(اداریہ) کیا ہم روہنگیا مسلمانوں کو بھول گئے؟ - رضا ء الحق

10 /

اداریہ

کیا ہم روہنگیا مسلمانوں کو بھول گئے؟

سوشل میڈیا کے اگرچہ کچھ فوائد بھی ہیں لیکن اِس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے اس اداریے کا موضوع سوشل میڈیا ہرگز نہیں ہے۔ لیکن اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کی مانند جس میں زمانے کے قریب ہونے کا تذکرہ موجود ہے، سوشل میڈیا اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز نے عمومی طور پر ہر طرح کے فاصلے کو کم کر دیا ہے۔ دنیا حقیقی معنوں میں ایک گاؤں کی سی شکل اختیار کر چکی ہے - گلوبل ویلج۔۔۔ لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ آج کے گلوبل ویلج میں جہاں بریکنگ نیوز کا دور دورہ ہے اُس میں دو نفسیاتی مسائل بھی انسان کے ساتھ نتھی ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ اپنی جگہ نفسیاتی مسائل بھی ہیں اورزمینی حقائق بھی۔ ایک دور تھا جب کسی اہم واقعہ کی بازگشت سالوں نہیں تو مہینوں ضرور سنائی دیتی تھی لیکن اب اختیاری نسیان ((selective amnesia اور دوسرا یاداشت کے دورانیہ کا انتہائی کم ہو جانا یعنی (short memory span) کا غلبہ ہے۔
افغانستان کی مثال کو ہی لے لیجئے کہ اکثر تجزیہ نگار یہ تو بتا دیتے ہیں کہ پاکستان نے صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں امریکہ اور نیٹو افواج کی افغانستان پر بمباری میں معاونت کی تھی، لیکن یہ بات گول کر جاتے ہیں کہ اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے مطابق مشرف نے امریکہ کی کئی ایسی شرائط بھی مان لیں تھیں جن کا تقاضا ہی نہیں کیا گیا تھا۔ یاداشت کے دورانیہ کا انتہائی کم ہو جانا صرف اس بات سے ہی قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ہم یہ تو محو کر بیٹھے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے مابین دوحہ میں مذاکرات کا آغاز درحقیقت امریکی صدر اوباما کے دور میں ہوا تھا نہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں۔ البتہ یہ بات گویا ہمارے ذہنوں میں نقش ہو چکی ہے جو حقیقت بھی ہے کہ امریکہ افغان طالبان کے ہاتھوں ہزیمت ناک شکست کا مزہ چکھ کر اُس وقت افغانستان سے بھاگا جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر تھے۔
بہرحال اِس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی مسلمان ممالک اور ان میں بسنے والے اہلِ ایمان کو بدترین ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا لیکن شاید اُن میں کئی مظلومین کو ہم بھلاچکے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمان ہیں۔ روہنگیا مسلمان گیارویں صدی عیسوی سے میانمار میں رہ رہے ہیں اوراگرچہ گزشتہ ہزار سالوں میں میانمار کے مسلمانوں کے خلاف بدھ مت مذہب کی پیروی کرنے والوں کے وحشیانہ ظلم و ستم کی داستان انتہائی طویل ہے لیکن ہم اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اگست 2017ء میں میانمار کی فوج نے ایک باقاعدہ تحریک شروع کی کہ ’’روہنگیا مسلمان ملک دشمن ہیں‘‘ اور میانمار میں بسنے والے کم و بیش 10لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو دیس نکالے کا حکم دے دیا۔فوجی جنتا کی طرف سے یہ اعلان ہونے کی دیر تھی کہ ملک کے اکثریتی مذہب، بدھ مت کے پیروکاروں نے میانمار کی ریاست رخائن(جسےر اکھینی بھی کہا جاتا ہے) میں روہنگیا مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنا لیا۔ مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا، مردوں کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا، عورتوں کہ عصمت دری کی گئی اور بچوں کو اپنے والدین سے زبردستی علیحدہ کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق کم از کم 10 ہزار مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا گیا۔ 300 سے زائد گاؤں مسلمان باشندوں سمیت نذرِ آتش کر دئیے گئے۔اِن انسانیت سوز جرائم نے بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کے بارے میں اُس جھوٹے افسانے کی قلعی بھی کھول دی کہ بدھ مت مذہب کے پیروکار تو ایسے امن پسند لوگ ہیں کہ اگر ایک گال پر تھپڑ مارو گے تو دوسرا گال آگے کر دیں گے۔دوسری طرف روہنگیا مسلمانوں کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ میانمار چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کرتے۔ جس کے جدھر سینگ سمائے اُس نے وہاں کا رخ کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان اس جبری ہجرت کے دوران ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے انڈونیشیا میں پناہ لی جبکہ شیخ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش نے ابتداً تو کشتیوں میں سوار پناہ گزینوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، لیکن بالآخر ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت بنگلہ دیش کے کوکس بازار( (Cox Bazar میں روہنگیا مسلمانوں کو ٹھونسنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔جنوب مشرقی بنگلہ دیش میں واقع کوکس بازار اِس وقت دنیا کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ بن چکا ہے۔ 24 مربعہ کلومیٹر پر مشتمل اِس علاقہ میں 33 پناہ گزین کیمپ ہیں جن میں اس وقت دس (10) لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔ تقابل کے لیے عرض کرتے چلیں کہ لاہور شہر میں فی مربع کلومیٹر اوسطاً 6300 افراد رہتے ہیں جبکہ کوکس بازار میں فی مربع کلومیٹر تقریباً 46200 روہنگیا مسلمان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ2017ء میں جب روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی جاری تھی تو امن کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سو چی میانمار کی وزیراعظم تھیں۔ 2021ء میں میانمار کی فوجی جنتا نےاُن کا تختہ اُلٹ دیا۔ ہمیں اِس پر حیرت نہیں کہ آنگ سان سو چی نے مظلوموں کی مدد کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا کیونکہ امن کے نوبل انعام کی تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں ٹونی بلیئر جیسےانسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث فرد کو بھی اس انعام سے نوازا جا چکا ہے۔بدھ مت کے پیروکار آج بھی بچے کھچے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور مساجد کی جاسوسی میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں اور فوج کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں۔
جاسوسی کی بات چل نکلی تو جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ایک خبر حالیہ دنوں میں ملک کے تمام بڑے اخبارات کی زینت بنی۔ اطلاعات کے مطابق اب پاکستان میں شناختی کارڈ کافی نہیں ہوگا ۔ وفاقی حکومت نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024ء پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ اگر یہ بل پارلیمان سے منظوری کے بعد قانون بنادیا گیا تو ملک میں نادرا کی طرح ایک نئی نیشنل ڈیجیٹل اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ہر شہری کا آئی ڈی کارڈ کی طرح ایک ڈیجیٹل آئی ڈی نمبر بھی ہوگا۔ متعلقہ اداروں کے پاس سسٹم پر ہر شہری کا مکمل ڈیٹا موجود ہوگا، جیسے کسی شہری کی تعلیم کتنی ہے، اس کی صحت کی رپورٹ کیا ہے، اس نے کون کون سے اثاثے خریدے اور بیچے، وہ ٹیکس ادا کرتا ہے یا نہیں اور اس کے علاوہ بہت سا ذاتی نوعیت کا ڈیٹا ہر شہری کے ڈیجیٹل آئی ڈی پر ایک بٹن کے دبانے سے معلوم کیا جا سکے گا۔ ابھی آڈیو لیکس اور ہائی کورٹ کے ججوں کے بیڈ رومز میں موجود جاسوسی کے کیمروں کی ہوش ربا تفصیلات اور پیکا قانون سے قوم سنبھل نہیں پائی تھی کہ وفاقی حکومت نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بل کے مندرجات میں یہ بھی شامل ہے کہ نیشنل ڈیجیٹل اتھارٹی ایک ماسٹر پلان بنائے گی جس کی سربراہی میں ایک قومی کمیشن قائم ہوگا اور اس کے فیصلوں کو کسی ٹرائیبیونل یا عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ خبر پڑھ کر جارج اورول کا معروف ناول’’ 1984‘‘ یاد آ گیا۔ گویا پاکستان کو ایک مکمل پولیس سٹیٹ بنانے کی تیاری جاری ہے۔ بہرحال ہم ان معاملات پر مزید غور و خوص کرنے کا کام قارئین کے سپرد کرتے ہیں۔
ایک اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ میانمار جیسے چھوٹے ملک میں کُھلم کُھلا مسلمانوں کی نسل کُشی کے خلاف اقوامِ متحدہ ابھی تک حرکت میں کیوں نہیں آئی تو اس کا سادہ سا جواب ہے۔۔۔ ’’چین‘‘۔ چین کے میانمار کے ساتھ کیونکہ مفادات وابستہ ہیں لہٰذا سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں میانمار کے خلاف پیش کی گئی ہر قرارداد کو چین ویٹو کر دے گا۔ پھر یہ کہ معاملہ کیونکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کا ہے تو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو اس سے خاص دلچسپی بھی نہیں۔ چین کے حوالے سے البتہ ہم کہتے چلیں کہ دنیا کی ہر بڑی طاقت صرف اپنے ملکی مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور اگر وہ محسوس کرے کہ کوئی دوسرا ملک اُس کے مفادات کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے تو شہد سے میٹھی دوستی اچانک زہریلی ہو جاتی ہے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ میں یغور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے بھی بعض عالمی اداروں کی رپورٹس موجود ہیں، لیکن اس حوالے سے پاکستان اور امارتِ اسلامیہ افغانستان دونوں خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کے آفاقی پیغام اور نبی اکرم ﷺ کی سنت و اسوہ کو چھوڑنے کے باعث آج پوری اُمتِ مسلمہ آزمائش سے گزررہی ہے۔ نائن الیون سے لے کر آج تک افغانستان، عراق، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان، مالی، یمن ، پاکستان، میانمار اور اب غزہ و لبنان کی صورت میں جہاں جہاں مسلمان ہیں، وہاں وہاں آگ برس رہی ہے اور اُمتِ مسلمہ خون کے دریا عبور رکررہی ہے۔اسرائیل گولان کی پہاڑیوں پر مکمل قبضہ کر کے شام میں آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جس کا واضح ثبوت اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ حالیہ ’’تاریخی نقشہ‘‘ہے جس میں ناجائز صہیونی ریاست کی سرحدوں میں فلسطین، اردن، لبنان اور شام سب کو شامل کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نقشہ گریٹر اسرائیل کے قیام کا پہلا مرحلہ ہوگا اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر حال اور ہر معاملے میں اسرائیل کی مکمل معاونت کی متعدد بار یقین دہانی کروا چکا ہے۔ موصوف نے حالیہ بیان میں غزہ پر قبضہ کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے، صہیونی اسرائیل کے لیے!
ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں اور آج پھر دہرائے دیتے ہیں کہ محض افسوس کرنے اور رونے دھونے سے کچھ بدلنے والا نہیں۔ اس وقت مسلم ممالک دنیا بھر میں طاغوتی قوتوں کے لیے ترنوالا بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ مسلم ممالک متحد ہو کر اپنے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈالیں اور اپنے مشترکہ مفادات کا تحفظ کریں۔ پاکستان کے حوالے سے عرض ہے کہ ہم نے یہ خطۂ زمین اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا لہٰذا جب تک اللہ تعالی سے کیے ہوئے وعدے کو پورا نہیں کرتے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست نہیں بناتے تو دنیا کے معاملات کو طے کرنے میں ہماری ذرا برابر بھی اہمیت نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی غیب سے مدد فرمائے اور مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو غیرتِ دینی عطا فرمائے۔ آمین!