(گوشۂ خواتین) دعوت دین کا محاذ اور خواتین ِ اسلام - ڈاکٹر عطیہ اشرف

11 /

دعوت دین کا محاذ اور خواتین ِ اسلام


ڈاکٹر عطیہ اشرف

دین اسلام کی ترقی اور بقا کا دارو مدار دعوت و تبلیغ پر ہے، حضور نبی عالم ﷺ نے دنیا میں نہ صرف قرآن کا درس دیا بلکہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے بھی اسلام کو چار دانگ عالم میں پھیلایا جس کی برکت سے آج عرب و عجم نورِ قرآن سے منور اور فیضِ اسلام سے مستفیض ہیں۔
دورِ حاضر میں ہر طرف شرک کے بادل امنڈتے ہوئے نظر آرہے ہیں، خود ساختہ رسومات اور بدعات کو سنت نبویہﷺ کا عنوان دیاجارہا ہے اور قرآنی مفاہیم کو حدیث رسول ﷺکے خلاف ثابت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہر مسلمان خواہ وہ مرد ہو یا عورت دین کی دعوت و تبلیغ کے ذریعے دنیا کے گوشے گوشے میں حق کا پیغام پہنچائے تاکہ عوام باطل پرست اور دین پر دنیا کے جلب منفعت اور عقیل زر کی خاطر ترجیح دینے والوں کے ہتھکنڈوں کا شکار نہ ہوسکیں۔
قرآن کریم خواتین کے دعوتی کردار پر اسی طرح روشنی ڈالتا ہے: ’’اور اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔‘‘
خواتین ان چھ محاذوں پر اصلاح وتزکیے اور تربیت وتذکیر کا فریضہ انجام دیں۔
پہلامحاذ 
عورت کے اس کے بچے اور بچیاں ہیں، آج غیر اسلامی ماحول، ٹی وی، انٹرنیٹ کے ذریعے ہر گھر فتنوں اور اخلاقی برائیوں کی زد میں ہے، اس قدر زہریلا مواد ان ذرائع سے بچوں کے ذہنوں میں انڈیلا جارہاہے کہ  فی الفور اس کا تدارک نہ کیا گیا تو بچہ پوری طرح دین سے برگشتہ ہوسکتا ہے، فکر وعمل کی گمراہیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے، خاص طور پر ماں کی تربیت بچوں کو عمل وکردار کے مقام بلند پر فائز کرسکتی ہے، حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی درحقیقت ایک ماں کی تربیت کا کرشمہ تھی، کیونکہ حضرت ہاجرہ ؑ نے اس ویرانے میں اسماعیل ؑ کو اپنی نگہداشت میں رکھا تھا اور ان کے دل ودماغ میں جذبہ ایمان کی پرورش میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی، پھر وہ عظیم الشان کردار وجود میں آیا کہ قیامت تک کے لیے عقل انسانی حیران و ششدر ہے۔
اِس ضمن میں حضرت خنساء ؓ کا کارنامہ قابل ذکر ہے، جنگ قادسیہ میں اپنے چار لاڈلوں کے ساتھ میدان جنگ میں شریک ہوئیں اور جن الفاظ میں اپنے لاڈلوں کو جہاد کے لیے تیار کیا وہ صفحہ تاریخ میں آج تک محفوظ ہے، فرماتی ہیں:
’’پیارے بیٹو! تم اپنی خواہش سے مسلمان ہو۔ اور تم نے ہجرت کی، اللہ وحدہ لا شریک کی قسم تم جس طرح ایک ماں کی اولاد ہو ایک باپ کے بیٹے ہو میں نے تمہارے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی اور نہ ہی تمھاری ماؤں کو ذلیل کیا هہے جو ثواب الله نے کافروں سے لڑنے میں رکھا ہے تم اُسے خوب جانتے ہو۔‘‘
جوش وجذبے سے لبریز حضرت خنساء ؓکے بیٹوں نے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے باری باری جام شہادت نوش کرلیا اور اپنی مجاہدہ ماں کانام اسلامی تاریخ میں روشن کردیا۔
دوسرا محاذ
ایک عورت بحیثیت بیوی اپنے بچوں کے بعد اپنے شوہر کی فکری واخلاقی اصلاح کی ذِمّہ دار ہے، اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ عورت اپنے شوہرکے گھر والوں اور اُس کی بچوں کی نگہبان ہے۔‘‘ (بخاری)
اگر عورت اپنے شوہر کی اصلاح اور اُسے دین سے وابستہ کرنے کا بیڑا اٹھا لے تو سماج ومعاشرہ پر بڑی حدتک دین کی چھاپ نظر آنے لگے، میاں بیوی ایک دوسرے کے اندر   خیر وتقویٰ کی بازیابی اور برائیوں کے ازالے کی جدو جہد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزاریں تو شر کا منبع بند ہوگا اور اعلیٰ قدروں کی ہوائیں چلیں گی۔ نبی کریمﷺ  نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس عورت پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو رات کو اٹھ کر (خود بھی تہجد) کی نماز پڑھے اور اپنے خاوند کو جگائے تاکہ وہ بھی نماز پڑھے اور اگر شوہر (غلبہ نیند و سستی کی وجہ سے) نہ جاگے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔‘‘ (ابوداؤد، سنن نسائی)
تیسرا محاذ
ایک عورت اپنے رشتےداروں میں دعوت کا کام بحسن وخوبی انجام دے سکتی ہےاور وہ دوسروں کی نسبت زیادہ اپنے رشتے داروں پر اثرانداز ہوگی، رشتہ اپنا اثر دکھاتا ہے۔ رشتہ دار خواتین تک مختلف مناسبتوں سے  رسائی کے مواقع ہوتے ہیں۔ اگر ذہن دعوتی ہو تو خواتین  کے لیے بھی مواقع کی کمی نہیں ہوگی۔ شادی بیاہ، خرید وفروخت اور بغرض تفریح و ملاقات، ایک دوسرے کے یہاں آمدورفت کو دعوتی مواقع میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، اس دعوتی عمل کے ذریعہ خواتین ایک بہت بڑے خلا کو پر کرسکتی ہیں، یہ مرحلہ ممکن تو ہے لیکن آسان نہیں ہے بلکہ اس ممکنہ دعوتی رول کے لیے ایک متحرک دعوتی ذہن درکار ہے۔
چوتھا محاذ
خواتین دروس وبیانات کے ذریعے بھی دعوت وتبلیغ کا عظیم الشان فریضہ انجام دے سکتی ہیں۔ سلف میں خواتین کے دینی و علمی حلقوں کے شواہد تاریخ میں ملتے ہیں۔ خواتین گھروں، مسجدوں، دکانوں اور رباطات میں، باغات میں اور دیگر مقامات میں مسند ِتدریس پر بیٹھتی تھیں اور خواتین ان سے استفادہ کرتی تھیں ۔ مسجد حرام، مسجدِ نبوی اور   مسجد اقصیٰ کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ان تینوں مساجد میں خواتین کے دروس وبیانات ہوا کرتے تھے ۔
اسلامی تاریخ میں دمشق کی مسجد اموی کی بھی      غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس میں بھی خواتین کی درس وتدریس کی مجلسیں قائم ہوتی تھیں ۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھاہے کہ اُس نے مسجدِ اموی کی زیارت کی اور وہاں متعدد خواتین، مثلاً زینب بنت احمداور عائشہ بنت محمد سے حدیث کی سماعت کی۔
لہٰذاشرع کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ روایت آج باشعور خواتین جاری وساری رکھیں، اپنا علمی فیض دوسری خواتین تک پہنچائیں۔
پانچواں محاذ
جو خواتین تعلیم یافتہ ہیں وہ تدریس کے ذریعے دعوت کے کام کو بحسن وخوبی انجام دے سکتی ہیں۔ گرلز اسکولوں اور پرائمری سطح کے اسکولوں اور نسواں میں طلبہ کی ذہنی واخلاقی تربیت میں نمایاں کردار نبھا سکتی ہیں۔ایک ٹیچر طلبہ پر جو چھاپ ڈال سکتی ہے وہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں ہے، ذہن سازی اور کردار سازی کے اسکولوں میں بہترین مواقع ہوتے ہیں، اسی وجہ سے دعوتی تنظیمیں ذمے داروں سےاجازت لے کر اسکولوں میں پروگرام کرتی ہیں تاکہ بیک وقت وہ کثیر طلبہ کو خطاب کرسکیں اور اپنے فکر وفلسفہ کے مطابق ان کی ذہن سازی کرسکیں۔ان تمام دائروں اور حلقوں میں عورت پوری مستعدی کے ساتھ اپنا دعوتی کردار ادا کرے تو میدان عمل میں کوئی خلا نظر نہیں آتا ہے۔ دعوت سماج کے ہر طبقے تک رسائی حاصل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پھر خارج میں جو دعوتی سرگرمیاں ہیں وہ اس سے زائد ہوں گی۔
 چھٹا محاذ
یہ بات ہر شبہ سے بالاتر ہے کہ صحافت دعوت کا بڑا مؤثر ہتھیار ہے۔ آج ذہنوں کو تبدیل کرنے، رائے عامہ کو ہموار کرنے اور دیگر مفادات کے حصول میں صحافت کا استعمال منصوبہ بند طریقے سے ہو رہا ہے، اس کی تاثیر و ہمہ گیری کا ایک زمانہ قائل ہوچکا ہے، ضروری ہے کہ خواتین اس میدان میں پیش رفت کریں اور اپنے علم وصلاحیت کے مطابق قلم کو حرکت میں لائیں تاکہ انتہائی محفوظ طریقے سے اپنے پیغام کو ہر طبقے تک پہنچا سکیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں معیاری تحریریں سفر کرتے ہوئےدنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچ جاتی ہیں۔ آپ کے مضامین، کالمز اور دیگر تحریریں ایک بہت بڑی تعداد تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں۔دعوتی واصلاحی سرگرمیوں  کے لیے صحافت ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ لہٰذا خواتین اپنے اندر قلمی صلاحیت پیدا کرکے اس میدان میں پیش رفت ضرور کریں اور میدان دعوت میں اپنی فتوحات کا جھنڈا لہرا دیں۔
دین اسلام میں کچھ چیزیں حالات اور وقت کا تقاضا کرتی ہیں۔ خواتین سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو بھی شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے دعوت دین کے لیے استعمال کریں۔دین کی تبلیغ کر کے دین کو جتنا مدارس کے اندر پڑھانا ضروری ہے، اسی قدر دین کو سوشل میڈیا پر پھیلانا بھی موثر ہے۔
مدارس میں تو آتی ہی وہ خواتین ہیں جو دین سے پہلے ہی متاثر ہوتی ہیں۔ جب کہ سوشل میڈیا پر الحاد سر اٹھائے کھڑا ہے اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر وہ خواتین بھی ہوتی ہیں جن کو قرآن و سنت سے کبھی کوئی سروکار نہیں رہا۔ سوشل ویب سائٹس پر دین دار گھرانوں کی خواتین کم اور وہ خواتین بہت زیادہ ہیں جو صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہیں۔جب سننے والیاں سوشل میڈیا پر موجود ہیں تو انہیں دین سمجھانے والیاں اس سے دور رہ کر کیسے دین کی خدمت کرسکتی ہیں۔ اور بسا اوقات انسان لمبی لمبی تحریریں لکھ کر بھی وہ بات نہیں سمجھا سکتا جو مختصر کلپ سے سمجھا سکتا ہے۔ لیکن اس کا استعمال بھی شریعت کے دائرۂ کار میں ہونا چاہیے۔
خواتین کے دعوتی کردار کے لیے یہ چند گزارشات تھیں، امید ہے کہ خواتین سنجیدگی سے غور کرکے عملی جامہ پہنائیں گی۔ اللہ توفیق ارزانی بخشے۔ آمین یا رب العالمین!