(وعظ و نصیحت) والد گرامی کی وفات پر تنظیمی ساتھیوں اور ذِمّہ داران کی جانب سے اظہار محبت کے حوالے سے تاثرات - نعیم اختر عدنان

10 /
والد گرامی کی وفات پر تنظیمی ساتھیوں اور ذِمّہ داران کی
 
 جانب سے اظہار محبت کے حوالے سے تاثرات
 
نعیم اختر عدنان، ناظم نشر واشاعت ، حلقہ لاہور شرقی
 
19 جنوری بروز اتوار راقم کے والد محترم قضائے الٰہی سے وفات پا گئے۔  {اِنَّا لِلہِ وَاِنَّــآ اِلَـیْہِ رٰجِعُوْنَ}
اِس موقع پر نماز جنازہ اور تدفین کے مراحل میں ناظم اعلیٰ تنظیم اسلامی جناب سید عطاء الرحمن عارف، نائب ناظم اعلیٰ شرقی پاکستان جناب پرویز اقبال، امیر  حلقہ لاہور شرقی جناب نور الوریٰ، معتمد حلقہ جناب سہیل خالد، ناظم مالیات جناب اسد بلال ،ناظم دعوت جناب شہباز احمد شیخ اور مقامی تنظیم گڑھی شاہو کے امیر جناب عدیل آفریدی نے وفد کی صورت میں شرکت فرمائی۔ امیر محترم جناب شجاع الدین شیخ نے فون کال پر کراچی سے تعزیت کے ساتھ ساتھ بہترین اور بابرکت دعاؤں سے نوازا ۔ اگلے روز ناظم تربیت جناب خورشید انجم ، تنظیم کے سینئر رفیق جناب عبد الرزاق  اور شاد باغ تنظیم کے امیر جناب نیر سبحانی تعزیت کے لیے فیروزوالہ تشریف لائے ۔ انجمن خدام القرآن فیصل آباد کے صدر جناب ڈاکٹر عبد السمیع ، نائب امیر جناب اعجاز لطیف ، ناظم بیرون نظم جناب ڈاکٹر غلام مرتضیٰ، بانی محترم کے فرزند ارجمند جناب آصف حمید ، مرکزی ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی جناب رضاء الحق ، صدر تنظیم کے امیر جناب عمران علی،  نائب ناظم نشر و اشاعت جناب وسیم احمد ،قرآن اکیڈمی شعبہ مطبوعات سے جناب   خالد محمود خضر ، شعبہ سمع و بصر سے جناب عبداللہ واحد ،فیروزپور روڈ تنظیم کے رفیق ملتزم جناب قرۃ العین خان، جناب طیب رسول، اسلام آ باد سے جناب جاوید رفیق، سپین سے رفیق تنظیم جناب ندیم بیگ مرزا اور دیگر بہت سے رفقاء واحباب نے ٹیلی فون پر تعزیتی کلمات کہے اور قیمتی دعاؤں سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ اِن سب حضرات کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ ان سطور کے ذریعے راقم، راقم کے بھائی اور دیگر عزیز و اقارب دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تنظیم اسلامی کی اعلیٰ قیادت اور رفقاء کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اِس موقع پر بہترین اسلامی اخلاق وکردار اور باہمی اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں نہایت خلوص اور محبت سے نوازا۔اللہ تعالیٰ ہمیں خوشی اور غم کے مواقع پر اپنے رفقاء و احباب سے اپنے دلی جذبات کے اظہار کا اسی طرح کا مثالی مظاہرہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
والد مرحوم کی نماز جنازہ پڑھانے کی ذمہ داری اگرچہ راقم کے کاندھوں پر تھی مگر راقم کی پُر زور خواہش اور درخواست پر ناظم اعلیٰ تنظیم اسلامی جناب ڈاکٹر سید عطاء الرحمن عارف نے کمال شفقت فرماتے ہوئے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ نمازِ جنازہ سے قبل محترم ناظم اعلیٰ نے مختصر مگر جامع تذکیری گفتگو فرمائی۔ گفتگو کی اہمیت کے پیش نظر اسے ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے ۔ حمد وثناء اور تلاوت آ یات کے بعد فرمایا:
ناظم اعلیٰ تنظیم اسلامی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف کا نماز جنازہ کے شرکاء سے خطاب
 
ہم سب فیروز والہ جناز گاہ میں اس وقت اپنے بزرگ ساتھی کی نماز جنازہ جو درحقیقت دعائے مغفرت ہی کی جامع شکل ہے، ادا کرنے کے لیے موجود ہیں۔ نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کسی مسلمان کی نماز جنازہ پڑھتا ہے تو اُسے بدلے میں ایک قیراط کا اَجر و ثواب ملتا ہے اور اگر وہ لوگ تدفین کے عمل میں بھی شریک ہوتے ہیں تو انہیں دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ قیراط کے بارے میں آپﷺ نے وضاحت فرمائی کہ اِس کی مقدار اُحد پہاڑ کے برابر ہے ۔ہم یہاں ایک حق کو ادا کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ میں نے ابھی جو قرانی آیات تلاوت کی ہیں اِن کے ترجمہ اور مختصر مفہوم کی وضاحت پیش ِنظر ہے، وہ اس لیے کہ اس وقت دلوں کی زمین نرم ہے ،اِس موقع پر لواحقین اور رشتہ دار اور دیگر دوست احباب اور محلے دار بھی موجود ہیں لہٰذا مناسب معلوم ہوا کچھ تذکیری نوعیت کی باتیں کر لی جائیں ۔ارشادِ ربانی ہے :{کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط} ’’ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ آج ہم انہیں اپنے کندھوں پر اُٹھا کر لائے ہیں۔ کل ہمیں اور لوگ اپنے کندھوں پر اُٹھا کر قبرستان لائیں گے۔ یہ حقیقت ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہر شخص کو قیامت کے دن اُس کے اچھے اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا دی جائے گی یہ معاملہ لازما ًپیش آکر رہے گا۔ ہمیں ہمارے اعمال کی اُجرت ملنے والی ہے ۔ قیامت کے دن جو کرنسی چلے گی وہ اعمال کی کرنسی ہوگی، وہاں دنیا میں استعمال ہونے والی کرنسی کام نہیں آئے گی، نہ درہم و دینار کام آ ئیںگے ،نہ روپیہ پیسہ، نہ سونا چاندی اور نہ دیگر دنیوی مال و اسباب کام آئیں گے ۔اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص کے تین دوست ہوتے ہیں۔ پہلا دوست آنکھیں بند ہونے کے بعد ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ دوسرا دوست اُس کا ساتھ، تدفین کے مراحل تک دیتا ہے اور تیسرا دوست اس کا ساتھ آخرت تک نبھاتا ہے ۔صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: اللہ کے رسولﷺ یہ تین دوست کون ہیں؟ تو آپؐ نے وضاحت فرمائی کہ مال و جائیداد مرنے والے کی موت تک ہی اس کے ساتھ رہتے ہیں ۔دوسرا دوست اس کے لواحقین رشتہ دار اور دوست احباب ہیں جو قبر تک اُس کا ساتھ دینے آتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں ،جبکہ اُس کا تیسرا دوست اس کے صالح اعمال ہیں جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعمال کیسے ہونے چاہیے ؟ارشاد فرمایا گیا ’’بے شک تمہیں لازماً تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ جسے روز قیامت جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہ کامیاب و کامران ہو گیا۔ یہ ہے اصل اور حقیقی کامیابی ۔
ہم دنیا میں کامیابی کا تصور رکھتے ہیں کہ ہمارا کیریئر , ہماری اولاد کا کیریئر ، دنیا   کی تعلیم کےحوالے سے کسی شعبے میں نمایاں ڈگری حاصل کر لینا ،دنیا کا کوئی اونچا منصب حاصل کر لینا ،قیمتی جائیداد کا حصول ،کسی بڑے کاروبار میں کامیابی حاصل کر لینا ،قیمتی گاڑی کا حصول ۔یہ سب کچھ عارضی اور فانی ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں دائمی اور لافانی زندگی کی فلاح و کامرانی حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے ۔ارشاد فرمایا :{وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَـآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(185)} (آل عمران)(ترجمہ)’’ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر ایک دھوکے کا سامان‘‘ قرآن مجید نے دنیا کی زندگی کو متاع قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی اصطلاحات کو سمجھنے کے لیے عربی کا علم ضروری ہے ۔ عربی زبان میں متا ع اس زمانے میں ایسے معمولی کپڑے کو کہا جاتا تھا جو ہنڈیا یا کسی اور کھانا پکانے والے برتن کی صفائی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج کی زبان میں اِسے ٹشو پیپر کہا جاتا ہے۔ آج میں اور آپ اس دنیا کے لیے کتنی محنت اور جدوجہد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی بھی سمجھ عطا فرما دے کہ وہ اعمال کون سے ہیں، وہ کیا چیز ہے جو بندے کے ساتھ ہمیشہ رہے گی؟ وہ نیک اعمال ہیں جو اُس کے لیے صدقہ جاریہ بنتے ہیں۔ جیسے کوئی مسجد بنوا دی، کوئی مدرسہ بنوا دیا ،پانی کی سبیل لگوا دی ،سایہ دار درخت لگوا دیا۔ یہ سب چیزیں جب تک باقی رہیں گی، لوگ اُس سے نفع اُٹھاتے رہیں گے، ان سب کا اجر و ثواب مرحوم کو بھی ملتا رہے گا ۔دوسری چیز ہے صالح اولاد فوت شدگان کو اس کی اولاد کے اچھے اور اعمال صالح کا اجر و ثواب برابر ملتا رہے گا۔ ایک حکایت کے مطابق جب جنت میں ایک شخص کے مقام و مرتبہ میں اضافہ کیا جاتا ہے تو وہ فرشتوں سے پوچھے گا کہ مجھے یہ سعادت کیوں کر حاصل ہو رہی ہے؟ فرشتے کہیں گے۔ تمہاری اولاد کے نیک اعمال کی بدولت تمہارے درجات بلند ہو رہے ہیں ۔ ہمارے مرحوم بزرگ کے صاحبزادے نعیم اختر عدنان صاحب جو ہمارے ساتھ موجود ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد میں طویل عرصے سے مصروف عمل ہیں۔ میری دعا ہے ان کی اس ساری دینی کاوش کا اجر و ثواب ان کے والد،والدہ کو بھی ملے اور ان شاءاللہ لازماً ملے گا۔ دیگر بھائیوں کو بھی اور ان کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ دین کے کاموں میں لگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امیرتنظیم اسلامی جناب شجاع الدین شیخ صاحب کی جانب سے خصوصی طور پر اور میری طرف سے بھی نعیم بھائی اور ان کے دیگر بھائیوں کو نصیحت ہے کہ وہ آج کے بعد شعوری طور پر ایسے صالح اعمال کریں جن کا اجر و ثواب بطور خاص ان کے مرحوم والد، والدہ ،دادا پردادا ، نانا ،پرنانا کے لیے توشۂ آخرت بنائے ۔تیسری چیز وہ علم ہے جو کسی نے کسی دوسرے شخص کو دیا، یہ علم بھی صدقہ جاریہ ہے ۔جب تک وہ اس پر عمل کرتا رہے گا ،اس علم نافع کو دوسروں تک پہنچاتا رہے گا، سب سے بہترین اصل علم ،حقیقی علم قران مجید کا علم ہے، جسے سیکھنا سکھانا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ نعیم بھائی دینی کاموں میں خلوص و اخلاص اور شوق و ذوق سے لگے ہوتے ہیں۔ درس قرآن، خطاب جمعہ ،دورہ ترجمہ قرآن، دینی تعلیم و تعلم کی محافل ، درس و تدریس قرآن کے حلقہ جات، اِن سب دینی کاموں کا اجر و ثواب اِن کے والدین کو بھی ملے گا۔ وہ اس لیے کہ یہ والدین ہی کی تربیت کا نتیجہ ہے یہ ان کا حوصلہ ہی تھا کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو دینی تحریک میں لگنے میں تعاون فراہم کیا، کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ۔آج ہم اپنی اولاد کو دنیا میں آگے سے آگے پہنچانے کے لیے کیا کچھ نہیں کر رہے مگر نعیم بھائی ہمارے تحریکی ساتھی ہیں۔ اِنہیں ان کے والدین نے دنیا کی بجائے دین کی سر بلندی اور نظام خلافت کے قیام کی جدوجہد میں شامل رہنے کا موقع فراہم کیا ۔ مجھے اللہ کی جناب سے امید ہے کہ نعیم بھائی ان کے دیگر بھائیوں اور ان کی اولادیں جو بھلائی کے کام کر رہے ہیں، ان تمام کاموں کا اجر و ثواب ان کے مرحوم والدین کو بھی لازماً ملتا رہے گا۔ مجھے اور آپ سب کو بھی یہ نیت اور ارادہ کرنا چاہیے کہ ہم بھی دین اسلام کو سمجھیں ،اس پر عمل کریں اور غلبہ دین کی جدوجہد میں شامل ہوں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اور قرآن کے ساتھ جڑنے کی  توفیق عطا فرمائے ،موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ بالخیر اور ایمان کی حالت پر فرمائے۔ آ مین۔آخری بات یہ ہے کہ آپ حضرات سے بھی درد مندانہ گزارش ہے کہ زندگی میں مرحوم کے کسی عمل اور رویے سے اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو اللہ کی خاطر انہیں معاف کر دیں، اسی طرح اگر کوئی لین دین کا معاملہ ہو تو بھی اُسے اللہ کے لیے معاف کر دیں، وگرنہ اِن کے بیٹوں سے آپ اپنا مالی حق وصول کر سکتے ہیں۔