نماز کی حقیقت، اہمیت اور معیارِمطلوب
(مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی)
اعمال کی فہرست میں نماز ہی ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں بجا طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کی ٹھیک ٹھیک اقامت اور بالکل صحیح ادائیگی پر ہی پورے دین کی عمارت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر ہمارے تینوں بنیادی فرائض( بندگی رب، دعوت بندگی، اور نظام بندگی کی اقامت )کی ادائیگی کی کوششوں کا حق ہی ادا نہیں کیا جا سکتا۔ لفظ نماز قرآنی اصطلاح ’’صلوٰۃ‘‘ کا ترجمہ ہے۔’’صلوٰۃ ‘‘کے لغوی معنی کسی کی طرف رخ کرنے، بڑھنے اور قریب ہونے کے ہیں۔ پس شریعت میں ’’صلوٰۃ ‘‘ کا مفہوم ہوگا اُس اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر اُس کے قریب ہو جانا، جو اکیلا معبودومقصود ہے۔ پس نماز سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، نماز غموں اور پریشانیوں کو دور کر کے دل کو سکون عطا کرتی ہے۔
نماز ہی سے وہ باطنی قوت حاصل ہوتی ہے جو بیرونی شیطانی قوتوں کا مقابلہ کر کے اُن کے منہ پھیر سکے۔ نماز خواہشات کی پیروی سے روکتی ہے۔
یہ تمام باتیں نظری طور پر درست ہیں مگر عملی اور واقعی دنیا کا جائزہ لیں تو یہ اس سے مختلف نظر آتی ہے۔ نمازیں پڑھنے والوں کی زندگیاں بھی اس بات کی شہادت دیتی نظر نہیں آتیں کہ نماز کی ادائیگی ہی سارے دین کی ادائیگی کی ضمانت ہے۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم غور کریں کہ وہ کون سی نماز ہے جو پوری شریعت کی محافظ ہے؟ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہمیں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پڑھنے کا نہیں کہا گیا۔ نماز کی اقامت کے لیے چند اہم شرائط درج ذیل ہیں:
1۔ وقت کی پابندی
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:
{اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰــبًا مَّوْقُوْتًا(103)} (النساء)’’بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں میں فرض کی گئی ہے۔‘‘
2۔جماعت کی پابندی:
باجماعت نماز ادا کرنے والوں کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میرا جی چاہتا ہے کہ لکڑیاں جمع کروں، پھر نماز کا حکم دوں اور اذان دی جائے، پھر کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہہ کر خود ان لوگوں کی طرف جاؤں جو باجماعت نماز میں شریک نہیں ہوئے اور ان کے سمیت ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔‘‘(مشکوٰۃ)
3۔ تکبیر تحریمہ اور صف اوّل کی فضیلت :
حضرت انس بن مالک ؒ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جس نے اللہ کے لیے چالیس دن پہلی تکبیر کے ساتھ نماز باجماعت ادا کی، اس کے لیے دو برأتیں لکھ دی گئیں۔
1۔دوزخ سے خلاصی 2۔نفاق سے نجات(الترمذی)
غور کیجیے، کتنی بڑی خوشخبری ہے اُس شخص کے لیے جسے دنیا ہی میں دوزخ سے بَری ہونے کی بشارت مل جائے۔
نبی اکرمﷺ یہ بشارتیں دے رہے ہیں، جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے جو رفقاء و احباب باجماعت نماز ادا کرتے بھی ہیں تو ان کی اکثریت اس وقت مسجد میں آتی ہے جب جماعت کھڑی ہو جاتی ہے، اور اس طرح وہ تکبیر تحریمہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پھر اکثر لوگ مسجد میں مختلف جگہوں پر کھڑے باتیں کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ مؤذن اقامت کہتا ہے تو وہ جماعت میں شریک تو ہوتے ہیں، مگر پہلی صف کی فضیلت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
4۔ارکان نماز کی تعدیل، اعضائے بدن کا سکون اور جھکاؤ :
نماز کی حفاظت واقامت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب اسے ادا کرتے وقت جسم پر ادب اور عجزو نیاز کی کیفیت چھائی ہوئی ہو۔ اگر نماز کو ٹھہر ٹھہر کر نہ پڑھا جائے، رکوع و سجود پورے سکون سے نہ کئے جائیں، نگاہوں میں ادب کا جھکاؤ اور جسم پر عاجزی کا سکوت طاری نہ ہو، تو وہ کسی بھی لحاظ سے ایسی نماز نہ ہوگی جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس کی اقامت کی گئی ہے۔
5۔خشوع:
خشوع کا مطلب ہے ’’اللہ تعالیٰ کے حضور باطن کا جھک پڑنا اور قلب کا بچھ جانا۔ ایک مثالی مومن کی نماز انتہائی عاجزی والی ہوتی ہے، دل میں اللہ تعالیٰ کا خشوع اور تضرع اور چہرے پر مسکینیت کی کیفیت چھائی ہوئی ہوتی ہے۔
6۔ترتیل اور تدبر قرآن :
نماز جن افعال کا مجموعہ ہے اُن میں سب سے اہم چیز قرآن مجید کی ٹھہر ٹھہر کر اس کے معنیٰ پر غور و فکر کے ساتھ تلاوت ہے۔خشوع کا تلاوتِ قرآن کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ در اصل قرأتِ قرآن ہی سے خشوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا وہ اہم شرائط میں جن کا پورا کیا جانا ہر حال میں ضروری ہے۔ اگر نماز ان میں سے کسی ایک شرط سے بھی خالی ہوتو یہ نماز کا ’’قائم‘‘ کیا جانا نہیں ہوگا اور نہ ہی ایسی نماز سے ان نتائج و ثمرات کی توقع کی جا سکتی ہے جو اقامت صلوٰۃ کے ثمرات ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نماز کو قائم کرنے اور اس کی محفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین