(زمانہ گواہ ہے) ’’ٹرمپ ، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر ‘‘ - محمد رفیق چودھری

10 /

اسلام نے چودہ سو سال پہلے ناصرف عورت کی تعلیم کو لازم قرار

دیا بلکہ اس کے شرعی اصول بھی متعین کر دیئے:رضاء الحقغزہ کے مسلمان بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں سب مجاہد ہیں جنہوں

نے دنیا بھر کی طاقتوں اور ان کی تمام چالوں کو ناکام بنا دیا :

پروفیسر یوسف عرفان

’’ٹرمپ ، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر ‘‘ کے موضوعات پر

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:حال ہی میں عالمی فوجداری عدالت (ICC) کےپراسیکیوٹر کریم خان (قادیانی ) نے افغانستان کے امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور امارت اسلامیہ افغانستان کے چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست دی ہے اور الزام یہ لگایا ہے کہ موجودہ افغان حکومت لڑکیوں ، خواتین اور LGBTQکا استحصال کر رہی ہے ۔ آپ کے نزدیک ان الزامات کی حقیقت کیا ہے ؟
رضاء الحق:انٹرنیشنل کریمنل کورٹ روم سٹیچوٹ کے تحت معرض وجود میں آئی تھی اور اُس وقت سے لے کر اب تک اس کے پراسیکیوٹرز نے مختلف ممالک کے صدور اور اعلیٰ عہدیداران کے خلاف وارنٹ گرفتاری حاصل کرنے کی درخواستیں دی ہیں ۔ ماضی قریب میں روسی صدر پیوٹن کے خلاف بھی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا لیکن اس کو کسی نے گرفتار نہیں کیا ۔ اسی طرح حالیہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی صدر نیتن یاہو اوروزیر دفاع یو وگیلنٹ کے خلاف اسی عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ پھر القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد الضیف کے خلاف بھی اسی عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ۔ اسی طرح کا معاملہ افغانستان کا بھی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت نیشن سٹیٹ کا جو تصوردنیا میں رائج ہو رہا ہے اس کے مطابق افغانستان کو پورا حق حاصل ہے کہ اپنے قومی مفاد میںجو چاہے قوانین بنائے ۔ جیسے اس وقت امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشن سٹیٹ کے تصور کے تحت ہی ایک دن میں 60 ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے ہیں ۔ان میں یہ بھی شامل ہے کہ امریکہ سے غیر قانونی تارکین وطن کو نکال دیا جائے گا ۔ اسی طرح LGBTQپر ایک طرح کی پابندی لگادی گئی ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کے مفاد کے لیے ہی کیا گیا ۔ اِسی طرح افغانستان کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد میں قوانین بنائے ۔ افغان طالبان جس نظریہ کی خاطر 20 سال سے جنگ لڑرہے تھے 15 اگست 2021 ء کو اقتدار سنبھالنے کے بعد اُنہوں  نے اس نظریہ کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پرائمری تک تو بچیوں کی تعلیم وہاں پر جاری ہے ۔ سیکنڈری تعلیم کو انہوں نے اس لیےروکا ہوا ہے کہ جب تک ان کے نظریہ کے مطابق بچیوں کی علیحدہ تعلیم کا مکمل انفراسٹریکچر تیار نہیں ہوتا وہ مخلوط ماحول میں لڑکوں اور لڑکیوں کو نہیں بٹھا سکتے۔پھر یہ کہ ساڑھے نو ارب ڈالر امریکہ ان کے غصب کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ جیسے جیسے ان کے پاس وسائل ہوں گے وہ بچیوں کی تعلیم کو آگے بڑھاتے جائیں گے۔افغان انتظامیہ نے حال ہی میں ایک فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں5000 افغان خواتین تعلیم حاصل کریں گیااور ان کے لیے محرم کو ساتھ لانا اولین شرط ہوگی ۔ معلوم ہوا کہ وہ بچیوں کی تعلیم کے مخالف ہرگز نہیں ہیں ۔ جہاں تک LGBTQ کا تعلق ہے تو اس پر امریکہ میں اگر پابندی لگ چکی ہے تو ایک اسلامی ملک پر تو اس کو تھوپا ہی نہیں جا سکتا ۔ لہٰذا کریم خان قادیانی جو مرضی کہتا رہے اس کی بات کوئی نہیں سنے گا ، اس کو تو ایک عالمی استعماری ٹول کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔
سوال: اگرچہ15 اگست 2021 ء کو قائم ہونے والی امارت اسلامیہ افغانستان کو دنیا کے کسی بھی ملک نے باقاعدہ تسلیم نہیں کیا لیکن 2003ء میں حامد کرزئی کے دورِحکومت میں افغانستان نے Rome Statueکو تسلیم کر لیا تھا ، جس کے تحت ہی ICCمعرض وجود میں آئی تھی۔ کیا ICCافغانستان کے اعلیٰ عہدیداران کے خلاف عملی کارروائی کر سکتی ہے ؟
پروفیسریوسف عرفان:کریم خان، مرزا طاہر کا داماد بھی ہے ۔ پھر یہ کہ ہمارے ملک میں بھی ہیومن رائٹس کی جو آرگنائزیشنز ہیں، ان میں زیادہ تر ملحد ، مرتد اور اسلام بےزار قسم کے لوگ شامل ہیں ۔ ہمیں اُن کا بیک گراؤنڈ جاننا چاہیے۔ ICC نےپیوٹن اور نیتن یاہو کے خلاف بھی وارنٹ جاری کیے اور ٹرمپ کے خلاف بھی اُن کا کہنا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہا ہے لیکن وہ ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ۔ اُنہوں نے حماس کے رہنما کے خلاف بھی وارنٹ جاری کیے ہیں اور اُن پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان میں خواتین کا ریپ بھی شامل ہے ۔ حالانکہ حماس کی قید سے آزاد ہو کر آنے والی اسرائیلی خواتین نے حماس کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر ان کی بہت تعریف کی ہے اور ایک نے تو واپس اسرائیل جانے سے ہی انکار کر دیا تھا ۔ یہ بالکل وہی صورتحال ہے جب ملاعمر ؒکے دور میں یورپی شہری افغانستان سے رہا ہو کر آئے تھے تو اُن سے کہا جارہا تھا اب آپ حیوانستان سے نکل آئے ہیں، اب خواتین پردہ اُتار دیں اور مرد داڑھیاں منڈوا دیں ۔ انہوں نے کہا ہم سے زبردستی داڑھیاں نہیں رکھوائی گئیں بلکہ ہم نے خود رکھی ہیں ، خواتین نے کہا ہم سے زبردستی پردہ نہیں کروایا گیا بلکہ ہم نے خود کیا ہے ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ان میں سے بعض نے اسلام بھی قبول کر لیا ۔ اس کے برعکس ڈاکٹر خالدہ کو اسرائیل نے قید کیا تو وہ 60 سال کی تھیں اور جب رہا ہوئی ہیں تو 90 سال کی لگ رہی تھیں ۔ یہ فرق ہے ۔ اسرائیل کا رویہ تو جانوروں سے بھی بد تر ہے ۔
{اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًاr} (الفرقان)’’یہ نہیں ہیں مگر چوپایوںکی مانند ‘بلکہ ان سے بڑھ کر بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘
اسرائیل محض ایک چھوٹا سا ملک نہیں ہے بلکہ انہوں نے عالمی اداروں کی صورت میں اپنا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا رکھا ہے ۔ آئی ایم ایف ، عالمی عدالتیں ، سلامتی کونسل وغیرہ سب ان کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں ۔ ہیبت اللہ اخوندزادہ اور عبدالحکیم حقانی کے خلاف جو وارنٹ حاصل کرنے کی درخواست دی گئی ہے ، ان کی کوشش بھی ہوگی کہ اس پر عمل ہو ۔ ٹرمپ نے بھی بیان دیا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود اپنا اسلحہ بھی واپس لے گا، اگر افغانستان اسے واپس نہیں کرے گا تو زبردستی لیا جائے گا ۔ انہوں نے امداد بھی بند کر دی ہے ۔ پھر یہ کہ 15 اگست 2021ء کو افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو امریکہ نواز افغان شہری نکل کر پاکستان میں آئے اُن کو بھی ٹرمپ انتظامیہ نے اپنانے سے انکار کر دیا ہے اور25 ہزار کے قریب جو امریکہ میں گئے تھے ان کو بھی شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے ۔ یہ سب وہ لوگ تھے جوحامد کرزئی اور اشرف غنی دور میں امریکی نیٹ ورک کے لیے کام کرتے تھے ۔ ٹرمپ نے کہا اگر پاکستان غیر قانونی افغان شہریوں کو نکال سکتا ہے تو ہم کیوں پالیں ؟
سوال: اسلام آباد میں منعقد ہونے والی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کانفرنس میں ملالہ یوسف زئی نے بھی خطاب کیا اور امارتِ اسلامیہ افغانستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی کہ وہاں لڑکیوں کو تعلیم سے روکا جارہا ہے ۔ کیا ICCبھی اقوام متحدہ کے سوشل انجینئرنگ پروگرام کا ہی ایک ٹول ہے ؟
رضاء الحق: یہ سارے واقعات محض اتفاقیہ نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں اور ایک ہی ایجنڈے کے تحت رونما ہو رہے ہیں ۔ سب سے پہلے اقوام متحدہ کے تحت 1979 ء میں CEDAWکے نام سے کانفرنس منعقد کی گئی اور پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک نے بھی اس کے اعلامیہ پر سائن کیے کہ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ حیرت انگیز طور پر امریکہ نے اس پر سائن نہیں کیے ۔ پھر 1985 ء میں نیروبی کانفرنس اسی ایجنڈے پر منعقد کی گئی کہ خواتین کو گھروں سے نکال کر کس طرح سڑکوں پر لانا ہے اور کس طرح تشہیر کا ٹول بنانا ہے ، اس کے بعد 1994ء میں قائرہ کانفرنس ہوئی ، 1995ء میں بیجنگ کانفرنس منعقد ہوئی ۔ ان سب کا یہی ایجنڈا تھا ۔ پھر 2000 ء میں بیجنگ پلس فائیو کانفرنس منعقد ہوئی ۔ اس میں LGBTQکو بھی شامل کیا گیا کہ اگر کوئی مرد عورت بننا چاہتا ہے تو اس کو عورت کے حقوق دئیے جائیں اور کوئی عورت مرد بننا چاہتی ہے تو اس کو مرد کے حقوق دئیے جائیں ۔ اس میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر اس سے ازواجی تعلق قائم کرتاہے تو وہ ریپ شمار ہوگا اور اگر عورت مرضی سے زنا بھی کرتی ہے تو وہ جرم شمار نہیں ہوگا ۔ یہاں تک کہ طوائفوں کو مزدوروں کے حقوق دئیے جائیں۔ پھر اسی ایجنڈے پر 2007ء میں جو یوگیا کارٹاکانفرنس منعقد ہوئی اس میں عاصمہ جہانگیر نے بھی شرکت کی ۔ 2017ء  میں بھی اسی طرح کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس شیطانی ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے عالمی ادارے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں ۔ کہیں براہ راست حملہ کرکے اور قبضہ کرکے یہ ایجنڈا نافذ کرتے ہیں ، کہیں سودی قرضوں میں جکڑ کر اپنی شرائط اور پالیسیاں منواتے ہیں اور کہیں ICC جیسے اداروں اور GSP+جیسے اقتصادی معاہدوں کے ذریعے بازو مروڑا جاتاہے ۔ اب امارتِ اسلامیہ افغانستان کے خلاف ICCکو ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کا امارتِ اسلامیہ افغانستان کی پالیسی پر کوئی فرق نہیں  پڑے گا ۔ امریکہ ، برطانیہ ، روس سمیت بڑی طاقتیں افغانستان میں جنگیں لڑ کر بھی دیکھ چکی ہیں، اب یہ حربے بھی ناکام ہو جائیں گے ان شاء اللہ ۔ جبکہ باقی مسلم ممالک جو IMFکے شکنجے میں یا امریکہ کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں، وہاں سوشل انجینئرنگ پروگرام بڑی تیزی سے آگے بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ جہاں تک عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے تو اس کی اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی اجازت دی ہوئی ہے مگر اس کے لیے شرعی تقاضے بھی ہیں جن کا پورا کیا جانا ضروری ہے ۔
سوال:نو منتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے 15 لاکھ شہریوں کو اُردن اور مصر میں عارضی یا مستقل طور پر منتقل کیا جائے گا تاکہ غزہ کی تعمیر نو کی جا سکے۔ اس قدم سے امریکہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ؟
پروفیسریوسف عرفان:مسئلہ یہ ہے کہ اتنا عرصہ جنگ مسلط کرنے کے باوجود بھی وہ جنگ جیت نہیں سکے بلکہ اُلٹادنیا میں بدنام بھی ہوئے ، مالی حالت بھی بگڑ گئی ، اسرائیل کے اندر بھی نیتن یاہو کے خلاف بغاوت اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ اب ان کی پالیسی ہے کہ جنگ کے بغیر ہی اہلِ غزہ کو وہاں سے نکال دیا جائے ۔ لیکن حماس نے پہلے ہی اس کی مخالفت کر دی ہے اور اہل غزہ نے بھی اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوگا ۔ اپنی طرف سے انہوں نے چال چلی ہے کیونکہ جب تک فلسطین اور لبنان پر اسرائیل کا قبضہ نہیں ہوجاتا ہے اسرائیل اور امریکہ کی طاقت ناکام رہتی ہے ۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ہی انہوں نے سارے جال پھیلائے تھے، دوحہ میں امریکی فورسز ہیں ، مصر کا سیسی اُن کا اپنا ہے ، اس کی والدہ صہیونی ہے اور اس کا ماموں اسرائیلی پارلیمنٹ کا رکن رہ چکا ہے ، اردن کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھوں میں ہے ، سعودی حکمرانوں کا جھکاؤ بھی اسرائیل کی طرف بڑھ رہا ہے مگر آفرین ہے اہلِ غزہ کے مسلمان بچوں ، عورتوں اور مردوں پر کہ وہ اسلام کے سچے مجاہد ہیں جنہوں نے پوری دنیا کی طاقتوں اور ان کی تمام چالوں کو ناکام بنا دیا ہے ۔ ان کی اس استقامت کی وجہ سے شام اور عراق میں بھی نیا جذبہ اُبھرا ہے اور اب شام کی سرحدیں کھل جانے سے مسلمانوں کی طاقت مزید بڑھے گی ۔ اسرائیل تو حماس کی سرنگیں نہیں ڈھونڈ سکا تو وہ سارے خطے کے ان مجاہدین سے کیسے لڑے گا ۔ ڈیڑھ سال بعد اسرائیل میں الیکشن ہونے والے ہیں نیتن یاہو اپنی ساکھ بچانے کے لیے کوئی نہ کوئی چال چلے گا مگر ان کی ہر چال ناکام ہو گی اور اللہ تعالیٰ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرے گا ۔ ان شاء اللہ
سوال: حماس نے امریکی صدر کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غزہ پر قبضہ کی ایک اور اسرائیلی سازش ہے ۔ اس صورتحال میں کیا حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدہ خطرے میں نہیں پڑ جائے گا ؟
رضاء الحق:ٹرمپ خود اِس بات کا اقرارکر چکا ہے کہ یہ معاہدہ چلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے پہلی اور سب سے بڑی وجہ خود اسرائیل ہے جو گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھ رہا ہے اور اس کے لیے اُس نے اپنی سرحدوں کو پھیلانا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب بھی دیکھ رہا ہے ۔ امریکی انتظامیہ بھی اس کی مٹھی میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اُسے 2000 بم فراہم کیے ہیں ۔ اگرجنگ بندی مطلوب ہے تو پھر یہ بم کس لیے فراہم کیے گئے ؟ اپنے پہلے دور میں بھی ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے بڑا کردار ادا کیا تھا خاص طور پر تل ابیب سے اسرائیلی دارالحکومت یروشلم منتقل کیا گیا۔ ابراہم اکارڈز کی آڑ میں متحدہ عرب امارات ، عمان ، قطر اور شمالی افریقہ کے مسلم ممالک سمیت بہت سے ملکوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا۔سعودی عرب سے بھی تعلقات بڑھائے گئے ۔ پھر ڈیل آف سینچری کے عنوان سے ایک سازش رچائی گئی ۔ ان تمام منصوبوں میں ٹرمپ کا یہودی داماد جیرڈ کشنر اس کے ساتھ تھا ۔ دراصل یہ جنگ بندی ایک دھوکہ ہے ۔ اب اسرائیل مغربی کنارہ پر مسلمانوں کو شہید کر رہا ہے ۔ وہاں شہادتوں میں اضافہ ہورہا ہے ، گرفتاریاں بھی ہورہی ہیں ۔ وہاں60 کے قریب ایسے صہیونی تھے جن کو جوبائیڈن انتظامیہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا ، ٹرمپ نے آتے ہی ایک آرڈر کے تحت ان کو اس فہرست سے نکال دیا ۔ یعنی اب ان کو مکمل آزادی ہو گی کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام کریں ۔ ایسی صورتحال میں یہ جنگ بندی زیادہ دیر نہیں چلے گی اور حماس کو بھی اس بات کا علم ہے ۔ وہ بھی تیار ہیں ان شاءاللہ۔
سوال: پاکستان میں ہر سال 5 فروری کا دن یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتاہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ جس طرح  اسرائیل غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی بھی کر رہا ہے اور ان کو وہاں سے نکالنا بھی چاہتا ہے اسی طرح  مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت بھی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے اور وہاں ہندوؤں کو لا کر آباد بھی کر رہی ہے ۔ یہود اور ہنود کے اس گٹھ جوڑ کے اہداف کیا ہیںاور ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
پروفیسریوسف عرفان:اگر ہم کشمیر کی اہمیت کو مدنظر رکھیں تو کشمیر واقعی ہماری شہ رگ ہے اور اگر اسے عالمی تناظر میں دیکھیں تو اسرائیلی استعمار کا پہلا قدم تل ابیب سے شروع ہو کر کشمیر پر ختم ہوتا ہے۔ دوسری طرف کردستان میں بھی ہے اور یہ ایک نیا اسرائیل بنانے کی کوشش ہے۔ جہاں تک اسرائیل انڈیا گٹھ جوڑ کا تعلق ہےتو یہ یکجان دو قالب ہیں اور برہمن کو تو یہود کا کھویا ہوا قبیلہ بھی کہا جاتاہے ۔ لہٰذا بھارت اسرائیلی استعمار کی بیساکھی ہے ۔ اسرائیلی استعمار کی کوشش ہے کہ ایک خود مختار کشمیری ریاست بنائی جائے ۔ ہمارے ایک سابق کمانڈو جنرل نے اسی راستے پر چلتے ہوئے بیک ڈور ڈپلو میسی بھی اختیار کی ۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان خود مختار کشمیر قبول کر سکتا ہے یا نہیں۔ جس طرح افغانستان لینڈ لاک سرزمین ہے، اسی طرح کشمیر بھی لینڈ لاک خطہ ہے ۔ اس کو سمندر تک راستہ چاہیے ۔ اگر ہم خود مختار کشمیر قبول کرتے ہیں تو پھر ہمیں یہ روٹ دینا پڑے گا کیونکہ اقوام متحدہ کی بات ہمیں ماننا پڑے گی ۔ سی پیک کا روڈ گلگت سے ہوتا ہوا گوادر تک جاتاہے ۔ خود مختار کشمیر کی صورت میں آپ کو گلگت بھی چھوڑنا پڑے گا ، بلتستان بھی چھوڑنا پڑے گا اور یہی انڈیا کا تقاضا ہے اور وہ مسلسل ہندوؤں کو لا کر بسا رہا ہے ۔ اگر کشمیر خود مختار ہوجائے گا تو یہاں اسرائیل ، امریکہ اور انڈیا آکر بیٹھیں گے ۔ لہٰذا پاکستان اگر خود مختار کشمیر قبول کرتا ہے تو تب بھی مرتا ہے اور سیز فائر معاہدہ کرتاہے تو تب بھی مرتا ہے۔لہٰذا اہلِ پاکستان کو اور خاص طور پر ہمارے مقتدر طبقات کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ خود مختار کشمیر ہمارے مفاد میں نہیں ہے ۔ کیونکہ بین الاقوامی طاقتیں کشمیر میں آگئیں تو پورے خطے میں مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا ۔ لہٰذا پاکستان کو صرف 5 فروری منانے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ کھل کر ایک موقف پر ڈٹ جانا چاہیے ۔ پالیسی سازی کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں مخلوط حکومت نہ ہو۔ یہ خطرناک ہے ۔ ایسی حالت میں ملالہ یوسفزئی جیسے بین الاقوامی مہرے اسلام آباد میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور ہمیں گائیڈ کرتے ہیں ۔ اگر مستحکم حکومت ہوگی تو اس کی پالیسی بھی مستحکم ہوگی اور وہ کھل کر مسئلہ کشمیر پر سٹینڈ لے گی ۔ ورنہ ہمارے گومگو پالیسی سے دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
سوال:ہم جس طرف بھی نظر دوڑاتے ہیں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہے۔ اُمت مسلمہ کو اس پستی کے دور سے نکالنے کے لیے ہمیں کیا عملی اقدامات کرنے چاہئیں؟
رضاء الحق: قلیل المدتی اہداف کے طور پر تمام مسلمان ممالک کو امریکہ یا کسی اور طاقت کی غلامی سے نکلنا ہوگا اور کسی ایک مشترکہ ایجنڈے پر اتفاق کرنا ہوگا ۔ چاہے وہ مسجد اقصیٰ کا ایجنڈ ا ہو یا غزہ کا معاملہ ہو ۔ اس کے بعد کم ازکم نیٹو طرز کا عسکری اتحاد بنانا ہوگا ۔ پاکستان کو اس وقت سلامتی کونسل میں غیر مستقل ممبر کی حیثیت مل چکی ہے وہاں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو اٹھایا جاسکتاہے ۔ پھر یہ کہ ملائشیا ، سعودی عرب سمیت دولت مند اور طاقتور ممالک کمزور مسلم ممالک کی مدد کریں ۔ یہ عارضی حل ہے جبکہ مستقل اور طویل المدتی حل یہ ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے خلافت کے نظام کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری دور میں یہاں سے مسلم افواج جاکر دجال کے خلاف لڑیں گی ۔ اگر یہاں اسلام نافذ ہو گا تو تب ہی یہ ممکن ہوگا ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ ہے ہم اپنی ذات پر اسلام نافذ کریں ، اس کے بعد اپنے حلقہ اختیار میں اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کریں اور پھر معاشرے میں اسلام کے جامع تصور کی دعوت بھی دیں کہ اسلام محض نماز ، روزہ ، زکوٰۃ کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام اپنا سیاسی نظام بھی چاہتا ہے جو کہ 1300 سال تک قائم رہا ہے اسی میں مسلمانوں کی طاقت ہے۔ اس کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے ۔سود اور جوئے سے پاک معاشی نظام بھی قائم کرنا ہے ۔ہمارے معاشرتی نظام کو بھی تباہ کرنے کے لیے مغربی ایجنڈا مختلف قوانین ، این جی اوز اور یونیورسٹیوں کے ذریعے مسلط کیا جارہا ہے۔ اس فتنے کو بھی ہم نے روکنا ہے ۔ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہو ا تھا اور اسلام کی طرف لوٹنے میں ہی ہماری سلامتی ہے ۔ ان ساری چیزوں کو ملا کر جب ہم مشترکہ کوشش کریں گے تو طاغوت کے راستے میں رکاوٹ بن سکیں گے ۔ ان شاءاللہ ۔

Title

Text