پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں اور انتخابات
کیا انتخابی سیاست کے ذریعے مذہبی جماعتیں اسلام کے نفاذ میں کامیاب ہو سکتی ہیں؟
سجاد سرور معاون شعبہ تعلیم و تربیت
یہ تحریر اس وقت شائع کی جارہی ہے جب نہ تو انتخابات سےپہلے والی گہما گہمی ہے اور نہ بعد از انتخابات میزانیہ نفع و نقصان یا ہار جیت زیرِ بحث ہے ۔ انتخابات گزرے تقریبا ً ایک سال ہو چکا ہے اور آئین کے مطابق آئندہ الیکشن کا ڈول چار سال بعد ڈالا جائے گا جو اگرچہ موجودہ محلاتی سازشوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کشاکش میں مشکل دکھائی دے رہا ہے۔لہذا یہ وہ عرصہ ہے جس کے دوران الیکشن میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتوں ، اُن کے اکابرین اور کارکنوں کے لیے غور و فکر کا کافی وقت ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ اس مضمون کی روشنی میں اپنے 77سالہ میزانیہ نفع و نقصان کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کے لیے احتجاجی سیاست کی حکمت ِ عملی کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں تاکہ غلبۂ اسلام کی جدوجہد بارآور ثابت ہو سکے۔
پاکستان کے الیکشن کمیشن میں 166 کے قریب سیاسی جماعتیں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں، جس میں 24 کے قریب مذہبی جماعتیں ہیں۔ تاہم پاکستان کی انتخابی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کو کبھی بھی عوام نے اتنے ووٹ نہیں دیے کہ وہ مسند اقتدار پر براجمان ہو سکیں۔
ملک میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، تحریک لبیک پاکستان اور راہ حق پارٹی سمیت کئی مذہبی جماعتیں پریشر گروپ کے طور پر انتہائی موثر ہیں لیکن انتخابی سیاست میں وہ کبھی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکیں۔
آئیے جائزہ لیں کہ پاکستان بننے کے بعد مذہبی جماعتوں کی انتخابات میں کیا کارکردگی رہی ؟۔
1951ء کے انتخابات
پاکستان میں پہلے عام انتخابات صوبہ پنجاب میں مارچ 1951ء میں منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات 197 نشستوں کے لیے ہوئے۔ کل 939 امیدواروں نے189 نشستوں کے لیے مقابلہ کیا جبکہ باقی کی نشستوں پر بلامقابلہ ارکان منتخب ہوئے۔ ان انتخابات میں کل 7 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا ۔جماعت اسلامی پہلی دینی جماعت تھی جس نے ان انتخابات میں حصہ لیا اور اس کے حصے میں ایک نشست آئی۔ پاکستان بننے کے بعد پہلا آئین 1956ء میں بنایا گیا لیکن اس آئین کے تحت انتخابات کی نوبت نہ آ سکی ۔ اور ملک میں سیاسی ابتری اس انتہا کو پہنچ گئی کہ صدر اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کردیا اور جنرل ایوب خان کو فیلڈ مارشل لگا دیا۔
1965 ء کے انتخابات
پاکستان کی تاریخ کے دوسرے صدارتی انتخابات 2 جنوری 1965ء کو منعقد ہوئے تھے۔ ایوب خان اس دور میں کنونشن مسلم لیگ کے حمایت یافتہ تھے۔ جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز نامی پانچ جماعتی اتحاد کر رہا تھا۔ ان انتخابات میں بیسک ڈیموکریٹس(بی ڈی ممبرز ) نے فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لیے صدر منتخب کیا۔ انتخابات کے نتائج کے بعد ایوب خان پر انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی میں دھاندلی کے شدید الزامات بھی لگے تھے۔ اس دوران کئی دیگر مذہبی جماعتیں بھی سیاسی میدان میں آگئیں لیکن چونکہ عام انتخابات ہو نہیں رہے تھے لہٰذایہ سارا عرصہ بحالی جمہوریت کی نظر ہوگیا۔
1970ء کے انتخابات
25 مارچ 1969ء کو جنرل ایوب خان نے اپنے خلاف مظاہروں کے نتیجہ میں جنرل یحییٰ خان کو صدر بنا دیا اور آئین بھی معطل کر کےون یونٹ توڑ دیااور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول کے تحت اکتوبر1970ء میں انتخابات منعقد ہوں گے جن میں تمام سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کی آزادی ہوگی۔
جسٹس عبدالستار کی سربراہی میں ایک انتخابی کمیشن تشکیل دیا گیا۔21 برس سے زائد عمر کے 5 کروڑ 70 لاکھ ووٹروں کی فہرستیں بنیں۔ قومی اسمبلی کی 300 سو نشستوں کے لیے انتخابی شیڈول جاری ہوا۔ نئی اسمبلی میں 162 نشستیں مشرقی پاکستان کے لیے اور138 مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے لیے مختص کی گئیں۔
لیکن کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں تھی جس نے ساری نشستوں پر انتخاب لڑا ہو۔عوامی لیگ نے سب سے زیادہ یعنی 170 امیدوار کھڑے کئے جن میں سے 162 مشرقی پاکستان سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ عوامی لیگ کے بعد امیدواروں کی تعداد کے حساب سے دوسری بڑی پارٹی جماعت ِاسلامی تھی جس نے قومی اسمبلی کے لیے155 امیدوار کھڑے کئے۔ جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں 4 سیٹیں حاصل کیں، جمعیت علمائے اسلام نے 7 ، جمعیت علمائے پاکستان نے 7 ، جب کہ جمعیت علمائے اسلام تھانوی گروپ کو کوئی سیٹ نہ مل سکی ۔ اس طرح ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو کل اٹھارہ نشستیں ملیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی جماعت کو مشرقی پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل ہوئی ۔ لیکن حکومت بنانے پر اختلاف کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور شیخ مجیب الرحمٰن حکمران جب کہ مغربی پاکستان ہی اب پاکستان رہ گیا اور ذوالفقار علی بھٹو صدرِ پاکستان کے منصب پر فائز ہوگئے۔ کہا جاتاہے کہ 1970ء کے انتخابات ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے ۔
1977ء کے انتخابات
اگلے انتخابات 1977 ء میں منعقد ہوئے تو اس وقت ذوالفقارعلی بھٹو وزیراعظم تھے ۔ ان کے خلاف تمام اپوزیشن پی این اے کے نام سے اکٹھی تھی لیکن وہ صرف 36 سیٹیں حاصل کر پائی جس میں مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کر لی لیکن اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگا کر مظاہرے شروع کر دئیے ۔ جس کے نتیجے میں ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔
1985ء کے انتخابات
فروری1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے سائے میں ملک میں پہلی بار غیر جماعتی پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے۔
غیر جماعتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے نمائندوں کو 10قومی اور 17صوبائی نشستوں پر کامیابی ہوئی جبکہ ایک خاتون ممبر منتخب ہوئیں۔
1988ء کے انتخابات
17 اگست 1988ء کو صدر جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے قائم مقام صدارت اور جنرل مرزا اسلم بیگ نے فوج کی کمان سنبھالی۔نئی حکومت نے 16 نومبر کو قومی اور 19 نومبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیا۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے حمایتیوں نے خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے اپنے آپ کو9 جماعتی اتحاد ، اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) میں دوبارہ منظم کیا۔ جماعت ِ اسلامی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ آئی جے آئی کو54 نشستیں ملیں۔ مذہبی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام کو7 نشستیں ملیں۔ جمعیت علمائے اسلام درخواستی گروپ کو 1 نشست ملی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون یعنی بے نظیر بھٹو بطور وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
1990ء کے انتخابات
بے نظیربھٹو اور غلام اسحاق خان میں مسلح افواج کے سربراہوں اور ججوں کی تقرری کے معاملے پر اختلافات اتنے بڑھے کہ6 اگست1990ء کو صدر نے اٹھاون ٹو بی کے تحت بے نظیر حکومت کو بدعنوانی اور نااہلی کا مرتکب قرار دے کر برخاست کردیا۔چنانچہ 1990ء میں عام انتخابات ہوئے۔جماعتِ اسلامی نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن کر الیکشن لڑا لیکن یہ اتحاد کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکا اور مشکل سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کی۔ جمعیت علمائے اسلام 6 اور جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) 3،سیٹیں حاصل کر سکیں۔ میاں محمد نواز شریف جو 1988ء میں پنجاب کے وزیر اعلٰی بنے تھے، اس بار ملک کے پہلی بار وزیرِ اعظم منتخب کیے گئے۔
1993ء کے انتخابات
صدرغلام اسحق نے ایک مرتبہ پھر اسمبلی تحلیل کر دی ۔ اور 1993ء میں پھر انتخابات کا معرکہ گرم ہوا۔ جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 3، اسلامی جمہوری اتحاد نے 4 اور متحدہ دینی محاذ نے 2 نشستیں حاصل کیں۔ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیرِ اعظم بن گئیں۔
1997ء کے انتخابات
1996ء کے اواخر میں صدر فاروق لغاری نے اسمبلی توڑدی اور انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ 1997ء میں انتخابات ہوئے۔ جماعت ِ اسلامی نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا انتخاب کرتے ہوئے حکمرانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔دیگر مذہبی جماعتوں میں سے جمعیت علمائے اسلام صرف 2 نشستیں جیت سکی۔ اِن انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ(ن) کو دو تہائی اکثریت ملی جو ان کو راس نہ آئی اور انہوں نے پہلے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور اس کے بعد آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایڈونچر نے ان کی حکومت کی بساط لپیٹ دی اور یوں ایک مرتبہ پھر ملک پر فوجی حکمرانی قائم ہوگئی۔ ایمر جنسی لگ گئی۔ جنرل مشرف ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے صدر بن گئے۔ ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد 17 ویں آئینی ترمیم کے تحت دس اکتوبر2002ء کو پارلیمانی اور صوبائی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا۔
2002ء کے انتخابات
سال 2002 ء تما م مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا۔ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے قومی اسمبلی کی 45 نشستیں سمیٹیں۔ اس اتحاد نے خیبر پختونخوا میں 48 نشستیں حاصل کرکے حکومت قائم کی۔یہ واحد کامیابی تھی جو دینی جماعتوں کو انتخابی تاریخ میں حاصل ہوئی لیکن اس کا نہ عوام کو کوئی فائدہ ملانہ دین کو۔ ان انتخابات سےپہلے مسلم لیگ (ن) توڑ کر( ق) لیگ بنائی گئی جسے پرویز مشرف نے فوراً مشرف بہ حکومت کروا لیا۔
2008ء کے انتخابات
2008ء انتخابات کا سال تھا۔ 2008 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کا حصہ بننے کا انتخاب کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔متحدہ مجلس عمل کو 6 سیٹیں ملیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پرویز مشرف سے این آر او لے کر پھر سے اقتدار میں آگئی۔
2013ء کے انتخابات
2013ءکے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی 3 ،جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 11نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ان انتخابات کا نتیجہ ن لیگ کے حق میں برآمد ہوا اور میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بن گئے۔
2018ء کے انتخابات
2018ء کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کو 13 سیٹیں ملی ، جماعت ِ اسلامی کوئی نشست حاصل نہ کرسکی ۔ تحریک لبیک پاکستان ملک بھر سے 22 لاکھ ووٹ لینے کے باوجود کوئی نشست نہ جیت سکی۔ان انتخابات میں تحریک انصاف پہلی مرتبہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچی اور عمران خان ملک کے وزیر ِ اعظم بنے لیکن چار سال بعد ہی تحریک ِعدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی حکومت گرا دی گئی اور پی ڈی ایم کے امیدوار میاں شہباز شریف پہلی مرتبہ ملک کے وزیر ِ اعظم بن گئے۔
2024ء کے انتخابات
2024ء کے انتخابات میں ایک بار پھر ناکامی مذہبی جماعتوں کا مقدر ٹھہری جہاں جماعتِ اسلامی کوئی سیٹ نہ جیت سکی ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 6 نشستیں ملیں۔تحریک لبیک پاکستان نے اس مرتبہ 28 لاکھ ووٹ لیے لیکن سیٹ ایک بھی نہیں ملی۔ 2024ء میں کوئی جماعت بھی واضح اکثریت نہ حاصل کر پائی ۔ پی ڈی ایم میں شامل مختلف جماعتوں کا اتحاد بنا کر حکومت بنا دی گئی اور یوں میاں شہباز شریف دوسری مرتبہ ملک کے وزیرِ اعظم بن گئے۔
پاکستان میں ہونے والے تمام(12) انتخابات میں دینی جماعتوں نے جب علیحدہ علیحدہ انتخابات میں حصہ لیا تو تمام جماعتوں نے کل 59 نشستیں حاصل کیں ۔ جب کہ پی این اے اتحاد کے ساتھ ایک الیکشن میں36 ، آئی جے آئی کے ساتھ مل کر جماعتِ اسلامی 54 اور متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کو 45 سیٹیں ملیں۔
انتخابی تاریخ کے اس جائزے کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ میں پہنچنا اور ایسی حکومت بنانا جس کے ذریعے ملک میں اسلامی شریعت کا نظام نافذ کرسکیں اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہاں جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے۔ تنظیم اسلامی کے قیام کےمحرکات بیان کرتے ہوئےمروجہ سیاست کے بارے میں بانی ٔ تنظیم محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے لکھا ہے کہ
” پہلی بات یہ کہ اس ( تنظیم اسلامی کے قیام ) سے میرے پیش نظر کسی درجے میں بھی سیاست کا کھیل ہرگز نہیں ہے۔ یہاں’’سیاست‘‘ سے میری مراد مروّجہ اور معروف معنوں میں سیاست ہے،یعنی اقتدار کی کشاکش۔ اس لیے کہ الحمدللہ،اللہ نے مجھے اتنی سمجھ دی ہے کہ میں یہ جانتا ہوں کہ کم از کم اِس ملک میں کہ جس کا نام پاکستان ہے،یہ سیاست صرف جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کا مشغلہ ہے یا کسی درجہ میں سرمایہ داروں کا ۔ چنانچہ جو شخص ان دونوں چیزوں سے محروم ہے،یعنی نہ وہ جاگیردار اور لینڈلارڈ ہے ،نہ اس کے پاس بہت بڑا سرمایہ ہے ،اُس کا اِس میدانِ سیاست میں آنا حماقت ہے، سوائے اس کے کہ وہ کسی کا آلۂ کار بن جائے،کسی بڑے لیڈر کا کارکن بن جائے اور اس حوالے سے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مفادات حاصل کر لے۔ باقی ہمارے ملک کی سیاست میں اگر کسی درجے میں آگے بڑھنے کا امکان ہے تو صرف ان دوطبقات کے لیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ یعنی یا تو جاگیردار ہو جسے بغیر محنت کے وافر مقدار میں دولت مل رہی ہو،لوگ کاشت کر رہے ہوں اور وہ کھا رہا ہو۔ یا پھر سرمایہ دار ہو ۔‘‘ ( تنظیم اسلامی کی دعوت ،ص 8،9)
مذہبی جماعتوں نے جب بھی کوئی کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ تحریک کے ذریعے سے حاصل کی ہے۔ قرارداد مقاصد کا آئین میں شامل ہونا ہو۔ یا ختم نبوت کی تحریک کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جانا ، تحفظ ناموس ِ رسالت کا معاملہ بھی تحریک کے ذریعے سے ہی کامیاب ہوا ۔ لہٰذا تمام مذہبی جماعتوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں نفاذِ دین کا مرحلہ بھی تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتاہے۔