(نقطۂ نظر) ’’آئین‘‘ کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں…… - ابو موسیٰ

8 /

’’آئین‘‘ کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں……


ابو موسیٰ

ارادہ تو یہ تھا کہ نقطۂ نظر کے حوالے سے اپنے کالم کا آغاز آئینِ پاکستان کی رواداری سے کیا جائے لیکن ایک خبر نے مجبور کیا ہے کہ آغاز مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان (آخری خبریں آنے تک یہی اِس کا نام ہے) میں قانون کی بے نظیر عملداری سے کروں۔ خبر یہ ہے ’’کرپشن الزام میں گرفتار سابق اے ڈی سی آر سیالکوٹ اقبال سنگھیڑا راولپنڈی پولیس حراست سے فرار‘‘ دھڑکتے دل سے خبر کے اگلے حصہ کو دیکھا کہ لکھا ہوگا کہ وہ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے یا پولیس نے زبردست مقابلے کے بعد خدانخواستہ اُنہیں آنجہانی کر دیا اِس لیے کہ یہ اب معمول کی خبروں کا حصہ بن چکا ہے لیکن راقم پولیس کی رحمدلی اور اپنے شہریوں سے محبت اور شفقت کے جذبہ کا عملی نمونہ کا نظارہ کرکے ورطہ حیرت میں پڑ گیا جب خبر کا اگلا حصہ پڑھا کہ فرار کا یہ معمولی سا واقعہ چند روز پہلے ہوا تھا جب ملزم کا بھائی ایک نئی نویلی گاڑی میں کچھ افراد کے ساتھ آیا تھا اور وہ ’’محترم‘‘ کو پولیس کی حراست سے چھڑا کرکے اپنے ساتھ گاڑی میں لے گیا تھا۔ اخبار کے مطابق اے ایس آئی ظفر اقبال نے رابطہ پر بتایا کہ وہ 13 نومبر کو چکری موٹروے سروس ایریا پر ملزم کو واش روم استعمال کرنے کے لیے لے کر گئے تو وہاں پہلے سے موجود ملزم کے بھائی نے ملزم کو اپنی پرائیویٹ گاڑی 8/077 برنگ سفید میں بٹھا لیا اور مذکورہ ملزم اقبال سنگھیڑا کو بھگا کر لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔ جب اے ایس آئی ظفر اقبال سے پوچھا گیا کہ تم نے اتنے دن وقوعہ کی اطلاع کیوں نہ دی تو اُس نے جواب دیا میں اتنے دن اپنے طور پر ملزم کو تلاش کرتا رہا اور شرمندگی کی وجہ سے وقوعہ کی اطلاع نہ کی۔ ندائے خلافت کے قارئین کو اب تو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہماری پولیس کتنی شرمیلی ہے اور اپنے اُس نعرے پر کتنی سختی سے کاربند ہے کہ’’ عوام سے تعاون پولیس کا اوّلین فریضہ‘‘ کتنی خوش اسلوبی سے اِس پر عمل ہو رہا ہے۔ قارئین کو شاید یاد ہو کہ اقبال سنگھیڑا اے ڈی سی آر سیالکوٹ جب کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے تو وزیر دفاع خواجہ آصف کتنے سیخ پا ہوئے تھے تب اُنہوں نے جو کچھ بیورو کریسی کو کہا تھا اور جو کچھ بالائی حکومت کے خلاف بول بیٹھے تھے تب اتنا بازو ٹوئسٹ ہوا تھا کہ لگتا تھا کوئی آر پار والا معاملہ ہو جائے گا تندوتیز خبروں کا طوفان اٹھ گیا تھا۔ اب گزشتہ ہفتہ سے چونکہ آئین میں رواداری آگئی ہے تو اِس بیچارے گریڈ20 کے آفسر سے ہمارا کیا لینا دینا جائے اور اپنا سابقہ کاروبار جاری و ساری رکھے۔ ویسے بھی کرپشن کے نام سے یہ چھوٹے چھوٹے نام نہاد جرائم ملک کے اہم مفادات کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ بہرحال ہم ایڈوانس آپ کے گوش گزار کیے دیتے ہیں کہ پاگل سوشل میڈیا اِس پر منہ کھولے گا جس پر گرفتاری ڈالی جائے گی اور عین قانون کے مطابق ضمانت ہوگی پھر یا تو سب کچھ غلط قرار دے کر باعزت رہائی ہوگی اور اگر یہ آسانی سے نہ ہو سکا تو اتنی فائلوں کے نیچے کیس دبا دیا جائے گا کہ کئی عشرے معلوم نہ ہوگا کہ کیس کن وادیوں میں بھٹکتا رہا ہے۔ البتہ اگر 28 ویں ترمیم کا سلسلہ الجھا یاکسی نوٹیفیکیشن کے آگے پیچھے ہونے کا معاملہ ہوا تو اِس بے چارے آفیسر کی دوبارہ شامت آ سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا شرمیلا اور معصوم سا قانون لندن سے آتے ہوئے پاکستان کی فضاؤں میں ہی کرپشن کے مقدمات کو بکھیر دیتا ہے کسی حاضری کی یا انگوٹھا کے نقش کی ضرورت نہیںرہتی بلکہ یہ سب کچھ غیر ضروری بلکہ لایعنی ہو جاتا ہے ہاں البتہ ہر کیس کی الگ نوعیت ہے۔
قارئین اگر دماغ پر بوجھ ڈالیں تو اُنہیں آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ فیصلے قانون کی راہداریوں میں الجھنے سے نہیں بلکہ پوری دیانتداری سے قوت، حاکمیت اور لاٹھی سے ہو رہے ہیں۔ نئے حالات کا تقاضا ہے کہ دیانتداری کے لغوی معنوں میں جدت پیدا کی جائے اور اِس کا بھی وہی حال کر دیا جائے جو بیچارے آئین کا ہوا ہے۔ اُسی روز کے اخبار کی اِس خبر سے آپ کا مزہ دوبالا ہو جائے گا ’’اللہ کے حکم اور اُس کے فرمان کے مطابق اپنے فرائض کی انجام وہی کرتا ہوں۔‘‘ اے اللہ ہم پر رحم فرما آمین!
اب تک کی گزارشات کو تحریرِ معترضہ سمجھ لیں اصل موضوع بحث تو آئین کی 27 ویں ترمیم ہے۔ اِس کے بارے میں بھی خوب کہا گیا کہ ترمیم تو بجا لیکن ہوئی کس میں ہے 1973ء کے آئین کا ذکر تو اب یادِرفتگاں کے طور پر ہوتا ہے اِس لیے کہ 26 ویں ترمیم نے اُسے ابدی نیند سُلا دیا تھا۔ ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ 27 ویں ترمیم کے ذریعے اُس کی تدفین اور آخری رسومات ادا کر دیں۔
قارئین کرام! اب تک کی ساری بات کو آپ نے طنز و مزاح کا کٹھ سمجھا ہوگا لیکن یقین جانیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے عرض خدمت ہے کہ یہ ماتم ہے یہ دلِ گداز کا سوز ہے یہ وہ طرز ہے جسے سوگوار ماحول میں فنکار چھیڑتا ہے اور چشم آہو سے جھڑی لگ جاتی ہے جو تھمتے نہیں تھمتی وہ بھولے لوگ جو اپنی دنیا میں مست ہیں یا جن بیچاروں کے پیٹ کے تقاضے اُن کی سوچ پر ہی بند باندھ دیتے ہیں وہ کہیں گے یہ آئین ہمیں کیا دیتا تھا کہ اِس کا اتنا نوحہ کہا جا رہا ہے اتنی آہ و بکا کی جا رہی ہے۔ کان پک گئے تھے ہمارے جمہوریت، آزادی اور عدل و انصاف کے روز روز خالی پیٹ نعرے سن سن کر۔
یہ خیال بجلی کی طرح راقم کے ذہن میں کوند گیا کہ کتنی بڑی کامیابی ہے یہ ظاہری اور باہری حکمرانوں کی بُھلا دو اِن کو اِن کا ماضی اور لاتعلق کردو مستقبل سے، سوچ کو آج تک اور خود تک محدود کر دو یہی واحد ذریعہ ہے جس سے حکمرانی اور غلامی کا یہ لامتناہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اٹھا لو اُنہیں اور اگر گستاخی زیادہ ہو تو اُن کے سربریدہ جسم کو سپردِ سڑک کر دو کہ ہم سے سوال کرنے والا کوئی نہ ہو راستہ ہموار ہو اور وِسل بجاتی گاڑیاں سڑکوں پر اُڑتی جا رہی ہوں کوئی یہ نہ پوچھے کہاں سے آئیں یہ گاڑیاں کس نے دیں یہ گاڑیاں اور کیوں ہوئے تم براجمان سٹیرنگ پر سب نظریں جھکا کر چلیں کہ اٹھتی اور چبھتی نظریں اب ناقابل برداشت ہیں۔ اصل بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اگر آئین زندہ رہے گا تو اُنہیں اِن فضولیات کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا ایک ہی حل ہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ بہرحال اِس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا چاہے کتنی ہی تلخ ہے یہ حقیقت کہ آئین یوں بے موت نہ مارا جاتا اگر اپنے ہی حملہ آور نہ ہوتے۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک شخص درخت پر آری چلا رہا تھا، ایک راہ گزر نے درخت سے کہا کہ تم اتنے بڑے اور مضبوط ہو اور اتنے پھیلے ہوئے ہو اِس چھوٹی سی آری کے سامنے بے بس ہو اور وہ تم پروار کرتا چلا جا رہا ہے اور کوئی وقت جاتا ہے کہ تم طاقتور ہونے کے باوجود زمین پر آگِرو گے۔ درخت بولا اِس آری کی کیا جرأت ہے کہ وہ مجھے کاٹے درحقیقت اِس کی پشت پر جو میرا بھائی (یعنی لکڑ کا دستہ) لگا ہے مجھ پر ساری مصیبت تو اُس کے ہاتھوں سے آ رہی ہے۔ کتنی صادق آتی ہے یہ کہاوت یہاں ؟کیونکہ آئین کی رِحلت میں جس خانوادے نے انتہائی اہم اور متحرک رول ادا کیا اُس پر یہی کہا جا سکتا ہے ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘نواسے نے نانا کی میراث کا قتل کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اِس واردات میں ایسے سہولت کار کا کردار ادا کیا کہ نواسہ صف دوم میں دھکیل دیا گیا۔ ایک دنیا پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اِن دونوں نے یعنی P.P.P اور (ن) نے جو کچھ کیا ہے وہ درحقیقت آنے والے وقت میں اپنے لیے پھندا تیار کیا ہے۔ یہ انہوں نے خود کش دھماکہ کیا ہے۔ اِن کا رول تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے اور اقتدار یوں اسمبلیوں سے راولپنڈی منتقل ہونے کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے لیکن اُنہوں نے تو سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا۔
قارئین یاد رکھیں قوت کے سامنے ڈٹ جانے کے لیے اُجلا اور صاف ستھرا کردار چاہیے دامن یوں کرپشن اور مالی بدیانتی سے دغدار نہ ہو، جس کے دامن پر ایک آدھ چھینٹ بھولے سے پڑ گئی ہو وہ بھی چل جائے گا لیکن جو دامن یوں داغ دار ہو کہ دامن داغوں تلے چھپ گیا ہو جن کی کرپشن کی شہر شہر نہیں ملک ملک کہانیاں ہوں جن میں بہتر وہ سمجھا جائے جس کے بارے میں اپنے بھی کہیں کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے اور غیروں نے بی بی سی پر صرف برطانیہ میں بھاری بھر کم جائیدادوں پر ڈاکومنٹری بنائی ہو وہ طاقت کے خلاف کیسے سٹینڈ لیتے اُس کے سامنے سرنگوں کیوں نہ ہوتے وہ بی بی سی کو لندن کی عدالت میں چیلنج نہ کر سکے کیونکہ وہاں تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں لیکن پاکستان میں بیان بازی کرتے رہے کہ یہ جھوٹ ہے الزام ہے۔ البتہ پاکستان میں بھی اپنی اِس غیر قانونی ناجائز دولت کی کوئی مَنی ٹریل نہ دکھا سکے۔ رہ گئے وہ جو مرحوم آئین کے نواسہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ لگانے کے نہیں صرف کھانے کے قائل ہیں۔ لہٰذا سر اُٹھانے کی جرأت کیسے ہوتی اور قیدِ تنہائی میں پڑا ایک سر پھرا جس کا نام لینے سے بھی ’’آزاد‘‘ میڈیا کی کانپیں ٹانگتی ہیں وہ قوت کے سامنے جھکنے سے انکار کیوں کر رہا ہے بلکہ قوت کے سامنے ایسی ایسی سخت باتیں کہہ رہا ہے کہ سننے والے ڈر رہے ہیں لیکن وہ بے خوف ہے کیوں کہ دامن صاف ہے۔ جان کے دشمن ساڑھے تین سال میں پاکستان سے باہر دنیا بھر میں کہیں ایک گز زمین رکھنے کا الزام لگا سکے اور نہ بیرونی بنکوں میں معمولی سا سرمایہ جس کے ضبط ہونے کا خطرہ ہو برآمد کر سکے۔ عجب بات یہ ہے کہ جیل میں اُسے یعنی قیدی کوسٹنٹ پڑتے ہیں نہ پلیٹلیس کی کمی بیشی ہوتی ہے بلکہ جھوٹے اور مضحکہ خیز مقدموں کو یوں طول دیا جا رہا ہے کہ سرکاری وکیل جج اور سرکاری عملہ بار بار اور ترتیب کے ساتھ بیمار ہوتا رہتا ہے۔ قابلِ رحم بیچاری بے بس عدلیہ اِس سب کچھ کے باوجود سزا دے تو کیا کہہ کر دے اور کیا عذر تراشے یہ کارنامہ دہشت گردی کی عدالتیں یا فوجی عدالتیں جو اب جائز اور قانونی عدالتیں قرار دی جا چکی ہیں وہی سرانجام دے سکتی ہیں۔ بہرحال راقم کو ہرگز یہ مطلوب نہیں تھا کہ کسی کو بدعنوان اور کسی کو دیانت دار ثابت کرے۔ اصل بات جو قارئین کے سامنے لانی تھی وہ یہ تھی کہ سانحہ آئین ہوا تو کیوں ہوا اور کیوں روکا نہ جا سکا اور راقم نے اس شعر کے ایک مصرعہ کو توڑ مروڑ کر اِس تحریر کا عنوان بنایا تو کیوں بنایا۔
’’آئین‘‘ کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی ’’ترمیم‘‘ کے پیوند لگے جاتے ہیں
قارئین کرام پاکستان کے موجودہ سیاسی عدم استحکام کی بنیاد اور اصل وجہ سمجھنے کی کوشش کریں حقیقتاً اور اولاً یہ عالمی مسئلہ اور ثانیاً علاقائی اور ملکی مسئلہ ہے۔ راقم کی رائے جاننے سے پہلے جیفری ایپسٹین کی لیک ہونے والی ای میل کا مطالعہ کر لیں اِس میں مسئلہ کا مغز موجود ہے:
"Imran Khan in Pakistan a much greater threat to the peace than Erdogon, Khomani, XI or Putin."
2018ء میں عمران خان کے وزیراعظم بننے پر اِس شخص نے کہا تھا: ’’It is a bad news for‘‘ اب ایک عجیب و غریب بات کہی جا رہی ہے کہ موصوف تو جنس مجرم ہے بھائی وہاں تو آدھے سے زیادہ معاشرہ جنسی مجرم ہے اِس سے لیک کا کیا تعلق۔ بہرحال تب ہی عالمی ٹھیکیداروں کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اُن کے نقطہ نظر سے ایک غلط آدمی پاکستان میں برسرِ اقتدار آگیا ہے لیکن ظاہر ہے انتہائی طاقتوروں نے سوچا ہوگا کہ ہمارے سامنے کبھی غریب مقروض ملک کا سربراہ کیسے سر اُٹھائے گا۔ ہم رام کرنا جانتے ہیں لیکن 2019ء میں اقوامِ متحدہ میں عمران خان کی تقریر نے اُنہیں الرٹ کیا اور راقم کے مطابق عالمی خلائی طاقتوں نے اُس کے خلاف F.I.R درج کی پھر طالبانِ افغانستان کا معاملہ اور دوسرے کئی واقعات عالمی طاقتوروں کی تشویش میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ مزید کنفرم کرنے کے لیے اُس کے خیالات کو رُوبُرو سنا گیا جس میں عمران خان نے Absolutely Not کہہ کر اپنے عزائم واضح کر دیئے۔ روس یوکرائن مسئلہ اٹھا تو روس کا دورہ کرنا اور جنگ شروع ہونے کے باوجود واپس آنے یا دورۂ مختصر کرنے سے انکار نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور عالمی فیصلہ سازوں نے فیصلہ کر لیا اور پاکستان میں حکومتیں بدلنے والے ادارے کو اپنے ’’نیک ارادوں‘‘ کی اطلاع کر دی۔ ایک سائفر نے باآواز بلند ارادوں کا اظہار کر دیا۔ اِس موقع پر بلکہ اِس حوالہ سے اپنے Tenure کے آخر تک عمران خان سے ہمالائی بلنڈر ہوا اُسے اُس وقت ملکی طاقتوروں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے تھا اور وزیراعظم کی طاقت کا استعمال کرنا چاہیے تھا جس میں وہ بُری طرح ناکام رہا۔ بہرحال اُس شر سے بھی اللہ تعالیٰ نے خیر نکال دیا ایک تو خود اُسے تنہا ہو کر اپنی غلطیوں اور کوہتاہیوں پر غور کرنے کا موقع مل گیا اور دوسرا وہ عوام جو اُسے قریباً رد کر چکے تھے وہ اُس کے ایسے دیوانے ہوئے کہ پاکستان میں ایسی مقبولیت کی کوئی مثال نہیں۔ قصہ کوتاہ عالمی طاقتوروں اور پاکستان کی وہ سیاسی قوتیں جن کے کھاتے میں کرپشن کے انبار کے سوا کچھ نہ تھا رجیم چینج کے کارِخیر کے لیے متحد ہوگئے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ دشمن روز روز کی قانون سازیاں اور آئینی ترامیم کرکے عمران خان کی عوامی قوت سے پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ پوری اسلحی قوت بھی استعمال کر رہا ہے۔ ماردھاڑ کرکے تحریک انصاف کی قیادت میں کمزور لوگوں کی مدد بھی حاصل کر رہا ہے اُسے کئی ہفتوں سے قید ِتنہائی میں ڈالا ہو اہے لیکن وہ ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور عوامی قوت میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے عوام اپنے لیڈر کی رہائی چاہتے ہیں۔ اب مسئلہ کیسے حل ہو، رہائی کا مطلب ہوگا کہ ہر قسم کے سیاسی و غیر سیاسی حریفوں کا دنوں نہیں گھنٹوں کے لیے بھی کھڑا رہنا ممکن نہ ہوگا اِسی لیے قانونی اور آئینی حصار بندی کی جا رہی ہے لیکن یہ ہائبرڈ نظام جو اپنی بدترین شکل میں اِس وقت ملک پر نافذ ہے وہ بیساکھیوں پر کتنا وقت نکال سکے گا شاید اِسی لیے28 ویں ترمیم آرہی ہے کیا پچاس (50) ترامیم بھی ناجائز کو جائز بنا سکیں گی یا مزید کمزوری کا باعث بنیں گی۔ ریت کی یہ دیواریں عوامی قوت کا کب تک مقابلہ کریں گے۔ محبانِ وطن کی خواہش ہے کہ یہ کشمکش جو انا کی جنگ بن چکی ہے۔ کسی طرح ختم ہو جائے دبی ہوئی چنگاریاں شعلہ جوالہ نہ بن جائیں ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہ لگے گا اور وہ غریب جو آئین سے کوئی اپنا تعلق نہیں بتاتا۔ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ وہ بھی خاکستر ہو جائے گا۔ اے اللہ! پاکستان کی حفاظت فرما اور اہل ِپاکستان کو اپنی پناہ میں رکھ۔