بحیثیت ِعورت ہماری ذمہ داریاں
عائشہ نور
نیک عورت متاع حسنہ ہے۔ آپ اگر اس دنیا میں بحیثیتِ ماں، بہن، بہو، بیوی اور سب سے بڑھ کر امتِ مسلمہ کی رکن ہیں تو آپ نے کیا کرنا ہو گا۔
حضرت خدیجہؓ ، حضرت عائشہؓ ، حضرت مریم ؑ اور حضرت آسیہؓؒ عورتیں تھیں۔ آج ہم بھی عورتیں ہیں جو خون ان کی رگوں میں دوڑ رہا تھا جو دل ان کے جسم میں تھا۔ وہی خون ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے، وہی دل ہمارے جسم میں ہے۔ مگر فرق اتنا ہے کہ ان کے اندر ایمان کی قوت تھی اسی ایمان نے ان کے اندر احساسِ ذمہ داری ڈالی تھی اور آج ہمارا ضمیر مردہ ہو گیا ہے۔ یہ کیوں ہوا؟
صرف اور صرف قرآن و سنت کی دوری کی وجہ سے ہوا۔
ہم تاریخ کی مختلف عورتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیسی تھیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم نے امت ِ مسلمہ کی بیداری کے لیے کیا کرنا ہے۔ عورت کی تربیت پورے خاندان کی تربیت ہے جبکہ ایک مرد کی تربیت ایک فرد کی تربیت ہے۔ ہر بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ نپولین کا قول ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔
بحیثیت بیٹی : اگر آپ بیٹی ہیں تو اس واقعے کو یاد کریں جب حضرت عمرؓ:گشت پر نکلے تو ایک گھر سے آواز آئی۔ اماں دودھ میں پانی نہ ملائیں تو ماں نے کہا کیوں بیٹی؟ بولی امیرالمومنینؓ نے منع فرمایا ہے۔ ماں نے کہا وہ ہمیں کونسا دیکھ رہے ہیں۔ بیٹی بولی۔ ’’اللہ تو دیکھ رہا ہے۔‘‘
اگر آپ بیٹی ہیں تو آپ کو پورا حق ہے کہ اپنے والدین سے پوچھیں کہ رقم کہاں سے آ رہی ہے اور کہاں جا رہی ہے۔ ملاوٹ شدہ دودھ سے آنے والی رقم حرام ہے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ ان ہی کی اولاد میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے بیٹے پیدا ہوئے جو عمر ثانی ؒکے نام سے مشہور ہوئے۔
دوسرا کردار حضرت مریم ؑ کا دیکھیں ان کی صفت ہے۔{وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا} (التحریم:12)’’اور عمران کی بیٹی مریمؑ جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی۔‘‘
بحیثیت بیوی : ایک اچھی بیوی مضبوط کردار اور دلنشیں انداز میں شوہر پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اگر شوہر تقویٰ شعار ہے تو الحمدللہ۔ اگر نہیں تو اسے حکمت اور دانائی کے ساتھ فرائض دینی اور حقیقی ایمان کی طر ف راغب کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ نیک نفس بیوی بگڑے ہوئے شوہر کو راہ راست پر لے آئی۔ آپ بیوی ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔ اس کے لیے حضرت خدیجہ ؓ جیسا رویہ و کردار اختیار کرنا ہو گا۔ جب آپؐ :کو نبوت عطا کی گئی اور آپؐ :گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے۔ اس وقت حضرت خدیجہ ؓ نے یہ کہہ کر آپؐ کو تسلی دی کہ اللہ آپؐ :کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپؐ :یتیموں کی پرورش کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ حضرت خدیجہ ؓ نے اپنا مال اور اپنی جان حضورﷺ کے حوالے کر دی۔ اسی صلے میں اللہ نے حضرت جبرئیل ؑ کے ذریعے آپؐ: کو سلام بھیجوایا۔ ان ہی عورتوں میں حضرت آسیہؓ ہمارے لیے قابل تقلید نمونہ ہیں کہ شوہر اگرچہ فرعون جیسا گمراہ اور ظالم ہی کیوں نہ ہو‘ اللہ کی اطاعت سے نہیں روک سکتا۔
ماں کی حیثیت سے :ایک ماں اپنے بچے کی تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ والد صاحب تو پورا دن گھر میں نہیں ہوتے۔ بچہ زیادہ وقت ماں کے پاس رہتا ہے۔ ماں ہی سے عادات سیکھتا ہے۔ اگر بچے کی تربیت کرنی ہے تو حضرت ربیعہ بن رأیؒ کی طرف دیکھیں۔ حضرت ربیعہ ؒ کی پیدائش سے پہلے ملک میں جہاد فرض عین ہو گیا۔ لوگ جہاد پر نکل گئے جن میں حضرت ربیعہؒ کے والد بھی تھے۔ حضرت ربیعہؒ کی پیدائش کے بعد ماں نے ان کی تعلیم پر کافی سارے درہم خرچ کئے۔ جو حضرت رأیؒ رکھوا گئے تھے۔ 27 سال بعد رات کوگھر واپس آئے۔ صبح نماز فجر کے لیے گئے وہاں ایک نہایت خوبصورت نوجوان لڑکا درس و تدریس کر رہا تھا۔ اس کے بعد گھر واپس آئے تو بیوی سے رقم کا پوچھا بیوی نے جواب دیا کہ آپ نے مسجد نبویؐ میں جو شخص دیکھا ہے‘ وہ ہی آپ کی رقم ہے یعنی انہوں نے رقم بیٹے کی تربیت کے لیے خرچ کی۔ ماں بھی کیسی ماں تھیں اگر آج کی ماں ہوتی تو وہ رقم کپڑوں اور زیورات پر خرچ کرتی۔
مسلمان ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت اسلامی خطوط پر کرے تاکہ وہ بڑے ہو کر اسلام کے نمائندے بنیں۔
بحیثیت بہن : حضرت فاطمہؓ بنت خطابؓ حضرت عمر فاروق ؓ کی بہن تھیں۔ ان کی ثابت قدمی اور اولولعزمی نے بھائی کی کایا پلٹ دی اور حضرت عمرh اسلام کی آغوش میں آئے۔ ایک بہن ہونے کے ناطے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ بے اندیش اور آزاد خیال بھائی کو میٹھی اور پیار کی زبان کے ساتھ راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔
بحیثیت امۃ مسلمہ کی رکن : اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان ہونے کے ناطے ہم امۃ مسلمہ کی رکن ہیں۔ تو اس کے لیے صرف زبانی کلامی دعوے نہیں کرنے ہوں گے بلکہ عملاً اسلامی تعلیمات کو اپنانا ضروری ہے۔ ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
جو غلطیاں پہلے ہو چکی ہیں اللہ سے سچے دل سے توبہ کریں اور اپنی اور امت مسلمہ کی اصلاح کے لیے قدم بڑھائیں۔ پہلے قدم کے طور پر شرعی پردہ اختیار کریں اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ہرگز اثر قبول نہ کریں بلکہ جہاں تک ہو سکے دوسروں کو بھی پردہ کی تلقین کریں۔ یہ معمولی بات نہیں بلکہ اللہ کا حکم اور امہات المومنینؓ اور صحابیاتؓ: کا طریقہ ہے۔
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں عورتوں کو دینی علوم سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں ایک صحابیہ ؓ حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپؐ کی باتیں مردوں نے خوب حاصل کر لیں اور ہم محروم رہی ہیں۔ لہٰذا آپؐ ہمارے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیں، جس میں ہم آپ ؐکی خدمت میں حاضر ہوں اور آپؐ اس علم میں سے ہمیں بھی بتا دینا جو علم اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا کیا ہے یہ سن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا(اچھا) فلاں فلاں دن تم فلاں جگہ جمع ہو جانا۔ چنانچہ مقررہ دن اور جگہ پر صحابیات ؓ جمع ہو گئیں۔ اس کے بعد حضور ﷺ تشریف لائےا ور ان کو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے علوم میں سے بہت کچھ بتایا۔ (رواہ البخاری)
اے میری بہن! ہمیں میں دینی احکام سیکھنے کے لیے مصروفیات میں سے وقت نکالنا چاہیے۔ اور دینی علوم سیکھ کر اسے اپنے گھر میں، اپنے پڑوس میں، اپنے محلے میں، اپنے گائوں اور اپنے شہر میں دوسری بہنوں تک اسے پہنچائیں کیونکہ ایک عورت کی اصلاح پورے خاندان کی اصلاح ہے۔لہٰذااب آرام سے نہ بیٹھ جانا کل پر کام نہ چھوڑنا، کل کا اور موت کا بھروسا نہیں ،اگر ہم نے نہ اپنی اصلاح کی نہ دوسری بہنوں کی اصلاح کی تو پھر اللہ کو کیا جواب دیں گے!