کے منصوبے کو کامیاب بنا رہے ہیں جو نہیں چاہتے کہ اس خطہ میں امن ہو ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے ۔
مشن نور کے عنوان سے بھی ایک بحث چلی جس میں قادیانیوں کا ذکر بھی آیا کہ نور کا ٹائٹل وہ اپنے مختلف چینلز اور رسالوں کے لیے کرتے ہیں ، ہمارے نزدیک قادیانی کافر ہیں ، ان سے کسی بھی قسم کا تعلق کوئی بھی رکھے گا تو وہ قابل مذمت ہے ۔ دین دشمنوں کے ساتھ روابط پاکستان اوراسلام کے مفاد میں نہیں ہو سکتے ۔
وزیراعظم پاکستان سمیت 6 دیگر مسلم ممالک کے ذمہ داران کی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ہوئی ۔ جس کے بعد ٹرمپ کے بارے میں تعریفی بیانات دیئے گئے ، حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے پیچھے اصل قوت امریکہ ہی ہے ۔ جب بھی غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے قرارداد سلامتی کونسل میں پیش ہوتی ہے تو اس کو امریکہ ویٹو کر دیتاہے ۔ اس کے باوجود ٹرمپ کو امن کا علمبردار قراردینا افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے ۔ شروع میں ذکر آیا کہ ہرذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے ، یہ کرسی و اقتدار چند روزہ ہے آخر اللہ کے سامنے جواب دینا ہے ۔ کئی مسلم اور غیر مسلم ممالک نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیا ،یہ اصل میں دھوکہ ہے ۔ ایسی ریاست کا کیا کرنا جس کی اپنی فوج ہو گی اور نہ پولیس ہوگی ، اسلحہ رکھنے کی اجازت ہوگی اور نہ ہی فیصلے خود کر سکیں گے ۔ یہ اصل میں فلسطین پر مکمل صہیونی قبضہ کا منصوبہ ہے ۔ پاکستان کی اصل اور دیرینہ پالیسی تو یہ تھی کہ پورا فلسطین مسلمانوں کا ہے اور صہیونی اس پر ناجائز قابض ہیں ۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے اور اس کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے ۔ دوریاستی فارمولا کو تسلیم کرنا اصل میں اسرائیل کو تسلیم کرلینے کے مترادف ہے ۔ اگر ایسا کیا گیا تو کل کشمیر پر بھارتی قبضہ کو غلط کس منہ سے کہو گے ؟صہیونیوں کے عزائم واضح ہیں وہ گریٹر اسرائیل کے قیام کی باتیں سرعام کر رہے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ وہ شام ، لبنان ، فلسطین، اردن سمیت پورے خطے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔ پاکستان کو بھی صرف حرمین شریفین کی حفاظت کی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے بھی مسلم ممالک کو متحد ہونا چاہیے ۔ یہ اتحاد پوری اُمت کی سطح پر ہو۔
گلوبل صمود فلوٹیلا
اہل غزہ کی امداد کے لیے 50 سے زائد ممالک کا مشترکہ امدادی قافلہ غزہ کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ پاکستان کی طرف سے سابق سینیٹر مشتاق احمدصاحب بھی اس قافلہ میں موجود ہیں ۔ ان کی طرف سے پیغام آیا کہ جمعہ کے خطبات میں بھی بات کی جائے اور عوام سے اپیل کی جائے کہ سوشل میڈیا پر اس قافلہ کے تحفظ کے لیے بھرپور آواز اُٹھائی جائے ۔یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے مظلوم مسلم بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کے لیے آواز اُٹھائے ، آج غیر مسلم بھی اہل غزہ کے لیے آواز اُٹھا رہے ہیں اور بڑی تعداد میں امدادی قافلہ میںبھی شامل ہیں ، اپنی اپنی حکومتوں کو توجہ دلا رہے ہیں ، مسلمانوں کو تو بڑھ چڑھ کر اپنے حکمرانوں کو جگانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اگر قافلہ میں شامل لوگ نہتے ہو کر اہل غزہ کی مدد کے لیے جارہےہیں تو مسلم حکمران کیوں کھڑے نہیں ہو سکتے ۔ مسلم ممالک کے پاس دولت بھی ہے ، وسائل بھی ہیں ، اختیارات بھی ہیں ، افواج اور اسلحہ بھی موجود ہے ۔ اٹلی نے اپنا ایک بحری جہاز قافلہ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا ہے ۔ سپین کی طرف سے بھی خبریں آرہی ہیں ، پاکستان، سعودیہ، ترکیہ اور ملائیشیا کو بھی چاہیے کہ اپنی نیوی کو متحرک کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!