(زمانہ گواہ ہے) ’’غزہ جنگ بندی : توقعات اور خدشات ‘‘ - محمد رفیق چودھری

10 /

ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں بھی اسرائیل کو مضبوط کرنے

کے لیے اقدامات کیے گئےاور دوسرے دور حکومت میں بھی اسرائیل

کو مضبوط تر کرنے کی پالیسی جاری رہے گی:رضاء الحق

حق و باطل کے معرکوں میں نقصان کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ

نصب العین کو دیکھا جاتاہے اور حماس اپنے نصب العین میں کامیاب

رہی ہے :ڈاکٹر محمد عارف صدیقی

’’غزہ جنگ بندی : توقعات اور خدشات ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی 100 کے قریب ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں ۔ ان ایگزیکٹو آرڈرز کی کیا حقیقت ہے اور ان میں اسرائیل نوازی کے حوالے سے کیا کچھ ہے، جس سے اُمت مسلمہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی: سب سے پہلے اُمت مسلمہ کو مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ٹرمپ کی صورت میں ایک تحفہ دیا ہے ۔ پہلی بار جب ٹرمپ صدر بنے تھے تو اس وقت بھی میں نے یہی کہا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ سے پہلے جتنے بھی امریکی صدور یا دیگر سپرپاورز کے لیڈرز رہے ہیں وہ مسلمانوں کے لیے وعدے اور تسلیاں کچھ کرتے تھے لیکن پس پردہ کچھ کرتے تھے ۔ لیکن ان سب کے برعکس ٹرمپ نے کھلے الفاظ میں اُمت مسلمہ کو پیغام دے دیا کہ میں آپ کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہوں ۔ کم ازکم اس نے مسلمانوں کو دھوکے میں نہیں رکھا لہٰذا مسلمانوں کے لیے یہ اچھا ہے کہ وہ خوش فہمی میں مبتلا رہنے کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ خود کریں ۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز امریکہ کی نئی جارحانہ پالیسی کا رُخ متعین کر چکے ہیں کہ اُس نے کن ممالک کے ساتھ کن میدانوں میں کیسے معاملات طے کرنے ہیں،کن کواپنی چھتری تلے رکھنا ہے اور کن کو اپنی چھتری سے محروم کرنا ہے ۔ ان آرڈرز کے مطابق اب پالیسی بنتی رہے گی، لابنگ ہوتی رہے گی، رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا رہے گا۔ مسلمانوں کے خلاف اس کے عزائم واضح ہیں۔ صرف ایک بات جو اُس نے ٹرانسجینڈز کے متعلق کہی ہے وہ بظاہر مسلمانوں کے حق میں جاتی ہے ۔ جہاں تک اسرائیل نوازی کا تعلق ہے تو اپنے پہلے دور میں بھی ٹرمپ نے کھل کر اسرائیلی مفادات کا تحفظ کیا تھا ۔ اسی نے بیت المقدس کو دارالحکومت تسلیم کیا اور اب اس پالیسی میں مزید آگے بڑھے گا ۔ اس نے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی اپنی سابق پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے امیگریشن پالیسی کو سخت کیا ہے، درآمدات پر ٹیکسز بہت زیادہ بڑھائے ہیں ۔حلف برداری کی تقریب میں بھی ٹرمپ کے ساتھ سیاستدان اور علماء نہیں کھڑے تھے بلکہ کارپوریٹ طبقہ کے نمائندے کھڑے تھے ۔اس کا مطلب ہے کہ اب امریکہ پر کارپوریٹ طبقہ کی حکومت ہوگی اور پالیسی سازی میں ٹرمپ کے ساتھ ایلن مسک، مارک ذکر برگ ، جیف بینروس جیسے لوگ شامل ہوں  گے ۔ وہ کارپوریٹ طبقہ جو زر کے تیز بہاؤ کے لیے جنگیں  کرواتاہے ، تیل کے ذخائر کو آگ لگاتاہے ، شارٹیج پیدا کرتا ہے ، پھر دوبارہ اجازت دیتا ہے کہ تم بیچو تاکہ قیمتوں کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب دنیا میں امن محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا ۔
سوال: آج تک ہم یہی دیکھتے آئےہیں کہ جب کوئی امریکی صدر منتخب ہوتا ہے تو اپنی تقریر میں کھل کر اسرائیل کی مدد اور پشت پناہی کا اعلان کرتاہے لیکن ٹرمپ نے اس مرتبہ ایسا کوئی اظہار نہیں کیا ۔ حالانکہ ٹرمپ کا یہ آخری دور ہے، اس سے کیا سمجھا جائے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں  اسرائیل نواز نہیں ہوں گی ؟
رضاء الحق: اگرچہ ٹرمپ نے واضح طور پر اسرائیل کی تائید نہیں کی لیکن اس کی کابینہ میں زیادہ تر وہی لوگ شامل ہیں جو شروع دن سے اسرائیل نواز ہیں۔ جیسا کہ ملاکو روبیو جس کو اس نے اپنا سیکرٹری آف سٹیٹ چناہے، جیمز وانس کونائب صدر بنایا گیا ہے ، انتھنی بلنکن کو بھی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ یہ سب وہی لوگ ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے پہلے دور میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے میں کردار ادا کیا ، اسی دور میں  ابراہم اکارڈز کا شوشہ چھوڑا گیا جس کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات ،بحرین، عمان ، مراکش ،سوڈان ، ایتھوپیا سمیت کئی ممالک کو اسرائیل تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ ایتھوپیا سے وعدہ کیا گیا کہ اس کے مصر کے ساتھ نیل ڈیم کے حوالے سے تنازعہ کو حل کیا جائے گا لیکن تنازعہ ابھی تک حل نہیں ہوا ۔ پھر ٹرمپ کے پہلے دور میں ہی اسرائیل میں جیوش نیشن سٹیٹ لاء پاس کیا گیا جس کے مطابق اسرائیل کے اصل شہری یہودی ہوں گے اور باقی سب درجہ دوم کے شہری ہوں گے اور اگر فلسطینیوں کو خود مختاری دی گئی تو وہ محدود ہوگی اور انہیں اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ ہوگی ۔ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں بھی اسرائیل کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے اور دوسرے دور حکومت میں بھی اسرائیل کو مضبوط تر کرنے کی کوشش جاری رہے گی ۔ جیسا کہ ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی بیان دے دیا تھا کہ’’ اگر حماس نے اسرائیلی قیدیوں کو نہ چھوڑا تو اس پر جہنم برسا دیں گے ۔‘‘ اِس وقت حماس کی اسرائیل کے ساتھ جو ڈیل ہوئی ہے اس میں اہم ترین کردارٹرمپ کا ہے ۔ بہرحال یہود ونصاریٰ کے جتنے بھی منصوبے ہیں وہ ان پر آگے بڑھیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کا منصوبہ اپنی جگہ ہے ۔ اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ وہ حماس کا صفایا کر دے گا مگر اب تک کی صورتحال سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ مجاہدین کا صفایا کرنا اسرائیل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اپنے قیدی حماس کی قید سے نہیں چھڑا سکا اور بالآخر معاہدہ کرنا پڑا ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے بہت سے اعلیٰ عہدیدار بھی اس ڈیل سے ناخوش ہیں ۔ ان کےوزیر برائے قومی سلامتی اور آرمی چیف سمیت کئی لوگوں نے استعفیٰ دے دیا ہے ۔
سوال: ٹرمپ نے ٹرانسجینڈرزکے حوالے سےجو ایگزیکٹو آرڈر پاس کیا ہے کیا LGBTQکمیونٹی اس کے خلاف کھڑی نہیں ہوگی اور مغرب اس بیان کو کیسے لے گا ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:یہ آسمانی مذاہب بمقابلہ شیطانی مذاہب والا معاملہ ہے ۔ LGBTQکی آڑ میں شیطانی مذہب کو آسمانی مذاہب کے مقابلے میں لاگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا سب سے پہلے روسی صدر پیوٹن نے اس کے خلاف سٹینڈ لیا۔ چونکہ پیوٹن کا مغرب میں اتنا اثر رسوخ نہیں ہے، اس وجہ سے اس کی رائے کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی تھی ۔ لیکن اب ٹرمپ نے بھی اس پر سٹینڈ لیا ہے تو اس کا مطلب ہے دنیاکو لیڈ کرنے والی دو بڑی طاقتیں اس معاملے پر اتفاق کر چکی ہیں کہ LGBTQکے شیطانی ایجنڈے کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔سب سے بڑھ کر یہ اُن نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے معاشروں میں یہ گندگی پھیلانے کی اجازت دے رہے تھے ۔ ٹرمپ کے بیان پر یہ شیطانی ایجنڈا نافذ کرنے والوں کو تکلیف تو ہوگی لیکن جیسا کہ کمیونسٹ ورلڈ کو لیڈ کرنے والا پیوٹن اور مغرب کو لیڈکرنے والا ٹرمپ اس معاملے پر متفق ہو چکے ہیں اور مسلم ورلڈ بھی ٹرانسجینڈر کے خلاف ان کا اتحادی بن جائے تو آئندہ چند سالوں میں اس شیطانی ایجنڈے کو ہم دبتا ہوا دیکھیں گے۔
سوال: ٹرانسجینڈر جیسی خباثت کو پروموٹ کرنے والے بھی بہت ہیں ، ممکن ہے وہ اس فیصلے کے خلاف کھڑے ہوں اور ان کے سپورٹرز بھی اُن کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو کہیں یہ فیصلہ واپس تو نہیں لے لیا جائے گا ؟
رضاء الحق:LGBTQاگرچہ بہت قلیل تعداد میں ہیں لیکن ان کی آواز دنیا میں اُبھر اس لیے رہی تھی کہ ان کو بڑے پلیٹ فارمز ملے ہوئے تھے جیسا کہ CNNاور MSNBCوغیرہ ۔ لیکن اس کے مقابلے میں FOXنیوز اور NPRجیسے چینلز پر ان کی مخالفت بھی کی جاتی تھی ۔ اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس کی مخالفت کر دی ہے اور پیوٹن نے پہلے ہی اس کی مخالفت کی ہوئی ہے، اس لیے اس شیطانی ایجنڈے کو اب روک لگ سکتی ہے ۔ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل تک پاکستان میںعورت مارچ کا بڑا چرچا تھا لیکن اب یہ معاملہ دب گیا ہے ۔ مسلم ورلڈ کے لیے یہ انتہائی خوش آئند بات ہے ۔
سوال: پاکستان میںبھی ٹرانسجینڈر ایکٹ پاس ہوا اور اس کے نتیجہ میں کئی لوگ مرد سے عورت بن کر اور عورت سے مرد بن کر اپنی جنسی شناخت نادرہ میں تبدیل کر وا چکے ہیں جوکہ بحیثیت مسلمان ہماری بیوروکریسی ، حکمرانوں اور اراکین پارلیمنٹ کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ کیا اب ان لوگوں کو بھی کوئی شرم آئے گی ، قانون میں کوئی ترمیم ہوگی؟
رضاء الحق:پاکستان میں 2017ء میں چار خواتین سینیٹرز نے یہ قانون متعارف کروایا تھا ۔ چونکہ ہماری پارلیمنٹ ایسی نہیں ہے کہ اس میں کسی بل پر تحقیق اور بحث کی جائے بلکہ یہاں پارٹی پالیسی اور قیادت کے فیصلوں کے مطابق بل پاس ہو جاتے ہیں ۔ لہٰذا 2018ء میں  یہاں اس گندگی کو پارلیمنٹ کے ذریعے مسلط کیا گیا ۔ بعد میں کچھ علماء اور یوٹیوبرز نے اس معاملہ کو اُٹھایا کہ خواجہ سراؤں(خنثیٰ) کے حقوق کی آڑ میں دراصل یہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد ڈکلیئر کرنے کا شیطانی ایجنڈا ہے ۔ پھر وفاقی شرعی عدالت میں اس بل کو چیلنج کیا گیا اور فیصلہ بھی آیا کہ اس قانون کی بعض شقیں اسلام اور شریعت کے خلاف ہیں ان میں ترمیم کرکے خنثیٰ کے حقوق تک ہی معاملے کو رکھا جائے لیکن بدقسمتی سےوفاقی شرعی عدالت کے ساتھ یہ امتیازی سلوک ہے کہ اس کے فیصلے کے خلاف اگر کوئی سپریم کورٹ میں اپیل کر دے توStay ہو جاتا ہے اور معاملہ لٹک جاتاہے ۔ تاہم سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بنچ اب بھی موجود ہے ، اُسے چاہیے کہ اس معاملے کو جلد از جلد اسلامی تعلیمات کے مطابق نمٹائے ۔
سوال:ٹرمپ نے چین کے حوالے سے بھی کچھ تحفظات کااظہار کیا ہے اور پانامہ کے حوالے سے بھی کچھ توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار کیا ہے۔ مستقبل میں آپ کیا نتائج دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:ٹرمپ نے کہا ہے کہ اب جنگوں کے میدان بدل جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب عسکری جنگ نہیں لڑی جائے گی بلکہ معاشی میدان میں ، وارفیئر کے میدان میں ، ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کے میدان میں جنگ جاری رہے گی ۔ آپ دیکھ لیں ہواوے کمپنی کے ساتھ کیا ہوا؟یہ جنگ کے مختلف پہلو ہیں۔ اسی طرح یہ درآمدات پر ٹیکسز بڑھائیں گے ، چین کی مصنوعات پر پابندی لگائیں گے ۔
سوال: اسرائیل اور حماس کے درمیان جو حالیہ معاہدہ ہوا ہے اس پر ٹرمپ نےعدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کہیں  ایسا تو نہیں ہے کہ یہ معاہدہ صرف اسرائیلی قیدی چھڑانے کے لیے کیا گیا ہو اور اس کے بعد اس کو ختم کر دیاجائے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی: یہود کی تاریخ سے عیاں ہے کہ اُنہوں نے ہمیشہ دھوکہ ہی دیا ہے ۔ انہوں  نے پیغمبروں سے جو وعدے کیے اُن سے مکر گئے ، یہاں تک کہ اللہ سے کیا ہوا عہد بار بار توڑا ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ حماس سے کیا ہوا معاہدہ پورا کریں ۔ یہ جنگ بندی عارضی جنگ بندی ہے ۔ اس وقت امت مسلمہ پر لازم ہے وہ دو باتوں کو سمجھے ۔ (1)۔ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023ء  سے شروع نہیں ہوئی بلکہ 1917ء سے شروع ہے جب بالفور ڈکلیریشن پاس ہوا تھا ۔ اس کے بعد یہود لڑتے رہے مگر ہم نے چشم پوشی اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیل نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں ۔لہٰذا اب چشم پوشی اختیار کرنے کی بجائے اس عارضی جنگ بندی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اہلِ غزہ کو مضبوط کریں ۔ (2)۔ زیادہ سے زیادہ سفارتی محاذوں پر بھی یہ جنگ لڑیں ۔ اہلِ غزہ صرف اپنی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ پوری اُمت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس لیے ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے اور اپنی نسلوں کو بھی ایسی ہی تربیت دینی چاہیے جیسی غزہ کے بچوں کی تربیت ہورہی ہے تاکہ کل وہ سچے مسلمان اور مجاہد بن سکیں ۔
رضاء الحق: اس وقت جو جنگ بندی ہوئی ہے ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسرائیلی اپنے عزائم سے پیچھے ہٹ جائیں گے ۔گریٹر اسرائیل کا قیام ان کا دیرینہ منصوبہ ہے ۔ انہوں نے اپنی پارلیمنٹ کے ماتھے پر لکھا ہوا ہے :’’ اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ۔‘‘ صہیونیت تو محض ایک دکھاوا ہے جبکہ اس کے پیچھے ان کی ایک مذہبی سوچ ہے اور اسی کے مطابق وہ کٹر یہودی ریاست قائم کر رہے ہیںاوراپنا ارادہ بار بار نقشوں کے ذریعے اور بیانات کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں ۔ سوویت یونین سمیت تمام عالمی طاقتیں ان سے تعاون کرتی رہی ہیںجبکہ حماس ان کے عزائم میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے ۔ باقی امت مسلمہ کو بھی چاہیے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے متحد ہو جائے ۔ OICکے چارٹر میں لکھا ہوا ہے کہ فلسطینیوں کی اخلاقی ، سفارتی اور عسکری مدد کی جائے گی ۔
سوال: اسرائیل کے ساتھ حماس کا جو معاہدہ ہوا ہے اس سے حماس کو کوئی فائدہ ہوگا یا یہ بھی اسرائیل کی کوئی چال ہو سکتی ہے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:میری تحقیق کے مطابق یہ امن معاہدہ نہیں بلکہ اسرائیل کے لیے سرنڈر پیکٹ ہے ۔ ہم بھلے اس کو امن معاہدہ کہہ لیں جیسا کہ افغانستان سے جب امریکہ نکلا تھا تو اس کو بھی ہم امن معاہدہ کہتے تھے حالانکہ وہ امریکہ کی شکست تھی ۔ یہ فیس سیونگ کے لیے امن معاہدے کا نام دیا جاتاہے ۔ میری ڈاکٹر خالد قدومی سے بات ہوئی ۔ اُنہوں نے بتایا کہ 7اکتوبر کو اڑھائی گھنٹے تک اسرائیل کوئی مزاحمت نہیں کر سکا کیونکہ حماس نے اُن کے چین آف کمانڈ پر قبضہ کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے آرڈرز نہیں جاسکتےتھے ۔ یہی وجہ تھی کہ اسرائیلی فوج کے کئی اہم کمانڈوز بھی حماس کے ہاتھوں قیدی بنے ۔ حقیقت میں حماس نے اسرائیل کی عسکری طاقت کو چیلنج کر دیا ہے ۔ آپ دیکھ لیں ۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ قیدیوں کو بزور طاقت آزاد کروائے گا مگر نہیں کر وا سکا ۔ دعویٰ تھا کہ حماس کا بالکل خاتمہ کر دیں گے ، ان کی پارلیمنٹ کے اخبارات میں سرخیاں  آنے لگیں کہ حماس ایک نظریہ کا نام ہے جو فلسطینیوں کے خون میں شامل ہے لہٰذا ان کے بچوں کو بھی ماردو ، سب کو ختم کردو ۔ لیکن وہ اب تک حماس سے جنگ نہیں جیت سکے ۔ پھر انہوں نے کہا کہ غزہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور وہاں ملٹری کے اڈے قائم ہوں گے مگر یہ بھی نہیں ہو سکا۔ پھر کہا کہ غزہ کو اسلحہ سے پاک کر دیں گے مگر وہ بھی نہیں ہوا ۔ ان کی یہ بھی کوشش تھی کہ اہل غزہ کو اتنا مجبور کیا جائے کہ وہ وہاں سے نکل جائیں گے مگر اب تک ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا ۔ جبکہ حماس نے مسلمان قیدیوں کی رہائی سمیت اپنے اہداف پورے کیے ۔
رضاء الحق: 2011ء میںصرف ایک اسرائیلی کے بدلے میں1137 فلسطینیوں کو رہاکروایا گیا جن میں یحییٰ السنوار بھی شامل تھے ۔ اب بھی درجنوں یحییٰ السنوار رہا ہوئے ہوں گے ۔ ان شاء اللہ
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:رہاہونے والے فلسطینی قیدیوں میں سے ایک کا بیان تھا کہ اسرائیلی عدالت میں اس کے خلاف 4 اسرائیلیوں کے قتل کا مقدمہ تھا لیکن اس نے عدالت کو بتایا کہ اس نے 4 نہیں بلکہ 10 اسرائیلی فوجیوں کو چھری سے ذبح کیا ہے اور 7 کو گولیاں  مار کر جہنم واصل کیا ہے ۔ اسرائیل اگر ایسے قیدیوں کی رہائی پر بھی مجبور ہوا ہے تو یہ اُس کی شرمناک شکست ہے ۔ وہ اسرائیل جو خود کو AIکا Godکہتا تھا اور آئرن ڈوم کو ناقابل شکست کہتا تھا مگر حماس نے اس کی طاقت کے سارے بت پاش پاش کر دئیے ہیں ۔ پھر یہ کہ وہ مسئلہ فلسطین جو ہمارے منبر و محراب سے بھی بھلا دیا گیا تھا ، سکولوں کی کتابوں سے بھی نکل چکا تھا ۔ پوری اُمت مسلمہ فلسطین کو بھلا چکی تھی مگر آج دنیا بھر میں بچہ بچہ اہل غزہ کے لیے آواز اُٹھا رہا ہے ۔ لہٰذا ہر لحاظ سے حماس کو فتح ملی ہے ۔ معاہدہ ان شرائط پر ہوا ہے جن شرائط پر حماس چاہتی تھی ۔ جس طرح امریکہ کو افغانستان میں شکست ہوئی تھی اسی طرح نیتن یاہو کا غرور بھی خاک میں مل گیا ہے ۔ اُمت مسلمہ کو جان لینا چاہیے کہ حق و باطل کے معرکوں میں  نقصان کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ نصب العین کو دیکھا جاتاہے اور حماس اپنے نصب العین میں کامیاب رہی ہے ۔
سوال:اس معاہدے اور عارضی جنگ بندی کے بعد کیا ہوگا ، مستقبل کے خدشات اور توقعات کیا ہیں؟
رضاء الحق:مستقبل کے حوالے سے ہمارے لیے احادیث مبارکہ میں واضح راہنمائی موجود ہے ۔ اس کے مطابق یہ دورفتن ہے ۔ اس میں ایک معاملہ دبے گا تو دوسرا فتنہ اُٹھ کھڑا ہوگا ۔ احادیث میں ایک بڑی جنگ الملحمۃ العظمیٰ کا بھی ذکر ہے ۔ اس جنگ میں اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوں گی کہ اُڑتے ہوئے پرندے کو زمین پر اُترنے کے لیے جگہ نہیں ملے گی ، ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہوں گی ۔ حالات اسی طرف جارہے ہیں ۔ اسرائیل اپنے عزائم سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور یہ جنگ پھیلتی چلی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ یہودی دنیا میں بے نقاب ہوتے چلے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی پکاریں  گے کہ اے مسلمانو! یہودی ہمارے پیچھے چھپا ہے اس کو قتل کر دو (سوائے غرقد کے درخت کے)۔
سوال:حماس کو مسلم ممالک کی جانب سے اگرچہ کوئی عسکری مدد تو نہیں ملی لیکن مسلم عوام کی جانب سے اخلاقی مدد بھی ملی ہے اور کسی حد تک مالی مدد کی اجازت بھی مسلم ممالک میں تھی ۔ پاکستان میں فلسطین کے نمائندے کی حیثیت سے ڈاکٹر خالد قدومی مہم چلاتے رہے ہیں ۔ ہمارے وزیر خارجہ نے بھی بڑا اچھا بیان دیا ۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:اگر مسلم ممالک کے حکمران اتنا بھی نہ کرتے توان کی جڑیں عوام میں ختم ہو جاتیں ۔ مستقبل کے حوالے سے خدشہ یہ بھی ہے کہ جو جنگ 50 ہزار شہداء کے بدلے حماس نے جیتی ہے وہ ہم لوگ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کہیں ہار نہ جائیں ۔ ماضی میں بھی ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے لہٰذا سفارتی سطح پر چاہے حماس ہو یا پاکستان اسے بہت ہوشیاری کے ساتھ امت مسلمہ کے مفادات کی جنگ لڑنا ہوگی ۔
سوال: اس عارضی جنگ بندی میں حماس کو کیا کرنا چاہیے اور باقی امت مسلمہ کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اس سے مسلم امہ کو فائدہ پہنچ سکے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:حقیقت کی نظر میں دیکھا جائے تو اُمت مسلمہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ حماس کو کوئی مشورہ دے سکے بلکہ حماس اس پوزیشن میں ہے کہ وہ امت کو رہنمائی دے ۔ اُمت کے لیے غیرت ، حمیت ، استقامت ، جذبہ جہاد اور تقویٰ کا درس وہاں سے آنا چاہیے۔
رضاء الحق:یہ جنگ مسجد اقصیٰ کی حرمت کی جنگ ہے۔ مسجد اقصیٰ کی تولیت مسلمان کا حق ہے ۔ دلائل قرآن کی روشنی میں مسلمانوں کے پاس موجود ہیں ۔ فلسطین سے محبت ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے ۔ تاہم ہمیں  دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس طرح اہل غزہ کی مدد کر سکتے ہیں ۔ جو بھی امداد ان کے لیے جائے گی وہ اسرائیل سے ہو کر جائے گی ، اس کے شر سے محفوظ رہنے کےلیے طاقتور مسلم ممالک کو مل کرلائحہ عمل بنانا چاہیے کیونکہ جنگ طویل ہے۔ دوسر ایہ کہ ہم نے یہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا ، اگر یہاں اسلام نافذ ہوگا تو اس کا فائدہ پورے عالم اسلام کو بھی ہوگا اور مسلمانوں کی طاقت بڑھے گی ۔
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالمی میڈیااس جنگ میں اسرائیل کا پارٹنر ہے ۔ اگر ہم اس کی خبروں پر یقین کریں گے تو ہم اسرائیل کے جال میں پھنس جائیں گے ۔ لہٰذا ہمیں اپنے ذرائع ابلاغ کو اس قابل بنانا ہے کہ حقیقی صورتحال سے آگاہ رہیں ۔