تاریخ ِتحریک ِ پاکستان اور سیکولر یلغار
رفیق چودھری
نظریۂ پاکستان ایک ایسی زمینی حقیقت ہے جس کو دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا محقق یا سکالربھی رد نہیں کرسکتا تھا۔ لاکھوں مسلمانوں نے اِس نظریہ کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑے ، اپنی جانیں قربان کیں اور کشت و خون کا طویل سمندر پار کرکے پاکستان کی دہلیز پر قدم رکھا گیا ۔ اِس قدر عظیم اور بے مثال قربانیاں کسی شوق ، دنیوی لالچ یا نسلی ، لسانی ، جغرافیائی مفاد کے لیے ہرگز نہ دی گئی تھیںبلکہ ہر قسم کی نسلی ، لسانی ، ثقافتی اور جغرافیائی تفاوت سے بالا تر ہو کر صرف مسلم قومیت کی بنیاد پر دی گئی تھیں کیونکہ ہندوؤں اور انگریزوں کا گٹھ جوڑ اور اس کے نتیجہ میں بڑھتے ہوئے ہندو مسلم فسادات اور تنازعات مسلمانوں کو شدت کے ساتھ یہ احساس دلا رہے تھے کہ بحیثیت مسلمان اب ان کی شناخت اور ان کا مستقبل علیحدہ وطن حاصل کیے بغیر ممکن نہ رہے گا ۔ یہی وہ زمینی حقیقت تھی جو نظریۂ پاکستان کے قلعہ کو ناقابل تسخیر بناتی تھی مگر آج پاکستان کا سیکولر طبقہ اِس قلعہ کی دیواروں کو گرانے کے لیے اور مغرب کے سیکولر ایجنڈے کو پاکستانی معاشرے پر مسلط کرنے کے لیے ایک نیا بیانیہ بڑے زور و شور کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے کہ پاکستان کسی مذہب کے نام پر نہیں بلکہ صرف سیاسی اور معاشی مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اور اپنے اس بیانیہ کو سچا ثابت کرنے کے لیے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
اس قلابازی کا ایک پہلو تو مغربی معاشرتی نظام کا نفاذ ہے جوہر صورت اسلامی بیانیہ کی نفی چاہتا ہے اور قومی معاشی مجبوریاں نظریۂ پاکستان پر سمجھوتہ کرنے پر اشرافیہ کو اُکساتی ہیں ۔ تاہم آج مغرب کا سیکولر ایجنڈا نظریۂ پاکستان کی مضبوط دیواروں میں نقب لگانے میں اگر کامیاب ہو رہا ہے اور اس کے مقابلے میںنظریہ کے دفاع میں کوشاں طبقہ اپنا اثر اور یقین کھورہا ہے تو اِس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخ ِتحریکِ پاکستان کے اہم ترین ابواب کو اس کے حامی طبقہ نے خود تاریخ کے صفحات سے نکال کر سیکولر طبقہ کا کام آسان کر دیا ہے۔ اِس مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ نظریۂ پاکستان کے دفاع میں کوشاں طبقہ کی جانب سے کیا کیا غلطیاں دہرائی جارہی ہیں جس کی وجہ سے سیکولر بیانیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ علمِ تاریخ کے اپنے اصول ہیں ۔جب کوئی قوم علمِ تاریخ کے بنیادی اصولوں کو پاؤںتلے روندتے ہوئے محض سیاسی، جماعتی ،نسلی یا گروہی مفادات کے تحت پسند و ناپسند کی بنیاد پر اپنی تاریخ مرتب کرنا شروع کردے تو ایک وقت آئے گا کہ اہل علم کے نزدیک وہ تاریخ مشکوک ہو جائے گی ۔کچھ ایسا ہی حشر تاریخِ تحریکِ پاکستان کے ساتھ مخصوص اشرافیہ نے بھی کیا ہے اور پاکستانی عوام توجیسا کہ ہر معاملے میں اشرافیہ کے رحم و کرم پر ہی رہے ہیں لہٰذا تاریخِ تحریک ِ پاکستان کے معاملے میں بھی اشرافیہ کے بہکاوے میں آکر بہکنے میں دیر نہیں لگی اور صرف اِسی بیانیہ کو تاریخ پاکستان سمجھا جس کا تعلق صرف مسلم لیگ سے تھا یا قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہونے والی جاگیردار اور سرمایہ دار اشرافیہ کےبیانیہ سے تھا ۔
پاکستان اکیلے مسلم لیگ کی کاوش نہ تھی ، اس میں دیگر بہت سی جماعتوں ، شخصیات اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی قربانیاں بھی شامل تھیں۔اِس میں اُن بہاری مسلمانوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں جو پاکستان کی خاطر آج تک بے گھر ہیں ، اِس میں ہجرت کے دوران شہید اور بے گھر ہونے والے کروڑوں مسلمانوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں ۔ صرف جموں میں ایک دن میں اڑھائی لاکھ کے قریب مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ لیکن جب تاریخ ِ پاکستان پر صرف ایک جماعت یا مخصوص گروہ کی تختی لگانے کے لیے حقائق کو مسخ کیا جائے گا تو پھر نظریۂ پاکستان کی بنیادیں خود بخود کمزور ہو جائیں گی۔ جب بنیاد ہی کھوکھلی ہوگی تو اس پر جو عمارت بنے گی، وہ مخالف آندھیوں کا سامناکیسے کر پائے گی؟
آج مطالعہ پاکستان میں جب تحریک پاکستان کا ذکر کیا جاتاہے تو بات 1940ء کی قرارداد سے شروع کی جاتی ہے ۔ حالانکہ یہ غلطی کرکے ہم سیکولرز کو خود موقع دیتے ہیں کہ وہ نظریۂ پاکستان کے بخیے اُدھیڑیں کیونکہ جب آپ ایسا کرتے ہیں توآپ تاریخ تحریک ِپاکستان کے اَن گنت تاریخی ابواب کو خود بخود مٹا دیتے ہیں جو نظریۂ پاکستان کی اصل بنیاد تھے اور جن کاایک تاریخی پس منظر بھی تھا جس میںدو قومی نظریہ پروان چڑھا ، علیحدہ مسلم ریاست کی ضرورت محسوس کی گئی اور پھر تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔
مثال کے طور پر جنگ ِآزادی1857ء کے بعد بڑھتے ہوئے ہندومسلم تنازعات اور فساد ات کے تناظر میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ مستقبل میں یہ دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکیں گی اور اگر رہیں تو جمہوریت کی بنیاد پر ہندو غالب اور مسلمان کمزور ہو جائیں گے اور مسلمانوں کے حقوق اور مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے ۔ اس لیے سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو کانگریس میں جانے سے روکا۔ لہٰذا دوقومی نظریہ کے پیش رو سرسید احمد خان تھے۔اگرچہ دینی اعتبار اور اپنے دیگرنظریات کی بنیاد پر سرسید احمد خان کی شخصیت انتہائی متنازعہ تھی۔ پھر ہندو مسلم فسادات اور تنازعات بڑھتے ہوئے پہلی جنگ عظیم تک اِس بات کے واضح الارم بن چکے تھے کہ انگریز کی پشت پناہی میں ہندو،مسلمانوں کا اُسی طرح قتل عام کریں گے جس طرح سپین میں عیسائیوں نے کیا تھا۔ ہندو انتہا پسند جتھوں اور تنظیموں کی بنیادیں بھی رکھی جارہی تھیں۔ اِسی خطرے کو بھانپتے ہوئے چودھری رحمت علی نے 1915ء میں بزم شبلی میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا ۔ جنگ عظیم اول کے صرف چند سال بعد ہی راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) جیسی ہندودہشت گرد تنظیموں کو باقاعدہ عسکری تربیت دی جانے لگی اور ان کا مسلم کش ایجنڈا بھی سامنے آنے لگا جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ چودھری رحمت علی کے خدشات بالکل درست تھے۔ بزم شبلی ایک زندہ حقیقت ہےجس کو تاریخی لحاظ سے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے اور اس میں چودھری رحمت علی نے الگ مسلم ریاست کے لیے جو جواز پیش کیا وہ بھی نظریۂ پاکستان کے عین مطابق تھا ۔ اُنہوں نے فرمایا تھا :
’’ شمالی ہند آبادی کے لحاظ سے مسلم ہے اور ہم اسے مسلم ہی برقرار رکھیں گے ، یہی نہیں بلکہ ہم اسے مسلم ریاست بنائیں گے لیکن ہم ایسا تبھی کر سکتے ہیں جبکہ ہم خود اور ہمارا شمالی ہند’’ہندوستانی‘‘ نہ رہیں ۔ کیونکہ یہ پہلی شرط ہے ۔ ہم جس قدر جلد’’ہندیت‘‘ اُتار پھینکیں گے اُسی قدر یہ ہمارے لیے اور اسلام کے لیے بہتر ہوگا۔ ‘‘ (تحریک پاکستان: ص 328)
اگر تصورِ پاکستان کا یہ تاریخی اور حقیقی پہلو بھی ہمارے نصاب اور مروجہ تاریخ میں پڑھایا جاتا تو سیکولرز کو کبھی اعتراض کا موقع نہ ملتا کیونکہ اس کا باقاعدہ ایک تاریخی پس منظر بھی تھا کیونکہ برٹش بنیا گٹھ جوڑ RSSکا مسلم کش ایجنڈا تخلیق کر چکے تھے اور ان حالات میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور اُبھرنا ناگزیر تھا ۔ اس کے بعد1930ء تک کئی لوگوں نے انتظامی اور مذہبی بنیادوں پر ہندوستان کی تقسیم کی تجاویز پیش کیں اور اسی سلسلہ میں علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کی بھی تاریخی اہمیت ہے ۔ اس کا ذکر تو ہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے لیکن اس کے فوراً بعد جو اہم ترین تاریخی واقعات رونما ہوتے ہیں اور حقیقی معنوں میں تحریک پاکستان کی بنیاد بنتے ہیں، ان کو ہم پھر چھوڑ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخِ تحریکِ پاکستان کے اہم ترین سنگ ہائے میل پاکستان ڈکلیریشن اور تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب لندن میں گول میز کانفرنسز (نومبر 1930ء تا دسمبر 1932)ہورہی تھیں اور ان میں انڈین فیڈریشن کے لیے متفقہ آئین کی تیاری پر تبادلہ خیال ہورہا تھا۔لیکن چودھری رحمت علی کے نزدیک متحدہ وفاق کےفارمولے کو قبول کرلینا سپین کی طرح مسلمانوں کے خاتمے کو قبول کرنے کے مترادف تھا ۔ چودھری رحمت علی نے گول میز کانفرنسزکے دوران مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور انہیں انڈین فیڈریشن کو مسترد کرنے اور الگ مسلم ریاست کا مطالبہ کرنے پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ حسین زبیری تحریر کرتے ہیں کہ : ’’چودھری صاحب نے گول میز کانفرنسز کے دوران مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور اُن پر یہ بات واضح کی کہ انڈین فیڈریشن کو قبول کر لینے سے مسلمانوں کی انفرادیت ختم ہو جائے گی اور آپ اللہ اور رسول ﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے لہٰذا انڈین فیڈریشن کو مسترد کرکے شمال مغربی وطن کے لیے ایک الگ وفاق کا مطالبہ کریں ۔لیکن مسلم لیگ کا موقف انڈین فیڈریشن کے حق میں رہا ۔ لہٰذا 28 جنوری 1933ء کو چودھری رحمت علی نے خود آگے بڑھ کر پاکستان ڈکلیئریشن(Now or Never) پیش کر دیا جس میں نہ صرف پاکستان کا نقشہ اور نام موجود تھا بلکہ مطالبۂ پاکستان کا بڑا مدلل اور دو ٹوک جواز بھی پیش کیا گیاتھا جو نظریہ ٔپاکستان کی اسلامی تعبیر کے عین مطابق تھا کیونکہ پاکستان ڈکلیریشن (Now or Never) میں انڈین فیڈریشن (اکھنڈ بھارت ) کی تجویز کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے دنیا کو باور کرایا گیا کہ انڈین فیڈریشن کو قبول کرنا ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے پر دستخط کے مترادف ہوگا:
"This acceptness amounts to nothing less than signing the death-warrant of Islam and of Muslims in India."
پاکستان ڈکلیریشن کے یہ الفاظ نظریۂ پاکستان کے خلاف سیکولر یلغار کا منہ توڑ جواب تھے ۔ اگر تاریخِ تحریکِ پاکستان کے اِس اہم ترین باب کو تاریخ سے نہ نکالا گیا ہوتا تو آج سیکولرز کو موقع ہی نہ ملتا کہ وہ تصور پاکستان کی کوئی خود ساختہ تعبیر کریں کیونکہ پاکستان ڈکلیریشن ایک زندہ اور تاریخی حقیقت ہے جس کو دنیا کا کوئی بھی شخص رد نہیں کر سکتا اور نہ کوئی بڑے سے بڑا مورخ ٹھکرا سکتا ہے کیونکہ پاکستان ڈکلیریشن Now or Never اپنی اصل حالت میں نہ صرف برطانوی اور انڈین آرکائیوز میں موجود ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے سفارتخانوں اور صحافیوں کے ریکارڈ میں بھی موجود ہے ۔
1933ء میں چودھری رحمت علی نے پاکستان ڈکلیریشن پیش کیا اور اُسی سال اُنہوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز بھی کردیا ۔ اپنی محنت ، کوشش اور جدوجہد سے انہوں نے تحریکِ پاکستان کو سفارتی محاذوں پر اِس قدر اُجاگر کیا کہ خود برطانوی پارلیمنٹ کی جوائنٹ پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی نے اگست 1933ء میں چودھری رحمت علی کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستانی وفد کے مسلم اراکین سے باقاعدہ سوالات کیے اور خود مسلم لیگی زعماء (ظفر اللہ خان ، عبداللہ یوسف علی اور خلیفہ شجاع الدین وغیرہ) نےجواباً تحریک پاکستان سے لا تعلقی کا اظہا ر کیا ۔ یہ ریکارڈ بھی برطانوی پارلیمنٹ میں موجود ہےاور اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ تحریک پاکستان 1940 ء سے پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنا چکی تھی۔
مشہور ترک ادیبہ خالدہ خانم کی مشہور کتاب Inside India" "پیرس میں 1937ء میں شائع ہوئی ۔ اِس کتاب کاایک پورا باب چودھری رحمت علی کےمتعلق ہے۔ لکھاہے: ’’پاکستان نیشنل موومنٹ کا منصوبہ فرقہ واریت سے الگ بات ہے۔ تحریک کے مطابق ہندوستان موجودہ حالت میں ایک ملک نہیں بلکہ برصغیر ہے جو دو ملکوں ہندوستان اور پاکستان پر مشتمل ہے۔ تحریک کا بانی چودھری رحمت علی کو قرار دیا جاتا ہے، وہ قابل ترین قانون دان ہیں لیکن وکالت ترک کر کے اُنہوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت ان کی زندگی کا غالب مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ہے۔ میں نے ملاقات کے دوران یہ محسوس کیا ہے کہ یہ تلخی جو ان کے دل میں ہے، ہندوؤں کی معتصبانہ اور اسلام دشمن ذہنیت سے جوانی میں پیدا ہو گئی تھی، ہرگز ان کے نظریۂ پاکستان پر اثر انداز نہیں ہوئی اور وہ اس تحریک کی بنیاد ہندو عداوت پر نہیں رکھتے۔‘‘مشہورانڈین مورخ ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنی کتاب ـ"India Divided" انہی دنوں میں لکھی جب ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا ۔ اپنی اس کتاب میں وہ رقم طراز ہیں :’’ جہاں تک مجھے علم ہے چودھری رحمت علی پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی صدر ہیں۔ وہ واحد شخص ہیں جو ہندوستان کی وحدت کو تسلیم کیے جانے کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے مسلمانوں کو ظلم وتشدد میں مبتلا کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔‘‘
1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی اوراس کے بعد کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔جس سے ایک طرف مسلمانوں میں متحدہ وفاق(انڈین فیڈریشن) سے مایوسی پیدا ہوئی اور دوسری طرف چودھری رحمت علی کی پاکستان سکیم جو مسلمانوں کے دلوں میں پہلے ہی جگہ بنا چکی تھی،کانگریسی وزارتوں کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں کے متعصبانہ رویہ کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے مستقبل کی واحد امید بن گئی۔ تیسری طرف مسلم لیگ کے پاس بھی انتخابات میں کامیابی کے لیے مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔ نواب سر محمد یامین خان جو قائداعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے سینیئر رہنما تھے،وہ تاریخ کے اِس اہم موڑ پر مسلم لیگ کے ایک اہم فیصلہ کی گواہی خود اپنی کتاب نامۂ اعمال میں پیش کر تے ہیں :
’’یکم مارچ 1939ء کو ڈاکٹر ضیاء الدین نے مجھے، مسٹر جناح، مسٹر ظفراللہ خان، سید محمد حسین کو الہ آباد بلایا۔ دوپہر کے کھانے پر سید محمد حسین نے چیخ چیخ کر، جیسے ان کی عادت ہے، کہنا شروع کر دیا کہ چودھری رحمت علی کی سکیم کہ پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخوا)، سندھ، بلوچستان کو ملا کر بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کر دئیے جائیں۔ ان سے پاکستان اس طرح بنتا ہے کہ پ سے پنجاب، الف سے افغانیہ یعنی صوبہ سرحد، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان بلوچستان کا اخیر ہے۔ چونکہ سید محمد حسین زور زور سے بول رہے تھے، اس لیے مسٹرظفر اللہ خان نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ اس شخص کا حلق بڑا ہے مگر دماغ چھوٹا ہے۔ مسٹر ظفر اللہ خان ان کی مخالفت کر رہے تھے کہ یہ ناقابل عمل ہے، مسٹر جناح دونوں کے دلائل غور سے سنتے رہے اور پھر مجھ سے بولے کہ کیوں نہ ہم اس کو اپنا لیں اور اس کو مسلم لیگ کا نعرہ بنا لیں۔ ابھی تک ہماری عوام میں کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے۔ اگر ہم اس کو اُٹھائیں تو ہماری کانگریس سے مصالحت ہو سکے گی ورنہ وہ نہیں مانیں گے۔ ‘‘
اس اہم میٹنگ نے مسلم لیگ کے آئندہ سالانہ اجلاس مارچ 1940ء کے خدو خال پہلے سے طے کر دئیے تھے ۔ چنانچہ23 مارچ 1940 ء کو قرارداد لاہور منظور ہوئی، اگر چہ اس مبہم قرارداد میں پاکستان کا لفظ بھی شامل نہیں تھا لیکن اِس کے باوجودمیڈیا میں قرارداد پاکستان کے نام سے شہرت پاگئی۔ 1944ء تک پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ کا نعرہ مسلمانانِ ہند کا مقبول نعرہ بن گیا ۔ اِس طرح 1946ء میں مسلم لیگ نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن گئی اور قائداعظم کی قیادت میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
ہماری سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ہم نے تحریک پاکستان کا آغاز 1940ء بتایا ۔ اس بڑی غلطی کی وجہ سے تحریکِ پاکستان کا وہ سارا تاریخی پس منظر اوجھل ہوگیا جس میں پاکستان ڈکلیریشن پیش ہوا تھا اور گول میز کانفرنسز کے متحدہ وفاق اور انڈین فیڈریشن کے ایجنڈے کے مقابلے میں مطالبۂ پاکستان کی توانا آوازNow or Neverکی صورت میں اُبھری تھی، جس میں متحدہ وفاق کی قبولیت کو death-warrant of Islam and of Muslims قراردیا گیا تھا اور برطانوی پارلیمنٹری سلیکٹ کمیٹی میں مطالبہ پاکستان پر سوال جواب ہوئے تھے ۔ جب یہ سارا تاریخی پس منظرجس میں تحریکِ پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا اور جو نظریۂ پاکستان کی حقیقی ترجمانی کرتا تھاجان بوجھ کر تاریخ کے صفحات سے اوجھل کر دیاگیا تو باقی جو تاریخِ پاکستان بچی وہ نظریۂ پاکستان کا دفاع کرنے میں ناکافی رہی اور اس ادھوری تاریخ کو متنازعہ بنانے کے لیے سیکولر زکے 11 اگست جیسے حربے بھی موثر ہوگئے ۔ بجائے اس کے اگر تاریخِ تحریکِ پاکستان کو اس کے اصل اور حقیقی ابواب پر قائم رہنے دیا جاتا تو آج سیکولر ذہن کوکسی بھی صورت نظریۂ پاکستان کی عمارت میں نقب لگانے کا موقع ہی نہ ملتا اور نہ ہی 11 اگست کا حربہ موثر ثابت ہو سکتا ۔
تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا نتیجہ یہ بھی ہواکہ آج جب تاریخ کا کوئی طالب علم کھوج لگاتا ہے تووہ خود کنفیوز ہو جاتاہے کہ جو تاریخ ہمیں پڑھائی جارہی ہے وہ تو علم تاریخ کے اصولوں پر پورا ہی نہیں اُترتی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج کا نوجوان جہاں قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے کنفیوز ہے وہاں سیکولر اور اسلام مخالف قوتوں کے ہاتھ بھی یہ موقع آگیا ہے کہ وہ جس قدر چاہیں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کو متنازعہ اور مشکوک بنا ئیں۔دوسری طرف نظریۂ پاکستان کے ماننے والے سیکولر یلغار کا قابل ِقبول جواب دینے میں ناکام ہیں کیونکہ جواب دینے کے لیے اُن کے پاس بھی اب صرف اشرافیہ کی مسخ شدہ تاریخ ہے اور اس مسخ شدہ ادھوری تاریخ کے ذریعے ایسا معقول جواب دیا ہی نہیں جا سکتا جو تاریخ کا علم رکھنے والے طبقات تسلیم کرلیں ۔
لہٰذا جب تک تاریخِ تحریک ِپاکستان کو اس کے اصل اور حقیقی ابواب پر دوبارہ استوار نہ کیا جائے گا، تب تک سیکولر یلغار نظریۂ پاکستان کومشکوک بنانے کا باعث بنتی رہے گی اور نظریۂ پاکستان کے مشکوک بننے کا مطلب ہے کہ پاکستانی قوم نسلی ، لسانی ، علاقائی بنیادوں پر تقسیم ہوتی جائے گی جو کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے شدید خطرے کی علامت ہے ۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر اشرافیہ کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں آئے گا ۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ نظریۂ پاکستان کا حامی طبقہ اپنی تحریر و تقریر میں تاریخِ تحریکِ پاکستان کے اصل اور حقیقی ابواب کو ہی پیش کرے تاکہ نظریۂ پاکستان کو استحکام اور غیر متزلزل طاقت مل سکے اور نظریۂ پاکستان کا استحکام جہاں سیکولر یلغار کا موثر جواب ہوگا وہاں ہماری نسلوں کو بھی غیر متزلزل عزم اور استقامت دے گا، پاکستانی قوم دوبارہ مضبوط نظریہ کی حامل قوم بن پائے گی جو ہر قسم کے بیرونی اور اندرونی فکری انتشار اور فتنوں کا مقابلہ کر سکے گی ۔ان شاء اللہ !