امت کی آبرو کا فیصلہ
عامرہ احسان
غزہ کی تقدیر کا فیصلہ یو این سیکورٹی کونسل میں ہوگیا! ہم بھی قرار داد پاس ہونے کے نتیجے میں ٹرمپ امن پلان میں دیگر مسلم ممالک کے ساتھ حصہ دار ہیں۔ سوبھاری ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے ہم بہ حیثیت اُمّت کی اہم ایٹمی طاقت، ان دو سالوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں جو بیت المقدس، مسجد اقصیٰ کے محافظوں پر ہو گزرے۔ پوری اُمّت کی طرف سے فلسطینیوں نے اپنا فرضِ اولیٰ جان کر بے مثل، ناقابل برداشت، ناقابل یقین قربانیاں پیش کی ہیں۔ یہ دفاع پوری اُمّت پر (اسرائیلی جارحیت کی شدت کے پیش نظر) فرضِ عین ہو چکا تھا۔ مگر یہ علم اُمّت کے پاس کہاں!( جہاں نماز بھی فرضِ عین نہ جانی جاتی ہو!) سو کہانی کی گتھیاں اب ہمیں سلجھانی ہیں۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں۔
1948ء سے فلسطین پر مغربی ممالک، بالخصوص برطانیہ کی مدد سے اسرائیل کا قبضہ اور اس چوری اور سینہ زوری داستان کو اب 78 سال ہو چلے۔ 7 اکتوبر 2025 ء سے غزہ پر تابڑ توڑ حملوں کے نتیجے میں 2 سال میں کیا ہوا۔ دیکھئے: 23 لاکھ گنجان ترین آبادی پر شب و روز دو لاکھ ٹن بارود 2 سال میں گرایا گیا۔ مکان، دکانیں، مارکٹیں، پلازے 90 فی صد تباہ ہو گئے۔ پونے3لاکھ رہائشی یونٹ مکمل اور ڈیڑھ لاکھ جزوی تباہ ہوئے،مکینوں سمیت۔مرنے والوں کی تعداد 80 ہزار کا تخمینہ لاکھو ں کی کل تعداد کا محدود حصہ ہے۔ غزہ کے 80 فی صد رقبے پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہوا۔ شہداء کی آدھی تعداد تقریباً بچوں کی تھی۔ ہزاروں شہید افراد طبی عملے، اساتذہ، دانشور ، شہری دفاع، صحافی، بلدیاتی ملازمین، پولیس، ہلال احمر تنظیموں سے منسلک تھے۔ پونے 2 لاکھ زخمی جن میں سے 5 ہزار کے اعضاء کاٹ دئیے گئے۔ 95 فی صد تعلیمی اداروںکی عمارات بشمول یونیورسٹیاں، 000 1 مساجدتباہ ہوئیں۔ 3 گرجوں پر پے در پے حملے ہوئے۔ 40 قبرستان بلڈوز کیے۔ ڈھائی ہزار شہداء کی لاشیں قبروں سے غائب کیں۔ یاد رہے کہ تازہ لاشوںسے،قیدیوں اور غزہ میں شہید ہونے والوں کی، اعضاء نکال کر ٹرانسپلانٹ کی عالمی تجارت میں بیچ کر کمائی کی گئی! 220 دن غزہ تک ہر قسم کی خوراک، ادویات، ایندھن، ذرائع، وسائلِ زندگی مکمل بند رکھے گئے۔ 7 سو کنوئیں اور میٹھے پانی کے 134 منصوبے، بجلی کے نیٹ ورک، 30 لاکھ میٹر سڑکیں تباہ کیں۔ پارک، کھیل کے گرائونڈ، اسپورٹس ہال تباہ کیے۔ 94 فی صد زرعی اراضی تباہ کیں۔ مویشی، مرغی فارم بھی نہ چھوڑے۔ پہلی دوسری جنگ ِعظیم ،ہیروشیما ناگا ساکی، کی تباہی یوں کم تر رہی کہ اتنے چھوٹے قطعۂ زمین کو جس طرح جنونی و حشت دہشت کی انتہا پر تباہ کیا، اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 2 ارب مسلمانوں اور 7 ارب انسانوں کے سامنے! اب ٹرمپ پلان منظوری کے بعد عجب ہے کہ ٹنوں بارود بر سانے والا ِاسرائیل تو مسلح رہے اور وسائل سے محروم غزہ کوغیر مسلح کیا جائے! واحد دردمند محافظ،جانیں اپنے عوام پر نچھاور کرنیوالی مقبول جمہوری حکومت چھین لی جائے۔جن ممالک نے جنگ بندی کے بعد نہ ِاسرائیلی بمباری رکوائی نہ شدید بارشوں میں ڈوبتوںکی مدد کی!
ان مظلوموں کا مقدر سنوارنے کے نام پر ہوائی جہازوں، کانفرنسوں، ظہرانوں، عشائیوں پر پانی کی طرح خوش پوش لیڈروں نے پیسہ بہایا!یہ مناظر دیکھ لیجیے۔ یروشلم کے شمال میں قلندیہ میں ایک خوبصورت بڑے گھر پر انخلاء کا نوٹس حکومت ِاسرائیل نے لگا ر کھا ہے۔ مکین فلسطینی حیران و سرگرداںہے کہ 1936 ء سے اس کے آباء واجداد کا یہ گھر تھا۔ زندگی بھر کی جمع پونجی سے اس نے تعمیر نو کی تھی۔ اب حکم ہے کہ آن واحد میں نکل جاؤ، یہ تمھارا گھر نہیں۔ (اسرائیل ملک الموت کا کردار، مسلم گھروں اور مکینوں کے لیے رکھتا ہے۔) اس وقت غزہ مسلسل بارش کی شدید ترین آزمائش سے دوچار ہے۔ کلپ میں گھٹنوں تک جو کیچڑ ہے ،یہ سیوریج کی گندگی اور بارش ملاپانی ہے۔ جس میں کھڑا نوجوان اپنی بچی کو کسی طرح صاف کرنے کی کوشش میں ہے اونچا کر کے، تاکہ اسے کسی بہتر جگہ بٹھا سکے۔ بارش ،سردی میں ٹھٹھرتے کانپتے بچے، روتی بے بس مائیں۔ زندگی کی ہر رمق چھن گئی۔ جس طرح بے حس امت، اسرائیل امریکہ کی ہیبت، محبت، مفادات کی گندگی میں لتھڑی پڑی ہے، یہ اہل غزہ کی نہیں، ہمارے ایمان کی بھاری آزمائش ہے۔
ہمی پر ایک وقت تھا کہ مصورِ پاکستان اقبال اُمّت کے لیے ٹرپتے، اوروں کو بھی تڑپاتے۔ امت چہار سو آزمائشوں میں گھری تھی۔ ترک جنگ ِبلقان کے امتحان میں تھے۔ مولانا ظفر علی خان ان کی مالی امداد کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے جلسے بھی کرواتے۔ انھی میں سے ایک میں اقبال نے نظم ’حضورِ رسالت مآب ﷺمیں‘ پڑھی۔ (پس منظر میں برطانیہ کی شہ پر 1911 ء میں طرابلس پر قبضے کے لیے اٹلی نے حملہ کیا تھا) جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اقبال مسلمانوں پر ٹوٹتے مصائب کی شدت کی تاب نہ لاکر تصوراتی دنیا میں حضورِ رسالت مآبؐ حاضری دیتے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر دل کا درد کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ آپؐ جب یہ پوچھتے ہیں کہ جہانِ رنگ و بو سے ہمارے لیے کیا تحفہ لایا ہے تو کہتے ہیں (نظم پوری پڑھیے): مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں، جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی ۔جھلکتی ہے تری اُمّت کی آبرو اس میں، طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں‘! آج اس آبگینے میں غزہ کے شہیدوں کا لہو، بیواؤں یتیموں کی بے بسی کے آنسو، اُمّت کی بے حسی پر چکنا چور دلوں کی کرچیاں، آہوں کراہوں کی تپش ہے! اس جلسے میں مسلمان اگرچہ غلام تھے مگر ان کی روحیں آزاد، غیرت ِ دینی، اخوت و حمیت سے لبریز دل تھے۔ مجمع آخری شعر تک پہنچتے، پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ زمین پر دردو غم سے لوٹتے مرد، بے قرار دل تھامتے پڑے تھے۔ اُمّت یوں مفادات کی اسیر، دین، تاریخِ اسلام،ایمان سے فراغت نہ لے چکی تھی۔ آج نوجوان آکسفورڈ، کیمرج ، اے اولیول کی تعلیم، موبائیلوں کی رنگین دنیا اورمخلوط، بے روح تعلیم کے پروردہ امریکہ کو خدائی کے درجے پر متمکن گردانتے ہیں۔ غزہ کا غم سپین کے ایک خود مختار حصے باسک میں فلسطینی فٹ بال ٹیم کے ساتھ کھیلے جانے والے دوستانہ میچ میں باسک قوم میں دیکھیے۔ والہانہ پن سے فلسطین کے لیے امدادی میچ کھچا کھچ تماشائیوں سے بھرا دیوانہ وار غزہ کے حق میں نعرے لگا رہا ہے۔ محبت قبل از قیام ِپاکستان کے مذکورہ جلسے سے کچھ بھی کم نہیں امڈ رہی۔ ایک کھلاڑی نے کہا: یہ سیاسی میچ تھا تاکہ اسرائیل کو دنیا میں تنہا کیا جاسکے۔ اور ہم ’مزاحمت‘ کا دفاع کر سکیں! دنیا اسرائیل کے لیے نفرت سے کھول رہی ہے۔ کیا ہمیں اندازہ نہیں؟ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ’ مغرب‘ سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
خود باضمیر امریکی باغی ہو رہے ہیں۔ 10 سال میرین افسر رہنے والا امریکی فوجی حق گوئی کی حیرت انگیز مثال ہے جو غزہ جنگ میں امریکی کردار سے متنفر ہو کر استعفیٰ دے رہا ہے۔ ’میںنیو کلیئر آبدوز، روئے زمین کی قوی ترین ہتھیاروں سے لدی، پر ڈیوٹی دیتے دس سال سے اس فوجی وردی میں ہوں ۔ امریکی آئین کی پاسداری، تمام اندرونی، بیرونی دشمنوں کے خلاف قومی تحفظ کا حلف اٹھایا تھا۔ مگر خطرہ صرف فوجوں یا میزائلوں کی صورت نہیں، بعض اوقات نظریات کی صورت ہوتا ہے۔ آج ہمارے قومی کردار کی مضبوطی کا سب سے بڑا سوال غزہ جنگ میں ہے۔ یہ تنازعہ دو برابر ہم پلہ قوتوں میں نہیں۔ یہ جنگ نہیں ہے بھوک کی مار دینا، بمباری، مقید شہری آبادی کا مسلسل انخلا ہے۔ امریکی مکمل حمایت، اربوں ڈالر کی فوجی امداد، ہتھیاروں کی فراہمی، یو این میں سفارتی تحفظ نے اُسے ممکن بنایا ہے۔ کانگریس میں دونوں پارٹیاں فلسطینی بچوں کی زندگی داؤ پر لگا رہی ہیں۔‘ استعفیٰ دینے والے کے پیچھے کفیہ پہنے نوجوان، امریکی ڈاکٹر، فلسطینی ڈاکٹر ابوصوفیہ کی رہائی کا مطالبہ لیے کھڑے ہیں۔ عنوان یہ ہے کہ ’نسل کشی‘ بند کرو۔ کافر کا ضمیر چلااٹھا ہے۔ ہم حتمی فیصلے کرنے سے پہلے سوچیں۔ عدلیہ پر حسنی مبارک اور حسینہ واجد نے بھی مکمل ہمنوائی کا سامان کر لیا تھا مگر حسنی مبارک پھر اسی عدلیہ کے سامنے مجرم بنا حاضر ہوتا رہا۔ اور آج حسینہ واجد کے لیے اسی کی عدلیہ نے سزائے موت صادر کی ہے، جس عدلیہ نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے 6 عظیم رہنماؤں کو پھانسی کی سزادی تھی۔ ابھی آخرت باقی ہے جو لرزادینے والی ہے!
یو این میں کیا ہوا؟ روس نے20نکاتی ٹرمپ پلان کے مقابل غزہ کے لیے منصفانہ قرارداد پیش کی تھی۔مگر پاکستان سمیت آٹھوں مسلم ممالک کے ٹرمپ پلان کی حمایت میں متفقہ بیان کے بعد روس پیچھے ہٹ گیا اور یوںقرارداد پاس ہو گئی۔غزہ پر اب نئے قابض امریکہ،برطانیہ ہیں، منہ زور اسرائیل کے علاوہ!مسلم فوج کا کیا کردار ہو گا؟ مغربی کنارے کی نام نہاد،بے جان فلسطینی اتھارٹی( PA) اپنے علاقوں کو روزانہ اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں؍غنڈوںکے حملوں اور پیش قدمی سے بچانے سے قاصر ہے،اسے غزہ میںپولیس کی ذمہ داری سونپنا! یہ اسرائیلی معاونت کے مترادف ہے!
دنیا بدل رہی ہے اور اللہ نے کہہ رکھا ہے: ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے)۔ اللہ اور بہت سے ایسے لوگ پیدا کر دے گا، جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔ جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ (الخ)… (المائدۃ: 54)