دنیا دار الامتحان ہے
آیت 1 {الٓمّٓ (1)} ’’الف‘ لام‘ میم۔‘‘
آیت 2 {اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(2)} ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے اور اُنہیں آزمایا نہ جائے گا؟‘‘
زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنا توآسان ہے لیکن ایمان کو برقرار رکھنے کے لیے امتحان و ابتلا کے لیے تیار رہنامشکل کام ہے۔ امتحان و آزمائش سے کھرے کھوٹے کا پتا چلتا ہے۔ جس قدر ایمان مضبوط ہو گا اُسی قدر امتحان سخت ہو گا۔
آیت 3 {وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ} ’’اورہم نے تو اُن کو بھی آزمایا تھا جو اِن سے پہلے تھے‘‘
{فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ(3)} ’’پس اللہ ظاہر کر کے رہے گا اُن کو جو سچّے ہیںاور اُن کو بھی جو جھوٹے ہیں۔‘‘اگرچہ اِن الفاظ کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ ’’اللہ جان کر رہے گا‘‘ لیکن مفہوم دراصل یہ ہے کہ اللہ ظاہر کر دے گا کہ کون منافق ہے اور کون سچّا مؤمن! کون ضعیف الایمان ہے اور کون قویٔ الایمان! یہاں یہ بات بھی لائق ِتوجّہ ہے کہ گزشتہ دو آیات میں اگر خفگی کا اظہار ہے تو اگلی دو آیات میں اہل ِایمان کی دلجوئی کا سامان بھی ہے۔ گویا ترہیب اور ترغیب ساتھ ساتھ ہیں۔
آیت 4 {اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَاط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ(4)} ’’کیا سمجھ رکھا ہے اُن لوگوں نے جوبرائیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں کہ وہ ہماری پکڑ سے بچ کر نکل جائیں گے؟ بہت ہی بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
بربریت کا بازار گرم کرنے والے درندوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ؟کیا ابوجہل اور اُمیہ بن خلف کو خوش فہمی ہے کہ وہ ہماری گرفت سے بچ جائیں گے؟ نہیں‘ ایسا ہر گز نہیں ہو گا! انہیں اس سب کچھ کا حساب دینا ہو گا۔ وہ وقت دور نہیں جب بہت جلد یہ پانسہ پلٹ جائے گا اور اُنہیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ چنانچہ چند ہی سال بعد غزوۂ بدر میں کفر اور ظلم کے بڑے بڑے علم برداروں کا حساب چکا دیا گیا۔ دراصل مکّہ میں بارہ سال تک ایک خاص حکمت ِعملی کے تحت مسلمانوں کو ہاتھ باندھے رکھنے‘ ہر طرح کا ظلم برداشت کرنے اور استطاعت کے باوجود بھی بدلہ نہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ گویا تحریک کے اِس مرحلے میں اُنہیں ظلم سہنے اور سخت سے سخت حالات میں عزم و استقلال کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی تربیت کے عمل سے گزارا جارہا تھا۔یہ حکمت عملی دراصل تحریکی و انقلابی جدّوجُہد کے فلسفے کا ایک اہم اور لازمی اصول ہے۔
درس حدیث
دعوت الی اللہ کی راہ میں شدید مشکلات
عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ ؓ قَالَ قَال رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ((لَقَدْ اُخِفْتُ فِیْ اللّٰہِ وَمَا یُخَافَ اَحَدٌ وَلَقَدْ اُوْذِیْتُ فِیْ اللّٰہِ وَمَا یُوْذٰی اَحَدٌ‘ وَلَقَدْ اَتَتْ عَلَیَّ ثَلَا ثُوْنَ مِنْ بِیْنِ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ وَّمَالِیْ وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ یَّــأْکُلُہٗ ذُوْکَبِدٍاِلَّا شَیْئٌ یُّوَارِیْہِ اِبْطُ بِلَالٍ)) (رواہ الترمذی)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ کی راہ میں ڈرایا اور ستایا گیا ہوں۔ میری طرح نہ کسی کو ڈرایا گیا ہے اور نہ ستایا گیا ہے۔ مجھ پر مسلسل تیس دن ایسے بھی گزرے ہیں کہ اس عرصہ میں میرے اور بلال کے لیے ایسی خوراک نہ تھی جسے کوئی جاندار کھا سکے‘ سوائے اس تھوڑی سی چیز کے جو بلال نے اپنے بغل میں چھپا رکھی تھی۔‘‘
تشریح:کُفّار مکہ نے حضورﷺ کو دعوتِ حق سے روکنے کے لیے جان سے مار دینے کی دھمکی دی‘ سخت ترین سزائوں سے آپؐ کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی اور جسمانی تکلیفیں بھی دیں۔اِس کے ساتھ ساتھ آپؐ کوکھانے پینے کی چیزوں کی کمی کا بھی سامنا تھا۔ اس طرح کے سنگین حالات سے حضورؐ کے سوا کوئی دوسرا داعیٔ حق (حتیٰ کہ کوئی دوسرا پیغمبر ؑ بھی) دو چار نہیں ہوا۔ مگر آپؐ نے یہ سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔