اداریہ
رضاء الحق
کیا اسرائیل معاہدے کی پاسداری کرے گا؟
بدھ 15 جنوری 2025ء کی شام، امریکہ اور قطر کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، جس میں قیدیوں کا تبادلہ بھی شامل ہے۔معاہدے کا باقاعدہ اطلاق اتوار 19 جنوری 2025ء سے اُس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی کابینہ نے اس کی توثیق کر دی ۔ہمارا مقصد قارئین کے سامنے جنگ بندی کے اس معاہدہ کی شرائط پیش کرنا نہیں کیونکہ وہ تفصیلات تو پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پربآسانی دستیاب ہیں۔اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اِس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل، غزہ پر بمباری اور دیگر ذرائع سے جارحیت کو مستقلاً روک دے گا؟ کیا مغربی کنارے اور دیگر فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی درندگی میں کمی آ جائے گی؟ کیا صہیونی ریاست گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے دستبردار ہو جائے گی؟ پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ِان ساڑھے 13 ماہ میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔آئندہ کے ممکنہ منظر نامے کے حوالے سے احادیث مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرنا بھی ناگزیر ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے کی خبر سے غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں میں بالخصوص اور پوری اُمت مسلمہ میں بالعموم خوشی سے سرشاری کی کیفیت نظر آئی۔ اگرچہ غزہ کے مسلمان آج بھی اس شک میں ہیں کہ ناجائز صہیونی ریاست جلد یا بدیر اس معاہدے کی خلاف ورزی ضرور کرے گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہ اپنے اس خدشہ میں حق بجانب ہیں۔ اس حوالے سے آخری اور حتمی بات یہ ہے کہ خود قران پاک اس پر گواہ ہے: {اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا نَّـبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ ط بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(100)}( البقرۃ) (ترجمہ): ’’تو کیا ( ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ) جب کبھی بھی اُنہوں نے کوئی عہد کیا ان میں سے ایک گروہ نے اسے اٹھا کر پھینک دیا بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو یقین نہیں رکھتے۔‘‘
ہمارے نزدیک اسرائیل کا اس معاہدے پر راضی ہو جانا درحقیقت غزہ کے محصور مسلمانوں پر مسلسل وحشیانہ بمباری کو کچھ مدت کے لیے روک کر دیگر محاذوں پر اپنی گرفت کو مضبوط کرناہے۔ کیونکہ آج کی جنگ کا میدان ٹینکوں، میزائیلوں اور بموں سے بڑھ کر معیشت، معاشرت، میڈیا، تعلیم، سیاست، سفارت کاری، ٹیکنالوجی اور نظریات تک پھیل چکا ہے۔ امن معاہدہ 19 جنوری 2025ء سے نافذ العمل ہوا۔ صہیونی ریاست نے اس کی خلاف ورزی روز اوّل سے بھی قبل یعنی معاہدے کے اعلان کے دن سے شروع کر دی تھی۔موجودہ صورتِ حال اور جنگ بندی کے معاہدے کو اسرائیل کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ اپنے مکمل اہداف حاصل نہیں کر پایا۔حماس آج بھی موجود ہے اورمجاہدین نےاسرائیل کو خاصا جانی نقصان پہنچایا ہے۔ جنگ میں اسرائیل کا اتنا مالی نقصان ہوا ہےکہ اُس کی معیشت کی بنیادیں بُری طرح متاثرہوئی ہیں۔ سفارتی، سیاسی اور سماجی لحاظ سےیہ جنگ اسرائیل کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوئی۔دنیا بھر میںاس کا چہرہ بُری طرح مسخ ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتا رہاہے لیکن دنیانے اُس کا اصل روپ ایک ظالم اور خونخوار کے طور پر دیکھا ہے۔ آج کی دنیا جو کم از کم عوامی سطح پر کسی ملک کی ساکھ کے اچھے یا بُرے ہونے سے متاثر ہوتی ہے، اِس میں یہ بہت بڑا نقصان ہے ۔ حقیقت میں امریکہ اور یورپ کی بھرپور عسکری اور سیاسی معاونت کے باوجود اِس حوالے سے اسرائیل عالمی عوامی سطح پر تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک میں عوامی سطح پر بڑے بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ (المیہ یہ ہے کہ مملکتِ خداداد کے عین دارالحکومت میں مظاہروں پر بدترین کریک ڈاؤن کیا گیا!) مظلوم فلسطینیوں کے حق میں کیے گئے ان مظاہروں میں اسرائیلی درندگی کے خلاف جس قدر نفرت دکھائی دی اس نے ثابت کر دیا کہ ابھی دنیا میں انسانیت کی رمق باقی ہے۔ لہٰذا اسرائیل کی بھرپور کوشش ہوگی کہ وہ جنگ بندی اور امن معاہدے کے نام پر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال کرے۔ ایسی خبریں چلائی جائیں گی کہ اسرائیلی ڈاکٹرز، فوجی اور شہری غزہ کی تعمیرِ نو میں مصروف ہیں۔ اسرائیل زخمیوں کے علاج اور غزہ کے مسلمانوں کو بنیادی ضروریات زندگی بہم پہنچانے میں مصروف ہے۔ ایسے میں مسلمان ممالک کے میڈیا اور صاحبانِ عقل و دانش کا یہ فرض ہے کہ اسرائیل کو ’امن کا داعی‘ قرار دینے کی پُر فریب کوششوں کا بھرپور انداز میں رد کریں۔
حال ہی میں اسرائیل کا جاری کردہ ’’تاریخی نقشہ‘‘ جس میں فلسطین، لبنان، شام اور اُردن کو اسرائیل میں ضم کر کے دکھایا گیا ہے، اِس بات پرمزید دلالت کرتا ہے کہ صہیونی ریاست گریٹر اسرائیل کے مذموم منصوبہ سے پیچھے ہٹنے والی نہیں۔ یہ نقشہ درحقیقت صہیونی منصوبہ کا پہلا مرحلہ ہے۔ وگرنہ ’’تیری سرحدیں نیل سے فرات تک‘‘ تو اسرائیل کی پارلیمنٹ کے ماتھے پر درج ہے اور نیتن یاہو سمیت کئی اسرائیلی اعلیٰ عہدے داران اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر چکے ہیں کہ گریٹر اسرائیل میں مصر، ترکی اور عراق کے بھی بعض علاقے شامل ہیں۔ یہودی ربیوں کے نزدیک مدینہ منورہ بھی (معاذ اللہ) گریٹر اسرائیل کا حصہ ہے۔اسرائیل نے شام کی صورتحال سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے گولان کی پہاڑیوں پر مکمل قبضہ جما لیا ہے اور شام میں اس کی عسکری پیش رفت جاری ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران اسرائیل نےلبنان میں حزب اللہ کو بھی انتہائی کمزور کر دیا ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے کا 19 جنوری کو نافذ العمل ہونا بھی کوئی حادثہ یا اتفاق نہیں۔ اسے سابق امریکی صدر جو بائیڈن کا وائٹ ہاؤس میں آخری دن کہہ لیں یا نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں براجمان ہونے سے ایک دن قبل، بنیادی طور پر امریکہ پر یہودی تسلط کے جاری رہنے اور امریکہ کی اسرائیل کو مکمل معاونت فراہم کرنے کا ایک بھرپور پیغام دیا گیا ہے۔ یومِ سبت تو ایک بہانہ تھا! ہمارے نزدیک یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اسرائیل جلد یا بدیر پھر آگ بھڑکائے گا اور اِس مرتبہ عرب ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ ہمیشہ کی طرح اس کا پشت پناہ بلکہ معاون ہوگا۔ یاد رہے کہ جنگیں ختم کرنے کے وعدہ پر منتخب ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہی کے پہلے دور میں اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا گیا، اسی نے ابراہیم اکارڈز کا شوشہ چھوڑا اور ٹرمپ کے پہلے دورِحکومت میں ہی اسرائیل نے وہ جیوش نیشن سٹیٹ لاء منظور کیا جس کے تحت ارضِ فلسطین میں اوّل درجے کے شہری صرف یہودی ہیں۔
دوسری طرف امید کی ایک مدہم سی کرن یہ دکھائی دی ہے کہ کم از کم وقتی طور پر اس معاہدے کی بدولت غزہ پر اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری رک گئی ہےاور غزہ کے عوام کو کچھ عارضی ریلیف ملے گا۔ گزشتہ ساڑھے تیرہ ماہ کے دوران غزہ پر4000 سے زائد مرتبہ بمباری کی گئی ۔میڈیا میں بتائے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 47000 سے زائدفلسطینی مسلمانوں کو شہید کردیا گیا ہے جس میں18000 سے زائد بچے اور 15000 کے قریب خواتین تھیں ۔ پورے کے پورے خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے ہیں۔ 90 فیصد عمارتیں تباہ کردی گئی ہیں۔ اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ السنوار سمیت تحریکِ مزاحمت کے کئی قائدین اور مجاہدین نے اپنی شہادتوں کے ذریعے ابدی کامیابی حاصل کر لی۔ شہادت تو مقصود و مطلوبِ مومن ہے اور شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًاط بَلْ اَحْیَــآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ(169)}(آل عمران: )(ترجمہ): ’’اور ہرگز نہ سمجھنا ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔‘‘
7 اکتوبر 2023 ء کے بعد عدل اور انسانی حقوق کےبلند و بانگ دعوے کرنے والے کئی ممالک کے چہروں سے بناوٹی سنگھار بھی اُتر گیا اور دنیا نے اُن کے اصل مکروہ چہرے دیکھ لیے۔درندگی کی انتہا یہ کہ یوکرائن کے معاملے پر چیخ وپکار کرنے والے مغربی ممالک ،میڈیا،تھنک ٹینکس اوراکثر مسلم ممالک نہ صرف غزہ میں انسانیت کے خلاف اسرائیلی جرائم اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی پر خاموش رہے بلکہ اُس کا مکمل ساتھ دیتے رہے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون! خود یوکرائن، جس پر روس حملہ آور ہےوہ بھی مسلم کشی میں اسرائیل کا فرنٹ لائن اتحادی رہا ۔ سب نے ((اَلکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ)) اور عالمِ اسلام میں ’’وہن‘‘ کی بیماری کے نبویﷺ فرامین کو سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے مجاہدین نے’’ طوفان الاقصیٰ‘‘ کے ذریعے قضیۂ فلسطین کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ مسجد ِاقصیٰ اور بیت المقدس کے معاملے کو پھر سے اجاگر کر دیا ہے۔ ورنہ 7ستمبر 2023 ء کو ایک اہم ترین مسلم ملک جس کے ولی عہد جو ملک کے وزیراعظم بھی ہیں، نے فاکس نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انتہائی بے باکی سے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ جنگ بندی کے حالیہ معاہدہ کے بعد شاید وہ اب دوبارہ یہی کوشش کریں لیکن عوامی دباؤ کے باعث اب یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ بہرحال غزہ کے مجاہدین نے بعض عرب اور دیگر مسلم ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دوستی کی دیرینہ خواہش کو کم از کم وقتی طور پر روک لگا دی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ساڑھے 13 ماہ کے دوران کسی ایک فلسطینی مسلمان مرد، عورت، بچے، بوڑھے کی زبان سے ایسا کوئی کلمہ سننے میں نہیں آیا کہ ہماری ’’بربادی‘‘ کے ذمہ دار حماس اور القسام ہیں۔ ہاں اپنے پیاروں کی شہادت پر اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آئے، اسرائیل کے خلاف جذبات مزید بھڑکتے دکھائی دئیے، ارضِ فلسطین کے بچوں میں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت مزید بڑھا۔ دیگر مسلمان ممالک سے یہ گِلہ بھی تھا کہ ہم ’’مستضعفین‘‘ کی مدد کے لیے عملی اقدامات
سے کیوں گریزاں رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے مجاہدین اور عوام نے اُمت مسلمہ کی طرف سے مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کا فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کی حرمت اور حفاظت کے لیے اپنے بس سے بڑھ کر قربانی دی ہے۔البتہ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ دیگر مسلمان ممالک کے حکمران روزِ قیامت بارگاہ الٰہی میں کیا جواب دیں گے؟
اہم ترین سوال یہ ہے، آخر ارضِ فلسطین ہی کیوں؟ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں ماریں کھانے والے یہودی امریکہ، برطانیہ، فرانس یا کسی دور دراز کے جزیرے میں کیوں نہ جا بسے۔ اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں کی علیحدہ مذہبی ریاست بنانے کے لیے ارضِ فلسطین کو ہی کیوں چنا گیا۔ اس معاملے کو اس کے درست پس ِمنظرمیں سمجھ لیا جائے تو اسرائیل کے ماضی، حال اور مستقبل کے عزائم کا ادراک کرنے میں کوئی مشکل نہ ہوگی۔ 1948 ءمیں اسرائیل کا قیام، 1967ء میں اس کے زیرِ انتظام علاقوں میں کچھ توسیع، 1991ء میں اسرائیل کے اُس وقت کے سب سے بڑے دشمن صدام حسین (عراق) کو نیست و نابود کرنا، نائن الیون کا ڈراما رچا کر اس کی بنیاد پر نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ (MENA) میں موجود خطرات سے نمٹنا اور خطے کی واحد سپر پاور بن جانا، امریکہ اور مغربی یورپ کےنیوکان، پروٹیسٹنٹ اور رومن کیتھولک حکمرانوں کا غیر مشروط اسرائیل کا ساتھ دینا اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ہر حال میں جاری رکھنا سب اسی ایک نکتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسرائیل اپنا ہرقدم مذہب کی بنیاد پر اٹھاتا ہے۔ صہیونیت بھی درحقیقت سیاست کا لبادہ اوڑھے ہوئے مذہبی یہودیت کی ہی ایک شاخ ہے۔ یہود ی (تحریف شدہ) تورات اور تالمود کی تعلیمات کی بنیاد پر اپنے مسایاح کا انتظار کر رہے ہیں جس کی خبر ہمیں نبی اکرم ﷺ نے بڑی صراحت کے ساتھ دی ہے کہ وہ شخص دجال ہو گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ کے مطابق بنی اسرائیل میں مسیح ؑ کے طور پر مبعوث فرمادیا تھا لیکن یہود نے اُن پر ایمان لانے سے انکار کر دیا، کفر کیا اور اپنے بس پڑتے اُنہیں سولی پر چڑھا دیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ d کو زندہ آسمان پر اُٹھا لیا۔ {وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ B} ( آل عمران)(ترجمہ): ’’اور اُنہوں نے اپنا مکر کیا اور اللہ نے اپنی تدبیر کی۔ بے شک اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘گویا یہود کے نزدیک مسیح ابھی آئے ہی نہیں اورجب وہ آئیں گے تویہود کی عالمی حکمرانی کے سنہری دورکا آغاز ہوگا۔ جبکہ حقیقت ِحال کچھ یوں ہے کہ قیامت سے قبل حضرت مسیح d آسمان سے بلادِ شام میں واپس تشریف لائیں گے اور جھوٹے مسیح یعنی دجال اور یہود دونوں کا مکمل خاتمہ کریں گے ۔ یوں گریٹر اسرائیل ہی مستقبل میں یہود کا گریٹر قبرستان بنے گااور کُل روئے ارضی پر اللہ کا دین قائم و غالب ہو کر رہے گا۔ ان شاء اللہ! احادیث مبارکہ میں ان واقعات کی مکمل تفصیلات درج ہیں۔
اگرچہ اس سے قبل مسلمانوں پرخود ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے باعث انتہائی مشکل وقت آئے گا ۔ احادیث مبارکہ میں ان ملاحم کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، اُس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑی جنگوں میں شاید مسلمانوں کوکروڑوں کی تعداد میں جانی نقصان اٹھانا پڑے۔ پھر یہ کہ بصدِ احترام اصل بات یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حدیثِ مبارک کے مطابق عربوں کو بالآخر تباہی کا سامنا کرنا ہے جس کے آثار واضح طور پر ہمارے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔یہودیوں کاایک ہدف تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر بھی ہے اور مسجدِ اقصیٰ کی موجودگی میں اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کی نظر ِبد اسلامی ایٹمی پاکستان پر مرکوز ہے۔ 1967ء میں اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پاکستان کو اپنا اصل دشمن قرار دیا تھا۔ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ماضی قریب میں پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنے کی خواہش کا کھلم کھلا اظہار کر چکا ہے۔ البتہ اس کے بعد جب اللہ چاہے گا، پانسہ پلٹے گا۔ احادیث میں یہ خوش خبری بھی موجود ہے کہ ’’ کچھ لوگ مشرق کی جانب سے نکلیں گے جو مہدی کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں گے۔‘‘ (ابن ماجہ) اور ’’خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے۔ اُنہیں کوئی نہیں روک سکے گا، یہاں تک کہ اُنہیں ایلیاء (بیت المقدس) میں نصب کیا جائے گا۔‘‘ (سنن ترمذی)۔تاریخی اعتبار سے خراسان میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات بھی شامل ہیں۔
بہرحال،آ ج امت ِ مسلمہ کا سب سے بڑا جرم دینِ اسلام سے بے وفائی کرتے ہوئے اس کو نافذ و غالب کرنے کی جدوجہد کو پس ِپشت ڈالنا ہے اور جو اس فرض کی ادائیگی میں کوشاں ہیں اُن جماعتوں پر ایسی ایسی افترا پردازی کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایک حالیہ مثال کو لے لیجئے۔ ایک معروف قومی اخبار نے بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے حوالے سے ایک ایسے شخص، جو چند سال قبل اسرائیلی صدر کی دعوت پر ناجائز صہیونی ریاست کے دورے پر گیا تھا، اُس کی کتاب میں درج اس کذب بیانی کو اخبار کی شہ سرخی کا حصّہ بنایا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مکالمے کی حمایت کی تھی۔ حالانکہ بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے درجنوں تحریروں اور سینکڑوں تقریروں میں اپنا یہ مستقل مؤقف واضح طور پر بیان کیا ہے کہ چاہے ساری دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے، پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرے۔ اس سب کا ریکارڈ پر موجود ہونے کے باوجود جھوٹ کی بنیاد پر اپنا اسرائیل نواز بیانیہ پیش کرنے کے لیے ایسی رکیک حرکت کی گئی۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ جن کے بارے میں رتی برابر شک کی گنجائش نہیں کہ اُنہوں نے اسرائیل کے حوالے سے کبھی ایسا بیان اپنی کسی تحریر یا تقریر کا حصّہ بنایا ہوگا، اُن کو بھی نہ بخشا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! بہرحال تنظیم اسلامی، کتاب کے مصنف اور اُس کا جھوٹا بیانیہ شائع کرنے والے اخبار دونوں سے نصح و خیرخواہی کے جذبہ کے تحت رابطہ بھی کرے گی کہ وہ حقیقت کے خلاف اپنے اس بیان کو واپس لیں اور حسبِ ضرورت قانونی چارہ جوئی کا بھی حق رکھتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اللہ کے سرکشوں، باغیوں اور نافرمانوں کے لیے ہرگز نہیں آتی۔ سورۃ النحل کی آ خری آیت میں ارشاد ہوا ہے: {اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا } (النحل: 128)( ترجمہ): ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی معیت (مدد) ان لوگوں کے لیے ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ آخر میں اِس بات کا اعادہ لازم ہے کہ مسلمان فرد ہو یا ریاست اُس کا دینی فریضہ ہے کہ وہ قرآن و سنت کی راہنمائی میں اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرتا چلا جائے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین! ظظظ
ظظظ