(الہدیٰ) سُورۃُ الْعَنکبُوت - ادارہ

10 /
سُورۃُ الْعَنکبُوت
 
تمہیدی کلمات
 
 
سورۃ العنکبوت کے بارے میں تعیین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ 5 نبویؐ میں نازل ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب مکّہ میں مسلمانوں پر مشرکین کا  ظلم و ستم بہت بڑھ چکا تھا۔جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو اگرچہ نوجوان اہل ِایمان بھی اپنے اپنے خاندان والوں کے ہاتھوں کسی حد تک تشدد کا نشانہ بنے ‘ لیکن غلاموں اور بے آسرا لوگوں پر تو گویا قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ چنانچہ حضرت بلال‘ حضرت ابوفکیہہ اور حضرت خباب بن الارت ؓ جیسے صحابہ کے ساتھ ان کے آقائوں نے ظلم و ستم کے ایسے ایسے طریقے آزمائے کہ ان کے تصوّر سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ غلاموں کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی اس خوفناک اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنے جو قریشی نہیں تھے اور کسی کے حلیف بن کر مکّہ میں رہ رہے تھے۔ حضرت یاسر ؓ کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
  حضرت خباب ؓ بن الارت فرماتے ہیں کہ جب صورتِ حال ہمارے لیے نا قابل ِبرداشت ہو گئی تو ایک دن ہم حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ اُس وقت خانہ کعبہ کی دیوار کے سائے میں اپنی چادر کا تکیہ لیے استراحت فرما رہے تھے۔ ہم نے عرض کیا : حضور! آپؐ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے؟ مشرکین کے تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اب ہمارے لیے نا قابل ِ برداشت ہو گئی ہیں۔حضرت خباب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ بات حضورﷺ کو ناگوار گزری۔ آپؐ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :اللہ کی قسم! تم جلدی مچا رہے ہو‘ ابھی تم پر وہ حالات تو آئے ہی نہیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔ اُنہیں آدھا زمین میں دبا کر آروں سے چیر ڈالا گیا‘ وہ زندہ آگ میں جلا دئیے گئے اور انہوں نے ایسے حالات پر صبر کیا۔ تمہیں بھی بہر حال صبر کرنا ہے۔ اللہ کی قسم! وہ وقت ضرور آئے گا جب ایک سوار صنعاسے حضر موت تک سفر کرے گا اور اُسے اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہیں ہو گا۔
یہ اس پس منظر کی ایک جھلک ہے جس میں اس سورت کا نزول ہوا۔ اس کی ابتدائی آیات میں حضرت خباب ؓ کے بیان کردہ مذکورہ واقعہ کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ ان آیات کے مضامین کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی انقلابی تحریک اپنے کارکنوں کی قربانیوں کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔  جب بھی کسی معاشرے میں کوئی انقلابی تحریک اپنی جڑیں مضبوط کرتی دکھائی دیتی ہے تو پرانے نظام کے محافظوں کو اپنے مفادات خطرے میں پڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایسی کسی بھی تحریک کو دبانے اور ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اس مشکل مرحلے میں انقلابی تحریک اپنے کارکنوں سے قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔چنانچہ جب مکّہ میں حضورﷺ کی دعوت کا چرچا ہوا اور لوگ اِس طرف متوجّہ ہونے لگے تو مشرکینِ مکّہ نظامِ کہنہ کے پاسبانوں کی حیثیت سے اپنی پوری قوت کے ساتھ میدان میں آ گئے۔ اس کے بعد مکّہ کی گلیوں میں ظلم و ستم کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اِس جان گداز صورتِ حال میں اہلِ ایمان نے غیر معمولی جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اس سیاق و سباق میں سورت کا پہلا رکوع خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اِس میں نہ صرف مکّہ کے مذکورہ خوفناک حالات میں اہل ِایمان کی راہ نمائی موجود ہے بلکہ قیامت تک کے لیے ہر انقلابی دینی تحریک اور غلبہ ٔدین کی جدّوجُہد کے کارکنوں کے لیے راہنما اصول بھی وضع فرما دئیے گئے ہیں۔

 

Title

Text