الہدیٰ
اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کا فائدہ خود انسان کا ہے
آیت 5 {مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اللہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللہِ لَاٰتٍ ط} ’’جو کوئی بھی اللہ کی ملاقات کا امیدوار ہے تو (اسے یقین رکھنا چاہیے کہ) یقیناً اللہ کا معیّن کردہ وقت آ کر رہے گا۔‘‘
{وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(5)} ’’اور وہ سب کچھ سننے والا‘ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘
یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر ایک بندئہ مؤمن دنیا میں اپنا تن من دھن اُس کی راہ میں کھپا دے گا تو اُس کی اس قربانی کا صلہ اُسے آخرت کی نعمتوں کی صورت میں دیا جائے گا۔وہ تمہارے حالات سے بخوبی آگاہ ہے‘ تمہاری کوئی تکلیف اور کوئی قربانی اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے‘---- اب اگلی آیت میں پھر سرزنش کا انداز ہے:
آیت 6 {وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖ ط اِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (6)} ’’اور جو کوئی بھی جہاد کرتا ہے تو وہ اپنے (ہی فائدے کے) لیے جہاد کرتا ہے۔یقیناً اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
دیکھو! تم میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جدّوجُہد کر رہا ہے‘ اس کے لیے تکلیفیں اٹھا رہا ہے اور ایثار کر رہا ہے تو یہ سب کچھ وہ اپنے لیے کر رہا ہے‘ اس کا فائدہ بھی اُسی کو ملنے والا ہے۔ وہ اپنے ان اعمال کا اللہ پر احسان نہ دھرے۔ اللہ کو ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ ان چیزوں سے بہت بلند اور بے نیاز ہے۔ ؎ منّت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی منّت شناس ازو کہ بخدمت بدا شتت!
یعنی تم بادشاہ پر احسان مت دھرو کہ تم اس کی خدمت کر رہے ہو ‘بلکہ تم اس سلسلے میں بادشاہ کا احسان پہچانو کہ اس نے تمہیں اپنی خدمت کا موقع فراہم کیا ہے۔ ---- اب اگلی آیت میں پھر دلجوئی کا انداز ہے۔
آیت 7 {وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ} ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ہم لازماً دور کر دیں گے اُن سے اُن کی برائیاں‘‘
{وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(7)} ’’اور ہم لازماً اُن کو بہترین بدلہ دیں گے ان کے اعمال کا۔‘‘
درس حدیث
تکبر ، خیانت اور قرض سے دور رہنا
عَنْ ثَوْبَانَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: ((مَن فَارَقَ الرُّوْحُ الْجَسَدَ وَھُوَ بَرِیٌٔ مِنْ ثَلَاثِ مِنَ الْکِبْرِ وَالْغُلُوْلِ وَالدَّیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ)) (رواہ الترمذی)
سیدنا ثوبان ؓ سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو روح جسم سے جدا ہوئی اور وہ تین چیزوں ، تکبر، خیانت اور قرض سے بری تھی، تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔‘‘
نوٹ: اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دیگر اوامرونواہی سے اعراض کیا جائے۔ (ادارہ)