(نقطۂ نظر) اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوشش اور پاکستان - ابو موسیٰ

10 /

اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوشش اور پاکستان

ابو موسیٰ

صہیونیت نے اگرچہ یہودیت کی کوکھ سے جنم لیا تھا لیکن یہودیوں میں تو اچھے بُرے ہر قسم کے لوگ تھے اور ہیں البتہ صہیونی تو شرِ محض ہیں۔ اِن کی کرتوتیں تو ہمیشہ انسانیت کے لیے شرمساری کا باعث بنیں۔ قرآنِ پاک کی سورۃ التین میں جو اسفل سافلین کا ذکر ہے اِس میں سب سے زیادہ حصہ انہوں نے ہی پایا ہے۔ اِن کے بارے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ یہ دنیا میں شیطان کے ایجنٹ ہیں تو وہ غلط نہیں ہے۔ خیر، بھلائی، امن و امان، فلاح و بہبود اِن کے DNA میں نہیں ہے۔ 1897ء کے پروٹوکولز درحقیقت اِن کے خطرناک عزائم کو عملی شکل دینے کا چارٹر ہے۔ جس پر عمل کرکے یہ دنیا کو جہنم بنانے کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ البتہ اِس حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بخیلی ہوگی کہ اِن کی اکثریت انتہائی ذہین اور ناقابلِ یقین حد تک محنتی ہے۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنا سب کچھ جھونک دیتے ہیں۔ تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن committed ہیں۔ اپنی اجتماعیت کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کا معاملہ بالکل اِس کے برعکس ہے۔ اگرچہ مسلمانوں میں بھی ذہین اور محنتی لوگ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں، لیکن یہ ذہانت، یہ محنت، یہ جدوجہد اُن کے ذاتی مفادات تک محدود ہے، الاماشاء اللہ اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جس طرف کوئی بڑھنا چاہتا ہے، وہ اُسے اُسی طرف بڑھنے دیتا ہے۔ یہودیوں اور صہیونیوں نے اپنی اجتماعیت کو ترجیح دی، اپنی ہر شے اور اپنی محنتوں کا ثمر اپنی قوم کی جھولی میں ڈال دیا۔ جبکہ آج کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت میرا سرمایہ، میری شہرت، میری عزت کے چکر میں پڑی رہی اور مسلمانوں کے امام یعنی اُن کے حکمران اپنی طاقت اور اپنے اقتدار کی خاطر نہ صرف ساری مسلمان امت کو گڑھے میں جھونکنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ ان ہی صہیونیوں کو خوش کرنے اور اُن سے اچھے تعلقات اُستوار کرنے کے لیے اپنی امت کے چھوٹے بڑوں، مرد و خواتین یہاں تک کہ شیرخوار بچوں کی قتل و غارت گری میں اُن کے معاون اور مددگار بن جاتے ہیں۔ حقیقت میں مسلمان حکمرانوں کے خون سفید ہو چکے ہیں اور اُن کی غیرت و حمیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ میرے مسلمان بھائیوں کو خون میں نہلا دو، اُنہیں تباہ و برباد کر دو، بس میری حکومت چلنے دو۔ یہ سوچ ہے آج کے مسلمان حکمرانوں کی لہٰذا نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ ایسی قوم دنیا میں کیسے عزت و احترام کے قابل سمجھی جائے گی جس کے حکمران ٹرمپ جیسے قاتل، جابر اور کافر حکمران کے لیے دنیا کا سب سے بڑا امن انعام تجویز کرے۔
اِن صہیونیوں نے جنگِ عظیم اوّل اور دوئم کروائی۔ عجب بات یہ ہے کہ فریقین یعنی دونوں لڑنے والوں کو سپورٹ کیا اور جنگ کی آگ میں ایندھن ڈال کر اُسے بھڑکاتے رہے اور عجب تر بات یہ ہے کہ جنگیں یورپ کے عیسائیوں کے درمیان کروائیں۔ لیکن تیاپانچہ مسلمان حکومتوں اور خلافت کے ادارے کا کر دیا اور اپنے دو عدد مقاصد حاصل کر لیے اولاً یہ کہ اِن جنگوں سے وہ انگلستان جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اُسے جنگ نے ایسی ضرب پہنچائی کہ وہ نہ صرف اپنی سُپرمیسی سے ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ اُسے اپنا آپ سنبھالنا دشوار ہوگیا اور وہ امریکہ سپر پاور بن گیا جہاں یہودی پہلے ہی اکانومی اور میڈیا پر قبضہ جما چکے تھے۔ گویا عالمی طاقت کا مرکز لندن سے واشنگٹن منتقل ہوگیا۔ پھر یہ کہ عربوں کو ترکوں سے لڑایا اور ترکی میں ایسی حکومت قائم کرا دی کہ اُس نے خود خلافت کے ادارے کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ یہ صہیونیوں کے لیے اِس لیے ضروری تھا کہ خلافت ِعثمانیہ کے آخری سربراہ نے نہ صرف یہودیوں کو فلسطین کی زمین کا ایک انچ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بلکہ اُنہیں بُری طرح دھتکار بھی دیا۔
قصہ مختصر یہودیوں کو فلسطین میں پاؤں رکھنے کی جگہ مل گئی اور اُنہوں نے فلسطینیوں سے وہ کام کرنا شروع کر دیا جو اونٹ نے بدو کے خیمے میں پہلے پاؤں رکھ کر کیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ بدو کو خیمے سے باہر نکال دیا اور خود مکمل طور ہی داخل ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودی فلسطین پر قبضہ کے لیے جس منطق کا سہارا لیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اُس کا بروقت جواب دے دیا تھا کہ اِس منطق کے مطابق تو پھر سپین کا قبضہ مسلمانوں کو ملنا چاہیے۔ بہرحال ’’جرمِ ضعیفی کی ہے سزا مرگ مفاجات!‘‘ اسرائیل اب نیتن یاہو جیسے صہیونی کی قیادت میں فلسطینیوں کا مکمل صفایا کرنا چاہتا ہے بلکہ کر رہا ہے۔ البتہ یہ بھی ایک خوشگوار تاریخی حقیقت ہے کہ یہودیوں کی ہر صدی میں کسی نہ کسی کے ہاتھوں درگت بنتی ہے۔ جیسی ہٹلر نے گزشتہ صدی میں بنائی تھی جس کو ہولوکوسٹ کا نام دے کر دن رات ماتم کرتے رہتے ہیں۔
اب آئیے مشرقِ وسطیٰ کی مسلمان ریاستوں اور پاکستان کا ابراہام اکارڈز کا حصہ بننا جو دوسرے معنوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ اِس حوالے سے سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ میں دو بڑی جماعتوں یعنی ری پبلکن اور ڈیموکریٹ اپنا کوئی امیدوار صدارتی میدان میں اتار ہی نہیں سکتیں جب تک اُسے اسرائیل کی طرف سے کلیئرنس نہ ملے۔ گویا دونوں صدارتی امیدوار جو باہم مقابلے کے لیے میدان میں اترتے ہیں ، وہ اسرائیل کی خدمت کرنے کے حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اُس نے انتخابات سے پہلے اسرائیل کا ایک خفیہ دورہ کیا تھا۔ اِس دورے میں اسرائیلی حکومت اور ٹرمپ کے درمیان وہ تمام امور طے پاگئے تھے جن پر آج کل عمل درآمد ہو رہا ہے اور ہر گزرتے ہوئے دن میں ٹرمپ کی بے چینی میں اضافہ ہوا جا رہا ہے۔ اُس کی خواہش ہے کہ مسلمان ممالک جلد از جلد اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی بھر لیں۔ مشرقِ وسطی کے چند مسلمان ممالک مثلاً UAE اور مصر وغیرہ تو پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب کو خاص اور قائدانہ حیثیت حاصل ہے۔ امریکہ کے مطابق ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے تو باقی خلیجی مسلمان ممالک بالآخر اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ پاکستان واحد ایٹمی اسلامی ملک ہے اور اگر پاکستان بھی اِس کو تسلیم کرنے پر رضامند ہو جائے تو معاملات سعودی عرب کے لیے آسان ہو جائیں گے۔ لہٰذا پاکستان کو اِس معاملے میں ایک پلان کا حصہ بنانے کے لیے جوبائیڈن ہی کے دور میں نادیدہ قوتوں کی ایما پر بلکہ اُن کے دباؤ پر ایک پروگرام بنا وہ یہ کہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا جائے۔ اُس پر تین جرم عائد کیے گئے: (1) اُس نے جو اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں اپنی تقریر میں ہولوکوسٹ کے بارے میں نامناسب انداز اختیار کیا اور کہا کہ مسلمانوں کے لیے نبی اکرم ﷺ کی ذات سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ وہ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ (2) جب ایک اینکر نے عمران خان سے پاکستان میں امریکہ کے لیے اڈوں کی بات کی تو عمران خان نے بڑی سختی سے اسے رد کیا اور Absolutely Not کے الفاظ استعمال کیے۔ (3) روس نے جب عمران خان کے ماسکو پہنچنے پر یوکرائن پر حملہ کر دیا تو پاکستان کے اداروں نے اُسے وہاں سے فوراً واپسی اختیار کرنے کا شدت سے مشورہ دیا، لیکن عمران خان نے نہ صرف وہ دورہ ختم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ پیوٹن سے غیر معمولی طویل ملاقات کی جس پر امریکہ کی شدید ناراضگی قابلِ فہم تھی۔
یہ تو وہ حقائق ہیں جنہیں میڈیا نے پبلک کیا ۔ حالاتِ حاضرہ سے معمولی شُد بُد رکھنے والا بھی اِن کی تصدیق کرے گا۔ اِس حوالے سے دنیا نے ایک عجیب تماشا دیکھا کہ پاکستان کا وزیراعظم روس یوکرائن جنگ میں غیرجانبدار رہنے بلکہ کسی حد تک روس کے حملہ کے جواز کا سپورٹ کرتا نظر آتا ہے اور پاکستان کا آرمی چیف جنرل باجوہ میڈیا کے سامنے روس کے حملے کی مذمت اور یوکرائن سے ہمدردی کا اظہار کرتے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ اِس موقع پر عمران خان حماقت کی انتہا کرتا ہے کہ اپنے خلاف پلان کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے یا آرمی چیف کے دباؤ میں آجاتا ہے۔ بہرحال یہ سنگین غلطی تھی جس نے اُس کی برطرفی کا راستہ ہموار کیا۔ لہٰذا مذکورہ بالا تین (3) جرائم کی سزا دینے کے لیے نادیدہ قوتیں متحرک ہوگئیں اور لندن پلان پر باقاعدہ کام شروع ہوگیا۔ وزیراعظم عمران خان کے سیاسی دشمنوں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل اور پیچیدہ ہے کہ سازش پہلے داخلی سطح پر ہوئی یا خارجی سطح پر ہوئی۔ راقم کی رائے میں یہ پہلے خارجی سطح پر ہوئی۔ بہرحال مقتول کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چُھری اُس کی گردن پر تھی یا اُس کی گردن چُھری پر تھی اُس کا قتل تو ہو ہی جاتا ہے۔
لندن پلان کے حوالے سے جو کچھ میڈیا میں لیک ہو رہا تھا کہ لندن میں نواز شریف سے عمران خان کے اندرونی بیرونی مخالفین پہ در پہ ملاقاتیں کر رہے تھے۔ طے یہ پایا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہونے کے فوراً بعد نئے انتخابات کروائے جائیں اور پاکستان میں نیاعوامی مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت اسرائیل کو تسلیم کر لے گی۔ یہ کام انتخابات سے پہلے نہیں ہو سکتا کیونکہ اِس سے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت اثر انداز ہوگی۔ عین منصوبے کے مطابق عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی جس میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اہم ترین رول ادا کیا۔ لیکن اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ وہ عمران خان جس کی حکومت انتہائی غیر مقبول ہو چکی تھی، اُس کی مقبولیت اِس سرعت سے بڑھی اور بڑھتی جا رہی ہے کہ تمام ماہرین دانتوں میں انگلیاں دبائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا نئے انتخابات کا معاملہ ٹھپ کر دیا گیا بلکہ نئے انتخابات تو مخالفین عمران خان کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے۔
لندن پلان کے بارے میں جو کچھ راقم نے عرض کیا اُس پر یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ اِس کے درست ہونے کی سند کیا ہے۔ راقم کی گزارش ہے کہ اردو کی ضرب المثل ’’خدا کو دیکھا نہیں، عقل سے تو پہچانا ہے‘‘ یعنی ایسے شواہد کہ خدا کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ لندن پلان کے بعد ہونے والے واقعات کے تسلسل پر غیر جانبدارانہ نگاہ ڈالیں کہ آج کی تاریخ تک سب کچھ منصوبے کے مطابق بڑھایا جا رہا ہے۔ یہ واقعات راقم کی عرض داشت پر مہرتصدیق ثبت کرتے ہیں کہ لندن پلان ایک حقیقت تھی۔ دوسری طرف القاسم بریگیڈ نے 7اکتوبر کو اسرائیل پر جرأت مندانہ حملہ کر دیا جس میں بہت سے یہودی جہنم واصل ہوگئے لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنے والا معاملہ کھائی میں گِر گیا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں میں ایک جوش و خروش پیدا ہوگیا۔ اِس ساری صورتِ حال پر اسرائیل نے ایک کُھلم کُھلا جنگ مسلط کر دی جس کا انجام یہ ہوتا نظر آ رہا ہے کہ غزہ میں انتہائی قتل و غارت گری کے بعد جس میں امریکہ کا صدر ٹرمپ مسلسل اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے، اسرائیل لاشوں کے ڈھیر پر فتح کا جھنڈا لہرا رہا ہے، لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے نادیدہ قوتیں اب امریکہ کی سربراہی میں دھونس اور دھمکی سے کام لے رہی ہیں۔ ٹرمپ غزہ میں سیز فائر کے لیے ایسا 20نکاتی ایجنڈا سامنے لایا ہے جس میں ہر لفظ اور ہر حرف اسرائیل کے حق میں ہے۔ اِس کے باوجود بنجمن نیتن یاہو نے مزید اپنے حق میں ترامیم کرائی ہیں۔ اِن 20 نکات میں صرف اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ٹائم فریم کے ساتھ ہے اور علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کے مستحکم ہونے کے حوالے سے ہیں ۔ البتہ فلسطینیوں کے حوالے سے صرف ٹال مٹول اور ڈھکوسلے ہیں۔ لیکن پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف اچھل اچھل کر تالیاں اور کورنش بجا کر امریکی صدر ٹرمپ کی اتنی تعریفیں کر رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں اور کچھ نہیں تو دیوتا تو ضرور قرار دے دیں گے۔
البتہ جب یہ خبریں آنے لگیں کہ قطر کے وزیراعظم نے 20 نکات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور حماس کے ماننے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا تو ہمارے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے پینترا بدلا ہے کیونکہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اسرائیل پہلے سے زیادہ فلسطینیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائے گا۔ اِس سے مسلمانوں میں قدرتی ردِعمل پیدا ہوگا اور ابراہم اکارڈز کے حوالے سے شدید منفی ردِعمل سامنے آئے گا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ مؤخر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہماری ڈبل گیم کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا ہے تاکہ ہم کہہ سکیں کہ ہمارا تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا شروع سے ارادہ ہی نہیں تھا جبکہ صدر ٹرمپ ایک پریس کانفرنس میں واشگاف الفاظ میں کہہ چکا ہے کہ پاکستان پہلے دن سے ہمارے ساتھ ہے۔