دیکھیں کیا گزرے ہے …
عامرہ احسان
گزری زندگی کے شب و روز نے بہت سی جنگیں اور تنازعے دیکھے۔ بہت بڑے ممالک کے ہاتھوں اپنے سے بہت ہی چھوٹے ممالک پر حملے اور لا منتہا مظالم کی چکی میں انسانیت کا پیسا جانا۔ روس کا افغانستان پر حملہ، امریکہ کا دنیا بھر کو ساتھ ملا کر افغانستان پر حملہ،عراق پر ٹونی بلیئر اور بش کامبنی بر جھو ٹ حملے میں اشتراک۔ ترقی یافتہ، جمہوری، مہذب ممالک کے فریب۔ عرب عوام کی انقلابی جدوجہد آہنی ہاتھ سے کچل کر عقوبت خانے اور اجتماعی قبریں آباد کرنا۔ غرض: عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیٔ افرنگ!
ہلا کو، چنگیز، ہٹلر، سٹالن ان کے مقابلے میں معصوم دکھائی دیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ساحر، مداری میڈیا کے ہاتھوں…’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ۔تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔‘ آج بھی حماس دہشت گرد ہے اور نیتن یا ہو سفاکی کے تمام آفاقی ریکارڈ توڑ کر بھی جمہوریت، مغربی لبرل از م کا چمپئن اور نسل کشی، قتل عام میں شریک ِکار ٹرمپ، نوبل امن ایوارڈ کا اہل ترین مردِ امن!
دو سالوں میں لاکھوں اہل غزہ کا لہو بہہ چکا تو یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں (23 تا 29 ستمبر) مسئلہ فلسطین بحث کا مرکز رہا۔ دنیا کے 150 لیڈر موجود تھے۔ فلسطینی ریاست 157 ممالک نے تسلیم کی۔ زمینی حقائق تلخ ہیںاوریہ زبانی جمع خرچ ہی ہے۔ ایک فلسطینی نے حقیقت بیان کردی : غزہ میں کسی فلسطینی کے لیے مہاجر بچے کا پیمپرکا پیک، دنیا بھر کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے اہم تر ہے!
ٹرمپ کی 21 نکاتی غزہ پلاننگ (اس کے یہودی داماد) جیراڈ کشنر اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ما بین لندن میں خفیہ صلاح مشورے سے ہوئی۔یہ اعلانِ بالفور دوئم ہی ہے! فلسطینیوں کی تقدیر سے کھیلنے کانیا دھوکا اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ! اگرچہ بہت کچھ سہانا دکھایا جائے گا مگر … دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!
ٹرمپ کی سربراہی میں غزہ عبوری بین الاقوامی اتھارٹی بنے گی (نیا تشخص غزہ کا) جس میں ٹونی بلیئرکا بھی اہم کردار ہو گا۔یہ اتھارٹی جنگ کے بعد کئی سال تک یہاں حکومت کرے گی، فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے پہلے۔ٹونی بلیئر کے مطابق تمام شریک ممالک کی یہ کوشش ہو کہ حماس دوبارہ سر نہ اٹھائے۔ فلسطینی مبصرین نے الجزیرۃ کے مطابق کہا ہے کہ بلیئر مشرق وسطیٰ میں امن ایلچی کی حیثیت سے ناکام رہا۔ وہ غیر قانونی آبادکاری، اس کی توسیع اور ان کی پرتشدد کارروائیاں روکنے میں نا کام تھا۔ اس نے اسرائیل کا دوست بن کر فلسطینی ریاست کا راستہ روکا!
نتین یاہو کے لامنتہاجنگی جرائم نے، 21 نکات کی لفاظی، میڈیائی تجزیوں فلسفوں سے عرب و مسلم ممالک سے سندِ جواز حاصل کر لی!اپنی قوم کے ازلی حق کے لیے قربانیاں دینے والی حماس تو دہشت گرد ٹھہری اور لاکھوں بچوں، خاندانوں کا قتل ِعام کرنے والا اسرائیل اور امریکہ امن کے پیامبر! پلان پر پاکستان بھر میں سخت اضطراب اور عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔پوری امت میں ٹرمپ پلان سے مسلم ممالک کی ہمنوائی (بالخصوص ایٹمی پاکستان) کے خلاف ردِ عمل شدید ہے۔اسے شرمناک اور تاریخی دھوکا قراار دیا جا رہاہے۔یہ امریکہ، اسرائیل،برطانیہ کے غزہ پر قتل و غارت گری کی بعد قبضے کے پلان کے سوا کچھ نہیں!دنیا بھر میں فلسطین سب کے دل کا درد بن چکا ہے۔ملاحظہ کیجیے!
جنرل اسمبلی اجلاس میں زبر دست اتفاقِ رائے دھواں دھار تقاریر میں تھا۔ نسل کشی کے خلاف شدید غم و غصہ کم و بیش سبھی تقاریر کا جزو لازم تھا۔ غزہ میں فوری غیر مشروط مستقل جنگ بندی کی قرار داد کی تائید میں 149 ووٹ تھے اور مخالفت میں 12 ووٹ بشمول اسرائیل و امریکہ۔ 19 کی غیر حاضری تھی۔ نیتن یا ہو کی تقریر کے دوران77 ممبر ریاستیں اظہار ِمخالفت / بےزاری کے تحت واک آؤٹ کر گئیں۔ کولمبیا کے صدر گستاو و پیڑو نے تو گویا اعلانِ جہاد ہی کر ڈالا۔ انھوں نے بین الاقوامی تحفظ فورس کی تجویز دی نسل کشی روکنے کو۔’ہمیں اسرائیلی اور امریکی فوج سے بڑی فوج تیار کرنی ہے اس جنگ کا مقابلہ کرنے کو۔ ہمیں ان ممالک کی مضبوط طاقتور فوج چاہیے جو نسل کشی قبول نہیں کرتے۔ میں دنیا کی قوموں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہتھیار اور فوجیں لائیں فلسطین کے دفاع کو۔ سفارت کاری آزمائی جا چکی۔ ہم نے الفاظ بہت سن لیے آزمالیے۔ آج کا نعرہ ہے آزادی یا موت۔ بچوں اور شیر خواروں کے چیتھڑے اڑائے جارہے ہیں۔ یہاں مسلسل قرار دادیں ویٹو ہو رہی ہیں۔‘
دنیا بھر میں دباؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف۔ خود حیل و حجت کرنے والی مغربی حکومتوں کی کرسیاں، اقتدار لرز رہا ہے عوام کے شدید غم و غصے کے ہاتھوں۔ دنیا بھر کے 45 ممالک سے ہزاروں افراد صمود گلوبل فلوٹیلا میں امدادی سامان، بچوں کی ضروریات لے کر چلے۔ بھر پور جذباتی جوش و خروش سے جابجا رخصت کیا گیا۔ انسانی تاریخ کے یہ سب سے بڑے عام شہریوں کے قافلے میں اب مزید 9 ممالک سے 60 افراد آ شامل ہوئے ہیں۔ 10 کشتیوں میں! اس میں یورپی یونین کے 9 ممالک کے ممبر پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ، بہت بڑے مظاہرے کرنے میں دس ممالک فلسطین کی آزادی، قتل عام کی بندش کے لیے سب سے آگے رہے۔ آسٹریلیا، اٹلی، سپین، امریکہ، بلجیم، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یونان اور یمن! عوام نے حکومتیں ہلا ڈالیں۔ اٹلی میں تہلکہ مچا ہے۔ وہاں ساحلی کارکنان نے سمندری تجارت برائے اسرائیل (اسلحہ، ہتھیار) مشکل بنا دی ہے۔ ملک بھر میں ہڑتالیں الگ چل رہی ہیں۔ اب جینووا (اٹلی) کے ورکرز پورے یورپ کے ورکرز کے ساتھ رابطے میں ہیں، اسلحے کی ترسیل اسرائیل کو روکنے کے لیے، مکمل بندش کے لیے۔
اسرائیلی فوج کا شین بیٹ جاسوسی ادارہ نمایاں، اہم فلسطینی خاندانوں پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ ان کی غزہ آپریشن میں مدد کریں۔ مسلح گروپ بنائیں۔ پولیس کے ذریعے خوراک تقسیم کرنے، حماس کے خلاف لڑنے اور اسرائیل کے لیے جاسوسی میں مدد دیں۔ ایسی امن کمیٹیاں، امن لشکر بنائیں۔ سعودی اخبار الشرق الاوسط کے مطابق مقصد غزہ کو قبائل کے ذریعے کنٹرول کرنا تھا۔ تاکہ ایک متحد فلسطینی قیادت اور ریاست کی بجائے غزہ کو قبیلوں میں متفرق اور منقسم کر دیا جائے۔ خاندانوں نے انکار کر دیا تو بمباری سے الصابرۃ، غزہ شہر کے ان خاندانوں کے 56شہید اور 11ز خمی ہوئے۔
28 ستمبر کی رپورٹ غزہ سے تھی کہ شہر کے شمال، جنوب، مشرق پر قبضے کے لیے فوج آگے بڑھ رہی ہے۔ہر حملہ 3.7 درجے کے زلزلے کے برابر جس سے زمین مسلسل قدموں تلے لرز رہی ہے۔ ہسپتال خالی ہیں۔ ان کا غیر ملکی سٹاف و دیگر نکال لیے گئے ہیں۔ اموات بڑھ رہی ہیں۔ 90 فیصد غزہ اس وقت اسرائیلی فوج کنٹرول کر رہی ہے۔ شمال سے لوگ جنوب گئے مگر نہ ٹینٹ نہ سر چھپانے کی جگہ۔ اس وقت غزہ والے مغرب میں ایک نہایت چھوٹے قطعۂ زمین میں ٹھنسے ہوئے محصور ہیں۔ GHF کے ہاتھوں خوراک کے حصول میں قتل ہو رہے ہیں۔ ساری دنیا کی بلائیں بیک وقت ان پر ٹوٹ رہی ہیں۔ انخلاء، حملے، بھوک، پیاس، ادویہ، طبی مدد ندارد۔ اسرائیل تیزی سے سب کچھ ختم کر رہا ہے۔ 24 گھنٹے میں 170 حملے۔ فیصلہ کن مقام( ٹرمپ کا نیا غزہ !) تک پہنچنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ تباہی۔6 ہزار سال پرانا شہر غزہ 77 سال پرانا اسرائیل ختم کر رہا ہے۔ دنیا کے بڑے (مہذب) ممالک شریک کار ہیں! ٹرمپ پلان کی روشنی میں مسلم ممالک کی فوج کا استعمال افسوسناک ہو گا۔عوام کا ردِعمل واضح کرتا ہے کہ یہ اقدام ناقابلِ قبول ہو گا۔
امریکہ کو خوف کسی کا نہیں۔چھ خلیجی ممالک سالانہ اوسطاً 70 ارب ڈالر اپنے دفاعی نظام کے لیے امریکہ کو دیتے ہیں۔ کل 62 ملین آبادی کے تحفظ کے لیے۔قطر میں اسرائیلی حملے کے وقت یہ دفاعی نظام پورا موجودتھا۔ امریکی نگرانی میں غیر فعال، اندھا ہو گیا!( دی نیوز،28 ستمبر۔ ڈاکٹر فرخ سلیم)
قدس اور غزہ کا تحفظ؟ مسلم امت کے لیے اللہ کے حضور جواب دہی کا بہت بھاری سوال ہے۔ پاکستان ٹرمپ کی ان حالات میں خوشامد درآمد کیوں کر رہا ہے؟ امت میں ہماری ساکھ مجروح ہو رہی ہے ۔اللہ نے ہمیں بھارت کے مقابل اپنی رحمت ِخاص سے سرخرو کیا۔ شکریہ دن رات امریکہ کا ادا کر رہے ہیں۔بھارت کا تو دم نکلا پڑ رہا تھا مگر ہم باور نہیں کر رہے! اللہ رحم فرمائے! معاف کر دے!