(منبرو محراب) حقوق العباد اور خدمت ِخلق - ابو ابراہیم

10 /

حقوق العباد اور خدمت ِخلق

(قرآن و حدیث کی روشنی میں )

 

مسجد جامع القرآن ، قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  کے31جنوری 2024ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبۂ مسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
آج ان شاء اللہ حقوق العباد کے موضوع پر قرآن و حدیث کی روشنی میں کچھ انتہائی اہم چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور اسی کے ذیل میں ہماری حکمران اشرافیہ نے عوام کے حقوق پر جو ڈاکہ ڈالنے کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس پر بھی کلام ہوگا کہ کس طرح ایک طرف عوام مہنگائی اور غربت کے بوجھ تلے سسک رہی ہے اور دوسری طرف حکمرانوں کی عیاشیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ 
دین میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ حتیٰ کہ اگر ہم فقہ کا مطالعہ کریں تو 75 فیصد فقہی مسائل بندوں کے حقوق سے متعلق ہیں ۔ باقی 25 فیصد مسائل عبادات ، ایمانیات اور عقائد سے متعلق ہیں ۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے بھی لگا لیں کہ انسان اوسطاً 6 گھنٹے سوتا ہے باقی اوسطاً  18 گھنٹے وہ بندوں کے درمیان گزارتا ہے ۔ چاہے گھر میں ہو ، دفتر میں ہو ، کہیں بھی ہو اس کا واسطہ بندوں سے پڑتا ہے ۔ اس وجہ سے دینی تعلیمات کا بڑا حصہ بھی بندوں کے حقوق سے متعلق ہے ۔ 
حقوق العباد کے حوالے سے آج کل مغرب کی ایک اصطلاح ہیومن رائٹس بھی رواج پذیر ہے مگر بنیادی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں ہیومن رائٹس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ مغربی ایجنڈے کے تحت جن حقوق کی بات کی جاتی ہے کیا وہ واقعتاً حقوق ہیں بھی یا نہیں ؟ یایہ ہیومن رائٹس کے نام پر انسانوں کے استحصال کا شیطانی ایجنڈا ہے ؟وہ تہذیبیں یا معاشرے جو خدا کا انکار کرتے ہیں ، پیغمبروں کو نہیں مانتے اور وحی کی تعلیم کا انکار کرتے ہیں، ان کا ’’ہیومن رائٹس‘‘ کے نام پر اپنا بنایا ہوا ایک تصور ہے ۔ اللہ کے دین کے تصورِ حقوق العباد اور مغرب کے ہیومن رائٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بے خدا تہذیب یہ کہتی ہے کہ بندہ جو چاہے سو کرے ۔ یہ گویا خود خدائی کا دعویٰ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ یہ شان تو صرف اللہ کی ہے کہ وہ جو چاہے کرے ، اللہ کا بندہ تو یہ دعویٰ کبھی نہیں کرسکتا ، اللہ کے دین کو ماننے والا اللہ اور اُس کے رسولوں کی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارتاہے۔ بے خدا تہذیب میں تو بعض لوگ برہنہ گھومنے کا حق بھی چاہتے ہیں اور وہاں کی حکومتوں نے ہیومن رائٹس کے نام پر اِس بے حیائی کی اجازت بھی دے دی ۔ برہنہ گھومنے کے لیے نیوڈٹی ایئر لائنز بھی وجود میں آچکی ہیں ، اسی طرح مرد کی مرد سے شادی ، عورت کی عورت سے شادی کی اجازت بھی بے خدا تہذیب میں دے دی گئی ۔ اگر اِس بےحیائی اور بے ہودگی کے خلاف کوئی آواز اُٹھاتا ہے تو اس کو جیل بھیج دیا جاتاہے ۔ جبکہ اللہ کے دین میں بندے اللہ کے حکم کے تابع رہ کر زندگی گزارتے ہیں ۔ اس کے حقوق وہی ہیں جو اللہ نے متعین کیے ہیں ، اپنی طرف سے وہ کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا ۔ مغرب کی دیکھا دیکھی بعض اوقات ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی دعویٰ کر بیٹھتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے ۔ بحیثیت مسلمان ان پر بھی واضح رہنا چاہیے کہ بندوں کے حقوق کونسے ہیں ؟ہمارے آئین میں بھی لکھا ہوا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی ۔ لہٰذا ہمارے ججز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کن حقوق کی بات کررہے ہیں ؟ وہ حقوق جو اللہ نے مقرر کیے ہیں یا وہ جن کو بے خدا تہذیب ہیومن رائٹس کے نام پر مسلط کرنا چاہتی ہے ؟
اسلام کے نقطۂ نظر سے جب حقوق کی بات کی جاتی ہے تو ان کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتاہے ۔ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔ یہ حقوق وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود متعین کیے ہیں نہ کہ انسانوں کے اپنے تصورات سے اخذ کردہ ہیں ۔ چونکہ حقوق العباد کا تعین بھی اللہ نے کیا ہے لہٰذا بندوں کے حقوق میں کوتاہی یا غصب اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کے مترادف ہے اور اس حوالے سے اللہ کے سامنے ہر ایک کو جواب دینا ہے ۔ اِس لحاظ سے حقوق العباد بھی بالآخر حقوق اللہ بن جاتے ہیں۔ اگر آج ہم کسی بندے کے ساتھ ظلم کرتے ہیں، اُس کا حق غصب کرتے ہیں اور وہ مظلوم شاید اس دنیا میں ہمارا کچھ نہ بھی بگاڑ سکے مگر روزمحشر ہمیں اس کا حساب ضرور دینا ہوگا ۔ 
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اصل چیز تو حقوق العباد ہیں ، حقوق اللہ کا کوئی مسئلہ نہیںہے، اللہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے ، وہ معاف کردے گا ۔ یہ کہہ کر بعض لوگ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج اور دیگر فرائض جو اللہ کے حقوق ہیں ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں یاان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسا کہ قربانی کے موقع پر کہہ دیا جاتاہے کہ لاکھوں کا بکرا ذبح کرنے کی کیا ضرورت ہے، پانی کا کولر لگا دیجئے لوگ پئیں گے یا فلاں فلاحی کام کر دیجئے۔ حالانکہ کولر لگانے کے لیے 360دن پڑے ہیں ، آپ کبھی بھی لگوا سکتے ہیں ، قربانی جیسے فریضہ کو ہی آپ کیوں باطل نظریہ کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں ؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :قربانی کے دن قربانی سے زیادہ کوئی عمل اللہ کو محبوب نہیں۔ اسی طرح نماز کے وقت نماز ادا کرنا فرض ہے ۔ کوئی دوسرا عمل اس کی جگہ نہیں لے سکتا ۔سورۃ المدثر میں ہے کہ جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے :
{مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ(42)} ’’ تم لوگوں کو کس چیز نے جہنم میں ڈالا؟‘‘
ان کا پہلا جواب ہی یہ ہوگا :
{قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(43)}’’وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیںتھے۔‘‘
پھرایک اور جواب یہ بھی ہوگا :
{وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ(45)} ’’اور ہم کٹ حجتیاں کرنے والوں کے ساتھ مل کر کٹ حجتیاں کیا کرتے تھے۔‘‘
یعنی نماز ادا کرنے کی بجائے ہنسی مذاق اور فضول کاموں  میں مست رہتے تھے ۔اپنی جان کو جہنم سے بچانا بھی اپنی جان کا حق ہے ۔ سورہ التحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} (آیت:6) ’’اے اہل ایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے۔‘‘
 لہٰذاحقوق العباد کے لیے حقوق اللہ کو چھوڑنا گمراہی ہے اور اسلام اس کی اجازت ہرگز نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو پامال کرنے کے لیے جواز تراشے جائیں یا ان کی اہمیت کو کم کیا جائے ۔ اگر کوئی حقوق العباد تو ادا کر رہا ہے مگر حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہا ہے تو گویا وہ آدھے دین پر عمل کر رہا ہے اور آدھے سے انکار کر رہا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی حقوق اللہ کی ادائیگی میںتو مصروف ہے ، پنج وقتہ نمازیں بھی پڑھتا ہے ، روزے بھی پورے رکھتا ہے ، زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے ، حج اور عمرے بھی کر رہاہے مگر ماں  باپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہے ، پڑوسیوں کو پریشان کر رہا ہے ،کسی کا حق کھا کر بھاگا ہوا ہے ، وراثت میں بیٹیوں کو حق نہیں دے رہا تو وہ بھی آدھے دین پر عمل پیرا ہے اور باقی آدھے سے انکار کر رہا ہے ۔ اسلام ایسا دین نہیں ہے کہ جتنا دل کیا عمل کیا باقی چھوڑدیا ۔ رب فرماتاہے :
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص}  (البقرہ:208 ) ’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
       اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ پورے دین پر عمل کرنا لازمی ہے ۔ اس میں حقوق اللہ بھی شامل ہیں ، حقوق العباد بھی شامل ہیں ۔ 
      حقوق العباد کی اہمیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ سے ظلم کیا ہو تو آج ہی، اُس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اُس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اُس پر ڈال دی جائیں گی۔مسنداحمد میں حدیث ہے کہ اعمال تین قسم کے ہوں گے ۔ (1)۔ جن کو اللہ معاف نہیں کرے گا۔ جیسا کہ شرک کے بارے میں اللہ نے فرمایا :
{اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج}  (النساء :48) ’’یقیناً اللہ اِس بات کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے‘اس سے کم تر جو کچھ ہے وہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔‘‘ 
(2)۔وہ اعمال جو حقوق اللہ کے متعلق ہوں گے ، اللہ چاہے گا تو انہیں معاف فرما دے گا، چاہے تو معاف نہ کرے۔ یعنی یہ کوئی گارنٹی نہیںہے کہ حقوق اللہ لازماً معاف ہو جائیں گے۔ (3)۔ وہ اعمال جو حقوق العباد سے متعلق ہیں ، ان میں اگر کوتاہی ہوگی تو اللہ معاف نہیں فرمائے گا جب تک کہ متعلقہ بندے سے معافی نہ لے لی جائے۔ یہ بہت سنگیں مسئلہ ہے جس پر ہر انسان کو فکرمند ہونا چاہیے ۔ روز قیامت ایک ایک نیکی کی بہت بڑی قیمت ہوگی ۔ سورۃ العبس میں ہے :
{یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ (34) وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِi وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ (35) لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ (36)} (آیات:34تا36) ’’اُس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سےاور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سےاور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ اُس دن اُن میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاحق ہو گی جو اُسے (ہر ایک سے) بے پروا کر دے گی۔‘‘
سورۃ المعارج میں فرمایا :
{وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًاJیُبَصَّرُوْنَـہُـمْ  یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْوِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَـمِیْعًا ثُـمَّ یُنجِیْہِ }’’اور کوئی دوست کسی دوسرے دوست کا حال نہیں پوچھے گا،وہ اُنہیں دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ کاش اُس دن کے عذاب کے بدلے میں اپنے بیٹوں کو دے دے۔اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو اور اپنے اس کنبہ کو جو اسے پناہ دیتا تھااور ان سب کو جو زمین میں ہیں پھر اپنے آپ کو بچا لے۔‘‘
         حقوق العباد کا معاملہ اس قدر حساس ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام ؓسے پوچھا :تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: مفلس ہم میں وہ ہے جس کے پاس مال اور اسباب نہ ہوں۔ آپ ﷺنے فرمایا: مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا جونماز ، روزہ اور زکوٰۃ تو لائے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی،کسی پربدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال کھا یا ہو گا،کسی کا خون کیا ہو گا،کسی کو مارا ہو گا، پھر اس کی نیکیاں اُن لوگوں کو دی جائیں گی ، پھر بھی اگر حقوق العباد میں کوتاہیاں باقی رہیں گی تو اُن لوگوں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے اور آخر کار وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ 
آج دنیا میں ظلم کا راج ہے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جس کے پاس طاقت ہے وہ جو چاہے کرے اس کو کوئی پوچھ نہیں سکتا ۔ قوم کا مال ہڑپ کر کے باہر جزیرے بن گئے ، محلات بن گئے ، قوم کا بیڑہ غرق کر دیا،15 لاکھ افغان بھائیوں کو شہید کروا دیا لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اللہ نے فرعون اور نمرود کو بھی دنیا میں چھوٹ دی تھی ، لیکن آخر کار اللہ کے سامنے عدالت لگے گی۔ اللہ پاک قرآن میں فرماتاہے :
{وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا(95)} (مریم :95) ’’اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اس کے پاس اکیلے اکیلے۔‘‘
جب اللہ کی عدالت لگے گی تو وہاں سے فرار کا کوئی راستہ نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی سفارش کام آئے گی اور نہ پیسہ ۔ جتنا ظلم کیا ہوگا اس کے بدلے میں اگر کوئی نیکیاں کی ہوں گی تو وہ دینا پڑیں گے ورنہ مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے ۔ 
آج وقت ہے ہم سب اپنا جائزہ لیں، ماں باپ کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہے ؟شوہر کا بیوی کے ساتھ اور بیوی کا شوہر کے ساتھ سلوک کیسا ہے ؟پڑوسیوں کے ساتھ کوئی ناانصافی تو نہیں ہورہی ، بیٹیوں کا وراثت میں ، جائیداد میں حصہ تو نہیں دبا کر بیٹھے ہوئے؟آفس میں اپنے ملازمین کے حقوق تو غصب نہیں ہورہے ؟تاجر ہیں تو دو نمبر مال ایک نمبر بتا کر تو سیل نہیں کر رہے ؟ حقوق العباد میں کسی بھی قسم کی اگر کوتاہی ہو رہی ہے تو آج ہی اس کا ازالہ کرلیں ، دوسروں کا حق ادا کریں ، ظلم و زیادتی کی صورت میں معافی مانگ لیں ورنہ اللہ کی عدالت میں ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا اور پورا پورا انصاف ہوگا۔
حالات حاضرہ 
اِس وقت ملکی معیشت کی صورتحال سب کے سامنے ہے ، قوم کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی ہوئی ہے ، مہنگائی اور غربت کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ نے کے چکر میں سمندروں میں ڈوب رہے ہیں ، کہیں خودکشیاں ہورہی ہیں ، لیکن دوسری طرف حکمران اشرافیہ کی عیاشیاں ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں ۔ 2024ء کے آخر میں پنجاب اسمبلی نے ممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں 500 فیصد سے لے کر 700 فیصد تک اضافہ کیا اور اب قومی پارلیمان کے ممبران کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی 100 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے ۔ FBRمیںجھگڑا چل رہا ہے ، ان کے چیئرمین کہتے ہیں ہم 1 ہزار سے زائد نئی اور مہنگی گاڑیاں خرید کر رہیں گے جبکہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس کی مخالفت کی ہے، اطلاعات کے مطابق اس کے بعض  اراکین کہہ رہے ہیں کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں ۔ 
بہرحال قرضوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی قوم کے ساتھ یہ جو ظلم ہورہا ہے یہ بھی حقوق العباد کو غصب کرنے کے مترادف ہے ۔ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ قوم کے بوڑھوں کی پینشن میں اضافہ کے لیے پیسے نہیں ہیں  اور دوسری طرف قوم کے پیسوں سے عیاشیوں کے نئے سے نئے پیمانے ایجاد کیے جارہے ہیں۔قوم کا مال اس قدر بے دردی کے ساتھ لُٹانے پر انہیں اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ حالانکہ اکثریت میں ممبران اسمبلی اربوںپتی اور کھربوں پتی ہیں ، جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں جن کے پاس اتنی دولت ہے کہ کوئی حساب نہیں ہے ، اسی طرح یہ جج ، جرنیل ، بیورکریٹس جو لاکھوں روپے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں ، مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ قوم اس وقت مشکل سے دوچار ہے ، چلو میں اپنی تنخواہ میں سے چند لاکھ کم لے لیتا ہوں ۔ ہرگز نہیں ! چیئرمین FBRکہتے ہیں 7 ارب روپے    کی کرپشن اس ادارے میں ہوئی ہے ۔ باقی اداروں کا حال کیا ہوگا ۔ کوئی خدا کا خوف کرو ! یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار اتنا ٹیکس نہیں دیتے جتنا غریب آدمی اپنی محنت کی کمائی سے ریاست کو دے رہا ہے ۔ یہ پیسہ غریب پر خرچ کرنے کی بجائے اشرافیہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کر رہی ہے اور ملک اور قوم کے نام پر جو قرضہ لیا جارہا ہے اس کو قوم اپنی جیبوں سے ادا کر رہی ہے ۔ اس وقت قوم 73 کھرب روپے کے قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے ، سارا دن بےچارا عام آدمی محنت مزدوری کرکے ، دو دو نوکریاں کر کے  بھاری ٹیکسوں کی صورت میں یہ قرضہ چکانے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے مگر اشرافیہ اس غریب قوم پر مزید بوجھ ڈالے جارہی ہے ۔ یہ سب بھی حقوق العباد کا مسئلہ ہے۔ ایک حدیث میںہے کہ دوران جہاد ایک شخص حضور ﷺ کی جماعت میں شریک ہو کر لڑ رہا تھا او ر دوران جنگ قتل ہوگیا۔  صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! یہ شہید ہوگیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا : ہرگز نہیں بلکہ یہ جہنم کی آگ میں جلنے والا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چرا لی تھی ۔ اندازہ کیجئے حضور ﷺ کے ہمراہ جہاد کر رہا ہے مگر ایک چادر کی کرپشن کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا ۔ ہماری کیا حیثیت ہے کہ قوم کا مال لوٹ کر جزیرے بنائیں ، محلات خریدیں اور پھر خیرات کے نام پر، خدمت ِخلق کے نام پر کچھ دے کر ، مساجد میں قالین بچھا کر اور پنکھے لگوا کر سمجھیں کہ ہم بخشے جائیں گے ؟ سودخوری اور حرام خوری کرکے مسجدیں بنوا دیں ، یتیم خانے بنا لیں تو کیا قوم کا حق اللہ معاف کردے گا؟ ہرگزنہیں !   اللہ پاک ہم سب کو اپنی اصلاح کرنے اور حقوق العباد کے معاملے میں جو کوتاہیاں ہو ئی ہیں ان کا ازالہ اسی دنیا میں کرنے کی توفیق دے ۔ آمین !