علامہ اقبال کی چار نسبتیں
ڈاکٹر ضمیر اختر خان
9 نومبر 1877ء علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی اپنے مشاہیرسے بس اتنا سا تعلق رکھا ہواہے کہ ان کے یوم پیدائش پر ان کو یاد کرلیتے ہیں۔ علامہ اقبال سے یہ تعلق بھی اب آہستہ آہستہ کمزور پڑ گیا ہے۔کم لوگ رہ گئے ہیں جو 9نومبر کو علامہ سے رسمی تعلق کا اہتمام کرتے ہیں ۔ حالانکہ پاکستان کے بقاواستحکام ، ملت اسلامیہ کی تجدیدونشاۃ ثانیہ اور دین حق کے غلبے واقامت جیسے اہم اور جلیل مقاصد کے ضمن میں علامہ اقبال کے فکر اور پیغام کی اشاعت وقت کا شدید تقاضا ہے تاکہ پاکستانی عوام میں بالعموم اور نوجوان نسل میں بالخصوص علامہ کے افکارونظریات سے جودوری پیداہورہی ہے، اسے کم کیا جا سکے۔ اس سال اگرہم اقبال سے تجدیدتعلق کرکے ان کی فکر سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں تو ان شاء اللہ اس سے فائدہ ہوگا۔ علامہ اقبال کی زیادہ معروف حیثیتیں دو ہیں۔ وہ ایک بہت بڑے شاعر بھی ہیں اور ایک عظیم فلسفی و مفکر بھی۔ان دو پر اظہار خیال کے لیے اعلیٰ علمی صلاحیت اور ادبی وشعری ذوق بھی درکار ہے۔ البتہ علامہ کی چار نسبتیں ایسی ہیں جن کاشعورہر پاکستانی کو ہونا چاہیے تاکہ علامہ کا جو ہمارے اوپر احسان ہے اس کا کچھ حق ادا ہو سکے۔ علامہ ایک ایسی شخصیت ہیں جس کے ساتھ پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان ، قطع نظر اس سے کہ وہ عوام میں سے ہو یا خواص میں سے اور بالکل ان پڑھ اور جا ہل ہو یا عالم وفاضل، سہ گانہ و سہ گونہ رشتوں میں منسلک ہے۔
ایک یہ کہ یہ مملکت خداداد سرزمین پاکستان جس میں ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اقامت گزیں ہیں، اس کا وجود وقیام علامہ مرحوم ہی کے تخیل وتصور کا رہین منت ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ عالمی ملت اسلامیہ اور امت مرحومہ جس سے ہم سب منسلک ہیں، اس دور میں اس کی عظمت وسطوت پارینہ کا سب سے بڑا مرثیہ خواں بھی اقبال ہے اور اس کے احیاء ونشاۃ ثانیہ کا سب سے بڑا حدی خواں بھی اقبال ہی ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ دین حق جس کے ہم سب نام لیوا ہیں اور جس کے بارے میں کچھ ہی پہلے حالی مرحوم نے کہا تھا:
جودین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
اس دور میں خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے میں اس کے اسرار ورموز کا سب سے بڑا رازدان بھی اقبال ہی ہے اور اس کی روح باطنی اور جسد ظاہری دونوں کے تجدید واحیاء کے عظیم ترین نقیب کی حیثیت بھی اقبال ہی کو حاصل ہے۔ علامہ کی چوتھی نسبت جس کی طرف کم ہی توجہ گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ شدت سے اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب کبھی شرمندۃ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک مسلمانوں کا قرآن مجید کے ساتھ تعلق دوبارہ استوار نہیں ہوتا۔ان سطور کے ذریعے مذکورہ بالا چار نسبتوں ہی کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ
علامہ مرحوم انتہائی کوشش کے باوجود وہ اپنے مزاج کو عملی سیاست کے ساتھ سازگار نہ بنا سکے۔ اس کے باوجود انہوں نے برصغیر کی مسلم قوم کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا اور ان کے مسائل کا جو حل پیش کیا وہ ان کی بیدار مغزی، معاملہ فہمی اور سیاسی تدبر کا شاہکار ہے۔1930ء سے قبل تو سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے ، اس کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک ہندوستان کی تقسیم کا خیال تک کسی کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا۔ یہ صرف علامہ مرحوم ہی کی نگاہ دور رس ودوربین تھی جس نے حالات کے رخ اور زمانے کی رفتار کو پہچان کر مسلمانان ہند کے جملہ مسائل کا حل اسے قرار دیا کہ ہندوستان کے کم ازکم شمال مغربی گوشے میں واقع مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد اور خود مختار مملکت قائم کی جائے۔
آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
پاکستان کے ساتھ علامہ کا تعلق صرف’’مصور‘‘کا نہیں ، اس سے کہیں زیادہ ہے۔ حالات کی صحیح نباضی اور ان کی سیاسی بصیرت کا شاہکار یہ ہے کہ انہوں نے موجودالوقت حالات میں مسلمانان ہند کے قومی مقدمے کی پیروی کے لیے صحیح ترین’’وکیل‘‘ ڈھونڈ نکالا اور نہ صرف یہ کہ ان کی نگاہ دور رس نے مسلمانان ہند کی قیادت عظمیٰ کے لیے محمد علی جناح کاانتخاب کیا بلکہ خود ان میں اپنی اس حیثیت کا احساس اجاگر کیا۔ اور یہ تو بلا شبہ علامہ مرحوم کے غایت خلوص واخلاص کا بین ثبوت اور ان کے حد درجہ انکسار اور تواضع کی دلیل قاطع ہے کہ انہوں نے اس قائد کے ساتھ اس کی تنظیم (مسلم لیگ) کے ایک صوبائی صدر کی حیثیت سے کام کرنا بھی منظور کرلیا حالانکہ ان کے مزاج کو اس قسم کے کاموں کے ساتھ کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔اس طرح علامہ نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کاتصور پیش کیا بلکہ اس خاکے میں رنگ بھرنے کی عملی جدوجہد کے ابتدائی مراحل میں بنفس نفیس شرکت بھی کی اور گویا’’تحریک پاکستان‘‘ کے کارکنوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔اس اعتبار سے علامہ کا ایک عظیم احسان ہر اس مسلمان کی گردن پر ہے جو پاکستان کی فضا میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس لے رہا ہے۔ افسوس کہ ہم نے بحیثیت قوم خود پاکستان کی قدر نہ کی ، علامہ کے احسان کو کیا یاد رکھتے۔ کاش کہ لوگوں کو معلوم ہوتا کہ آزادی اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے اور یہ مملکت خداداد پاکستان اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے۔ اسی صورت میں ہمیں علامہ کے ذاتی احسان کا بھی کوئی احساس ہو سکتا تھا۔
حقیقت یہ کہ اگر خدانخواستہ پاکستان قائم نہ ہوا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ اب تک ہندوستان سے اسلام کا صفایا ہو چکا ہوتا بلکہ پورا مشرق وسطیٰ ہندو امپیریل ازم کے سیلاب کی زد میں ہوتا۔علامہ مرحوم نے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے بارے میں فرمایا تھا:
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے بعد اگر یہ کہا جائے کہ خاص طور پر ’’ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبانی‘‘ کے اعتبار سے علامہ کو ایک نسبت خصوصی حضرت مجدد کے ساتھ حاصل تھی یا یہ کہ ان کی شخصیت کا یہ پہلو حضرت مجدد کے ساتھ ان کی والہانہ محبت وعقیدت ہی کا مظہر ہے تو غالبا ً غلط نہ ہوگا۔
علامہ مرحوم کی شاعری کے دور اول میں نہ صرف یہ کہ ان کا جذبہ حب الوطنی چھلک پڑاتھا بلکہ باقاعدہ ہندی قوم پرستی کے آثار بھی ملتے ہیں۔لیکن بانگ درا ہی کے نصف آخر میں دفعتاً وہ عالمی ملت اسلامیہ کے ترجمان وحدی خواں کی حیثیت سے نمودار ہو جاتے ہیں اور’’ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘‘ اور’’میرا وطن وہی ہے میراوطن وہی ہے‘‘کی جگہ’’چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا،مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘کا وجد آفریں ترانہ ان کی زبان پر جاری ہوجاتا ہے۔ان دو انتہاؤں کے مابین ہندوستان کے مسلمانوں کے جداگانہ قومی تشخص کا مسئلہ جو ان کے سیاسی فکر کا مرکزومحور ہے، ان کے اشعار میں کہیں نظر نہیں آتا۔
یہ دراصل ان کی تصور پسندی (Idealism)اور حقیقت بینی(Realism) کا حسین امتزاج ہے جس سے ہمیں علامہ مرحوم کی شخصیت متصف نظر آتی ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ یہ’’اصلھا ثابت‘‘ اور’’فرعھا فی السمآء‘‘ کی عمدہ مثال ہے کہ ایک جانب فکر اورخیال انتہائی بلندیوں کو چھو رہے ہوں اور دوسری طرف انسان کا تعلق اپنے نزدیکی ماحول کے تلخ حقائق سے بھی منقطع نہ ہونے پائے۔
علامہ کی ملی شاعری میں دونوں رنگ موجود ہیں ، مرثیہ خوانی کا بھی اور حدی خوانی کا بھی۔ پہلے اعتبار سے یوں سمجھیے کہ انہوں نے شبلی وحالی دونوں کی جانشینی کا فرض ادا کیا اور ملت اسلامیہ کے شاندار اور تابناک ماضی کی یاد سے بھی دلوں کو گداز کیا اور امت مرحومہ کی موجودہ زبوں حالی کا نقشہ بھی نہایت موثر اور دلدوز انداز میں کھینچا۔ مثال کے طور پر حالی کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جودین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
اور پھر پڑھیے وہ نظم جو’’صقلیہ‘‘(جزیرہ سسلی) پر علامہ نے کہی اور اندازہ کیجیے ان کی ملی مرثیہ خوانی کا:
رولے اب دل کھول کر اے دیدہ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے
علامہ کے یہاں صرف درد انگیز نالے ہی نہیں ہیں، انتہائی ولولہ انگیز پیغام عمل بھی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک شاندار مستقبل کی خوشخبری بھی ہے ،جس نے یاس اور قنوطیت کی ظلمت کا پردہ چاک کر دیا اور دلوں میں امید کے چراغ روشن کر دیے۔ علامہ کے اشعار میں یہ امید افزا پیغام رچا بسا ہوا ہے، چنانچہ بانگ درا کے متوسط حصے میں بھی جا بجا یہ رنگ موجود ہے کہ:
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
لیکن خاص طور پر ’’طلوع اسلام‘‘ تو گویا از اول تا آخر’’طبل رحیل ‘‘ہے:
کتاب ملت بیضا کی پھرشیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ وبر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
نواپیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ کی یہ ملی شاعری حدود ارضی سے بالکل آزاد ہے اور ان کے اشعار کو پڑھتے ہوئے کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ ان کا قائل کبھی ایک محدود خطہ ارضی میں بسنے والے مسلمانوں کے خصوصی مسائل کے بارے میں بھی غور کرتا ہوگا۔ گویا ان کی شاعری ’’ولکنہ اخلد الی الارض‘‘ کے ہر شائبے سے بالکل پاک ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک ہندی مسلمان ارض لاہور میں بیٹھا کہہ رہا ہے کہ:
طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے
لیکن دوسری طرف اپنے گرد وپیش سے بے خبر نہیں ہے بلکہ حالات کی نبض پر ہاتھ دھرے مسلمانان ہند کے مسائل کی تشخیص بھی کر رہا ہے۔ملت اسلامیہ کی تجدید اورامت مرحومہ کی نشاۃ ثانیہ کی جو فوری امید علامہ کو تھی، محسوس ہوتا ہے کہ عمر کے آخری دور میں اسے بہت سے صدموں سے دوچار ہونا پڑااور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بعد میں ایک قسم کی ناامیدی کی سی کیفیت بھی علامہ پر طاری ہو گئی تھی جو مثلا ًاس قسم کے اشعار سے ظاہر ہے:
نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
اور
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
لیکن اس کا اصل سبب یہ ہے کہ علامہ مرحوم نابغہ اشخاص میں سے تھے،جن کے بارے میں یہ مسلم ہے کہ وہ وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں ۔یا یوں کہہ لیجیے کہ اپنے زمانے سے قدرے بعد کی باتیں کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقویم میں تیس چالیس سال کا عرصہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ علامہ مرحوم نے جس دور کا خواب دیکھا تھا اس کی ابتدا ہو رہی ہے۔
3۔دین حق کے اسرارورموز اور حقائق ومعارف ایمانی اور علم وحکمت قرآنی کی ترجمانی کااعلیٰ مقام بھی علامہ ہی کو حاصل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ علامہ رومی ثانی تھے۔ رومی کی طرح علامہ مرحوم بھی دورحاضر کے ترجمان القرآن قرار دیے جانے کے مستحق ہیں۔وہ خود بھی اس کے مدعی ہیں کہ ان کے اشعار فکر و پیغام قرآنی ہی کی ترجمانی پر مشتمل ہیں اور اس پر انہیں اس درجہ وثوق اور اعتماد ہے کہ انہوں نے’’ مثنوی اسرارورموز‘‘ کے آخر میں ’’عرض حال مصنف بحضور رحمۃ للعالمین ‘‘ کے ذیل میں یہاں تک لکھ دیا کہ:
گردلم آئینہ بےجوہر است
وربحر فم غیرقرآں مضمر است
پردہ ناموس فکر چاک کن
ایں خیاباں را زخارم پاک کن
روزمحشر خوار ورسوا کن مرا
بے نصیب ازبوسۂ پا کن مرا
آخری مصرع کو پڑھ کرہر وہ شخص کانپ اٹھتا ہے جسے کسی بھی درجے میں علامہ کی نبی ﷺ سے محبت کااندازہ ہے۔
جہاں تک روح دین کی تشریح وتعبیر کا تعلق ہے تو علامہ نے ایک طرف فلسفہ خودی پیش کیا اور دوسری طرف عبادات کے میدان میں نری رسم پرستی کی زوردار نفی کی اور اثباتاً عبادت کی اصل روح یعنی عشق ومحبت خداوندی پر زور دیا ۔ خالق ومخلوق اور عبد ومعبود یا انائے کبیر اور انائے صغیر یا علامہ کے الفاظ میں انائے مطلق (Infinite Ego) اور انائے محدود(Finite Ego) کے مابین اصل رشتہ باہمی عشق اور محبت کا ہے۔یہ عرض کرنا تحصیل حاصل ہے کہ اسی عشق الٰہی کا ایک عکس عشق رسول بھی ہے۔ اس لیے کہ کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اطاعت ومحبت دونوں کے اعتبار سے اللہ اور رسول ایک وحدت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ کے کلام میں عشق رسول کا جذبہ تانے بانے کے مانند پیوست ہے۔
4۔ علامہ کی چوتھی نسبت ان کا قرآن حکیم سے مثالی تعلق ہے ۔ انہیں بجا طور پر’’ترجمان القرآن‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ خود ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا فکر بھی قرآن پر مبنی ہے اور ان کا پیغام بھی قرآن ہی سے ماخوذ ہے۔ بلا شک و شبہ اس دور میں علامہ کی شخصیت عظمت قرآن کے ایک عظیم علم اور نشان (Symbol) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ ایک عام آدمی کا متوارث عقیدے کے طورپر قرآن مجید کو اللہ کی کتاب ماننا اور بات ہے، اور ایک ایسے شخص کا قرآن پر وثوق واعتماد اور ایمان و یقین جو فکر انسانی کی تمام وادیوں میں گھوم پھر چکا ہو اور مشرق ومغرب کے تمام فلسفے کھنگال چکا ہو، بالکل دوسری بات ہے۔ایک شخص جس نے انیسویں صدی کے اواخر میں شعور کی آنکھ کھولی۔ وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا ، مشرق ومغرب کے فلسفے پڑھے،قدیم وجدید سب کا مطالعہ کیا لیکن بالآخر اس کے ذہن کو سکون ملا تو صرف قرآن حکیم سے، اور اس کی علم کی پیاس کو آسودگی حاصل ہو سکی تو صرف کتاب اللہ سے، گویا بقول خود ان کے:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
کیا اس دور میں قرآن حکیم کے’’ھدًی للناس‘‘ ہونے کے لیے کسی اور دلیل کی حاجت باقی رہ جاتی ہے؟ اور کیا یہ کافی ثبوت نہیں ہے کہ قرآن ہر دور اور ہر ذہنی سطح کے انسان کی فکری رہنمائی کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے؟ اس دور میں عظمت قرآن اورمرتبہ ومقام قرآن کا انکشاف بھی جس شدت کے ساتھ اور جس درجہ میں علامہ اقبال پر ہوا ، شاید ہی کسی اور پر ہوا ہو۔ اس لیے کہ عظمت قرآنی کا انکشاف بہرحال کسی شخص پر اس کے اپنے ظرف ذہنی کی وسعت اور عمق کی نسبت ہی سے ہو سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علامہ جب قرآن کا ذکر کرتے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ:’’قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید‘‘ کے مصداق وہ فی الواقع جمال و جلال قرآنی کا مشاہدہ اپنے قلب کی گہرائیوں سے کر رہے ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ شنید نہیں ، دید پر مبنی ہے، بلکہ ایسے لگتا ہے جیسے ان کا پورا وجود کلام پاک کی عظمت کے بارگراں سے ’’خاشعا متصدعا‘‘ ہوا جارہا ہے اور ان کا ہر بُنِ مُو قرآن کی جلالت قدر اور رفعت شان کے ترانے گا رہا ہے۔فرماتے ہیں:
آں کتاب زندہ، قرآن حکیم
حکمت او لایزال است وقدیم
نسخہ اسرار تکوین حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
حرف اُو را ریب نے، تبدیل نے
آیہ اش شرمندہ تاویل نے
نوع انساں را پیام آخریں
حامل اُو رحمۃ للعالمین
حقیقت یہ ہے کہ یہ آمد ہی آمد ہے، واقعہ یہ ہے کہ یہ قائل کا قول نہیں ، حال ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’ازدل خیزد بردل ریزد‘‘ کی اعلیٰ مثال ہے۔ علامہ کے نزدیک قرآن عام معروف معنوں میں کتاب نہیں یہ اللہ کا کلام ہے اور کلام خود متکلم کی صفت اور اس کی جملہ صفات کا مظہر ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن مثل ذات باری تعالیٰ 'ظاہر بھی ہے اور 'باطن بھی اور 'زندہ بھی ہے ،قائم ودائم بھی۔ پھر نہ ذات باری زمان و مکان کی مقید ہے نہ کلام الٰہی ان کا پابند ، بلکہ جیسے خود اللہ تعالیٰ 'اول بھی ہے اور 'آخر بھی اور زمان و مکان کل کے کل وجود باری میں ’’گم‘‘ ہیں ۔ اسی طرح کلام الٰہی کے بھی ’’صید زبوں‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں اور جس طرح اللہ کی شان یہ ہے کہ’’کل یوم ھو فی شان‘‘
اسی طرح قرآن حکیم بھی ہر دور کے افق پر ایک خورشید تازہ کے مانند طلوع ہوتا رہے گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کم از کم میرے محدود علم اور مطالعہ میں قرآن حکیم کی اس سے زیادہ مدح و ستائش ہماری پوری تاریخ میں موجود نہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ تعریف ،معرفت کی مناسبت ہی سے کی جا سکتی ہے۔ بس اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ عظمت قرآنی کے کتنے بڑے 'عارف تھے علامہ اقبال مرحوم۔علامہ کے نزدیک قرآن سے دوری سبب ہے امت کے زوال کا اور اسی سے وابستہ ہے ان کا عروج۔ یوں کہہ لیں کہ ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ وابستہ ہے احیائے اسلام سے اور حیائے اسلام وابستہ ہے احیائے قرآن سے جو عبارت ہے مسلمانوں کے اس کے ساتھ صحیح تعلق کی ازسر نو استواری سے۔ وہ فرماتے ہیں :
گر تومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن
(اگر تم مسلمان زندہ رہنا چاہتے ہو تو بغیر قرآن کے ممکن نہیں)
(یہ مضمون ڈاکٹراسراراحمد رحمہ اللہ کے کتابچے’’علامہ اقبال اور ہم‘‘سے ماخوذہے)