(اداریہ) ترامیم نفاذِ اِسلام کے لیے کیوں نہیں؟؟ - رضا ء الحق

8 /

اداریہ


رضاء الحق


ترامیم نفاذِ اِسلام کے لیے کیوں نہیں؟؟


حال ہی میں دستورِپاکستان میںمنظور ہونے والی ستائیسویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 243 میں ترمیم کی گئی ہے جو فوجی کمانڈ اسٹرکچر سے متعلق ہے جس میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (CJCSC) کا عہدہ ختم کرنے اور آرمی چیف کو نئے اختیارات دینے کی بات ہے۔
فیلڈ مارشل، ایئر فورس مارشل یا ایڈمرل آف دی فلیٹ جیسے سینئر فوجی عہدوں کو لائف ٹائم درجہ دینے کی شق ہے۔ صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان مالیاتی اور انتظامی اختیارات کا جائزہ لیا جائے گا اور کچھ معاملات صوبوں سے وفاق کو منتقل کیے گئےہیں۔ پارلیمان یا کم از کم کابینہ کا سائز تبدیل کرنے کی تجویز ہے۔ چھوٹے صوبوں میں کابینہ ممبران کی تعداد بڑھانے کی شق ہے۔ مقدمات کے فیصلے اور عدالتوں کو نئے طریقے سے منظم کرنے کی تجویز ہے، اور بعض آرٹیکلز میں سپریم کورٹ کے اختیارات کم کرکے نئی وفاقی آئینی عدالت کو کچھ ذمہ داریاں دینے کی بات کی گئی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ صدر مملکت کو تاحیات استثنیٰ دیا گیا ہے۔
دستور پاکستان میں ترامیم کا جائزہ لینا تنگی دامان قرطاس کے باعث یہاں ممکن نہیں ہے،تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ تمام ترامیم انتظامی حوالے سے اور وسیع تر عوامی مفاد میں کی گئی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ’’ یہ وسیع تر عوامی مفاد‘‘ چند افراد کے گرد ہی محدود ہے ۔
دستورپاکستان میں جب 9ویں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا جس کا مقصد اسلامی شریعت کو سپریم قانون کے طور پر آئین میں شامل کرنا تھا۔اِس میںآرٹیکل 2 میں’’اسلام کے احکامات جیسا کہ قرآن و سنت ہیں ، قانون سازی اور پالیسی سازی کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہوں گے‘‘ کی شق ڈالنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن یہ ترمیم نا مکمل رہی کیونکہ یہ ترمیم سینیٹ میں منظور تو ہوئی مگر قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی وجہ سے بل واپس ہو گیا ۔پھر پندرہویں ترمیم میں یہ تجویز تھی کہ قرآن و سنت کو سپریم قانون بنایا جائے۔شریعت کو آئین میں مرکزی حیثیت دے دی جائے مگر یہ بل کبھی مکمل طور پر پاس نہ ہوا اور آج تک پاکستان اِن ترامیم کی راہ تک رہا ہے۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ دستورپاکستان میں مختلف اوقات میں ترامیم تو کی جاتی رہی ہیں مگر پھر بھی یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے ۔ ہمیں اس دعویٰ پر اعتراض نہیں ہے کیونکہ دعویٰ تو کچھ بھی کیا جاسکتا ، مگر دُکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ دستور میں درج ہر وہ کام یا حق جو ایک عام آدمی کو ملنا چاہئے صرف اُسی کی راہ میں مشکلات حائل ہوتی ہیں، صرف اُنہی شقوں پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں جو پاکستان کی عوام کو ایک قوم بننے میں مدگار ثابت ہو سکتی ہیں یا ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کی طرف لے کر جاتی ہوں ۔اِس حوالے سے عوام کے مفاد یا اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جو چند کوششیں کی گئیں صرف وہی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں، ورنہ دستور میں آج تک ترامیم کی تمام کوششیں بخوبی انجام پائی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طاقتور اور حکمران طبقہ اپنے حقوق بھی حاصل کر لیتا ہے اور تمام تر مراعات بھی وصول کر لیتا ہے جبکہ غریب اور مجبور طبقے کو خواری اور مشقت کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔
دستور پاکستان کی تازہ ترین صورت کے مطابق اب حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ کہیںبھی پاکستانی قانون کے تحت کسی کو جوابدہ نہیں ہیں ۔پاکستان سے باہر جا کر وہ ہوائی اڈے پر قطار میں بھی کھڑے ہوں گے اورٹیکسی یا میٹرو کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑے بھی نظر آئیں گے ،نہیں نظر آئیں گے تو پاکستان کے اندر قانون کے کٹہرے میں نظر نہیں آئیں گے۔ دستور میں قانون سے بالاتر ہونے کے حوالے سے شق شامل کرنے والے شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جو کچھ ہے ،اِسی دنیا میں ہے ، اُنہیں آخرت کے حساب کا شاید احساس نہیں ہے یا وہ اُس کو بھلا بیٹھے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے ۔ ہر چھوٹا بڑا اللہ کے حضور روزِ محشر جواب دہ ہوگا۔
بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور اُس قبیلے نے چاہا کہ اُس عورت کو سزا نہ ملے کیونکہ وہ بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اُنہوں نے سفارش کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بھیجا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے سفارش کریں تاکہ اُس عورت کی سزا معاف ہو جائے۔جب حضرت اسامہؓ نے سفارش کی تو نبی کریم ﷺ شدید ناراض ہوئے اور فرمایا؛’’کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ پھر آپ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا؛’’تم سے پہلی قومیں اِسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ جب اُن میں کوئی امیر شخص چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب چوری کرتا تو اُسے سزا دیتے ۔ خدا کی قسم! اگر (بالفرض محال) محمد ﷺکی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے، تو میں اُس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے اپنی سب سے محبوب بیٹی فاطمہؓ کا حوالہ یقیناًاِس لیے دیا تاکہ اُمّت پر عدل کی اہمیت ہمیشہ کے لیے واضح ہو جائے ۔ قانون سب کے لیے برابر ہے۔رشتہ، خاندان یا مقام کے باعث کوئی شخص سزا سے نہیں بچ سکتا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانون سے استثنیٰ نہ پہلے ہونا چاہئے تھا نہ اب اور نہ مستقبل میں۔یہاں یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہئے کہ دستور میں یہ شق ڈالنے والے عدل کی مخالفت اور ناانصافی پیدا کرنے کے محرک ہونے کے مجرم ہیں ،اُنہیں اِس قانون سے قطعاً کوئی رعایت ملنے والی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے دستور میں تبدیلی کے لئے ووٹ دینے والے بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں بل کو پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا ہوتا یا پھر وہ بل کو پڑھنے کے قابل ہی نہیں ہوتے ۔ایسے میں گزارش ہے کہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے دستور پاکستان میں سے قانونی استثنیٰ والی شق نکلوائیں ورنہ یہاں کا مال تو یہاں ہی رہ جائے گاوہ آگے کچھ بھی نہ لے جاسکیں گے خصوصاً جو اِس حوالے سے وہ جمع کرچکے ہیں۔ یومِ حساب تو آکر رہے گا!