(منبرو محراب) اسلام آباد کانفرنس: اسلامی معاشرت پر ایک اور حملہ - ابو ابراہیم

10 /

اسلام آباد کانفرنس: اسلامی معاشرت پر ایک اور حملہ

(قرآن و حدیث کی روشنی میں )


مسجد جامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے17جنوری 2024ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
گزشتہ دنوں اسلام آباد میںلڑکیوں کی تعلیم کے مسئلے پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں OIC، ورلڈ مسلم لیگ، رابطہ عالم اسلامی سمیت دیگر کئی عالمی اداروں کے نمائندوں اور 47 مسلم ممالک کے وفود نے شرکت کی ۔ سوشل میڈیااور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر اس کانفرنس کا بڑا چر چا رہا۔ کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا ۔ اخباری اطلاعات اور دیگر ذرائع سے جو باتیں سامنے آئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مسلم معاشروں میں انتہا پسندانہ فکر اور کچھ معاشرتی اقدار لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ ہیں ۔ یہ بہت بڑا بہتان اور کذب بیانی ہے۔ کانفرنس میں ملالہ یوسفزئی کو گیسٹ آف آنر کے طور پر بلایا گیا جس کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ موصوفہ کے ذریعے کس طرح مغربی ایجنڈے کو پروموٹ کیا جارہا ہے اور پھر کانفرنس میں افغانستان اور وہاں کی معاشرتی اقدار پر بھی تابڑ توڑ حملے کیے گئے۔ ان ساری باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لڑکیوں کی تعلیم کے نام پر مادر پدر آزاد مغربی ایجنڈے کو مسلم معاشروں پر مسلط کرنے کی  ایک کوشش تھی ۔ اسی طرح کی کوشش1979ء میں CEDAWکے عنوان سے بھی کی گئی ۔ پھر 1975ء  سے لے کر 2000ء تک اسی مغربی ایجنڈے کے نفاذ کے سلسلہ میں نیروبی کانفرنس ، بیجنگ کانفرنس اور پھر بیجنگ پلس فائیو کانفرنس منعقد ہو چکی ہیں اور حالیہ کانفرنس بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ 
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اس مغربی ایجنڈے اور ان کے تحت منعقد ہونے والی ان کانفرنسز کے بارے میں بہت پہلے بتا دیاتھا کہ یہ عورتوں کے حقوق اور آزادی کے نام پر اور عورت کو بااختیار بنانے (women empowerment)کے خوبصورت نعروں کی آڑ میں ہمارے معاشرتی نظام پر مغرب کا حملہ ہے اور بدقسمتی سے پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک نے بھی ان اعلامیوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس مغربی ایجنڈے کے تحت ہمارے خاندانی نظام اور شرم و حیاء کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ، نکاح جیسے مقدس بندھن کی مخالفت اور زنا کو عام کرنا اِس ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ یہاں تک کہ زنا جیسے بڑے گناہ میں ملوث ہونے والی عورتوں کو’’مزدور‘‘  قرار دے کر اُن کو قانونی تحفظ دیا جانا بھی اسی مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے جو کہ اسلام اور شریعت سے سراسر بغاوت اور سرکشی ہے ۔ 
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام تعلیم کے ہرگز خلاف نہیں ہے بلکہ قرآن کی پہلی آیت ہی اس کی تاکید لے کر نازل ہوئی ۔ 
{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(1)}(العلق) ’’پڑھیے اپنے اُس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘
اسی طرح جب آدم علیہ السلام کوخلافت عطا کرکے دنیا میں بھیجا گیا تو بھیجنے سے قبل ان کوعلم عطا کیا گیا :
{وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا}(البقرہ :31) ’’اور اللہ نے سکھا دئیے آدم کو تمام کے تمام‘نام۔‘‘ 
سادہ سا مفہوم ہےکہ زمین پر زندگی گزارنی ہے تو زمین کے وسائل کا علم ہوناضروری ہے ۔ اس لیے  اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو اسماء کا علم بھی سکھایا ۔ آج دنیا میں جتنی ایجادات ہورہی ہیں، یہ سب علم الاسماء میں شامل ہیں ۔ اس کو سادہ زبان میں عصری تعلیم کہہ سکتے ہیں ۔ 
اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بعد میں بھیجا مگر اُس کی تعلیم کا آغاز پہلے کردیا ۔ مگر جب زمین پر بھیجا گیا تو ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی :
{فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(38)} (البقرہ:38)
 ’’تو جب بھی آئے تمہارے پاس میری جانب سے کوئی ہدایت‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔‘‘
ہدایت علم ِوحی سے آتی ہے، جو اللہ نے پیغمبروںؑ کے ذریعے عطا فرمائی۔عصری تعلیم اس ہدایت کے تابع رہے گی تو وہ انسان کے لیے نافع ہوگی اورانسان کے لیے کسی قسم کے نقصان اور غم کا اندیشہ نہ ہوگا ۔ عصری تعلیم  اگرآسمانی ہدایت کے تابع نہیں ہوگی تو پھر غم ہی غم اور اندیشے ہی اندیشے نوع انسانی کو لاحق ہوں گے جیسا کہ آج ہیں ۔ 
آج دنیا نے جتنی ترقی کرلی ہے، 100 سال پہلے اتنی ترقی نہ تھی ۔ اِس حساب سے تو آج ہر طرف امن ہی امن اور چین ہی چین ہونا چاہیے تھا مگر آج ہر کوئی یہ کہتا نظر آتاہے کہ پرانے زمانے میں کتنا سکون تھا ، کتنی راحت آمیز زندگی تھی ، کتنی فطرت سے ہم آہنگ زندگی تھی مگر آج کتنی بے سکونی ، غم اور اندیشے ، افراتفری اورکتنی پیچیدہ اور بھونچال زدہ زندگی ہے ۔ معلوم ہوا کہ کسی چیز کی کمی ہے ۔ وہ کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھیجتے ہوئے اسی کی تاکید کی تھی :
’’تو جب بھی آئے تمہارے پاس میری جانب سے کوئی ہدایت‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔‘‘ (البقرہ:38)
معلوم ہوا کہ علم تو عام ہے مگر وہ آسمانی ہدایت کے تابع نہیں ہے، اس لیے زندگی میں اتنی پیچیدگیاں اور غم و حزن پیدا ہوگئے ہیں ۔ اسلام تعلیم کی تاکید کرتاہے مگر ساتھ یہ تاکید بھی کرتاہے کہ یہ تعلیم علم وحی کے تابع ہو تاکہ انسانی معاشرے میں پیچیدگیاں اور غم پیدا نہ ہو سکیں ۔ پیغمبر اسلام ﷺنے دعا سکھائی ہے :
((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا ))’’ اے اللہ میں تجھ سے نفع دینے والے علم کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
(( اَللّٰهُمَّ اِنِّىْ اَعُوْذُبِكَ مِنْ عِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ )) ’’اے اللہ!  تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اُس علم سے جو نفع دینے والا نہ ہو۔‘‘
ایک حدیث ہر جگہ پیش کی جاتی ہے :’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ حالیہ کانفرنس میں بھی یہ حدیث پیش کی گئی لیکن اصل بات نہیں بتائی گئی کہ مراد کونسا علم ہے ۔ اُمّت کا 14 صدیوں کا اجماع ہے کہ اس سے دین کا بنیادی علم مراد ہے ۔ آپ باپ ہیں ، شوہر ہیں ، بیٹے ہیں ، بیوی ہیں ، بیٹی ہیں ، ڈاکٹر ہیں ، انجینئر ہیں ، جج ہیں ، سیاستدان ہیں ،تاجر ہیں ، جرنیل ہیں ، صحافی ہیں ، کچھ بھی ہیں مگر آپ کو دین کا بنیادی علم ہر صورت حاصل کرنا چاہیے تاکہ آپ کو اپنے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا صحیح طور پر علم ہو سکے اور آپ کا دنیوی علم اور ہنر ہدایت کے تابع ہو کر آپ کے لیے اور باقی انسانوں کے لیے نافع بن سکے ۔ سیدنا عمر ؄ جب مارکیٹ میں جاتے تھے تو دکانداروں  سے پوچھتے تھے : آپ نے کاروبار کے بنیادی(فقہی) مسائل سیکھے ہیں ؟ اگر کوئی کہتا نہیں تو آپ فرماتے :دکان بند کرو اور پہلے مسائل سیکھ کر آؤ ۔ اسی طرح ایک بندہ جج ہے تو اس کو اس شعبہ کے حوالے سے بنیادی فقہی مسائل کا علم ہونا چاہیے ، تاجر ہے تو سود کی حرمت ، زکوٰۃ کے مسائل ، بیع کے مسائل سمیت تمام متعلقہ مسائل سیکھنا چاہئیں ،اسی طرح کوئی بھی ہنر ہے ، دنیوی علم ہے ، اس سےمتعلقہ دینی مسائل کا بھی آپ کو علم ہونا چاہیے تب جاکر آپ کا فن اور آپ کی دنیوی تعلیم دنیا اور آخرت کے  لحاظ سے بھی اور انسانی معاشرت کے لحاظ سے بھی نافع ہو سکتی ہے ورنہ انسانیت کے لیے بھی اور خود اپنے لیے بھی شر اور نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ جس طرح یہ تمام علوم و فنون دنیوی زندگی کا نظام چلانے کے لیے ضروری ہیں ، اسی طرح دین کا علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر بندہ مفتی اور عالم بن سکے لیکن دین کا بنیادی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ۔ ایک انگریز مفکر کا بڑا مشہور قول ہے کہ ہم نے پرندوں کی طرح ہواؤں میں اُڑنا سیکھ لیا، مچھلیوں کی طرح سمندر میں سفر کرنا سیکھ لیا لیکن زمین پر انسان بن کر زندگی گزارناہم نہ سیکھ سکے ۔ ظاہر ہے انسان جب علمِ وحی کو ترک کردے گا تو اُس کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہو جائے گی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اورہم نے جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں بہت سے جن اور انسان۔ان کے دل توہیں لیکن ان سے غور نہیں کرتے‘ ان کی آنکھیں ہیں مگر اُن سے دیکھتے نہیں ‘اور ان کے کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔یہ چوپایوں کی مانند ہیں‘بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں۔‘‘(الاعراف:179)
ایک مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی روح سے غافل ہیں ۔جیسے ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ صرف ظاہری آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں ، ان کی مادی آنکھ کھلی ہوئی ہے اور ان کی روحانی آنکھ بند ہے ۔ 
اِسی طرح حالیہ کانفرنس میں ایک بات یہ کی گئی کہ مرداور عورت ہر لحاظ سے برابر ہیں ۔ یہی CEDAW کا مغربی ایجنڈا ہے ۔ حالانکہ خود اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں فرق رکھا ہے ، بچہ پیدا کرنے کی اور دودھ پلانے کی صلاحیت اللہ نے عورت کو دی ہے ۔ مرد سخت کام کر سکتاہے ، محنت اور مشقت والا کام زیادہ کر سکتا مگر عورت فزیکلی اتنی مشقت اور سختی برداشت نہیں کر سکتی ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے معاش کی ذمہ داری مرد کو سونپی اور گھر یلو امور ، خانہ داری اور بچوں کی تربیت عورت کے ذمہ لگائی ۔ اللہ کی بندگی کرنے کے لحاظ سے مرداور عورت دونوں  برابر ہیں مگر بندگی کے تقاضوں کو ادا کرنے کی کیفیت میں فرق ہوتاہے ۔ عورت امامت نہیں کروائے گی ، اذان نہیں دے گی ، مردوں کے سامنے خطبہ نہیں دے گی ۔ اسی طرح ہر شعبہ میں اللہ تعالیٰ نے ذمہ داریوں کا تعین کیا ہے جو کہ فطرت کےاصولوں کے عین مطابق ہے۔ اگر ان فطری اصولوں کو پامال کریں گے تو پھر معاشرے میں تباہی آئے گی۔ اسلام نے عورت کا اصل دائرہ کار یہ بتایا۔فرمایا:
{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ}(الاحزاب :33 ) ’’اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑو۔‘‘
عورت کا اصل مقام گھرہے ، اس کی اہم ترین  ذمہ داری گھر کے اندر کےامور کو سرانجام دینا ہے ۔ باہر کے سارے کام مرد کے ذمہ ہیں ، اگر عورت کو باہر جانا بھی پڑے تو حجاب میں جائے ۔ فرمایا: 
{وَلَا تَـبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی} ’’اور مت نکلو بن سنور کر پہلے دورِ جاہلیت کی طرح۔‘‘(الاحزاب :33 )
زمانہ جاہلیت میں عورتیں بن سنور کربے پردہ باہر نکلتی تھیں ، جب غیر محرم مردوں کی نظریں اُن پر پڑتی تھیں تو پھر معاشرے میں فساد پیدا ہوتا تھااور گھریلو نظام درہم برہم ہو جاتا تھا ۔ اس لیے اسلام نے زمانہ جاہلیت کی اِس شرانگیز روایت کو ختم کردیا اور عورت کو سکھایا کہ وہ اپنے شوہر کے سامنے زینت کا اظہا کرے تاکہ دونوں میں  محبت بڑھےاور گھر کا ماحول نسلوں کی تربیت کے لیے پُرامن اور خوشگوار رہے اور باہر جائے تو حجاب میں جائے تاکہ فتنہ و فساد پیدا نہ ہو ۔ 
آج مغرب کے دانشوروں میں بھی اسلام کے فطری اصولوں کی اہمیت اُجاگر ہو رہی ہے ۔ سوویت یونین کے سابق صدر گوربا چوف نے کہا تھا : ہم نے عورت کو گھر سے نکال کر سڑک کے چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے گھریلو اور خاندانی نظام درہم برہم ہو چکا ہے ۔ اب ہمیں عورت کو دوبارہ اُس کے اصل مقام گھر میں لانے کے لیے باقاعدہ تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔ یہی بات تو قرآن (سورہ احزاب :33) میں آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ نے بتا دی تھی ۔ 
رہا یہ مسئلہ کہ عورت کو کونسی تعلیم دی جائے ؟ جو کام عورت کے ذمہ اور اختیار میں نہیں ہے اُس کی تعلیم تو آج دینے کی کوشش کی جارہی ہے مگر جو عورت کی سب سے اہم ذمہ داری ہے، اچھی ماں بننا۔کیا اس حوالے سے بھی کوئی تعلیم و تربیت کا کوئی ادارہ ہے ؟ لہٰذا اسلام نے عورت کی جن ذمہ داریوں کا تعین کیا ہے ،ان کے متعلق ہی تعلیم دی جائے۔ یہی بات یورپ کی وہ خواتین بھی کہہ رہی ہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں کام کرنے کے بعد اسلام قبول کیا ہے ۔ 
مغربی ایجنڈا جہاں مرد اور عورت کے برابر ہونے کی بات کرتا ہے، وہاں عورت کے پردے اور حجاب کو بھی غیر ضروری سمجھتا ہے ۔ جبکہ اسلام پردے اور حجاب کو لازمی قرار دیتاہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے 
{وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ط}( الاحزاب: 53 )’’اور جب تمہیں نبی (ﷺ) کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے  مانگا کرو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کائنات کی پاکیزہ ترین خواتین تھیں اور انبیاء کی جماعت کے بعد مقدس ترین جماعت صحابہ کرام ؇کی جماعت تھی لیکن وہاں بھی اللہ کا حکم تھا کہ جب ازواج مطہراتؓ سے کوئی سوال کروتو پردے کے پیچھے سے سوال کیا کرو۔ ذرا سوچئے کہ عام مسلمان خواتین اور مردوں کے لیے پردے کی کتنی اہمیت اور ضرورت ہوگی ۔ اگر عورتوں کی تعلیم کاکچھ بندوبست کرنا ہےتو اصل تعلیم یہ ہے کہ پردے اور حجاب کے احکام ، شرو حیاء اور عصمت کی حفاظت ، نظروں کی حفاظت ، محرم اور نامحرم کا فرق اور دین کا بنیادی علم سکھایا جائے۔ نظروں کی حفاظت کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں  کے لیے ہے ۔ 
{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ط}(النور :30) 
’’(اے نبیﷺ!) مؤمنین سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘
{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ}(النور:31) ’’اور مؤمن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ ‘‘
اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ حائل رہے ، مخلوط ماحول نہ ہو ، تعلیمی اداروں ، آفس میں ، کاروباری مراکز میں ، سفر میں ، ہر جگہ غیر محرم مرد و عورت کی 
علیحدگی کا مستقل انتظام ہو ۔ اللہ کےرسول ﷺفرماتے ہیں: ’’دو نامحرم مردو عورت تنہائی میں ہوں گے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوگا ۔‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے سر میں کوئی کیل ٹھوک دے تو اسے برداشت کرلینا مگر غیر محرم کو چھونا ہرگز قبول نہ کرنا ۔‘‘ آج مغربی ایجنڈے کے تحت جو مادر پدر آزاد معاشرت ہمارے اوپر مسلط کی جارہی ہے اُس کا نتیجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔ اسلام آباد میں منعقد ہونےو الی کانفرنس میں رابطہ عالم اسلامی کے لوگ بھی شریک تھے ۔ اگر اسلام کا نام لے کرکانفرنس کرنے کی بات کی ہے تواسلام کایہ حکم بھی بتانا چاہیے تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج}( البقرہ: 85 ) ’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے؟‘‘ 
’’اِقْرَاْ‘‘Quote کر دو گے’’ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ‘‘ چھوڑ دو گے؟ اسلام جہاں عورتوں کی تعلیم کی بات کرتاہے ، حقوق کی بات کرتا ہے وہاں پردے اور حجاب کی بات بھی کرتاہے ۔ اگر اسلام کی بات کرنی ہے توپھر پورے اسلام کی بات کرو۔ {یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص} ( البقرۃ: 208 ) ’’اے اہلِ ایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘ 
لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آپ نے کانفرنس بلا لی ، کیا لڑکوں کی تعلیم کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں ؟سندھ میں بہت سے سکول بھینسوں کے باڑوں میں بدل چکے ہیں ، کہیں نقل سرعام ہو رہی ہے ، کیا لڑکوں کو تعلیم کا حق حاصل نہیں ہے ۔ 3 کروڑ بچے اس وقت بھی ایسے ہیں جن کو سکول کی تعلیم میسر نہیں ہے ۔ اگر آپ کو تعلیم کی اتنی ہی فکر ہے تو ان کے لیے ہوم سکولنگ کا انتظام کریں تاکہ وہ گھر بیٹھے پڑھ سکیں۔ امریکہ میں اس وقت بھی37 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ والدین کہتے ہیں کہ سکولوں کا معیار نہیں ہے ، جبر کا نظام ہے ، حیااور عصمت محفوظ نہیں ہے ۔ ان کے لیے گھروں میں تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے ۔ آپ بھی اس سمت میں کوشش کیجئے ۔ 
پھر آپ دیکھئے کہ CEDAWجیسے مغربی تصورات کے تحت لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قائرہ میں کانفرنس ہوئی ہے ، بیجنگ میں ہوئی ہے ، اسلام آباد میں ہوئی ہے ۔ کیا فلسطین ، کشمیر ، میانمار میں شہید ہونے والی معصوم بچیاں نظر نہیں آتیں ؟ ان کے لیے بھی کوئی کانفرنس منعقد کرنے کی زحمت کسی نے کی؟ ملالہ یوسفزئی کی زبان پر غزہ کی معصوم بچیوںکے قتل عام بلکہ نسل کشی کے خلاف بھی کبھی کوئی بات آئی ؟
پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُمت کے باقی سارے مسائل حل ہو گئے کہ اب صرف لڑکیوں کی تعلیم سب سے بڑا مسئلہ رہ گیا ہے ؟ کیا غزہ میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی مسئلہ نہیں ہے ؟ کیا گریٹر اسرائیل کے نام پر شام ، اردن ، لبنان ، فلسطین سمیت امت مسلمہ کے علاقوں پر قبضہ کی منصوبہ بندی کوئی مسئلہ نہیں ہے ؟ 
ہم علماء کرام سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ اس کانفرنس کے حوالے سے اپنے موقف کا کھل کر اظہار کریں  اور قوم کو بتائیں کہ سچ کیا ہے ؟ یہ دجالی تہذیب اور مغربی ایجنڈے جو ہم پر مسلط کرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے، اس کے خلاف کھل کر علماء کو بولنا چاہیے اور اپنی اسلامی معاشرتی اقدار اور روایا ت کی پاسداری کے لیے پوری قوم کو بھی اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام فتنوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین ! 
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی 
ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی عرصہ دراز سے امریکہ میں قید ہیں ۔ جوبائیڈن جاتے جاتے کئی قیدیوں کی رہائی کا حکم دے گیا اور کئی سزائے موت کے کیسز بھی معاف کرگیا  لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس ضمن میں بہت بے حمیتی کا مظاہرہ کیا ہے اور آج تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ اِس موقع پر بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی یا تبادلے کا معاملہ نہ اُٹھایا۔الطاف حسین نے کہا تھا ، ریمنڈ ڈیوس دے دو اور عافیہ لے لو ، قیدیوں کا تبادلہ اس طرح بھی ہوتا ہے مگر حکمرانوں نے کوئی توجہ نہیں کی ۔ بے چاری کی والدہ روتے روتے دنیا سے چلی گئیں ۔ اب ان کی بہن التجائیں کر رہی ہیں کہ کوئی تو بولو ، کچھ تو کرو، کیوں سب لوگ اتنے  بے حس ہو گئے ہیں ۔ اس بہن کے حق میں آواز اُٹھانا ہر مسلمان کا فرض ہے ، حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو بھی نوٹس لینا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں سمیت ہم سب کو غیرت ایمانی عطا فرمائے ۔ آمین !