اسرائیل مسلم ممالک پر حملے کر رہا ہے،اس کے باوجود مسلم
حکمران اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں :آصف حمید
امریکہ نے حالیہ معاہدہ کے ذریعے آزاد فلسطینی ریاست کی جانب پیش
رفت کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں ہمارے مسلم
حکمران بھی ٹرمپ کے ہاتھوں کھلونہ بن گئے ہیں : توصیف احمد خان
’’غزہ جنگ بندی معاہدہ: توقعات وخدشات ‘‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : وسیم احمد باجوہ
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں غزہ امن معاہدے کے لیے ایک بیس نکاتی ایجنڈا دیا ہے، اس ایجنڈے کے بنیادی خدوخال کیا کیا ہیں ؟
توصیف احمد خان:ٹرمپ نے کہا یہ 20 نکاتی ایجنڈا مسلم ممالک نے مل کر بنایا ہے اور ہم نے اس کو فائنل شکل دی ہے ۔ جبکہ یہ جھوٹ ہے ، حقیقت میں یہ فارمولا ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان طے ہوا ہے اور ٹرمپ نے مسلم ممالک کو الٹی میٹم دے دیا کہ 48 سے 72 گھٹنے کے اندر اس فارمولے کو مان لو ورنہ امداد نہیں ملے گی، اور بھگتنا پڑے گا، انہوں نے مجبوراً اسے قبول کر لیا ہے ۔ جبکہ غزہ کے اصل فریق فلسطینی مسلمان ہیں، ان سے پوچھا تک نہیں گیا ۔مسلم ممالک نے کہا کہ ہم نے کچھ تجاویز دی تھیں۔ معاہدے میں21واں نکتہ بھی تھا کہ مستقبل میں آزاد فلسطینی ریاست کے لیے کوشش کی جائے گی لیکن نیتن یاہو نے یہ شق ہی نکلوا دی ، اسی طرح دیگرشقوں میں بھی ردوبدل کی گئی۔ معاہدے میں فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنے کی شق بھی شامل ہے۔ حالانکہ 77 سال سے اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کو شہید کر رہی ہے ، حالیہ غزہ جنگ میں بھی 70 ہزار فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں ۔ جس اسرائیل نے یہ سب مظالم ڈھائے ، جس نے ہر مسلم ممالک کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے ، جس کے عزائم میں پورے خطے پر قبضہ کرنا شامل ہے ، اس پر کسی پابندی کی بات نہیں کی گئی ، لیکن فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔ یہ معاہدہ یکطرفہ ہے ، یہی وجہ ہےکہ اب عرب ممالک بھی اپنا بیان بدل رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ہم نے کچھ اور تجاویز بھی دی تھیں، وہ شامل نہیں کی گئیں ۔ یہی بات پاکستان کے وزیر خارجہ بھی کہہ رہے ہیں ۔ ایک بات ان کی درست ہے کہ پہلے عرب ممالک ہیں ، اس کے بعد ہم ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ سب سے پہلے آپ نے ٹویٹ کیوں کیا ؟ آپ نے اس فارمولے کو ویلکم کیوں کیا؟اب مغربی ممالک بھی اس معاہدے پر سوالات اُٹھا رہے ہیں ۔ اس سے قبل اسرائیل Isolateہو گیا تھا ، مغربی ممالک بھی اس کے خلاف بول رہے تھے مگر یہ معاہدہ کرکے اس کو پھر فلسطین پر قبضے کا راستہ دے دیا گیا ہے ۔
دوسری طرف اسلامی جہاد اور حماس کے القسام بریگیڈ نے بھی اس معاہدے کو مسترد کردیا ہے ۔ ان پر قطر ، سعودی عرب اور ترکیہ کا سخت دباؤ ہوگا کہ آپ مان جائیں ۔آج ہی قطری وزیراعظم نے الجزیرہ کو انٹرویو دیا ہے کہ اس معاہدے کو دوسرے فریق نے بھی دیکھنا ہے ۔ معاہدے میں یہ شق بھی رکھی گئی تھی کہ جب تک اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کیا جائے گا ، تب تک غزہ کے بھوک سے تڑپتے مسلمانوں کو امداد نہیں ملے گی ۔ مگر یہ امداد ، حماس ، الجہاد جیسے جہادی گروہوں کے لیے نہیں ہوگی ۔ معاہدے میں یہ شق بھی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا تو باقی شقوں پر بھی عمل ہوگا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے گارنٹی کون دے گا ؟ 2025ءکے آغاز میں بھی ٹرمپ نے معاہدہ کروایا تھا لیکن اسرائیل نے اس کی خلاف ورزی کی اور پھر قتل عام شروع کردیا ۔ اسرائیل چاہتاہے کہ حماس کو وہاں سے نکال دیا جائے اور پھر چن چن کر قتل کر دیا جائے ۔ اگر حماس نے معاہدہ تسلیم کرلیا تو یہ فلسطینیوں کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا ۔ پاکستانی حکومت سے میرا یہ سوال ہے کہ آپ ٹرمپ کو خوش کرنے گئے تھے یا سیز فائر کروانے گئے تھے؟پھر اب آپ پیچھے کیوں ہٹ رہے ہیں ؟
سوال: اس کو خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی کہیں کہ ہمارے مسلم اور غیر مسلم حکمران اس 20 نکاتی امن فارمولے کو بہت زیادہ پسند کر رہے ہیں اور ٹرمپ کو امن کا علمبردار باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ آپ یہ بتائیں کہ ان 20 نکات میں فلسطینیوں کے لیے بھی کوئی امید کی کرن ہے یا نہیں ؟
آصف حمید: مسلمان ممالک پر سورۃ الممتحنہ کی یہ آیت صادق آتی ہے ۔ فرمایا:
’’اے اہل ِایمان! تم میرے دشمنوںاور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنائو‘تم ان کی طرف دوستی اور محبت کے پیغامات بھیجتے ہو‘حالانکہ انہوں نے انکار کیا ہے اُس حق کاجو تمہارے پاس آیا ہے۔‘‘وہ رسولؐ کو اور تم لوگوں کو صرف اس بنا پر جلاوطن کرتے ہیں‘کہ تم ایمان رکھتے ہو اللہ ‘اپنے رب پر ۔‘اگر تم نکلے تھے میرے راستے میں جہاد کرنے اور میری رضاجوئی کے لیے (تو تمہارا یہ طرزِعمل اس کے منافی ہے)‘تم انہیں خفیہ پیغامات بھیجتے ہو محبت اور دوستی کے‘اور میں خوب جانتا ہوں جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم ظاہر کرتے ہواور جو کوئی بھی تم میں سے یہ کام کرے تووہ یقیناً سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘(الممتحنہ:1)
قرآن مجید کی اس آیت کو سامنے رکھیں اور ٹرمپ کے ساتھ مسلم ممالک کا جومعاہدہ ہوا ہے ، اس کو سامنے رکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ درحقیقت حالیہ معاہدہ بھی گریٹر اسرائیل کی جانب ہی ایک اور قدم ہے۔ وہ جانتے تھے کہ پوری دنیا اسرائیل کے خلاف ہو چکی ہے، لہٰذا انہوں نے ایک چال چلی ہے تاکہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ہم تو امن چاہتے ہیں لیکن فلسطینی مسلمان نہیں چاہتے۔ حالانکہ اس معاہدے میں فلسطینی مسلمانوں کےمستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔ ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف آن بورڈ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ہماری حکومت کہہ رہی ہے کہ ہماری بات مانی ہی نہیں گئی ۔ ثابت ہوتا ہے کہ معاملہ یکطرفہ ہی ہوا ہے ۔ پھر جو نام نہاد اتھارٹی قائم کرنے کی بات کی جارہی ہے ، اس کو لیڈ کرنے کے لیے ٹونی بلیئر کا نام لیا جارہا ہے۔ یعنی یہ ساری بندر بانٹ اسرائیل کے مفاد میں ہورہی ہے ۔ معاہدے کے مطابق اگر حماس کو بے دخل کیا جائے گا تووہ کہاں جائیں گے ، اگر قطر میں اُن پر حملہ ہو سکتاہے تو کسی اور ملک میں وہ کیسے محفوظ رہیں گے ۔ ایک اور مضحکہ خیز بات یہ ہوئی کہ نیتن یاہو نے فون کرکے اسرائیلی حملے میں قطری شہری کی ہلاکت پر قطر سے معافی مانگی ہے لیکن حملہ کرنے اور حماس کے لوگوں کو شہید کرنے پر کوئی معافی نہیں مانگی ۔ یہ ہماری ذلت اور رسوائی کی انتہا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے؟تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو یہ حرکت کرے تم میںسے‘ سوائے ذلت و رسوائی کے دنیا کی زندگی میں۔اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف۔‘‘ (البقرۃ:85)
آج پوری دنیا میں 2 ارب مسلمان موجود ہیں اور ان میں ایک ملک نیوکلیئر پاور بھی ہے مگر حالت یہ ہےکہ ٹرمپ کھانے پر بلا لے ، اس کے ساتھ اچھا فوٹو سیشن ہو جائے ، بات چیت ہو جائے تو اُمت کے مفادات پر سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے ۔ یعنی دنیو ی آقا راضی ہو جائیں مگر اللہ بے شک ناراض ہو ۔ یہ مسلمان کا شیوہ نہیں ، یہ ذلت و رسوائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ بھی بتا دی ہے ۔ فرمایا : {وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} (آل عمران) ’’اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘
اگر آج ہم ذلیل و خوار ہیں تواس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ شایدہمارا نام مومنین کی فہرست سے کہیں بہت پیچھے ہے ۔
سوال: کہا جا رہا ہے کہ اس 20 نکاتی فارمولےمیں تھوڑی بہت ردوبدل کے بعد حماس کے لوگ بھی راضی ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو کیا یہ 70 ہزار شہداء سے غداری نہیں ہوگی ؟
توصیف احمد خان:حماس ایک سیاسی تحریک ہے اور اس کا اپنا ایک نظریہ ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ جہادی تنظیم بھی ہے۔ اُس کا اس معاہدے میں کوئی کردار نہیں ہوگا ۔ معاہدے کے مطابق غزہ کو مغربی کنارے کی اتھارٹی سے الگ تھلگ کردیا جائے گا۔ اس کے پیچھے اصل مقصد یہ چھپا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ غزہ کو خالی کرکے وہاںاقتصادی زون بنانا چاہتے ہیں جہاں امریکی کمپنیاں آکر سرمایہ کاری کریں گی ۔ یعنی معاہدے سے اہل غزہ کو تحفظ نہیں دیا گیا بلکہ اسرائیل کو فیس سیونگ دی گئی ہے ۔ اہل غزہ کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے ۔ معاہدے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کے انچارج ہوں گے اور ٹونی بلیئر ان کے ماتحت ہوں گے ۔ کیا قاتلوں کا یہ ٹولہ غزہ کے مسلمانوں کی نگہداشت کرے گا ؟ یہی ٹونی بلیئر عراق میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث رہا ہے اور اس پر اس نے بعد میں معافی بھی مانگی ۔ اسی طرح پہلے بھی فلسطین میں ایک فورم بنایا گیا تھا ، ٹونی بلیئر بھی اس میں شامل تھا ، جو فلسطینی امداد کے لیے آتے تھے ان پر فائر کھولا جاتا تھا۔فلسطینیوںنے واضح کہا تھا کہ ٹونی بلیئر اسرائیل کا ایجنٹ ہے ۔ خود برطانوی اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ٹونی بلیئر سے زیادہ فلسطینیوں کا غدار کون ہوگا ، یہ تو اسرائیل کے لیے کام کرتاہے ۔ اب دوبارہ وہی ٹونی بلیئر امریکی مدد سے آیا ہے ۔فلسطینی ان سب چالبازیوں کو سمجھتے ہیں ، وہ کسی صورت سرنڈر نہیں کریں گے ، ایک تنظیم ختم ہوگی تو دوسری بنالیں گے اور جہاد جاری رکھیں گے ۔
سوال: فلسطینی مجاہدین کے جذبہ میں کوئی کمی نہیں آئی ، مسجد اقصیٰ کی حفاظت پر انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ، اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو کا منصوبہ کامیاب ہوگیا تو کیا فلسطینیوں کی اس جدوجہد پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے ؟
آصف حمید:حدیث کے مطابق بلادِ شام میں جہاد قیامت تک جاری رہے گا ۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت کا ایک گروہ دمشق کے دروازوں اور اس کے اطراف اور بیت المقدس کے دروازوں اور اس کے اطراف میں لڑتا رہے گا ۔ ان کی مخالفت کرنے والا ان کی جدوجہد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور وہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ کہ قیامت آجائے ۔ احادیث میں ایک بڑی جنگ الملحمۃ الکبریٰ کا بھی ذکر ہے ۔ اب حالات بہت تیزی سے اُس کی طرف جارہے ہیں ۔ اسرائیل کا ہر شہری فوجی تربیت لیتا ہے اورا س کے فوجیوں کے بیج(badge) میں گریٹر اسرائیل کا نقشہ ہے ، وہ اپنے طور پر مذہبی جنگ لڑرہے ہیں لیکن دوسری طرف مسلمان ممالک نے جہاد کو ممنوع قرار دیا ہوا ہے اور اس کے باوجود کہ اسرائیل مسلم ممالک پر حملے کر رہا ہے ، مسلم حکمران اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں ۔ حالیہ معاہدے کا بھی فائدہ اسرائیل اور ٹرمپ اٹھائیں گے۔ ٹرمپ کےغزہ میں معاشی مفادات ہیں ۔ اُمت مسلمہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے تسلط کا شکار رہے گی جب تک کہ ہم خود کھڑے نہ ہوجائیں ۔ لیکن فلسطینی مسلمانوں کا کردار قابل تحسین ہے کہ انہو ں نے ابھی تک ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی حماس کو غلط کہا ۔ ایک کفار کا منصوبہ ہے اور ایک اللہ کا منصوبہ ہے ۔ فرمایا :
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)} ’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
اللہ کا جو منصوبہ ہے اس کے مطابق بلادِ شام میں جہاد جاری رہے گا ۔ دنیوی طور پر حماس اور فلسطینی مسلمانوں نے اگرچہ کچھ نقصان اُٹھایا ہے لیکن پوری دنیا میں فلسطین کے مسئلے کو انہوں نے اجاگر کر دیا ہے ، آج پوری دنیا میں لوگ اسرائیل کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ آگے جاکر کچھ اور لوگ بھی اس تحریک میں شامل ہو جائیں گےاور یہ تحریک کبھی ختم نہیں ہوگی ۔ ان شاء اللہ !
سوال:اسرائیل کےکئی اعلیٰ عہدیداراعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ اگر فلسطینیوں نے ہتھیار نہ ڈالے اور ہمارے قیدی رہا نہ کیے تو یہ جنگ رکنے والی نہیں ہے؟آپ کے خیال میں معاہدے کا انجام کیا ہوگا ؟
توصیف احمد خان: ہم نے ایک بیانیہ بنا لیا ہے کہ فلسطینی مر رہے ہیں لہٰذا اس نام پر سیز فائر کرلیا جائے ۔ لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اسرائیل یہ جنگ ہار رہا ہے ۔ دو سال کی مسلسل جنگ کے باوجود ابھی تک اسرائیل اپنا کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کر سکا ۔ نہ تو وہ اپنے قیدی واپس لے سکا اور نہ ہی حماس کو ختم کر سکا ۔ اسرائیل کے آرمی چیف نے اسی وجہ سے جنگ کی مخالفت کی تھی اس نے کہا تھا کہ غزہ سے ہمیں اب اورکیا نکالنا ہے ، دوسرا اس نے کہا تھا کہ ہم اپنے قیدی واپس نہیں لے سکیں گے ۔اب اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ 86 فیصد غزہ پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے جبکہ حقیقت یہ ہےکہ اسرائیلی فوجیوں کو اسی علاقے میں مار پڑرہی ہے ، ان کے ٹینکوں کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ بھی نہیں کر سکا ۔ نیتن یاہو کا صرف سیاسی مسئلہ ہے ، وہ دوسرا بن گوریان بننا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران پر بھی حملہ کیا، لیکن اس کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے ۔ ان شاء اللہ !
سوال:اگرحالیہ معاہدے پر عمل درآمد ہوتاہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ صہیونیوں کا جو گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ہے، اس سے وہ پیچھے ہٹ جائیں گے ؟
آصف حمید:جس نقشے کو وہ اپنے بازو پر لگائے پھر رہے ہیں اور جس کو نیتن یاہو روحانی مشن قرار دے رہا ہے، اس سے وہ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ ان کا پروگرام تو یہ ہے کہ وہ تمام علاقے قبضے میں لیے جائیں جہاں جہاں یہودی قبائل تاریخ میں آباد رہے ہیں ، وہ مدینہ منورہ تک پر قبضے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا جو سیمسن پلان ہے ، اس کے مطابق اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو پورے خطے کو ایٹمی جنگ میں جھونک دیں گے ۔ وہ اس جنگ کو مذہبی جنگ سمجھتے ہیں ، ان کے مطابق ان کا مسایاح آکر یروشلم سے پوری دنیا میں حکومت کرے گا ۔ اس کے لیے وہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنے کی تیار کررہے ہیں ۔ اسی طرح جو ایوینجلیکل عیسائی ہیں ان کا بھی یہی نظریہ ہے کہ ان کا مسایاح آکر یروشلم سے پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔ وہ بھی صہیونیوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں ۔ البتہ حدیث میں ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو وہ اسلام کی تصدیق کریں گے اورصلیب کو توڑ دیں گے ، اس کے بعد تمام سچے عیسائی اسلام قبول کرلیں گے ۔ یہودیوں کا ایک طبقہ اسرائیل کو ناجائز کہہ رہا ہے ، اس کے مطابق ان کا مسایاح خود آکر گریٹر اسرائیل بنائے گا ۔ یہودیوں کا یہ طبقہ فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کرتا ہوا بھی نظر آتاہے ۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان غفلت کا شکار ہیں اور اگر اب بھی یہ نہ جاگے تو مستقبل قریب میں مزید نقصان اُٹھائیں گے ۔
سوال:امریکہ دنیا کو یوکرائن کے حوالے سے انسانی ہمدردی اور جنگ بندی کے درس دیتا ہے لیکن غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری کو روکنے کے لیے جب بھی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی جاتی ہے تو امریکہ اس کو ویٹو کر دیتاہے ، دوسری طرف امداد اور جنگ بندی کی باتیں بھی کرتاہے ، امریکہ کے اس دہرے معیار اور کردار کے متعلق آپ کیا کہیں گے ؟
توصیف احمد خان: اسرائیل کی وجہ سے امریکہ پوری دنیا میں تنہا ہو چکا ہے ، اس نے قتل و غارت گری کے لیے اسرائیل کو ہر طرح کا اسلحہ فراہم کیا اور امداد دی ۔ ایران پر حملے میں بھی اسرائیل کا ساتھ دیا ۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے دوران اپنا ایئر ڈیفنس سسٹم ڈاؤن کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف جو 8 مسلم ممالک امریکہ بہادر کے سامنے حالیہ معاہدے کے نام پر بیٹھ گئے ، ان کے پاس وسائل بھی ہیں ، ہتھیار بھی ہیں ، ڈیٹرنس بھی ہے ، اگر یہ بہتر حکمت عملی اختیار کرتے تو 20 نکاتی فارمولے سے بہتر نتائج حاصل کر سکتے تھے ۔کیونکہ بہت سے یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے جارہے تھے ۔ امریکہ نے حالیہ معاہدہ کے ذریعے آزاد فلسطینی ریاست کی جانب پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں ہمارے مسلم حکمران بھی ٹرمپ کے ہاتھوں کھلونہ بن گئے ہیں ۔ اسرائیل ہی اصل میں امریکہ ہے ، اس نے پورے یورپ کو دھمکیاں دی ہیں کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم مت کریں ، اس نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیلی فٹ بال ٹیم فیفا ورلڈ کپ میں شامل نہیں ہوگی تو آگ لگا دیں گے ۔ دراصل امریکہ اور اسرائیل دونوں کالونیل ازم کی پیداوار ہیں اور کالونیل ازم دوسری قوموں کے قتل عام اور قبضہ گیری کا نام ہے ۔ جو کچھ انہوں نے امریکہ اور آسٹریلیا کی مقامی قوموں کے ساتھ کیا وہی کچھ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے ۔
سوال: کہا جارہا ہے کہ اس معاہدے کا اصل فائدہ اسرائیل اور امریکہ کو ہوگا ۔اب مسلمانوں کے پاس فلسطین کو بچانے کا کونسا راستہ ہے ؟
توصیف احمد خان:اگر کوئی امن معاہدہ ہو بھی جاتاہے تو کیا اسرائیل جارحیت سے رُک جائے گا ؟ شیخ احمد یاسینؒ کو اسرائیل نے گھر میں بیٹھے شہید کر دیا تھا حالانکہ اس وقت جنگ نہیں ہورہی تھی ۔ اسرائیل جنگ سے کبھی نہیں رکے گا ۔ لہٰذا پاکستان سمیت جو مسلم ممالک کہہ رہے ہیں کہ ہم نے جو تجاویز دی تھیں ، ان کو معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا تو وہ تجاویز سامنے لائی جائیں ۔ دوسرا یہ کہ مذاکرات برابری کی سطح پر کیے جائیں ۔ جس طرح افغان طالبان کے ساتھ برابری کی سطح پر ہوئے تھے ، آخر طالبان کو افغانستان واپس مل گیا ۔ اسی طرح حماس کا بھی ایک نظریہ ہے ، وہ ایک سیاسی تحریک بھی ہے اور عسکری بھی ۔ وہ ہار بھی نہیں مان رہے ۔ لہٰذا مذاکرات اگر کرنے ہیں تو شرائط وہ رکھیں جن کو حماس بھی مان لے اور وہ آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ ہے ۔ اس کو مان لیں اور معاہدہ میں شامل کریں کہ آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی ۔ فلسطینی تو اپنی زمین مانگ رہے ہیں ، ان کو ان کا حق ملے گا تو امن قائم ہوگا ۔ جس طرح جنوری میں غزہ سے اسرائیل کے نکل جانے کا کہا گیا تھا تو حماس والے مان گئے تھے ۔ لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ غزہ بفر زون بنے گا ،ٹرمپ انچارج بنے گایا اسرائیل نگرانی کرے گا وغیرہ تو اسے حماس قبول نہیں کرے گی ۔
سوال: گزشتہ دو سالوں میں اقوام عالم اور مسلم حکمرانوں نے غزہ میں جنگ بندی کی جو کوششیں کی ہیں، اُن کے نتیجے میں فریقین نے کیا کھویا اور کیا پایااوران کوششوں میں کہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے ؟
آصف حمید:اُمت مسلمہ ایک جسد واحد کی مانند ہے ، جس طرح جسم کے ایک حصے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتاہے ۔ اسی طرح اُمت کے ایک حصے میں اگر تکلیف ہوتو پوری اُمت کو درد محسوس کرنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے اُمت نے اہلِ غزہ کے لیے وہ نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا ۔ شروع میں کچھ مظاہرے وغیرہ ہوئے لیکن پھر اُمت خاموش ہوگئی ۔مسلم حکمرانوں نے بھی وہ نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا ، شاید وہ ڈرتے تھے کہ جنگ چھڑ جائے گی، یا امریکہ ناراض ہو جائےگا اور اُن کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا ۔ لہٰذا سب اپنی کرسی اور اقتدار بچانے میں لگے رہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے ہی خبردار کر دیا تھا : ’’اور(اے نبیﷺ! آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی ‘کہہ دیجیے ہدایت تو بس اللہ کی ہدایت ہے۔اور (اے نبیﷺ!)اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اُس علم کے بعد جو آپ کے پاس آچکاہے‘تو نہیں ہو گا اللہ کے مقابلے میں آپؐ کے لیے کوئی مددگار اور نہ حمایتی۔‘‘ (البقرۃ:120)
جولوگ سمجھتے ہیں کہ ہم یہود ونصاریٰ کو خوش کریں گے تو وہ ہمارے خیرخواہ ہوجائیں گے وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور یہ بار بار ثابت بھی ہورہا ہے ۔حقیقت یہ ہےکہ مسجد اقصیٰ کی تولیت اور فلسطین پر حق حکمرانی صرف مسلمانوں کا ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین !