زونل اجتماع لاہور2025ء
مرتب: نعیم اختر عدنان
سیلابی صورتحال کے باعث بہاولپور میں حسب روایت سالانہ اجتماع کا انعقاد منعقد ممکن نہ ہو سکا۔ بنا بریں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخs نے مشاورت کے بعد متبادل کے طور پر چھ مقامات پر زونل اجتماعات کے انعقاد کا فیصلہ کیا ۔ پنجاب میں تنظیم اسلامی کے مرکز واقع لاہور کے علاوہ دیگر دو مقامات پر بھی یہ اجتماعات منعقد ہوئے جن میں ایک ملتان میں جبکہ دوسرا اسلام آباد میں انعقاد پذیر ہوا۔ ایک اجتماع خیبر پختون خوا کے مرکز پشاور میں جبکہ عروس البلاد کراچی میں دو مقامات پر منعقد ہوئے ۔
بروز ہفتہ صبح نو بجے تنظیم اسلامی کے مرکز لاہور میں اجتماع کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا۔پورے اجتماع میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض جناب خباب عبدالخالق نے سر انجام دئیے۔ اجتماع گاہ کی تمام نشستوں کی صدارت کے فرائض نائب امیر محترم اعجاز لطیف نے ادا فرمائی۔ شرکاء اجتماع سے افتتاحی کلمات میں امیر تنظیم نے مختصر اور جامع خطاب فرمایا اور اجتماعیت کے اغراض اور مقاصد بیان کیے اور قیمتی ہدایات سے نوازا۔ ازاں بعد امیر حلقہ لاہور شرقی محترم نورالوریٰ نے شرکاء اجتماع کو خوش آمدید کہتے ہوئے شریک اجتماع رفقاء کو پیش نظر آداب و مقاصد کے اصول پر توجہات مرکوز رکھنے کی ہدایت فرمائی۔پابندی اوقات کے ساتھ نظم کی ہدایات کے مطابق تمام پروگراموں میں شرکت پر زور دیا۔ طے شدہ پروگراموں کے علاوہ وقفہ جات میں دیگر رفقاء سے باہمی تعارف حاصل کرنے کی ضرورت و افادیت سے بھی آگاہی دی گئی۔
فکر آخرت کے موضوع پر تنظیم اسلامی کے نائب امیر محترم اعجاز لطیف نے فکر انگیز اور قرآن و سنت کے دلائل سے مزین دلآویز اور پرتاثیر خطاب فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ فکر آخرت کو ہم سب کی اہم ترین اور بنیادی فکر کا محور ہونا چاہیے۔یہ تصور ہمارے سامنے رہنا چاہیے کہ ہمار ی سب سے پہلے اعمال کی جواب دہی ہوگی۔ ہر نفس کو موت ذائقہ چکنا ہے۔ اخروی زندگی کے لیے زاد راہ اسی دنیا کی زندگی ہی میں تیار کرنا پڑتا ہے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، دنیا دارالجزا نہیں بلکہ دارالعمل ہے۔ یہ دنیا کی زندگی عارضی اور فانی ہے اس کی رنگینیاں اور راعنائی ’’ متا ع الدنیا ‘‘محض برتنے اور گزر بسر کا عارضی ساز و سامان ہے۔ بقول شاعر
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
آخرت پر دلی یقین ہو، اللہ کے فیصلوں پر’’ رضائے رب پر راضی رہ ‘‘ والی کیفیت ہو۔ اللہ کی عطا پر قناعت کا طرز عمل اختیار کر کے جنت اور جنت کی نعمتوں، جس میں دیدار الٰہی کی نعمت عظمیٰ بھی شامل ہے کی طلب والی زندگی گزارنے کی اللہ تعالی ہم سب کو توفیق نصیب فرمائے۔
’’ قرآن حکیم کا تصورِ دین‘‘ کے موضوع پر مولانا خان بہادر(معاون دعوت وتربیت) نے خطاب فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم اسلامی رفقا ءکو دل کی گہرائیوں سے اور رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیےکہ اس ذات بابرکات نے ہمیں ایسی اجتماعیت سے منسلک کر دیا ہے جس کی فکری بنیادیں اور عملی لائحہ عمل کا مرکز و محور قرآن مجید اور سنت و سیرت نبی ﷺ پر مشتمل ہے۔ قرآن و سنت سے ماورا قائم کردہ تصور ِدین ناقص اور نامکمل ہی ہوگا۔ مولانا نے قرآن مجید میں لفظ دین جہاں جہاں اور جس معانی و مفہوم میں استعمال ہوا ہے، اُسے پوری شرح و بسط سے بیان کیا۔ انہوں نے بطور تذکیر اور یاد دہانی دین کے چھ اہم ترین گوشوں کا بھی تذکرہ کیا جن میں عقائد ،عبادات ،رسومات یہ تین گوشے انفرادی زندگی سے متعلق ہیں جبکہ تین ہی گوشے اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جن میں معاشرتی نظام، معاشی نظام اور سیاسی نظام شامل ہیں۔ اس کائنات میں انسان کی حیثیت امین کی ہے جبکہ ہر شے کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ دولت کی گردش اور بہاؤ محتاج اور غریب طبقات کی جانب ہوتی ہے اس مقصد کے لیے زکوۃ و عشر کا نظام دیا گیا۔ جبکہ سرمایہ اور سرمایہ دار کی ظالمانہ گرفت کو توڑنے اور ختم کرنے کے لیے سودی نظام کی حرمت و ممانعت کی گئی ہے۔ معاشرتی حوالے سے ہر قسم کی طبقاتی سوچ اور تقسیم کی نفی کرتے ہوئے مساوات و تکریم انسانیت کا نظام متعارف کرایا گیا ہے جس میں فضیلت کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ اور خدا خوفی ہے۔ اسلام میں حاکم ِوقت یعنی خلیفہ بھی جواب دہ ہوتا ہے اور کسی کو بھی کسی قسم کا استثنا حاصل نہیں ہوتا۔ بڑے سے بڑا شخص بھی عام شہری کی طرح قانون کا پابند ہوتا ہے۔ سیاسی سطح پر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تابعداری پر مبنی خلافت و نیابت کا نظام اپنایا جائے گا جو قرآن و سنت کے احکامات کی بالادستی اور سپرومیسی کا حامل ہوگا ۔عوامی حاکمیت کا موجودہ نظام کافرانہ و مشرکانہ ہے۔ جب ہم پورے دین اور اس کے عملی نفاذ کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ہر ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر قرآن و سنت کی حکمرانی اور بالا دستی کا نظام رائج ہو۔ تنظیم اسلامی اس مکمل اور جامع نظام ِزندگی یعنی ان الدین عند اللہ الاسلام کی بات کرتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہمیں ایسے قافلے ایسی تنظیم اور ایسی تحریک سے منسلک کر دیا جو پورے دین کی’’ دعوت اور اقامت ‘‘کا علمبردارقافلہ ہے۔
چائے کے وقفہ کے بعد امیر محترم نے رفقاء کے تحریری سوالوں کے تسلی بخش جوابات دئیے۔ تحریری سوالات کے لیے رفقاء کو اجتماع سے کئی روز پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ امیر محترم سے سوالات و جوابات کا سیشن بیک وقت اور براہ راست تمام زونل اجتماعات میں دیکھا اور سنا گیا۔
نماز ظہر کھانے اور آرام کے مختصر وقفہ کے بعد نماز عصر دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ مطالعہ حدیث نبویﷺ کی ذمہ داری معاون تربیت جناب سجاد سرور نے ادا کی۔ انہوں نے حیا کا جامع تصور کے حوالے سے حدیث نبوی کی روشنی میں بتایا کہ جس نے سر کی اور پیٹ کی حفاظت کی موت اور موت کے بعد کی زندگی کو پیش نظر رکھا اور عارضی اور فانی زندگی کے ذیبائش اور آرائش سے خود کو علیحدہ رکھا، یعنی چھوڑ د یا اُس نے گویا حیا کا حق ادا کر دیا۔ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں فحاشی و عریانی کے مقابلے میں حیا کا لفظ استعمال ہوتا ہے مگر حیا کے اس تصور سے بہت وسیع مفہوم ہے۔ رزق حلال کا اہتمام اپنی عزت و ناموس کی حفاظت، موت، حساب کتاب خیر کے تصورات کو سامنے رکھتے ہوئے آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے زندگی گزارنا یہ حیا کا جامع مفہوم ہے ۔
زمانہ گواہ ہے کے عنوان سے حالات حاضرہ پر مبنی پینل گفتگو کا ریکارڈڈ پروگرام دکھایا گیا۔ اس پینل میں میزبانِ پروگرام نائب ناظم نشرواشاعت جناب وسیم احمد کے ساتھ گفتگو میں مرکزی ناظم اعلیٰ تنظیم اسلامی جناب ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف، مرکزی ناظم تعلیم و تربیت جناب خورشید انجم ، شعبہ نشر واشاعت کے مرکزی ناظم جناب رضا الحق اور امیر تنظیم اسلامی کے سیاسی مشیر جناب ایوب بیگ مرزا نے غزہ امن معاہدہ ، اسرائیل کے آئندہ عزائم ، پاک بھارت جنگ، افغانستان پاکستان کشیدگی اور آئین میں 27ویں ترمیم کے موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ یہ پروگرام بھی براہ راست اور بیک وقت تمام زونل اجتماعات میں دیکھا اور سنا گیا۔
بعد از نماز مغرب، مطالعہ حدیث کے زیر عنوان’’ علم دین اور قرآنی حلقوں کی فضیلت‘‘ کے عنوان سے جناب عبدالرحمٰن نے گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ جو شخص علم ِدین کے حصول کے لیے سفر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے لیے سہولت پیدا کر دیتا ہے، جنت کے راستوں کی جانب۔ قرآن مجید کی تعلیم کے حلقہ جات پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ رحمت کے پر بچھا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دین کی تعلیم حاصل کرنا تبلیغ دین کا فریضہ اداکرنا ختم نبو ت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ عالم کی عابد پر فضیلت کا بھی بطور خاص تذکرہ ہوا۔
اجتماع کا اگلا پروگرام ’’ہم اور ہمارا گھر‘‘ تھا۔ اِس موضوع کے لیے محترم کاشف گیلانی ( واپڈا ٹاؤن کی مقامی تنظیم کے امیر) کا انتخاب ہوا۔ انہوں نے انسان کے مقصد ِ زندگی اور اس کی حیات کی غرض و غایت یعنی ’’بندگی رب‘‘ سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ بندگی ِ رب کے تصور کے تحت اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کی دینی ذمہ داری کی فکر کرنا اہم ترین معاملہ ہے۔ اللہ کے انبیاء نے بھی اور نبی اکرم ﷺ نے اپنے قریبی رشتہ داروں ، اولاد اور بیویوں کو اللہ کی بندگی و اطاعت کی وصیت و نصیحت فرمائی۔ تنظیم کا نظم اور امیر تنظیم اسلامی گھریلو اسرے کے انعقاد کی مسلسل تلقین فرماتے رہتے ہیں۔ ہمیں اپنی اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ ہماری دینی ذِمّہ داری بھی ہے اور تحریکی اور تنظیمی ضرورت بھی ۔ مقرر موصوف کا خطاب’’ دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے‘‘ کا مصداق کامل تھا۔
اجتماع کی اگلی نشست کا موضوع ’دعوتی اعتبار سے رفقائے تنظیم کے عملی تجربات‘‘ یہ موضوع حلقہ لاہور شرقی کے امیر محترم کاشف عباسی کی ذمہ داری ٹھہرا۔ انہوں نے کہا کہ دعوت دین کی ضرورت و اہمیت سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ رفقائے تنظیم کے مطلوبہ اوصاف میں بھی یہ وصف شامل ہے کہ ہم سب داعی بننے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ اس کے لیے مقرر و مبلغ بننا ضروری اور لازمی نہیں ہے بلکہ تنظیمی لٹریچر، تنظیمی جرائد کے ذریعے اپنے محلہ،مسجد،آفس، دکان، قریبی احباب اور رشتہ داروں تک دین کی دعوت پہنچائی جائے۔ تنظیم کی دعوت بھی درحقیقت دین ہی کی دعوت ہے۔ تنظیم کے تحت قائم حلقہ جات قرآنی ،دورئہ ترجمہ قرآن کے پروگرام، فہم دین کی نشستیں ،سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حلقہ احباب کو تنظیمی فکر اور پروگراموں سے آگاہ کرنا۔ تنظیم کے نظم سے حتی الامکان وابستہ رہنا جیسے مقامی اسرہ اور مقامی تنظیم کے زیر اہتمام دعوتی و تربیتی پروگراموں میں بھرپور شرکت کریں۔ غیر فعال اور غیر متحرک رفقاء کو فعال اور متحرک کرنے کی شعوری اور مسلسل کوشش بھی نتیجہ خیز رہی ہے۔
اجتماع کا اگلا پروگرام شعبہ سمع و بصر کے ناظم جناب آصف حمید( فرزند ارجمند بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ) نے سوشل میڈیا اور نظریاتی جدوجہد کے زیر عنوان ہمیشہ کی طرح بحسن و خوبی اپنا موضوع بیان کیا۔ انہوں نے رفقائے تنظیم اسلامی کو یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اسلام دشمن اور اسلام مخالف طاقتیں اور قوتیں کس قدر اپنے مادی وسائل اور جدید ذرائع اس مکروہ اور شیطانی ایجنڈے کی تکمیل میں صرف کر رہی ہیں۔ ہر طبقہ فکر کے لیے ہر سطح پر باطل نظریات کا فروغ اور پرچار کیا جا رہا ہے۔ اس تناظر اور احوال و ظروف میں ہمیں بھی ان باطل قوتوں کا نظریاتی سطح پر مقابلہ کرنے اور دین کے ابلاغ کے لیے دستیاب تمام ذرائع وابلاغ استعمال کرنا ہوں گے ۔ انہوں نے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدm کا ایک آڈیو کلپ بھی رفقائے تنظیم کی سماعتوں کی نذر کیا۔ بانی محترمؒ نے کی’’اعدولھم مااستطعتم ‘‘ کی قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہوئے حالات حرب و ضرب کی طرح جدید ذرائع ابلاغ کی فراہمی اور استعمال کی اہمیت کو آج سے 45 سال پہلے ہی بیان فرما دیا تھا۔ محترم آصف حمید نے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے رفقاء کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ رفقاء اس اجتماع سے یہ عزم وارادہ کر کے کہ ہم نے دین اور تنظیم کی دعوت و اشاعت کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا ہے۔نئی نسل اس میڈیم کا خصوصی طور پر ہدف اور ٹارگٹ ہونی چاہیے۔
آج کے پروگرام کی یہ آخری نشست تھی ۔ نماز شب کی ادائیگی اور کھانے کے بعد رفقاء رات کے آرام کی غرض سے بستر نشین ہوئے۔ نماز فجر سے قبل اکثر رفقاء نے نماز تہجد کی سعادت حاصل کی ۔
نماز فجر کی ادائیگی کے بعد درس قرآن مجید کے لیے سورۃ الشوریٰ کی آیات 36 تا 43 کا انتخاب کیا گیا۔ مدرس کے فرائض حلقہ گوجرانوالہ کے امیر محترم علی جنید میر نے ادا کیے ۔ان آیات قرآنی میں اہل ایمان کے نمایاں اور بڑے اوصاف کی وضاحت کی گئی۔ مقرر محترم نے بطور تذکیر اور یاددہانی کہا کہ آج کرنے کا اہم ترین کام دین کا عملا ًقیام و نفاذ ہے۔ اس فرض کی تکمیل اور ادائیگی کے لیے دعوت و تربیت سے لے کر اقدام تک کے مراحل میں جن صلاحیتوں کے حامل افراد درکار ہیں ان کے اوصاف کا قرآن مجید کے بہت سے مقامات میں تذکرہ ہے۔ لیکن یہ مقام اس موضوع پر خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے بانی محترم اور ہمارے تنظیمی لٹریچر کی اس قرآنی مقام کی خاص اہمیت ہے۔ اس دنیا کا سب کچھ ایک دن ختم ہو جائے گا دین کے لیے کی گئی محنت اور قربانیاں باقی رہیں گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر قرآنی او صاف حسنہ پیدا فرمائے۔ آمین!
اجتماع کے دوسرے دن کے پہلے سیشن کا آغاز سٹیج سیکرٹری صاحب نے قرآنی آیات کی تلاوت سے کیا ۔’’فریضہ اقامت اور رفیق تنظیم اسلامی‘‘ کے زیر عنوان تنظیم اسلامی حلقہ لاہور شرقی کےناظم دعوت محترم شہباز شیخ نے پرجوش خطاب کیا۔ انہوں نے تنظیم کے تعارف کے لیے استعمال ہونے والی جامع عبارت کا حوالہ دیا کہ تنظیم اسلامی ایک منفرد اور غیر معمولی تشخص کی حامل تنظیم ہے۔ تنظیم اسلامی معروف معنوں میں نہ مذہبی فرقہ اور نہ سیاسی جماعت ہے بلکہ اصولی اسلامی انقلابی جماعت ہے جو اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام و نفاذ کے لیے کوشاں ہے۔ تنظیم کی دعوت درحقیقت دین اسلام کی ہی دعوت ہے۔ اسلام کے عادلانہ نظام یعنی خلافت کےمنشور کی وضاحت اور اس کے قیام و نفاذ کی کوشش ہمارا ہدف ہے جسے مضبوط نظم جماعت کے پابند لوگوں کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مسلمان تو ہیں مگر ہمیں ایمان حقیقی کی صفات اعلیٰ اپنے اندر پیدا کرنا ہوںگی۔ ہمارا فکر اور طریقہ کار بھی قرآن و سنت کی محکم بنیادوں پر قائم ہے۔ رفیق تنظیم اپنے نظریہ و فکرسے جتنا مخلص ہوگا اسی قدر وہ متحرک اور پر جوش و پر عزم ہو گا۔ رفیق ِتنظیم جس قدر فعال اور متحرک ہو گا تنظیم بھی اُسی نسبت و تناسب سے متحرک و فعال ہو گی۔ اسلام کے عادلانہ نظام کا قیام ظالمانہ و استحصالی نظام کے خاتمے ہی سے ممکن ہے۔ اس عظیم اور مقدس مشن کی تکمیل کے لیے اپنے دینی فرائض اور تنظیمی ذمہ داریوں پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے لیے ایثار و قربانی کے عملی رویہ کے ساتھ ساتھ جذبہ جہاد اور شوق ِشہادت کی کیفیت بھی لازم ہے۔ یہی وہ نفع بخش تجارت ہے جس میں خسارے اور نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں۔ بقول شاعر
جس کوہو جان و دل عزیز
اس کی گلی میں جائے کیوں!
اجتماع کا اگلا سیشن بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی ویڈیو ریکارڈنگ کی سماعت کا تھا ہمیشہ کی طرح دلوں کو گرمانے والے خیالات حامل خطاب سننے دیکھنے کوملے۔ سابق امیر تنظیم اسلامی محترم حافظ عاکف سعیدs کا ویڈیو خطاب’’ قرآن کا طریقہ انقلاب‘‘ کے موضوع پر نرم دل گفتگو ، گرم دم جستجو کامظہر خطاب دل پذیر سننے کو ملا۔
قافلہ تنظیم منزل بمنزل کے زیر عنوان ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف نے تنظیم کی پیش رفت کا جامع اور مکمل خاکہ پیش کیا۔ بقول شاعر’’ تیز و ترک گامزن منزل ِمادورنیست ‘‘ کے سے جذبہ کی ضرورت کی جانب بھی بھرپور انداز سے توجہ مبذول کروائی گئی۔اجتماع کے متبادل کے طور پر چھ زونل اجتماعات کے اختتامی لمحات میں امیر تنظیم اسلامی محترم و مکرم عزت مآب محترمشجاع الدین شیخ s نے شکر ،شکریہ اور تحسین کے الفاظ سے اپنے مخصوص اور دلآویز انداز خطابت سے کام لیتے ہوئے۔ رفقاء کو متحرک کرنے اور متحرک رہتے ہوئے اپنے دینی اور تحریکی فرائض ادا کرنے کی بھرپور انداز سے تلقین فرمائی۔ امیر محترم کی پرخلوص دعا کے ساتھ اس بابرکت اور بامقصد اجتماع کا اختتام بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا۔