(امیر سے ملاقات ) امیرسے ملاقات قسط 45 - محمد رفیق چودھری

8 /

امیرسے ملاقات قسط 45

اقامت دین کی جدوجہد اُمّت کو جوڑنے والی ہے اور یہی تنظیم اسلامی کا مشن ہے۔

جہاں ظلم کا نظام اور نعمتوں کی غیر منصفانہ تقسیم ہوگی وہاں ایک طرف عیاشیاں

ہوں گی اور دوسری طرف خودکشیاں ۔

محمد مصطفیٰ ﷺ جو نظام دے کر گئے اُس کے نفاذ کی جدوجہد کرنا ہماری ذمہ داری

ہے تاکہ ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو ،

پاکستان کی بڑی دینی جماعتیں یہ تسلیم کررہی ہیں کہ اسلامی انقلاب انتخابات کے ذریعے

نہیں بلکہ منظم تحریک کے ذریعے آسکتاہے ،

اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے کوئی بھی دینی جماعت دھرنا دے گی توہم ساتھ دیں 

گے، ان شاء اللہ !

خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میزبان :ڈاکٹر انوار علی

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:  تنظیم اسلامی اگر الجماعۃ نہیں ہے تو یہ کسی رفیق کی معذرت قبول کیوں نہیں کرتی ، چاہے وجہ نظریاتی اختلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ ( طلال احمد، رفیق تنظیم کراچی جنوبی)
امیر تنظیم اسلامی: الجماعۃ کا تصور تو پوری اُمت پر محیط ہے جو نبی اکرمﷺ کو اللہ کا آخری رسول مانتی ہے اور کلمہ گو ہے۔تنظیم اسلامی کے لٹریچر میں یہ بات وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ ہم الجماعت نہیں ہیں اور ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے تنظیم اسلامی چھوڑ رہا ہے تو اس کی معذرت قبول کی جائے گی کیونکہ تنظیم اسلامی چھوڑ نے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی اسلام سے باہر چلا جائے گا ۔ تنظیم اسلامی میں شامل ہونے کے لیے چند بنیادی اساسی شرائط ہیں ۔ 1۔ تنظیم اسلامی کے عقائد وہی ہیں جو اہل سنت والجماعت کے ہیں ۔ 2۔ امیر تنظیم پر ذاتی طور پراگر اعتماد ہو تو شامل ہو ورنہ نہ ہو ۔ 3۔ تنظیم کے فکر سے اتفاق ہو، 4۔ تنظیم کے منہج پر اتفاق ہو تو شامل ہو ۔ ان اساسی باتوں میں سے کسی پر اختلاف ہو جائے اور علی وجہ البصیرت رفیق سمجھتا ہے کہ وہ تنظیم کے ساتھ نہیں چل سکتا اور معذرت کرتاہے تو  حتیٰ الامکان کوشش ہوتی ہے کہ رفیق کے سوالات کے جوابات دئیے جائیں اور کوئی کنفیوژن ہے تو اُسے دور کیا جائے ۔ کسی رفیق نے اللہ کی خاطر اجتماعیت میں شمولیت اختیار کی اور محنت اور جدوجہد کی اور کسی اختلاف کی وجہ سے وہ تنظیم چھوڑ رہا ہو تو افسوس تو ہوتاہے ۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی رفیق معذرت چاہتاہے تو اس کی معذرت قبول کی جاتی ہے اور اس پر یہ بھی واضح کیا جاتاہے کہ آئندہ اگر کبھی وہ تنظیم میں شامل ہونا چاہے تو بلا تردد شامل ہو ، اس کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
سوال:  کسی بھی فرد، معاشرے اور بالخصوص تنظیم اسلامی کے رفیق کے لیے مالی خود مختاری کس قدر ضروری ہے۔ مالیات کو انفرادی، تنظیمی، ملکی یا اُمّت کی سطح پر مدنظر رکھتے ہوئے کیا تنظیم اسلامی اس حوالے سے کوئی عملی اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے؟( حسیب حامد، ملتزم رفیق، پنجاب شمالی)
امیر تنظیم اسلامی: ایک مسلمان کا بنیادی مسئلہ معاش تو ہے ہی نہیں بلکہ اُس کاا صل مسئلہ آخرت ہے ۔ دنیا میں جو رزق اُس کے مقدر میں لکھا گیا ہے، وہ اُسے مل کر رہنا ہے ۔بچہ جب چار مہینے کا ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بھیج کر اُس میں روح ڈالتا ہے اور اُس کے رزق سمیت چند بنیادی باتیں طے ہو جاتی ہیں ۔ جتنا اس کے حصے میں لکھا ہے وہ حاصل کیے بغیر وہ نہیں مرے گا ۔ دنیا کی یہ زندگی اصل میں ایک امتحان ہے ، کسی کو زیادہ دیا گیا ، کسی کو کم ، دونوں صورتوں میں آزمائش ہے ۔ کون شکر کرتاہے ، کون صبر کرتاہے ، کون اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے اور کون دولت کو تکبر اور ریا کا ذریعہ بناتاہے ۔ کون حلال ذرائع سے کماتاہے اور کون دنیا کی حرص میں حرام کماتاہے ۔ آخرت میں سب کو جواب دینا ہوگا اور اعمال کی بنیاد پر آخرت کی زندگی کا فیصلہ ہوگا ۔اسی طرح معاشرے میں اگر ظلم کا نظام ہے ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے تو ایک طرف دولت کے ڈھیر ہوں گے، عیاشی ہو گی ، کسی کے کتے کے لیے ایئر ایمبولنس آجائے گی، امریکہ اور سنگا پور میں گھوڑوں اور کتوں کا علاج ہو گا اور دوسری طرف غربت ، فاقے ، محرومیاں ، بچوں کا قتل اور خودکشیاں ہوں گی۔ اس ظلم کے نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنا ہمارا فرض ہے۔ہمیں صرف اپنے بچوں کا ہی نہیں سوچنا ، ہم محمد مصطفیٰ ﷺکے اُمتی ہیں ، ہمیں پوری اُمت کے بچوںکے بارے میں سوچنا ہے۔ محمد مصطفیٰ ﷺ جو نظام دے کر گئے، اس کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ معاشرے میں عدل اور مساوات کا نظام قائم ہو ، ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو ۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں ہماری آخرت کی دائمی زندگی سنور جائے گی ان شاء اللہ۔ اس دنیا میں تو چند دن رہنا ہے اور یہاں کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ ہم آخرت کو سنوارنے کی کوشش کریں ۔ اس دنیا میں جتنا رہنا اتنا ہی سوچیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے بہت سادہ انداز میں یہی بات بیان کی کہ جب ظلم کا نظام ہو تو وہاں کم سے کم پر گزرا کرلیا جائے اور اپنا دامن ظلم اور حرام سے بچایا جائے اور زیادہ سے زیادہ اپنی جان اور مال اقامت دین کی جدوجہد میں خرچ کی جائے تاکہ اُخروی نجات ممکن ہو ۔ اگر انقلاب برپا کرنا ہے تو اپنی ذات سے بڑھ کر سوچنا پڑے گا ، بڑا ویژن رکھنا پڑے گا ۔ ظلم کے نظام کی وجہ سے ہی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتیں اس کی مخلوق تک نہیں پہنچتیں۔ اس ظلم کے نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا ،  اپنا تن من دھن لگانا، اس کام کے لیے ہم جمع ہوئے ہیں۔ اللہ ہمیں اس کا یقین بھی دے اور اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔آمین ! 
سوال: خلافت راشدہ کے وقت تو عرب میں ایک قبائلی نظام تھا آج ریاست کی سطح پر خلافت کا نفاذ کیسے ہوگا۔ تنظیم اسلامی  یہ نفاذ کیسے کرئے گی ؟(انجینئر نعمان آفتاب ، مقامی امیر)
امیر تنظیم اسلامی:قبائلی زندگی کے اپنے میکنزم ہوتے ہیں، وہاں کچھ باتیں بڑی اچھی بھی ہوا کرتی تھیں اور کچھ باتیں بہت خراب بھی ہوا کرتی تھیں۔ آج  ہم ریاست کی سطح پر آگئے ہیں لیکن قبائلی عصبیتیں آج بھی مختلف علاقوں میں موجود ہیں ، رنگ ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تعصبات اور ریاستوں کے ٹکڑا ہونا ، آج کے دور میں بھی ہمیں دکھائی دے رہاہے ۔ اسی رنگ ، نسل ، زبان اور قبائل کے فرق کو ایک کلمہ طیبہ نے مٹا کر ہمیں ایک قوم بنایا تھا اور ہم نے اس کلمہ کی بنیاد پر ایک ریاست حاصل کی تھی ۔ ریاست میں اسلامی نظام کیسے قائم ہوگا ، اس حوالے سے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے تفصیلی خطابات بھی موجود ہیں۔     عہد حاضرکی اسلامی فلاحی ریاست کے خد و خال کے عنوان سے کتاب بھی موجود ہے ۔ ہمارے لیے اُسوہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ۔ منہج انقلاب نبوی ﷺ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ہم کسی معاشرے میں اسلام کے نفاذ میں کامیاب  ہو سکتے ہیں ۔صرف ایک فرق ہے کہ اس وقت مدمقابل کفار تھے جن کے خلاف قتال کا حکم تھا لیکن آج مدمقابل مسلمان ہیں ، لہٰذا تصادم کے مرحلے میں کسی کی جان نہیں لی جائے گی بلکہ اللہ کے دین کے غلبے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنا پڑیں گی۔ اس فکر کو اجاگر کرنا    ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا بہت عظیم کارنامہ ہے جس کو بڑے بڑے سکالرز نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ یہاں تک کہ ہمارے ملک کی دو بڑی دینی سیاسی جماعتیں بھی تسلیم کرتی ہیں کہ اس ملک میں اسلامی انقلاب انتخابی راستے سے نہیں آسکتا ، صرف منظم تحریک کے ذریعے ہی اسلام کا نفاذ ممکن ہے ۔ 
سوال:کیا منہج انقلاب نبویﷺ آج کے دور میں بھی اُتنا ہی اہم ہے یا حالات کی تبدیلی کے باعث کسی اور منہج کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے ؟(قاسم فاروق، مبتدی رفیق، لاہور عربی)
امیر تنظیم اسلامی:اللہ کے آخری رسول ﷺ قیامت تک کے لیے پوری انسانیت کے لیے نمونہ  ہیں ۔ جس طرح آج بھی آپ ﷺ کی اطاعت ہم پر لازم ہے، اسی طرح آپ ﷺ کے منہج کے مطابق اقامت دین کی جدوجہد کی بھی اہمیت ہے ۔ تاہم حالات کے مطابق جو تبدیلی لازم ہے وہ ہم پہلے سوال میں بیان کر چکے ہیں کیونکہ قتال کے لیے جو شرائط دین میں بیان ہوئی ہیں وہ ایک مسلمان معاشرے میں پوری نہیں ہوتیں لہٰذا ہم قتال کی بجائے پُرامن اور منظم تحریک کا راستہ اختیار کریں گے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے منہج انقلاب نبویﷺ کے حوالے سےبھی خطابات موجود ہیں اور’’ رسولِ انقلاب کا طریق انقلاب‘‘ کے عنوان سے اُن کی زندگی کے آخری دنوں کا بہت معروف خطاب بھی موجود ہے ، اب کتابی شکل میں بھی موجود ہے ، ہمارے تربیتی کورسز میں بھی پڑھایا جاتاہے ۔ اس میں اسلاف کی آراء کا بھی تذکرہ ہے ۔  جب14 اپریل 2010 ء کو ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا انتقال ہوا تو جامعہ اشرفیہ لاہور میں مکتبہ دیوبند کے چوٹی کے 250 علماء موجود تھے۔اُن میں سے بعض حضرات جنازے میں بھی شریک ہوئے ۔ ان علماء کے اجلاس میں جو فیصلہ ہوا اس میں لکھا ہے کہ پاکستان میں بڑے مسائل ہیں لیکن سب سےبڑا مسئلہ شریعت کا نافذ نہ ہونا ہے ۔ پھر لکھا ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیاں غلط ہیں ،ان پر غصہ بھی ہمیں آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہتھیار اُٹھا کر ماردھاڑ شروع کر دیںبلکہ مناسب راستہ غیر مسلح، پُرامن اورمنظم تحریک ہے ۔ میں تو اس کو قبولیت سمجھتا ہوں، اِدھر ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا انتقال ہو رہا ہے اور اُدھر مکتب دیوبند کے چوٹی کے 250 علماء    اسی بات پر اتفاق کر رہے ہیں کہ نفاذ شریعت کے لیے پُرامن اور منظم تحریک چلانی چاہیے ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کے 2018ء کے ایک خطاب کا وہ حصہ آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں انہوں نے علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں علماء سے پوچھتا ہوں کہ آج تک آپ نے کسی منکر کے خلاف تحریک کیوں نہیں چلائی؟ ہمارے حکمرانوں کو انگریز کے دور سے یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ جو جتنا تگڑا جوتا لے کر آئے گا اس کی بات اتنی ہی زیادہ مانی جائے گی ۔ اسی طرح کراچی میں تین جماعتوں  (جماعت اسلامی، تحریک اسلامی اور تنظیم اسلامی) کاایک سیمینار تھا ۔ سابق امیر تنظیم اسلامی نے فلائٹ کے ذریعے پہنچنا تھا لیکن موسم کی خرابی کے باعث نہ پہنچ سکے ،ا نہوں  نے مجھے شرکت کا حکم دیا ۔ میرے بعد جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے خطاب کیا اور فرمایا کہ شجاع بھائی نےجس طرح بتایا ، ہمیں ڈاکٹرا سراراحمدؒ کے پُرامن اور منظم تحریک کے فارمولے پر غور کرلینا چاہیے ۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کے حلقوں سے کم سے کم تین گواہیاں ملی ہیںکہ ہمیں اس فارمولے پر غور کرلینا چاہیے ۔ یعنی  تمام بڑی دینی جماعتوں کے سرکردہ لوگ بھی تسلیم کررہے ہیں کہ منہج انقلاب نبوی ﷺ کے مطابق جدوجہد ہی انقلاب کا موثر راستہ ہے البتہ قتال کی بجائے غیر مسلح اور پُرامن تحریک کو اپنا یا جائے گا ۔ 
سوال: جس طرح ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے بفضل تعالیٰ اپنی دور رس نگاہوں سے بھانپ لیا تھا کہ الیکشن کے ذریعے اسلامی انقلاب نہیں آ سکتا، ہمیں احتجاجی سیاست کو اپنانا ہوگا اور اس کے لیے انہوں نے منہج کے مراحل بیان کیے یہ واقعی اُن کا بہت بڑا فکری کارنامہ ہے لیکن کیا موجودہ ملکی اور بین الاقوامی صورتحال میں یہ فارمولہ کارگر ہو گا ؟ جبکہ ریاستی ادارے ہر طرح کی تحریک اور احتجاج کو کچلنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں ۔ شاید اب تحریک کا زمانہ نہیں رہا بلکہ اداروں کا زمانہ آگیا ہے کہ اداروں کے ذریعے ایسے رجال کار تیار کیے جائیں جو حکومت کی اکثر و بیشتر سطحوں پر کام کر رہے ہوں اور حکومتی فیصلوں پر ایک پریشر گروپ کے ذریعے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں؟ ( محمد ہارون یونس، ملتزم رفیق، پنجاب پنجابی)
امیر تنظیم اسلامی:اللہ والوں کی ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو اپنے وجود پر دین قائم کر چکے ہوں ، منظم ہو کردین کے نفاذ کا مطالبہ لے کر کھڑے ہوں  اور اپنے مقصد کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوں اس سے بڑا پریشر گروپ اور کیا ہوگا ؟ہماری دعوت کا دائرہ کار تمام اداروں اور شعبوں تک پھیلنا چاہیے تاکہ اداروں کے اندر موجود افراد تک بھی ہماری دعوت پہنچے اور پھر اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ انہی اداروں میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو اللہ کے دین کے علمبردار بن جائیں ۔ منہج انقلاب نبویﷺ میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں ، وہی حضرت عمر اور خالد بن ولید ؓ جو پہلے دشمن کی صفوں کی مضبوطی کا باعث تھے ،  جب اُن تک حق کی دعوت پہنچی تو وہ اللہ کے دین کے علمبردار بن گئے اور اُن کے ذریعے اللہ نے دین کو غلبہ اور قوت بخشی ۔اسی طرح ہماری دعوت جب ہر شعبہ کے لوگوں تک پہنچے گی تو اللہ کرے گاتو وہی لوگ انقلاب لانے میں مرکزی کردار ادا کریں گے ۔ ان شاء اللہ ۔ اصل کام دعوت کے میدان میں محنت ہے ۔ وہ دعوت قرآن کے ذریعے ہو ، بندوں کو آخرت کا طلبگار اور اللہ والا بنانے کی کوشش کرنا ، ان کو منظم کرنا ، تربیت کرنا پھر صبر محض کے مراحل سے گزرنا، اپنی جان دینے کے لیے تیار رہنا ، ان سب مراحل کو نظرانداز کرکے اگر انقلاب لانے کی بات کی جائے گی تو کھوکھلی بات ہوگی ۔جان دئیے بغیر ،خون بہائے بغیر اگر انقلاب آتا تو محمد مصطفیﷺ کا ایک قطرہ نہ بہتا۔ حضورﷺ کے صحابہ؇ میں سے کسی کی جان نہ جاتی۔لہٰذا انقلاب کے راستے پر چلنا ہے تو یہ طے کرلیں کہ اپنی جان بھی دینی پڑے گی ۔ شہادت کا جذبہ جب تک نہ ہوگا تحریک کامیاب نہ ہوگی ۔ 
سوال:ڈاکٹر صاحب ؒ کے مطابق منہج انقلاب نبوی ﷺ  کا آخری مرحلہ دھرنا ہے لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی دینی و سیاسی جماعتیں دھرنے کی کوشش میں ناکام ہو رہی ہیں ، جیساکہ تحریک انصاف اور تحریک لبیک اس میں ناکام ہو چکی ہیں ۔ آپ کا دھرنا کیسے کامیاب ہوگا؟ (شاہد جمشید ، ملتزم رفیق لاہور غربی)
امیر تنظیم اسلامی:پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح خلافت جیسا بڑا پیارا لفظ بدنام ہو گیا ،اسی طرح  دھرنے کا لفظ بھی ہمارے ہاں بدنام ہو چکا ہے ۔  پورے منہج کو الگ رکھ کر اگر ہم صرف دھرنے پر فوکس کریں گے تو ظاہر ہے کنفیوژ ہوں گے ۔ جن دو جماعتوں کا آپ نے ذکر کیا اُن کا یہ دعویٰ ہی نہیں تھا کہ وہ اقامت ِدین کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ اِس کے برعکس تنظیم اسلامی اپنا تعارف کرواتی ہے کہ ہم معروف معنوں میں نہ تو مذہبی فرقہ ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعت بلکہ ہم مسلک سے بالا تر ہو کر پورے دین کے نفاذ کی بات کرتے ہیں ۔ ریاستی جبر یا حکومتی ناانصافیاں اپنی جگہ ہیں لیکن جب آپ اللہ کے دین کے نفاذ کا مطالبہ لے کر کھڑے ہوں گے تو پھر ہر طرح کی صورتحال کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا ۔ البتہ حکمت عملی ایسی بنائی جائے تاکہ ریاست کے لیے اس تحریک کو کچلنا آسان نہ ہو ۔ اگر ایک ہی جگہ آپ اپنی ساری قوت جمع کردیں گے تو لازماً وہ کچل دی جائے گی ۔ اس ضمن میں حالات کے مطابق مشاورت کے بعد حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ تمہارے پاس اتنی افرادی قوت تو لازماً ہونی چاہیے کہ ریاست اقدام کرنے سے پہلے سو بار سوچےکہ کتنوں کو شہید کیا جائے ، کتنو ں کو جیلوں میں ڈالا جائے گا ، ریاست تھک جائے لیکن تحریک نہ رُکے ۔ اس میں بھی اہم بات یہ ہے کہ تحریک پُرامن اور غیر مسلح ہو تاکہ ریاست کو جواز ہی نہ مل سکے ۔    بلا جواز اگر ریاست ظلم کرے گی تو اس کا فائدہ تحریک کو ہو گا ۔ اس کے برعکس اگر آپ تشدد کا راستہ اختیار کریں گے تو ریاست کو جواز مل جائے گا اور آپ ناکام ہو جائیں گے ۔ اصل بات یہ ہے کہ تحریک کے کارکن سمع و طاعت کے خوگر ہوں ، اپنے نفس پر دین کو غالب کر چکے ہوں ، ان کا مقصود اللہ کی رضا ہو ، اللہ کے لیے ہی اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوں ،پورے منہج کے مطابق تربیتی مراحل سے گزر چکے ہوں تو ان شاء اللہ وہ کامیاب ہوں گے ۔ اللہ کا دین تو پورے روئےارضی پر قائم ہو کر رہنا ہے ۔ ہم نے صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے ، جو ہماری بساط میں ہے وہ ہم کر گئے تو ان شاء اللہ آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ 
سوال: ڈاکٹر اسرار احمدؒ کہتے تھے کہ ایک وقت میں فوج گولیاں چلانا چھوڑ دے گی، ہمیں تو نہیں لگتا کہ فوج گولیاں چلانا چھوڑے گی، ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ تمام کو ختم کر دے گی۔ کیا ڈاکٹر صاحبؒ نے فوج کے حوالے سے غلط رائے تو نہیں قائم کر لی تھی؟(عبداللہ، مبتدی رفیق بیرون پاکستان)
امیر تنظیم اسلامی:اس ضمن میں کئی امکانات ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر صاحب ؒ نے بھی کیا ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ فوج کے لوگ بھی ہمارے لوگ ہیں ۔ کوئی خداواسطے کی دشمنی نہیں ہے ۔ ہمارا پہلا کام ہے دعوت دینا۔ ہر کسی کو دیں گے چاہے وہ فوج کے لوگ ہوں ، سیاسی ایوانوں میں بیٹھے لوگ ہوں ۔ سب تک ہماری دعوت پہنچنی چاہیے ۔ اُن کو پتہ ہو کہ ہم کس پر گولی چلا رہے ہیں ، ان کومعلوم ہو کہ ہمارے سامنے وہ لوگ کھڑے ہیں جو کسی کے اشارے پر نہیں آئے ، اُن کا مقصد کرسی ،ا قتدار ، پیسہ ، لالچ ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ تب ہو گا جب آپ اپنے قول و فعل اور کردار سے اپنی دعوت اُن تک پہنچائیں گے ۔ دوسرا امکان یہ بھی ہے کہ شہید ہوجائیں ۔ اللہ کی راہ میں انبیاءؑ بھی شہید ہوئے ہیں ، صحابہ؇ بھی شہید ہوئے ہیں ، ہماری کیا حیثیت ہے ۔ اگر ہم منظم ہیں، تربیت یافتہ ہیں، جانیں دینے کو تیار ہیں اور تعداد اتنی ہے کہ حکومت سوچنے پر مجبور ہو جائے ۔ ایران میں 30ہزار لوگوںنے شہادتیں  پیش کیں ، تب بادشاہ کے لیے حکومت کو برقرار رکھنا ممکن ہی نہ رہا۔ ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے ، حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتاہے ۔ شرط یہ ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جانے دینے کے لیے تیار ہوں ۔ کیونکہ شہادت کا رتبہ دنیا و مافہا سے بڑھ کر ہے ۔ اللہ فرماتاہے :{وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّـقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ ط  بَلْ اَحْیَـآئٌ وَّلٰـکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(154)}(البقرۃ) ’’اور مت کہو اُن کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں کہ وہ مردہ ہیں۔(وہ مردہ نہیں ہیں) بلکہ زندہ ہیں‘ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔‘‘ 
شہادت ہماری دائمی کامیابی کا ذریعہ ہوگی ۔    ان شاءاللہ ۔ تیسرا امکان ڈاکٹر صاحبؒ یہ بیان کرتے تھے کہ ہو سکتا ہے پوری تحریک کو کچل دیا جائے، اکثریت شہید ہوجائے۔اس صورت میں بھی ہماری قربانی رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ ان شہادتوں کے طفیل اللہ تعالیٰ مزید لوگوں کو کھڑا کردے گا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بشارت دی ہے کہ اللہ کا دین پوری دنیا پر غالب ہو کر رہے گا ۔ اس سے بڑی کامیابی کیا ہوگی کہ آپ نے اس جدوجہد  میں اپنی زندگی اور جان لگا دی ۔اس کے بدلے میں دائمی زندگی ہماری منتظر ہوگی ۔ ان شاء اللہ 
سوال:  جب دینی جماعتیں دھرنے کے لیے نکلتی ہیں تو ہم ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتے، اتحاد کیوں نہیں کرتے؟(گوجرانوالہ ڈویژن، عبد الرحمٰن ملتزم رفیق)
امیر تنظیم اسلامی:ہم دین کے جامع تصور کی بات کرتے ہیں تو ظاہر ہے اتحادِ اُمّت کی ترجیح ہمارے ہاں سب سے بڑھ کر ہے ۔ اس سال بھی یکم تا22اگست ہم نے اتحاد ِاُمّت کے نام سے ایک ملک گیر مہم چلائی اور تمام دینی جماعتوں کو بھی دعوت دی ۔ مفتی شفیع صاحب ؒ کی کتاب  وحدت اُمت جتنی ہمارے ہاں شائع ہوتی ہے اُتنی دیوبند مکتب  میں بھی نہیں ہوگی ۔ جہاں تک دھرنے میں شرکت کا سوال ہے تو ہم کہتے ہیں کہ مشترکات پر اگر کوئی دھرنا ہوتو ہم لازماً شرکت کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:  {قُلْ یٰٓــاَہْلَ الْکِتٰبِ تَـعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ  م     بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ}(آل عمران :64) ’’(اے نبیﷺ) کہہ دیجیے: اے اہل کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان بالکل برابر ہے‘کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔‘‘ 
مشترکات پر ہم ایک ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ ملی یکجہتی کونسل جو شیعہ سنی فساد روکنے کے لیے قائم کی گئی تھی اس میں ہم بھی شامل ہیں ۔ اس فورم پر جتنے بھی اہل سنت حضرات ہیں ، انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس شمولیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے اپنے عقائد بدل لیے ہیں ۔ عقائد اپنی جگہ پر ہیں لیکن فساد کا راستہ روکنا چونکہ مشترکہ فریضہ ہے اس مقصد کے لیے ہم ساتھ کھڑے ہیں ۔ اسی طرح سود کے خاتمہ کے لیے جو عدالتی جنگ لڑی گئی اُس میں تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی ساتھ ساتھ کھڑے رہے ۔ 2022ء میں 26 رمضان کو جب عدالتی فیصلہ آیا تو پریس کانفرنس میں سراج الحق صاحب کے ساتھ میں بھی موجود تھا ۔ انہوں نے پہلے مجھے گفتگو کی دعوت دی ۔ اسی طرح کچھ کیسز میں ہم جمعیت علماء اسلام کے ساتھ بھی کھڑے رہے ۔ قرآن میں اللہ فرماتاہے : 
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص} (آل عمران:103)’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ 
قرآن ہی اللہ کی رسی ہے جو اُمت کو جوڑنے والی ہے ۔ تنظیم اسلامی اسی قرآن کی دعوت کو عام کر رہی ہے ۔ اسی طرح اقامت دین کی جدوجہد اُمت کو جوڑنے والی ہے اور یہی تنظیم اسلامی کا مشن ہے ۔ کسی منکر کے خلاف دھرنا ہو ، اقامت دین کی جدوجہد کے لیے دھرنا ہوتو ہم شرکت کریں گے لیکن اس وقت معروف معنوں میں جو دھرنے ہو رہے ہیں وہ ان مقاصد کے لیے ہرگز نہیں ہیں ۔  سیاست ، اقتدار ، کرسی ، پارٹی کے مفاد کے لیے تو دھرنے ہو رہے ہیں لیکن اللہ کے دین کے لیے نہیں ہورہے ۔ 
سوال:  اس وقت الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا حکومت کے کنٹرول میںہیں اور ان کے ذریعے حکومت آسانی سے رائے عامہ ہموار کر سکتی ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کرنے والے دہشت گرد ہیں تو اس صورت میں دعوت کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے ؟(فیضان حسن ملتزم رفیق لاہور)
امیر تنظیم اسلامی:اگرمیں اور آپ اللہ کے لیے کام کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود راستے کھول دے گا ۔ اخلاص کو نہ بھولیں۔ سابق امیر تنظیم اسلامی اسی وجہ سے سب سے پہلے اللہ کے ساتھ تعلق پر زور دیتے تھے ۔  مولانا زاہد الراشدی صاحب بڑے دانشور عالم ہیں ۔ فرماتے ہیں یہ ساری جنگ اللہ کے لیے ہے ۔ اسی لیے تو اللہ فرماتاہے : 
{کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللہِ}(الصف:14)’’اے اہل ِایمان! تم اللہ کے مددگار بن جائو۔‘‘
جو دستیاب اسباب ہیں ان کو استعمال میں لاتے ہوئے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے استعمال کر و ، باقی سب کچھ اللہ پر چھوڑ دو ۔  جو اللہ کے دشمن ہیں ان سے نمٹنے کے لیے اللہ کافی ہے ۔ وہ تمہارے خلاف جو بھی پروپیگنڈا کریں ، تمہیں دہشت گرد قراردیں ، تمہیں شہید کردیں ، یہ تمہارے لیے سعادت  کی بات ہوگی جبکہ مخالف کی بدبختی کی علامت ہوگی ۔ اللہ فرماتاہے :((اَللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ))(صحیح مسلم)’’اے اللہ! جو تودے اس کا کوئی روکنے والا نہیں، اور جو تو روکے اس کا کوئی دینے والا نہیں، اور کسی مالدار کو تیرے عذاب سے اس کی مالداری نہیں بچاسکتی۔‘‘
اللہ کے اختیار کے مقابلے میں کسی کا اختیار کام آنے والا نہیں ۔ آپ اپنے الفاظ سے زیادہ اپنے عمل اور کردار سے دین کی دعوت پیش کریں ، شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے اور تنظیمی مزاج اور وقار کا خیال رکھتے ہوئے ہم سوشل میڈیا کو بھی استعمال کریںاور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں ۔ پاکستان میں ابھی بھی غنیمت ہے کہ ہم یہاں دین کی دعوت کھل کر پیش کر سکتے ہیں ، ملائیشیا میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بادشاہت کے متعلق ددالفاظ کہے ، انہیںچپ کرادیا گیا ۔ ہمیں ان مواقع سے فائدہ اُٹھانا چاہیے ۔ اگر ہماری دعوت کا انداز معیاری ہوگا تو ضرور اثر کرے گا ۔ کراچی میں ایک مرتبہ سود کے خلاف تنظیم اسلامی کا مظاہرہ ہورہا تھا ، سڑک کی دونوں جانب پلے کارڈز اُٹھائے رفقاء کھڑے تھے اور ٹریفک رواں دواں تھی ، مسافروں  کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔ ایک انگریز خاتون اُدھر سے گزری اُس نے یہ منظر دیکھا اور سوشل میڈیا پر شیئر کیا اورساتھ لکھا کہ یہ احتجاج کا کس قدر مثالی اور متاثر کن انداز ہے ۔ اسی طرح کئی مرتبہ پولیس آفسران نے کہا کہ آپ لوگوں کا انداز بہت بہترین ہے جس سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے 1985ء سے یہ طے کر دیا ہے ہماری تنظیم کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہوگا نہ ہی اسلحہ کی تربیت دی جائے گی ۔ یہ چیز ہمارے ڈاکومنٹس میں موجود ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنے دعوت عمل کو مثالی بنائیں گے تو ان شاء اللہ نتائج بھی اچھے آئیں گے ۔
سوال:آج کل سوشل میڈیا پر علماء کرام اور مفتیان کرام ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آتے ہیں  جس کی وجہ سے ملک میں انتشار پھیل رہا ہے اور لوگ دین سے دور ہورہے ہیں ۔ علماء اور مفتیان کرام کو کیسے سمجھایا جائے کہ اس طرح دین کا نقصان نہ کریں ؟(محمد عبداللہ ملتزم رفیق کراچی وسطی) 
امیر تنظیم اسلامی:  اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ جہنم میں لے جانے والی چیز زبان ہے ۔ آج کے دور میں اس سے مراد تحریر و تقریر لی جا سکتی ہے ۔ اگر تقویٰ نہ ہو تو پھسلنے کے جتنے مواقع آج ہیں پہلے کبھی نہ تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے ، ایک تو ریٹنگ بڑھانے کے لیے ، پیسے کمانے کے لیے ، ویوز بڑھانے کے لیے ایسی متنازعہ چیزیں جان بوجھ کر بھی کی جاتی ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ  نے فرمایا : ہر اُمت کا کوئی نہ کوئی فتنہ تھا میری اُمت کا فتنہ مال ہے ۔ شاہ ولی اللہؒ اور امام غزالی کا قول ہے اور دیگر بھی کئی اسلاف نے فرمایا کہ مسلک ترجیح کے لیے ہے ، تبلیغ صرف دین کی ہونی چاہیے ۔ یعنی اختلافی مسائل کو چھیڑنے کی بجائے آپ دین کی طرف لوگوں کو بلائیں ، نماز کی فضیلت بیان کریں ، نماز چھوڑنے کی جو وعید بیان ہوئی ہے اس کا ذکر کریں ،اس بحث کو ہی چھوڑ دیں کہ ہاتھ اوپر باندھنے ہیں یا نیچے ۔ اہم مسلک نہیں بلکہ دین ہے۔ مشترکات کی بات کریں ، اختلافات کو نہ چھیڑیں ۔ تفرقہ بازی سے دین کو نقصان پہنچتا ہے ۔ بعض علماء نے خود بیان کیا کہ آج جبکہ اُمت مغلوب ہے ہم کیوں اختلافات اور انتشار کو ہوا دے رہے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو بھی احتیاط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جزاکم اللہ خیرا کثیر۔