نبی کریم ﷺ کا اندازِ تبلیغ
ابو عبد اللہ
عربی لغت کی معروف کتاب ’’لسان العرب‘‘ کے مطابق تبلیغ کا لغوی معنی پہنچانا ہے اور اصطلاح میں اس کے معانی یہ ہیں کہ کسی اچھائی اور خوبی بالخصوص دینی امور (اسلام) کو دوسرے افراد و اقوام تک پہنچایا جائے اور قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ تبلیغ کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مخاطب تک دین کی بات ایسے انتہائی عمدہ اور دلنشین طریقے سے پہنچانا کہ اس کے دل و دماغ میں اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ تبلیغ یا دین اسلام کی دعوت رسول اکرم ﷺ کا فرضِ منصبی تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الرَّسُوْلُ بَـلِّـغْ مَـآ اُنْزِلَ اِلَـیْکَ مِنْ رَّبِّکَ } (المائدہ:65)’’اے رسولؐپہنچا دیجیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے، آپؐ کی طرف آپؐ کے رب کی جانب سے۔‘‘
رسولِ مقبول ﷺ نے اپنے اس فرضِ منصبی یعنی فریضۂ تبلیغ و رسالت کو 23 سال تک جس بے نظیر ثابت قدمی، جانفشانی، بلند ہمتی، تسلسل اور دن رات کی انتھک محنت، درد مندی، صبرو برداشت اور استقلال سے ادا فرمایا، اس کی مثال پیغمبرانہ اور مذہبی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اعلانِ نبوت کے پہلے دن سے لے کر وصال تک آپ ﷺ کو جس چیز کا سب سے زیادہ احساس رہا اور جس چیز نے آپ ﷺ کو دن رات بے قرار کیے رکھا اور جس غم نے آپ ﷺ کو ہمیشہ پریشان کیے رکھا وہ یہی دعوت و تبلیغِ رسالت کا فریضہ تھا۔ آپ ﷺ نے اس ہدایتِ ربانی اور آئینِ آسمانی کے موافق اُمّت کو ہر چھوٹی بڑی چیز کی تبلیغ کی۔ حکومت اور حکمرانی کے امور سے لے کر عام جسمانی غسل و طہارت تک کے آداب اپنی امت کو سکھائے۔
حضرت سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ ایک مشرک آدمی نے ان سے استہزاء ٹھٹھا کرتے ہوئے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا صاحب (پیغمبر) تمہیں ہر چیز کی تعلیم دیتا ہے حتی کہ قضائے حاجت کرنے کی بھی۔ تو میں نے (بڑے فخر سے) کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کریں، اپنے دائیں ہاتھوں سے استنجا نہ کریں اور استنجا کے لیے تین پتھروں/ڈھیلوں سے کم پر اکتفا نہ کریں جس میں گوبر ہو اور نہ ہڈی۔(سنن نسائی)
آپ ﷺ نے اللہ کے دین کی دعوت بلاکم و کاست اور بے خوف و خطر نوعِ انسانی تک پہنچا کر خدا کی حجت اس کے بندوں پر تمام کردی۔
آپ ﷺ نے وصال سے دو اڑھائی مہینے پہلے حجۃ الوداع کے موقعہ پر میدانِ عرفات میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جمِ غفیر سے اپنے تاریخی اور یادگار خطبے میں تبلیغِ رسالت کا حق ادا کرنے کی چشم دید شہادت اور اقرار لیتے ہوئے آپ ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور بارگاہ الٰہی میں تین مرتبہ عرض کیا: اے اللہ گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچانے کا حق ادا کردیا ہے۔(صحیح مسلم)
نبی اکرم ﷺ کا اندازِ تبلیغ
آپ ﷺ نے فریضۂ نبوت کی ادائیگی کے دوران کس طرح کا انداز اور طرز اختیار فرمایا۔ ذیل میں اس حوالے سے کچھ مظاہر درج کیے جاتے ہیں:
1۔ حکمت، موعظہ حسنہ اور احسن طریق سے بحث
حضور نبی اکرم ﷺ کے اندازِ تبلیغ کی بابت خود باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یوں اصولی اور بنیادی ہدایت فرمائی کہ:
{اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ط} (النحل:125) ’’آپؐ دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ‘اور ان سے بحث کیجیے بہت اچھے طریقے سے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنے محبوب کریم ﷺ کو دعوت کے تین طریقوں کی تعلیم دی ہے:
1۔ حکمت
2۔ موعظہ حسنہ
3۔ احسن طریقے سے بحث
1۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ دین کی دعوت کو نہایت پختہ اور مضبوط دلائل اور براہین کی روشنی میں ایسے حکیمانہ انداز میں پیش کیا جائے کہ انھیں سن کرفہم و ادراک اور علمی ذوق رکھنے والا حقیقت پسند اور منصف مزاج طبقہ، اگر اس نے کانوں میں ضد اور ہٹ دھرمی کی روئی نہیں ٹھونس رکھی تو اُسے تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ دنیا کے سارے خیال اور فلسفے ان دلائل کے سامنے ماند پڑجائیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیات پیغمبرِ الٰہی کے بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تک تبدیل نہ کرسکیں۔
2۔ موعظہ حسنہ سے مراد ہے مؤثر اور رقت انگیز نصیحت جس میں نرم خوئی اور دل سوزی کی روح بھری ہو۔ عام مشاہدہ ہے کہ اخلاص، ہمدردی، شفقت اور حسنِ اخلاق سے خوبصورت معتدل اور دلنشین پیرائے میں جو نصیحت کی جاتی ہے، اُس سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے ہیں، مُردوں میں جانیں پڑ جاتی ہیں اور لوگ مبلغ کی زبان سے خوبصورت باتیں سن کر منزلِ مقصود کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔
البتہ دنیا میں ہمیشہ کچھ ایسے لوگ بھی رہے ہیں جن کا کام فی سبیل اللہ ہر چیز میں الجھنا، بات چیت میں حجتیں نکالنا اور کج بحثی کرنا ہے۔ یہ لوگ نہ حکمت کی باتیں قبول کرتے ہیں اور نہ وعظ و نصیحت سنتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہر مسئلہ میں بحث و تمحیص اور مناظرہ کا بازار گرم رہے۔ اس لیے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں تیسری ہدایت{وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ط}کے الفاظ کے ذریعے فرمائی گئی کہ اگر بحث و مناظرے کا موقع آجائے تو بہترین طریقہ سے تہذیب، شائستگی، حق شناسی اور انصاف کے ساتھ بحث کرو۔ اپنے حریف مقابل کو الزام دو تو بہترین اسلوب سے دو۔ خواہ مخواہ دل کو دکھانے والی اور جگر کو زخمی کرنے والی باتیں مت کرو کہ جن سے معاملہ بڑھے۔ مقصود صرف تفہیم اور حق کو واضح کرنا ہو، سخت کلامی بداخلاقی اور ہٹ دھرمی سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
2۔ مخاطبین کی ذہنی استعداد کا لحاظ
تبلیغ و دعوت دین کے سلسلے میں حضور اکرم ﷺ نے جو اندازِ تبلیغ اختیار فرمایا، اس کے خدوخال کچھ اس طرح تھے کہ آپ بوقتِ دعوت؛ مخاطب یا مخاطبین کی ذہنی و عقلی استعداد، ان کی فطری صلاحیت اور ان کے طبعی مزاج کو بھی مدنظر رکھتے تھے۔
3۔ بات کا تکرار کرنا
نبی کریم ﷺ مخاطب کو سمجھانے اور بات کوذہن نشین کرانے کے لیے اپنی بات کو انتہائی آسان پیرائے میں تین تین دفعہ دہراتے اور بعض اوقات مثالوں کا بھی سہارا لیتے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔
عام دنیا دار اور پیشہ ور واعظوں، خطیبوں، شعلہ بیان اور شیریں بیان مقررین کی طرح فن خطابت، جوش بیان اور شعلہ بیانی کے جوہر دکھانا یا اپنی علمیت کا رُعب جھاڑنا آپ ﷺ کی پیغمبرانہ شان و عظمت اور منصب کے خلاف تھا، ورنہ دنیا میں آپﷺ سے بڑا خطیب کون ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ کسی مسئلہ کو سمجھانے، کسی بات پر زور دینے یا اس کی غیر معمولی اہمیت واضح کرنے کے لیے بات کو تین دفعہ دہرانا آپ ﷺ کا معمول اور عادتِ کریمہ تھی۔ چنانچہ حضرت انس ؓ آپ کا یہ معمول بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آنجناب ﷺ جب کوئی بات ارشاد فرماتے تو اس کا تین مرتبہ اعادہ فرماتے حتیٰ کہ وہ بات آپ ﷺ سے سمجھ لی جاتی اور (اسی طرح) جب آپ ﷺ کسی قوم کے پاس تشریف لے جاتے تو انھیں سلام فرماتے اور (اجازت کی خاطر) انھیں تین مرتبہ سلام کہتے۔‘‘ (رواہ البخاری )
مخاطبین کے معیار کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ بدوی اور شہری، پڑھا لکھا اور ان پڑھ یعنی عقل و تجربہ کے مختلف مدارج رکھنے و الے انسانوں کو مختلف طریقوں سے دعوت دیتے تھے۔
4۔ مخاطبین کی نفسیات اور مزاج کا لحاظ
آپ ﷺ کے اندازِ تبلیغ میں ایک چیز یہ بھی نظر آتی ہے کہ آپ ﷺ اپنے مخاطبین کے مزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے جذبات و احساسات کا بھی پورا پورا خیال فرماتے تھے۔ اگر جذبات میں سردمہری ہوتی تو آپ ﷺ حکمت کے ساتھ اُن میں حرارت پیدا کردیتے۔ اگر مخاطبین کے جذبات میں اشتعال محسوس کرتے تو کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالتے اور نہ عملاً کوئی ایسی روش اختیار کرتے جس سے جذبات بے قابو ہوجائیں۔
انسانی نفسیات ہے کہ انسان طبعی طور پر مشکل چیزوں کو قبول کرنے کے لیے فوری طور پر تیار نہیں ہوتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسی انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی نومسلم لوگوں پر مشکل اور بظاہر نفس پر بھاری احکامِ شریعت لاگونہ فرمائے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو دعوت و تبلیغ کے لیے یمن بھیجا تو انھیں ہدایت فرمائی: ((يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا))
’’تم دونوں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا نہ کہ مشکلات، اورلوگوں کو خوشخبری سنانا نہ کہ انہیں دین سے متنفر کردینا۔‘‘(صحیح بخاری)
5۔ مخاطبین کی عزتِ نفس کا تحفظ
آپ ﷺ اپنی دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، اصلاح دین اور لوگوں کی عزتِ نفس کو بھی ملحوظ رکھتے۔ اگر کسی آدمی سے کوئی خلافِ شرع حرکت یا غلطی سرزد ہوجاتی تو نام لے کر لوگوں کے سامنے اُس کو شرمسار نہ فرماتے بلکہ فرماتے: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اس طرح کی حرکت کرتے ہیں۔ اس انداز سے اس کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہوتی اور اس کی اصلاح بھی ہوجاتی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انسان تھے، بتقاضائے بشریت اُن سے خلافِ ادب چیزیں یا چھوٹی موٹی غلطیاں بھی ہوجاتی تھیں، ایسی صورت میں نبی رحمت ﷺ کا معمول تھا کہ برسرِ عام ان کا نام لے کر انھیں شرمندہ نہ فرماتے، نہ براہ راست ٹوکتے تاکہ انھیں مجلس میں کسی قسم کی خفّت کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ نام لیے بغیر اشارے کنایے میں اُن کی اصلاح فرمادیتے کیونکہ مقصود متعلقہ آدمی کی اصلاح ہوتی تھی نہ کہ لوگوں کے سامنے اُسے خواہ مخواہ شرمندہ کرنا۔ اس حکمت بھرے اندازمیں نصیحت سے اُس مخصوص آدمی کی اصلاح بھی ہوجاتی، اس کی عزت نفس بھی محفوظ رہتی اور بقیہ لوگ بھی خبردار ہوجاتے۔ یوں متعلقہ آدمی کو سب لوگوں کے سامنے شرمندہ یا ہلکا نہیں ہونا پڑتا تھا۔
ایک آدمی کو نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں اٹھائے دیکھا تو فرمایا:
’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنی نماز کے دوران اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے متعلق بڑی سختی سے فرمایا: لوگوں کو ایسا کرنے سے باز آجانا چاہیے، ورنہ اُن کی بینائی کو اچک لیا جائے گا۔‘‘(رواہ البخاری)
6۔ مخاطبین کی خیر خواہی اور غم خواری کا جذبہ
حضور نبی اکرم ﷺ کی تبلیغ میں سب سے اہم، ممتاز و منفرد اور نمایاں چیز جس نے بڑے بڑے مخالفین اور دشمنوں کو آستانہ محمدی ﷺ پر جھکنے کے لیے مجبور کردیا تھا، وہ مخاطبین و سامعین اور ساری انسانیت کی سچی خیر خواہی، ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ تھا۔ یہی خیر خواہی کا جذبہ آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ کے ایک ایک فرد کے پیچھے لے گیا۔ اسی انسانی ہمدردی و خیر خواہی کے جذبہ نے آپ ﷺ کو مکہ کے بازاروں، میلوں اور موسم حج میں عرب کے ایک ایک قبیلے کے پاس جانے پر مجبور کیا۔ اسی خیر خواہی کے جذبہ نے آپ ﷺ کو طائف کے بازاروں میں لہولہان کرایا۔ علاوہ ازیں اہلِ علم جانتے ہیں کہ وہ کون سی ذہنی کوفت اور جسمانی اذیت ہے جو اس معصوم، پاکباز اور رحمۃ للعالمین ذات کو اس میدان میں برداشت نہیں کرنا پڑی مگر قربان جائیں! اس سراپا شفقت و رحمت اور اپنی قوم و انسانیت کے حقیقی خیر خواہ پر جو اپنی قوم کے اس معاندانہ بلکہ شرمناک، اذیت ناک اورننگِ انسانیت رویہ کے باوجود راتوںکو اُٹھ اُٹھ کر اُن کی ہدایت کے لیے دعائیں کرتے رہے۔لوگ اپنی ناسمجھی اور عاقبت نااندیشی سے کفرو شرک اور معاصی کے باعث کس طرح جہنم کی آگ میں گر کر ہلاک ہونا چاہتے تھے اور نبی رحمت ﷺ کو ان ناسمجھوں اور عاقبت نااندیشوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کتنی فکر تھی؟ اس فکر مندی، ہمدردی اور غمخواری کو آپ ﷺ نے ایک مثال دے کر یوں واضح فرمایا ہے کہ:
’’حضرت ابوہریرہhبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : میری مثال آگ روشن کرنے والے شخص کی طرح ہے۔ جب آگ سے اُس کا آس پاس روشن ہوگیا تو پروانے اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن وہ اس سے بے قابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں تمہیں آگ سے بچانے کے لیے پیچھے سے پکڑتا ہوں لیکن تم ہو کہ اس میں گرتے جا رہے ہو۔ ‘‘(رواہ البخاری)
جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
آپ ﷺ کی مخلصانہ دعوت و تبلیغ، قوم کے لیے رورو کر کی ہوئی دعائیں، دلسوزی اور خیر خواہی آخر کیسے رائیگاں جاسکتی تھی۔؟ بالآخر یہ چیزیں رنگ لائیں اور ایک وقت آیا کہ بیت اللہ پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔سارا عرب سرنگوں ہوگیا۔ دنیا پر حق آشکارا ہوگیا۔ لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہونے لگے:معروف اسلامی محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ کی تبلیغ سے تقریباً پانچ لاکھ آدمی آپ ﷺ کے وصال تک دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔ اس لیے آج بھی اگر حضور اکرم ﷺ کے درج بالا اندازِ تبلیغ کو اپنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے خاطر خواہ نتائج نہ نکلیں۔