(کارِ ترقیاتی) بھرم بلندی کا… - عامرہ احسان

10 /

بھرم بلندی کا…

عامرہ احسان

غزہ میںجنگ بندی پر دنیا بھر میں جشن منائے گئے۔ بے ساختہ! ولولہ انگیز، حقیقی خوشی کے خوبصورت مظاہر۔ لندن، امریکہ تا پوری عرب دنیا۔ سراجیو، بوسنیا ہرزوگونیا! ہر زندہ، باشعور انسان، نعرے، دعائیں محبت نچھاور کرتا،کئی کئی شہروں میں مراکش، تیونس میں بھی خوشی سے پھٹ پڑے۔ تیونس میں یحییٰ سنوار صوفے پر بیٹھے کا عکس، فلسطینی جھنڈے اور مبارک باد نچھاور۔ شام، اردن، بیروت! شام میں دمشق، حلب، حمص ، ادلب میں بھرپور خوشی۔ امیہ مسجد اور امیہ اسکوائر میںاذانیں گونجیں۔ دمشق پکار اُٹھا۔ ’یا اقصیٰ! ہماری جانیں تم پر قربان ! لبنان میں فلسطینی، حماس کے جھنڈے ۔ اردن بھی جشن مناتا رہا۔ یاد رہے کہ احادیث میں سرزمین ِ شام دراصل خلافتِ بنو امیہ، خلافتِ عثمانیہ اور صلاح الدین ایوبی کا شام ہے جو فلسطین، اردن، شام اور لبنان پر مشتمل ہے۔ جس کی ہیئت بدلنے کو فرانس اور برطانیہ نے بلادِ الشام کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے اسے چار حصوں میں تقسیم کیا۔ ہر حصے پر اپنے چنیدہ،بے دین حکمران یقینی بنائے۔ لبنان میں آبادی کی ہیئت بدل کر اس کے آئین میں صدر کا عیسائی ہونا ثبت کیا۔ قضیہ سارا فلسطین کی جگہ اسرائیل کے خنجر کا مسلم سرزمین پر گھونپا جانا اور آمدِ دجال کی احادیث میں اسلام کو شکست دینے کی نہایت دوررس پلاننگ تھی۔ ایک ان کی پلاننگ تھی، ایک اللہ کی! ان کی چالیں؟ مُکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْر… کفر کی پلاننگ اور چالیں بالآخر تباہ ہو جانے والی ہوتی ہیں۔ اسرائیل تا امریکہ!
اُمت ایک ہے یک زبان۔ سبھی حکمران، بچشم سر دیکھ لیں۔ ہر طرف مظلوم محبوب فلسطینی، مسلم عوام کی آنکھ کے تارے، دلوں میں بستے، دعائوں میں رہتے سکینت استقامت پاتے ہیں۔ فلسطینی؟
’وہ عکس بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے،
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے!‘
یہ پوری قوم صرف بحرِ روم کے کنارے نہیں رہتی، پونے دو ارب میں سے ہر چشمِ بینا کے ان اشکوں میں رہتی ہے جو ان کے غموں پر برستے ہیں! دنیا کی عجیب قوم! امت کا مان! کفار کے دلوں کو بھی پگھلا ڈالنے والی۔ ان کا تعارف سنیے (حقیقی مسلمان کا!) امریکی قدامت پرست یہودی ربی (فقیہ ، عالم) بہت بوڑھا زیرک اتھارٹی مانا جاتا ہے، پٹزاک پریٹووچ کہتا ہے:’مسلمان ہمارا وہ دشمن ہے جس کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ اس کے پاس روحانی طاقت ہے، یہ اولادِ ابراہیم ؑ ہے، نماز پڑھتے ہیں، شادی کرتے، حیا کرتے ہیں۔ (پارٹنرشپ، LGBTQ نہیں!) جو اپنے مقصد کے لیے مرنے پر تیار ہوں ایسوں کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ جنھیں موت کا خوف نہیں انھیں روایتی فوجی طریقوں سے ہرانا ممکن نہیں۔ انہیں ختم کرنے کے لیے ہمیں روحانی طریقہ چاہیے۔’روحِ محمدؐ ان کے بدن سے نکال دو، اور ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو۔‘ اقبال نے تو ابلیسی مشورے فاش کیے تھے جنہیں پاکستانی نصابوں اور جوانوں پر استعمال کیا جا رہا ہے! بر روئے زمین فلسطینی کردار کا معجزہ مبہوت کن ہے۔
غزہ کا چپہ چپہ حماس اور یرغمالیوں کی تلاش میں اسرائیل نے بمباریاں کرتے، ٹینک دوڑاتے، اس بہانے سارے ہسپتال اجاڑتے، چھان مارا۔ نہ حماسی ملے نہ یرغمالی۔ ان کے سٹیلائیٹ ، مصنوعی ذہانت (AI) دعوے دار  تھے زمین پر رینگتی چیونٹی ڈھونڈ نکالنے کے۔ کسی سرنگ کی خبر، ہوا تک نہ لگی۔ خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں! وہ کتنے   بے خبر، اندھے، احمق نکلے! اِدھر جنگ بندی نافذ ہوئی اُدھر چمکتے چاند چہرے لیے امت کے محبوب جوان حماسی بیٹے، اجلی وردیاں ، چاق و چوبند آگئے۔ غزہ میں پوری آبادی پر میونسپلٹی، پولیس، انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں ( عوام کو سکھ پہنچانے، مدد دینے) نبھانے نکل کھڑے ہوئے۔ دوسری طرف ریڈ کراس کو پورے اہتمام سے قیدی خواتین حوالے کیں۔ ریڈ کراس نے راستے میں اپنے ڈاکٹروں سے ان کا طبی معائنہ کروایا۔ اسرائیل کے حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ سب بہترین صحت تندرستی میں ہیں۔‘ مجاہدین سنتِ نبویؐ کے رکھوالے ہیں جو صرف روزمرہ انفرادی معمولات تک محدود نہیں ہے۔ اسلام دنیا پر حکمرانی کے لیے آیا ہے سو قوانینِ صلح و جنگ، معاہدات، قیدیوں کے لیے ہدایات بھی سنت کا حصہ ہیں۔ اسرائیل اور بشار الاسد (انہی کے تابع مسلمان) کے زنداں خانوں سے نکلنے والے ظلم و تشدد، فاقہ زدگان یا لاشیں دیکھ لیجیے تو حقیقت کھل جاتی ہے۔ شامی صیدنیا جیل ہو، اسرائیل کی بدنام جیلیں یا دیگر! کہانی المناک، شرمناک ہے ان کی۔
مسجد ِاقصیٰ کے محافظین، شام تا فلسطین ہیں احادیث کی رو سے۔ اسد کی جیل سے رہا ہونے والا قیدی کہتا ہے: یہ ادائیگی ہم امت کی طرف سے کر رہے ہیں انسانی وقار کی خاطر۔ میں کئی سال اقصیٰ کی خاطر قید میں رہا۔ پیٹا گیا۔ اقصیٰ بہت قیمتی ہے، دمشق قیمتی ہے با برکت سرزمین ہے یہ پوری۔ (بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ)ا گر اللہ مجھ سے وہ صرف ایک سانس قبول کر لے جو میں نے اسد جیل میں لیا ان 6سالوں میں، تو اللہ کا وعدہ مغفرت کا ہے۔ جنت کاہے!‘ ان نوجوانوں کا مقابلہ کون کر سکتا ہے! کفریہ جانتا ہے لہٰذا ہر ملک میں ایسے نوجوان جیلوں میں رکھے جاتے ہیں اور باقی ناچتے گاتے بجاتے کھیلتے ہیں! اسلام آباد کے سرکاری سکول LGBTQکے جھنڈے اور شعار ’قوس قزح‘ (Rainbow)رنگوں میں پینٹ کرنے کا حکم آیا ہے۔ (فلسطین؍ شام کے جھنڈے نہیں!) والدین آنکھیں بند کیے دم سادھے بیٹھے ہیں۔ بچے اساتذہ سے   10 سال کی عمر میں جو بے باک سوالات اور تبصرے کرنے لگ گئے ہیں، ہوش اڑا دینے والے ہیں، تحریر میں لانا ممکن نہیں!
سرزمین شام (بشمول فلسطین) بارے حدیث دیکھئے۔ ’ملکِ شام کے لیے خوشخبری ہے ملکِ شام کے لیے خوشخبری ہے‘ زید بن ثابتhنے پوچھا: شام کی کیا خصوصیت ہے؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’ملک شام پر فرشتے اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔‘ (مسند احمد و ترمذی) صرف دنیا پرست تو ملبے اور کھنڈر دیکھ کر کہے گا۔ فرشتوں نے دونوں جگہ گھر بار، مسلمان تو نہ بچائے! قطرہ برابر یہ زندگی ، سمندر برابر لا منتہا آخرت ہے۔(بمطابق صحیح مسلم) اس کی بابت اہل ِغزہ کا عمل، صبر و ثبات گواہ ہے۔ کیا بیچا کیا خریدا؟
شاندار تجارت، زندگی اسباب و اموال خاندان بیچ کر حیاتِ جاوداں (مکمل پیکج۔ امریکی شہریت سے عظیم تر)  خرید لی۔ البتہ سر کی آنکھوں سے ہم نے فرشتے سرنگوں کے تحفظ پر مامور دیکھ لیے! امریکہ یورپ نے سارا اسلحہ ساری ٹیکنالوجی اسرائیل کی دسترس میں سوا سال دئیے رکھی۔ اسرائیل کو فوجی، پائلٹ فراہم کیے۔ مخبر تلاش کر مارے۔ کوئی سراغ نہ ملا۔ کمانڈر یحییٰ سنوارؒ ان کی بدحال خوفزدہ سپاہ کے بیچوں بیچ گھومتا رہا۔ اب مناظر ایک   طرف فرار پر کمربستہ اسرائیلی روتے دھوتے فوجیوں کے ہیں۔ ذہنی مریض، معذور، دوسری طرف ابوعبیدہs پوری آب و تاب اور فاتحانہ شان سے شیروں کی مخفی کچھار سے نکل کر اپنی قوم سے محبت بھرے شیریں لہجے اور کفر کے لیے لوہے کے چنے ! جنگ بندی کی اصل وجہ اسرائیلی فوج کا شکستہ ترین مورال، معاشی تباہی، ٹوٹی کمر، ناقابلِ تسخیر غزہ، دنیا بھر سے لعنت ملامت ہے۔ ادھر امریکہ میں اس لشکرِ دجال کے ’نوسیز فائر‘ عدم جنگ بندی کے نعروں پر کیلی فورنیا کے سارے فائر الارم بج اٹھے۔تاریخِ انسانی کی ہولناک ترین آگ نے بہ زبانِ حال کہہ دیا کہ پھر یہاں بھی ’نو سیز فائر‘۔   غیر معمولی طور پر آگ بجھنے کے آثار ختم۔ ایک آگ کا ریلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا۔ اللہ کی خدائی کبریائی، اندھوں کو بھی نظر آگئی۔ شام اور غزہ میں صبر و ثبات کا یہ عالم کہ روشن سکینت بھرے چہرے لیے ٹینٹ اٹھائے       بلا اموال و اسباب اپنے تہہ در تہہ کھنڈر علاقوں میں جانے کو تیار پُر عزم، بلاامداد بھی مطمئن! دوسری طرف امریکہ کا خوابناک شہر ’فرشتوں کا شہر‘ (لاس اینجلس) موت کے ، عذاب کے فرشتوں کا شہر بن گیا۔ گلیمر بھری آبادی کا پیچھا اتنی خوفناک ہوا اور آگ نے کیا کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ غزہ، شام، افغانستان کی جنگی اصطلاح اب وہاں مستعمل ہے۔ ’Scorched Earth‘(زمین جلا جھلسا دینا کھیتوں سمیت۔ کوئی چیز دشمن کے کام نہ آسکے۔ قبضے کی اصطلاح ہے یہ بذریعہ بمباریاں۔)اب امریکی وہاں جا بجا یہی کہہ رہے ہیں کہ سب کچھ شاندار صفر ہو گیا۔مضبوط’سیف‘ جس میں زیورات، پیسہ رکھا۔ خود بھی پگھل کر سیاہ ، سبھی کچھ سیاہ مقدر میں سیاہیاں دے گیا۔ امریکی مرجھایا پھٹا جلا جھنڈا سر اوندھائے کھڑا تھا۔ سرسبز آبادیوں کی جگہ جلے گرے درخت۔ جنگ بندی کرنی پڑی! ہمارے مسلمان اسے عذاب قرار دینے پر بدمزہ جبکہ بھگتنے والے گورے سر تا پا ہل گئے اور قبول کر رہے ہیں قہرِ خداوندی اور غزہ پر ظلم کا بدلہ۔ امریکی بگڑا ہوا بولا کہ سارا پیسہ غزہ تباہ کرنے پر لگا دیا، یہاں آگ بجھانے کو پانی تک نہ تھا! غزہ کے 5علاقے تباہ کیے وہاں 5مقامات آگ نے پکڑ لیے!
ہوا   نے   توڑ   دیا   بھرم   بلندی  کا
کمر جھکی (جلی) ہے درختوں کی میں نے دیکھا ہے
دوسری جانب منجمد واشنگٹن میںکٹر صہیونی نواز ٹرمپ کی آمد!مسلمانوں کے لیے آزما ئشوںکا نیا دور!