الہدیٰ
قرآن میں بعث بعد الموت کی عقلی دلیل
آیت 27 {وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ ط} ’’اور وہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے مخلوق کو پھر اُسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا اور وہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔‘‘
یہ بعث بعد الموت کے بارے میں عقلی دلیل ہے جو قرآن میں متعدد بار دہرائی گئی ہے۔معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی اس دلیل کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی کام کا پہلی مرتبہ کرنا دوسری مرتبہ کرنے کے مقابلے میںنسبتاً مشکل ہوتا ہے ‘اور جب کسی کام کو ایک مرتبہ سر انجام دے دیا جائے اور اس سے متعلق تمام مشکلات کا حل ڈھونڈ لیا جائے تو اسی کام کو دوسری مرتبہ کرنا نسبتاً بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اہل ِعرب جو قرآن کے مخاطب اول تھے‘ وہ اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ تسلیم کرتے تھے کہ اُن کا خالق اور اس پوری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے۔ ان کے اس عقیدے کا ذکر قرآن میں بہت تکرار سے ملتا ہے۔ مثلاً:{وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط} (لقمٰن:25)’’ اور اگر آپ ؐاُن سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے!‘‘ چنانچہ آیت زیر ِمطالعہ میں اُن لوگوں کو خالص منطقی اور عقلی سطح پر یہ نکتہ سمجھانا مقصود ہے کہ جس اللہ کے بارے میں تم مانتے ہو کہ وہ زمین وآسمان کا خالق ہے اور خود تمہارا بھی خالق ہے، اُس کے بارے میں تمہارے لیے یہ ماننا کیوں مشکل ہو رہا ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرے گا؟ جس اللہ نے تمہیں پہلی مرتبہ پیداکیاہے وہ آخر دوسری مرتبہ ایسا کیوں نہیں کر سکے گا؟ جبکہ کسی بھی چیز کو دوسری مرتبہ بنانا پہلے کی نسبت کہیں آسان ہوتا ہے۔
{وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(27)} ’’اور اُس کی شان بہت بلند ہے آسمانوں اور زمین میں ‘اور وہ بہت زبردست ہے ‘کمال حکمت والا۔‘‘
یہاں پر اللہ تعالیٰ کے لیے ’’مثل‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن مثل یا مثال کا جو مفہوم ہمارے ذہنوں میں ہے اُس کا اللہ کے بارے میں تصور کرنا مناسب اور موزوں نہیں ۔ اس لیے بہتر ہے کہ ’’مثل‘‘ کا ترجمہ ’’شان‘‘ یا ’’صفت‘‘ سے کیا جائے کہ اس کی شان بہت اعلیٰ اور بلند ہے یا اُس کی صفت سب سے برتر ہے۔
درس حدیث
قرآن کا ورد ہمیشہ رکھو
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : ((تَعَاھَدُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ فَوَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَھُوَ اَشَدُّ تَفَلُّتًا مِّنَ الْاِبِلِ فِیْ عُقُلِھَا)) (متفق علیہ)
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اس قرآن کی نگرانی رکھو (ہر وقت پڑھتے پڑھاتے رہو) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ یہ (قرآن) بندھے ہوئے اونٹ کے نکل بھاگنے سے بھی جلدی سینوں سے نکل جاتا ہے۔‘‘
تشریح: تلاوت قرآن سے ہمارے دلوں پر اللہ کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے۔ دل کو سکون و طمانیت ملتی ہے۔ صفائی قلب حاصل ہوتی ہے۔ پراگندہ خیالات دل سے دور ہوتے ہیں۔ خوش دلی، جمعیت خاطر اور شرح صدر نیز ذوق حضوری پیدا ہوکر دلی فرحت و انبساط حاصل ہوتا ہے اور نزول سکینت کبھی بادل کی شکل میں محسوس ہوتی ہے۔اگر قرآن حکیم کی تلاوت پڑھنا پڑھانا چھوڑدیا جائے، تو یہ بہت جلد بھول بھی جاتا ہے۔ ایک آدمی نے جتنا بھی قرآن یاد کیا ہے، اُسے چاہیے کہ اُس کو دہراتا رہے، تاکہ قرآن ازبر رہے اور بھولنے نہ پائے۔