دبئی کی سونے کی منڈی کی چمک کے پیچھے دار فور کے جلے ہوئے گھر
اورسوڈانیوں کی اجتماعی قبریں ہیں :ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف
گزشتہ پاک بھارت معرکہ ایک بڑی جنگ کے لیے ریہرسل تھا ، اصل جنگ
اب ہوگی : ایوب بیگ مرزا
وہ مقصدجس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں عدل ، حریت ، اخوت
اور مساوات کا نظام قائم ہوگا ،27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وہ مقصد رخصت
ہو جائے گا :خورشید انجم
ٹرمپ نے صہیونیوں کی فیس سیونگ کے لیے امن معاہدہ کے نام پر نیا ڈھونگ
رچایا ہے تاکہ دیگر ممالک کو اپنے ساتھ ملا سکیں : رضاء الحق
’’عالم اسلام کے مسائل اور اُن کا حل ‘‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : وسیم احمد
سوال: غزہ امن معاہدے کے بعد مشرق وسطیٰ کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے اور امن معاہدے کے بعد اسرائیل کی جانب سے جو خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں ، اُن پر حماس کا کیا ردعمل ہے ؟
رضاء الحق: بنیادی بات یہ ہے کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ خطے میں امن ہو کیونکہ اس کا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ہے ، اس کے لیے اُس نے مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنا ہے ، ارد گرد کے مسلم ممالک پر قبضہ بھی اس کے منصوبے کا حصہ ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ تو بہت عرصہ پہلے تذکرہ فرما چکے تھے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے خطے میں جنگیں ہوں گی ۔ درحقیقت اس وقت دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے ، حتیٰ کہ ٹرمپ کا اقتدار میں آنا اور غزہ امن منصوبہ ،ٹرمپ کے نائب جیمز ونس کے بیانات ، پاکستان سمیت مسلم ممالک پر بڑھتا ہوا دباؤ وغیرہ یہ ساری چیزیں ایک منصوبے کے گرد گھوم رہی ہیں جو کہ صہیونی منصوبہ ہے ۔ اب تو اسرائیلی اعلیٰ عہدیدار سرے عام اس صہیونی منصوبے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ نتین یاہو نے گریٹر اسرائیل کے قیام کو اپنا تاریخی اور روحانی مشن قرار دیا ۔ اسی مشن کے تحت وہ غزہ اور مغربی کنارے میں مسلمانوں کا بے دریغ لہو بہا رہے ہیں اور آس پاس کے مسلم ممالک پر بھی حملے کر رہے ہیں ۔ امریکہ اور بھارت اسرائیل کے فطری اتحادی ہیں اور وہ پاکستان پر بھی مشرقی اور مغربی بارڈر سے جنگ مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔اصل میں گریٹر اسرائیل کا صہیونی منصوبہ ہی عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ جہاں وہ جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں وہاں جنگ کر رہے ہیں اور جہاں مذاکرات اور معاہدوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں، وہاں معاہدے کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ابراہم اکارڈز کے نام پر انہوں نے کئی مسلم ممالک کو رام کرلیا ۔ اُن کا آخری ہدف ایک ایسی عالمی بادشاہت ہے جس کا مرکز یروشلم ہو گا اور وہاں سے بیٹھ کر ان کا مسایاح (دجال ) پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے احادیث کی روشنی میں اس بات کو کئی مرتبہ بیان کیا کہ دجال پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا ۔ وہ خود کو ایک روحانی شخصیت کے طور پر پیش کرے گا اور خود کو مسیح ابن مریم کہے گا ۔ یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو نہیں مانا لہٰذا وہ اس جعلی مسیح کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں اور اس کی عالمی بادشاہت کے لیے پوری دنیا کی سیاست ، معیشت اور معاشرت کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ تھرڈ ٹیمپل کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ مذہبی بنیادوں پر کر رہے ہیں ۔ امریکہ ، یورپ اور بھارت سمیت دنیا بھر کے حکمران ان کے معاشی اور سیاسی چنگل میں پھنس کر ان کے مہرے بن چکے ہیں ۔ اسرائیل ان سے جو کروانا چاہتا ہے، وہ وہی کچھ کرتے ہیں ۔ دوسال تک اسرائیل نے غزہ پر جو قیامت ڈھائی ہے ، اس پر دنیا بھر کے حکمران نہ صرف خاموش رہے بلکہ بعض اسرائیل کی مدد بھی کرتے رہے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیل کے مظالم جب سامنےآئے تو یورپ اور امریکہ کے عوام بھی اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ۔ لہٰذا اپنی فیس سیونگ کے لیے امن معاہدہ کے نام پر اُنہوں نے ایک نیا ڈھونگ رچایا ہے جس کے تحت وہ مسلم ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کررہے ہیں تا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں ۔ جہاں تک تحریک مزاحمت کا تعلق ہے تو وہ جاری رہے گی کیونکہ احادیث میں ذکر موجود ہے کہ بلاد شام میں قیامت تک جہاد جاری رہے گا ۔ ایک منصوبہ اللہ کا ہے اور ایک کفار کا ہے ۔ آخر میں اللہ کا منصوبہ ہی کامیاب ہوگا ان شاء اللہ ۔
سوال: ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں ابراہم اکارڈزکے نام پر کچھ ممالک کو امریکہ اور اسرائیل نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا ۔اب ٹرمپ کے نام نہاد امن معاہدہ کے بعد دوبارہ ابراہم اکارڈز کی باتیں سامنے آرہی ہیں ، ابراہم اکارڈ ز کا منصوبہ اب کس مرحلے پر ہے اور کیا مستقبل میں سعودی عرب اور پاکستان بھی ابراہم اکارڈز کا حصہ بننے والے ہیں ؟
رضاء الحق: ابراہم اکارڈ کا منصوبہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں اس کے یہودی داماد جیرڈ کشنر نے تیار کیاتھا اور ٹرمپ نے امریکی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کچھ عرب اور افریقی ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا تھا ۔ اس ضمن میں کچھ وعدے بھی کیے گئے تھے ، مثلاً متحدہ عرب امارات سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اسرائیل مغربی کنارے پر حملے نہیں کرے گا ۔ اُس نے تسلیم کرلیا مگر حملے ابھی تک جاری ہیں ۔ سعودی عرب اورپاکستان کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ انہیں اسلحہ کے زور پر زیر نہیں کیا جا سکتا ، اس لیے وہ ان کو کچھ مراعات دے کر رام کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان دونوں کے ممالک کی اشرافیہ میں سے ایسے لوگوں کو آگے لایا جائےگا جو امریکی منصوبے کا ساتھ دیں گے ۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو ۔ لیکن سعودی عرب کی واشنگٹن میں مشیر ریما بنت بندر اور سعودی وزیر خارجہ کے بیانات سے ظاہر ہوتاہے کہ تسلیم کرنے کی بات ہورہی ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان پر بھی پریشر بڑھے گا ۔
سوال: پہلگام واقعہ کے بعدبھارت اور پاکستان کے درمیان جو جنگ ہوئی اس میں اسرائیل نے بھارت کی کھل کر مدد کی تھی لیکن بھارت کو شکست ہوئی جس کے بعد بھارت آپریشن سندور 2 کی تیاریاں کر رہا ہے۔ان حالات میں امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدہ ہونا کیا معنی رکھتا ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: میری رائے میں وہ پاک بھارت جنگ نہیں تھی بلکہ آئندہ ہونے والی باقاعدہ جنگ کے لیے ایک ریہرسل تھی ، ایک تصادم تھا اوراس کی ساری منصوبہ بندی ندیدہ قوتوں نے کی تھی جو یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ پاکستان میں کتنا دم ہے اور انڈیا میں جنگ لڑنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انڈیا کی شکست واضح طور پر نظر آنا شروع ہوئی تو امریکہ نے فوراً مداخلت کرکے جنگ رکوادی ۔اِس مرحلے میں امریکہ اور اسرائیل نے بھارت کی کوئی خاص مدد نہیں کی۔ درحقیقت عالمی قوتیں یہ اندازہ لگانا چاہتی تھیں کہ کل اگر واقعتاً بڑی جنگ شروع ہوگی تو اس وقت پاکستان کس حد تک اپنا دفاع کرے گا۔ ٹرمپ نے نریندر مودی اور بھارت کے خلاف بہت بیان بازی کی لیکن اس کے باوجودانڈیا کی شرائط پر اُس سے دفاعی معاہدہ بھی کرلیا ۔ انہیں معلوم ہے کہ چین پاکستان کی مدد کر رہا ہے اور دونوں کا مقابلہ اکیلابھارت نہیں کر سکتا ۔ لہٰذا اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جو جنگ ہوگی اس میں امریکہ اور اسرائیل کھل کر بھارت کا ساتھ دیں گے اور یہ جنگ محض فضائی نہیں ہوگی بلکہ کسی اور انداز میں ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی افواج نے سندھ کا رُخ کر لیا ہے ۔یعنی اب بحری جنگ بھی ہوگی اور زور دار زمینی حملے بھی ہوں گے لیکن پاکستان فضائی صلاحیت کو استعمال کرکے اس حملے کو روک سکتاہے ۔ البتہ بھارت کے پاس بہت زیادہ جنگی سازو سامان ہے اور اسے امریکہ اور اسرائیل کی بھی بھرپور مدد حاصل ہوگی اس لیے یہ معرکہ بہت سخت ہوگا ۔
سوال: سوڈان میں مسلمانوں کا بہت زیادہ خون بہایا جارہا ہے لیکن عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔حتیٰ کہ OIC، عرب لیگ اور افریقین یونین بھی خاموش ہیں ۔ یہ خاموشی کیوں ہے اور اس لڑائی کی وجہ کیا ہے ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف: سوڈان افریقہ کا دل ہے اور دنیا کے انتہائی قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے ۔ مصر کے جنوب میں دریائے نیل کے کنارے آبادیہ سرزمین ہے مصر اور صحارا کےدرمیان تہذیبی پُل کا کام کرتی ہے ۔ قبل از اسلام یہاں کش اور نوبیا کی دو سلطنتیں تھیں ۔ اسلام لانے کے بعد وہاں عدل و انصاف قائم ہوا ۔ لیکن جب عالم اسلام کمزور ہوگیا تو برطانیہ نے مصر کے ساتھ مل کر ایک اینگلو ایجپشن کنڈومین قائم کرلی اور بہت زیادہ مظالم ڈھائے گئے ۔ محمد احمد مہدی نے برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کی لیکن اُن کی لاش کو قبر سے نکال کر دریائے نیل میں بہا دیا گیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد استعماری قوتیں کمزور ہوئیں اور 1956ء میںسوڈان کو آزادی ملی لیکن سیاسی استحکام نہیں آیا ۔ 1958ء میں پاکستان کی طرح ہی سوڈان پر بھی فوجی حکومت مسلط ہو گئی۔ اس کے بعد63 برس تک تین جرنیل یکے بعد دیگرے سوڈان کے اقتدار پر قابض رہے ۔ نوآبادیاتی نظام کے بعد اقتدار کےکنٹرول کا یہ طریقہ پاکستان میں آزمایا گیا ۔ البتہ 1989ء میں جب جنرل عمر بشیرنے اقتدار سنبھالا تو ان کوڈاکٹر حسن ترابی نے سپورٹ کیا جو کہ ان کے فکری رفیق تھے ۔انہوں نے سوڈان میں ایک اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کیا اور الحمد للہ وہاں پر شریعت کے احکامات نافذ ہوئے ۔ مغرب کو یہ ہرگز پسند نہیں تھا ۔ لہٰذا جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کو مغرب نےا سلحہ فراہم کیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی ۔یہاں تک کہ2018 ء میںعوام جنرل عمربشیر کے خلاف سٹرکوں پر نکل آئے اور اس کی حکومت ختم ہوگئی ۔ اس کے بعدان دو جرنیلوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی جنہوں نے عمر بشیر کو اقتدار سے ہٹایا تھا ۔ سرکاری فوج کے مقابلے میں ایک نیم فوجی تنظیم RSF بن گئی اور آپس کی اسی لڑائی کے نتیجہ میں آج سوڈان میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان کا خون بہہ رہا ہے ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اب تک 16ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ 9ملین لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ۔ جبکہ بی بی سی کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ 60 ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں اور 20 ملین لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے قحط جیسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے ۔ حالانکہ سوڈان خوراک کی پیداواراور معدنیات کے لحاظ سے دنیا کی بہترین سرزمین ہے لیکن اس کا فائدہ روس اور متحدہ عرب امارات اُٹھا رہے ہیں ۔ صرف 2024ء میں 29 ٹن سونا سوڈان سے غیر قانونی طور پر متحدہ عرب امارات منتقل کیا گیا ہے۔ یعنی دبئی کی سونے کی منڈی کی چمک کے پیچھے دار فور کے جلے ہوئے گھر اور اجتماعی قبریں ہیں ۔ دوسری طرف مصر سرکاری فوج کی مدد کر رہا تھا ۔ خوفناک ترین پہلو یہ ہے کہ دنیا کی زرخیز ترین زمین آج مقامی کسانوں کے بجائے غیر ملکی کمپنیوں کے قبضے میں ہے۔ اماراتی اور سعودی کمپنیاں وہاں لاکھوں ہیکٹر زمین پر چارہ اور برآمدی فصلیں اُگاتی ہیں ۔ جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 20 ملین سے زیادہ سوڈانی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ انسانیت کے ساتھ اس سارے کھلواڑ کی بنیادی وجہ صہیونیوں کی عالمی حکومت کا خواب ہے جس کو پورا کرنے کے لیے مسلم ممالک کو مختلف طریقوں سے کمزور کیا جارہا ہے اور ان میں ایک طریقہ وہ خانہ جنگی بھی ہے جس کا سامنا اس وقت سوڈان کے مسلمانوں کو ہے ۔ دنیا اس پر خاموش ہے کیونکہ عالمی میڈیا کی شہ رگ بھی یہود کے کنٹرول میں ہے ۔
سوال: ایک رائے یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ جو کچھ سوڈان میں ہورہا ہے وہ بھی گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا حصہ ہے ، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف:جی بالکل!سوڈان سونے کی سرزمین ہے ، غذائی پیداوار کی سرزمین ہے ، معدنیات کی سرزمین ہے لہٰذا اِس خطے پر بالواسطہ قبضہ بھی صہیونی منصوبے کا حصہ ہے ۔ مشرق وسطیٰ کو تو اسرائیل نے کہیں جنگ کے ذریعے ، کہیں دھونس اور دھمکی کی ذریعے اور کہیںاشرافیہ کو استعمال کرکے کنٹرول کر لیا ہے ، اب شمال مشرقی افریقہ پر بھی اُس کی نظر ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تووہاں دو قومیںہمیشہ آپس میں برسرپیکار رہی ہیں ۔ صرف اسلامی دور ہی ایسا تھا جب یہ مسلمان ہو کر باہم شیر و شکر ہوگئے تھے لیکن اب صہیونی مفادات کے تحت ان کو دوبارہ آپس میں لڑایا جارہا ہے ۔
سوال:امریکہ کے خلاف 20 سالہ افغان جنگ میں پاکستان نےہر طرح سے افغانستان کی مدد کی ، کئی لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں نہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں اپنے بھائیوں کی طرح ترقی اور روزگار کے تمام مواقع فراہم کیے ، افغان طالبان کی بھی مالی اور اخلاقی مدد کی ۔ اس فورم سے بھی ہم نے ہمیشہ افغان طالبان کے حق میں آواز اُٹھائی ، ہمیں توقع تھی کہ جب افغان طالبان کی حکومت بحال ہوگی تو وہ پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلق قائم رکھیں گےاورہمارا مغربی بارڈر محفوظ ہو جائے گا ۔ لیکن بدقسمتی سے جب سے افغان طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں، اُس وقت سے لے کر اب تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسلسل بڑھتی ہوئی کشیدگی جنگ کی صورتحال اختیار کر چکی ہے ۔ اس کشیدگی کی وجہ کیا ہے ، کس کا قصور ہے اور اس کو ختم کرنے کا حل کیا ہے ؟
خورشید انجم: پاکستان اور افغانستان کے درمیان بنیادی مسئلہ ڈیورنڈ لائن کا تھا جس کی وجہ سے آغاز سے ہی افغانستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سردار داؤد کے وزیراعظم موسیٰ شفیق نے بھی کوشش کی ، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کوشش کی اور سردار داؤدجب پاکستان کے دور پر آئے تو وہ اعلان کرنے والے تھے لیکن بھٹو نے کہا کہ آپ واپس جاکر قبائل کو اعتماد میں لینے کے بعد اعلان کریں ۔ اسی دوران انقلاب آگیا اور معاملہ رُک گیا ۔ پھر ترکئی اور حفیظ الامین کے دور میں بھی کوششیں ہوئی لیکن یہ معاملہ حل نہ ہوسکا جس کی وجہ سے دشمنوں کو اس کو اچھالنے کا موقع مل گیا ۔ ملاعمر ؒ کے دور میں یہ مسئلہ پس منظر میں چلا گیا کیونکہ اس دور میں پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات دوستانہ اور برادرانہ تھے ۔ نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے مشرف نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کرلیا اور پاکستان کی سرزمین افغانوں کے خلاف استعمال ہوئی ، بے شمار شہادتیں ہوئیں اور کشیدگی کا دوبارہ آغاز ہو گیا ۔ حالانکہ جہاں مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا وہاں ریاستی سطح پر پاکستان نے افغان طالبان کی مدد بھی کی ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکن سینٹ میں کہا گیا کہ پاکستان نے ڈبل گیم کی جس کی وجہ سے امریکہ کو افغانستان میں شکست ہوئی لہٰذا پہلے پاکستان کا بندوبست کرنا چاہیے ۔ اوباما نے بھی ایسی ہی بات کی ۔ اس میں حقیقت بھی ہے کیونکہ امریکہ نے پورا زور لگا لیا لیکن پاکستان نے حقانی نیٹ ورک تک امریکہ کو رسائی نہیں دی ، کوئٹہ شوریٰ تک رسائی نہیں دی ۔ یہاں تک کہ اسامہ بن لادن کو بھی پاکستان میں پناہ دی ۔ لیکن مشرف پالیسی نے افغانوں کے دل میں نفرت کے بیج بو دئیے تھے ۔ پھر یہ کہ افغان طالبان کا پہلا دور تحریکی دور تھا جس میں اسلامی رنگ غالب تھا لیکن دودہائیاں گزرنے کے بعد وہ کیفیت نہیں رہی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ کیفیت بدل جاتی ہے جیسا کہ صحابہ ؓکہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی وفات ہوئی تو ہماری نمازوں کی کیفیت ہی بدل گئی۔تحریکی دور میں انسان کی زیادہ تر توجہ ایمان ، یقین اور اپنے باطن پر ہوتی ہے ، جبکہ سیاست و اقتدار میں آنے کے بعد شاید وہ کیفیت نہیں رہتی ۔ اب ایمان کی جگہ اسلام آ جائے گا۔ اسی طرح یقین کی جگہ شہادت اور اقرار آ جائے گا۔ باطن کی جگہ ظاہر آ جا ئے گا۔ دوسرا بڑا مسئلہ TTPکا ہے ۔ افغان جہاد کے دوران یہاں عرب اور دیگر مسلم ممالک کے مجاہدین آئے انہوں نے قبائل میں شادیاں کیں ۔ قبائل میں یہ رواج ہے کہ ان کا داماد یا بھانجا پورے قبیلے کا داماد یا بھانجا کہلاتاہے ۔ لہٰذا مشرف پالیسی کے نتیجہ میں جب پکڑ دھکڑ اور قتل و غارت گری شروع ہوئی تو اس کے ردعمل میں TTPجیسے گروہ پیدا ہوئے ۔ پھر را اور موساد نے بھی ان لوگوں کو استعمال کرنا شروع کیا اور اب یہ بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔ مشرف پالیسی کی تمام دینی حلقوں نے بھی مخالفت کی بلکہ جو پہلی میٹنگ تھی، افغانستان کے حوالے سے جس میں بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسراراحمدؒ بھی شریک ہوئے تھے تو ڈاکٹر صاحب ؒ نے کھل کر مشرف پالیسی کی مخالفت کی تھی ۔واقعتاً مشرف پالیسی کے اثرات تباہ کن ثابت ہوئے۔ درحقیقت کچھ غلطیاں اپنی بھی ہیں جنہیں سدھارنے کی ضرورت ہے ۔
سوال:پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے اور یہ بات دوحہ معاہدہ کی بنیادی شرائط میں شامل تھی لیکن جب سے افغان طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں اس کے بعد سے مسلسل اس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ، حالیہ اسلام آباد دھماکے میں بھی افغان شہری کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں ۔ حالانکہ اس سے قبل ترکی اور دیگر برادرممالک نے پاک افغان مذاکرات کے ذریعے سیز فائر بھی کروایا تھا ۔ آپ کے خیال میں پاک افغان مذاکرات ان حالات میں نتیجہ خیز ثابت ہوں گے ؟
خورشید انجم:کہا جاتا ہے کہ جنگ کرنے والے مذاکرات نہیں کرتے اور مذاکرات کرنے والے جنگ نہیں کرتے۔ مذاکرات کرنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ مذاکرات کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا گیا وہ میری ناقص رائے میں اس معیار پر پورا نہیں اُترتے ۔ جیسے خواجہ آصف صاحب مذاکرات بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ دھمکیاں بھی دے رہے ہیں ۔اس طرح مذاکرات نہیں ہوتے ، مذاکرات کے لیے ایک فضا بنانا ضروری ہوتی ہے۔چین سمیت دوست ممالک اس کشیدگی کو ختم کروانا چاہتے ہیں ۔ خاص طور پر چین کی دونوں ممالک میں انوسٹمنٹ بھی ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ امریکی مفادات پورے ہوں ۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کرنا چاہتے ہیں وہ اسلامائزیشن کے بھی خلاف ہیں اور پاکستانی فوج کے بھی خلاف ہیں ۔ اسی لیے وہ ہمیں ہر طرف سے گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ احادیث میں یہ پیشین گوئی موجود ہے کہ اسی خطے سے اسلامی لشکر دجال کے لشکر کے خلاف نکلیں گے اور یہود ونصاریٰ یہ بات جانتے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں اپنے اسلامی تشخص کو مدنظر رکھ کر مستقبل کی تیاری کرنی چاہیے اور یہودونصاریٰ کی سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ بصورت دیگر دونوں ممالک کا بہت نقصان ہوگا ۔ جیسے ملابرادر نے افغان تاجروں سے کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ متبادل تجارتی راستے تلاش کریں ۔ اسی طرح ادویات کے حوالے سے بھی وہ بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔
سوال:پاکستان کے آئین میں جو 27ویں ترمیم کی گئی ہے جس میں اسلامی تعلیمات کے سراسر مخالف قوانین بھی شامل ہیں ۔ جیسا کہ تاحیات استثناء، وغیرہ ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جو مرضی کریں انہیں کوئی پوچھ نہیں سکتا ۔ کیا ایسی غیر اسلامی ترمیم کو ایوانوں میں اور جلسے جلوسوں میں ہمارے مذہبی اور دینی حلقوں کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے ؟ایسی ملکی صورتحال پر آپ کیا کہیں گے ؟
ایوب بیگ مرزا:اگر آپ سچ پوچھیں تو پاکستان کا آئین 26ویں ترمیم میں ہی وفات پاگیا تھا ، اب 27ویں ترمیم کے ذریعے اس کی آخری رسومات ادا کی گئی ہیں ۔ حقیقت میں اس ترمیم کے ذریعے نظام عدل کو مسمار کر دیا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے قبل ہماری عدلیہ نے بعض اوقات حدود سے تجاوز کی ، وزرائے اعظم کو نکالااور نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا وغیرہ لیکن کم ازکم کچھ نہ کچھ انصاف کی امید رہتی تھی ، بعض ججز عدلیہ کے تحفظ کے لیے ڈٹ بھی جاتے تھے ۔ پہلے جو جج حکمرانوں کی بات نہیں مانتا تھا، اس کا تبادلہ کر دیا جاتا تھا، نکالا نہیں جاتا تھا لیکن اس ترمیم کے بعد ججز کو سیدھا گھر بھیج دیا جائے گا جو اوپر والوں کی بات نہیں مانیں گے ۔ جہاں تک حل کی بات ہے تو وہ ایک عارضی ہے اور ایک مستقل ہے ۔ عارضی حل یہ ہے کہ صاف و شفاف انتخابات کروائے جائیں ، عوامی رائے کے مطابق حکومت قائم کی جائے ۔ مستقل حل یہ ہےکہ جس نظریہ کی بنیاد پر ملک حاصل کیا گیاتھا، اُس کا نفاذ کیا جائے او رملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے ۔ نظریہ ہی پاکستان کی بنیاد ہے ، اگر بنیاد میں آپ فساد پیدا کردیں گے تو اوپر جو عمارت کھڑی ہوگی اُس کا حشر وہی ہوگا جو ہورہا ہے ۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف:پاکستان کے آئین میں اس وقت تک جتنی بھی ترامیم ہوئی ہیں ، ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب کسی نہ کسی شخصیت کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کی گئی ہیں ۔ یہ المیہ ہے پاکستان کا کہ یہاں پر جمہوریت کو یا ایوان کو کبھی بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اس وقت بھی بظاہر ہمارے جو حکومتی ادارے ہیں یا ایوان ہے انہوں نےاس ترمیم کے ذریعے اپنے ہاتھ خود کاٹ ڈالے ہیں ۔ اس ترمیم کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک میں بے یقینی اور انارکی پیدا ہوگی ، عدلیہ انصاف نہیں کر پائے گی اور لوگ سڑکوں پر آکر خود فیصلے کریں گے ۔ جبکہ ہماری سرحدوں پر بھی کشیدگی ہے۔ اگر اندرونی طور پر بھی حالات کشیدہ ہوں گے تو دشمن قوتوں کے اہداف پورے ہوں گے ، گریٹر اسرائیل کا منصوبہ آگے بڑھے گا اور ہماری زراعت ، تجارت ، سیاست ، معیشت سمیت ہر چیز پر قبضہ کر لیا جائے گا ۔ جیسا کہ کمزور ممالک پر کر لیا گیا ہے ۔ اللہ پاک ہمیں ہدایت دے اور ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد)’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
حل صرف ایک ہی ہے کہ ہم اللہ کے دین کے ساتھ مخلص ہو جائیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَـکْفُرُوْنِ(152)} (البقرۃ)’’پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا‘اور میرا شکر کرو ‘ میری ناشکری مت کرنا۔‘‘
جس مقصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا ، اس کی طرف سب کو بڑھنا ہوگا ، چاہیے حکمران ہوں ، عوام ہو ں ، اشرافیہ ہو ، جب تک دین کے ساتھ ہم مخلص نہیں ہوں گے تو ہمارے معاملات درست نہیں ہوں گے ۔
خورشید انجم: اسلام کا کیچ ورڈعدل ہے، عدل نہیں ہوگا تو انارکی ہوگی۔ جنگ عظیم دوم کے دوران برطانیہ میں خوراک کی شدید قلت سمیت کئی مسائل پیدا ہوگئے۔ برطانوی وزیراعظم مسٹر چرچل نے چیف جسٹس سے پوچھا کہ کیا عدالتوں میں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے ؟اس نے کہا مل رہا ہے ۔ چرچل نے کہا: پھر ہم جنگ جیت جائیں گے ۔ غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی جیسے مسائل عوام برداشت کرلیتی ہے لیکن اگر عدالتوں سے انصاف نہ ملا تو پھر انارکی پیدا ہوگی۔ آج وزراء کی فوج ظفرموج ترمیم کے حق میں قصیدے بیان کر رہی ہے کل جب یہ اپوزیشن میں ہوں گے تویہی ترمیم ان کے گلے کا پھندا بن جائے گی ۔ یعنی ہمارے سیاستدان دوراندیشی کی بجائے وقتی مفاد کے لیے فیصلے کرتے ہیں اور یہی ملک اور قوم کی تباہی کا باعث ہے ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ وہ مقصد جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں عدل ، حریت ، اخوت اور مساوات کا نظام قائم ہو وہ مقصداس ترمیم کے ذریعے رخصت ہو جائے گا ۔
رضاء الحق:حقیقت میں آئین دفن ہو چکا ہےاور بڑے عرصے سے انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ عدل موجود نہیں ہے، عدل اجتماعی بھی موجود نہیں ہے ۔ غیر اسلامی شقات کو مزیدمتحرک کیا گیا ہے ، تمام اسلامی شقوں کو غیر موثر کیا جارہا ہے ۔ اب تو سیاسی جماعتوں کی توجہ بھی اپنے منشور سے ہٹ گئی ہے۔حتیٰ کہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اس پر بہت محدود تبصرہ کرتی ہیں یا کرتی ہی نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس ترمیم کے لیے سینٹ میں اپوزیشن نے بھی ساتھ دیا ۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی اور جمعیت علماء اسلام کے ایک ایک رکن نے بھی اس کی حمایت میں ووٹ دیا اور پھر استعفیٰ بھی دے دیا۔یہ ہمارا قومی المیہ ہے ۔ اللہ کا دین تو پورے روئے ارضی پر قائم ہو کر رہنا ہے ، یہ اللہ کا وعدہ ہے لیکن ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم اس جدوجہد میں کہاں کھڑے ہیں ، ملک کس مقصد کے لیے حاصل کیا اور ہم جا کس طرف رہے ہیں ؟ روز محشر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو کیا جواب دیں گے ۔ دینی جماعتوں کو بھی جواب دینا ہوگا ۔ بحیثیت اُمتی ہمارے ذمے تھا کہ ہم دین کے جامع تصور کے مطابق اس کے نفاذ کی جدوجہدکرتے ۔ اس کے برعکس ہم طاغوت کے ایجنڈے پر گامزن ہیں ۔ ایسی صورتحال میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو محفوظ رکھے اور اس کو خراسان کا حصہ بنائے ۔ امارت اسلامیہ افغانستان کو بھی اللہ ہدایت دے اور وہ اسلام کے غلبہ کو ہی اپنی ترجیح بنائیں ۔