پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پرفکری ، مذہبی اور سیاسی
انتشار پھیلانے والوں ، ملک اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا
کرنے والوں اور بے حیائی پھیلانے والوں کو روکنے کے لیے
پیکاایکٹ جیسے قانون کی ضرورت تھی :رضاء الحق
سوشل میڈیا آج باقاعدہ ہتھیار بن چکا ہے ۔ پاکستان دشمن طاقتیں
اس ہتھیار کے ذریعے پاکستان میں بدامنی اورانتشار پھیلاتی ہیں
اورپاکستان کا امیج پوری دنیا میں بدنام کرتی ہیں :آصف حمید
’’پیکا ایکٹ :توقعات اور خدشات ‘‘ کے موضوع پر
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
سوال: متنازعہ پیکا قانون 2025ء پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو کر آیا ہے ۔ اس کے اہم نکات کیا ہیں اور اس کو متنازعہ کیوں بنایا جارہا ہے ؟
رضاء الحق:بنیادی طو رپر یہ قانون 2016ء میں پاس کیا گیا تھا۔ پھر 2019ء میں اس میں ترمیم لائی گئی جوکہ 2022ء میں پاس ہوئی لیکن ہائی کورٹ نے اسے کالعدم قراردے دیا ۔ 2025ء میں دوبارہ اس میں ترامیم کی گئی ہیں جو کہ دونوں ایوانوں کی جانب سے پا س ہو چکی ہیں اورصدر مملکت کے دستخط کے بعد اب یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ترامیم کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الیکٹرانک کرائمز کی شکل تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ 2000ء کے بعد پرائیویٹ ٹی وی چینلز کھل گئے ، پھر 2010ء کے بعد سوشل میڈیا کا طوفان آیا جس کے ذریعے انتشار پھیلا اور غیر اخلاقی چیزیں بھی اس میں شامل ہوگئیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی نہ کسی لائحہ عمل کی ضرورت تھی۔ پیکا ایکٹ انہی وجوہات کی بناء پر آیا ۔ پیکا کے ادارے کا ایک چیئرمین ہوگا اور اس کے ساتھ 5 ممبرز ہوں گے جو کم ازکم بیچلر ڈگری ہولڈر ہو ں ۔ادارے میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پیمرہ ، چیئرمین پی ٹی اے بھی شامل ہوں گے ۔ چونکہ اس قانون کا تعلق معاشرے سے ہے لہٰذا معاشرے کے مختلف شعبوں کے ماہرین کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا جیسا کہ ایسا صحافی جو 10 سال تک پریس کلب کا ممبر رہا ہو ، سوشل میڈیا ایکسپرٹ ، آئی ٹی ایکسپرٹ ، سافٹ ویئر انجینئرجو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے تسلیم شدہ ڈگری کا حامل اور 10 سالہ تجربہ رکھتا ہو ۔ یہ ادارہ الیکٹرانک کرائمز کو مانیٹر کرے گا ۔ قانون کے مطابق نظریۂ پاکستان کے خلاف بات کرنا ، تشدد پر اُبھارنا، ملکی یا پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے اُبھارنا ، پورنو گرافی ، جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانا ، عدلیہ ، ریاستی فورسز اور پارلیمان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنا، فرقہ واریت کو ہوا دینے جیسی تمام چیزیں جرائم میں شامل ہوں گی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف پیکاایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔ اس قانون کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے ایک نئی اتھارٹی بنے گی اورتفتیش کے لیے NCCIA (نیشنل سائبر کرائمز انوسٹیگیشن ایجنسی)کے نام سے ایجنسی بنے گی جس کےسربراہ کے اختیارات آئی جی پولیس کے برابر ہوں گے ۔ مذکورہ بالا جرائم کے خلاف کوئی بھی شخص جاکر کیس رجسٹرکروا سکتاہے اور ٹربیونل 90 دن میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہوگا ۔ تین رکنی ٹریبونل میں ہائی کورٹ کا ایک جج ، ایک سافٹ ویئر انجینئر اور ایک صحافی شامل ہوں گے ۔ یہ ٹربیونل جو فیصلہ کرے گا اس کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا ۔یعنی اسے فوجداری معاملہ بنا دیا گیا ہے ۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں سائبر کرائمز کے کیسزکی سماعت سول کورٹ میںہوتی ہے ۔ ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاتا بلکہ ملزم کو صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جاتاہے اور سزا کی صورت میں جیل نہیں بھیجا جاتا بلکہ مالی جرمانہ عائد کیا جاتا ہے ،یا کمیونٹی کی خدمت پر لگا دیا جاتاہے ۔
سوال:ہمارے ہاں سوشل میڈیا بہت بے لگام ہو چکا ہے ، لوگوں کی پگڑیاں اُچھالی جاتی ہیں ، جھوٹی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں ، کردار کشی کی مہمات چلائی جاتی ہیں جس سے ہر کوئی پریشان ہے لیکن جب بھی اس کے تدارک کے لیے کوئی قانون بنایا جاتاہے تو اس کے خلاف شور برپا کیا جاتاہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟
آصف حمید:سوشل میڈیا کے ذریعے جو جرائم ہوتے ہیں اُن کے خلاف قانون بننا چاہیے ، مجرموں کو سزا بھی ہونا چاہیے ۔ اس کی ضرورت بھی ہے۔ مشرف سے پہلے پاکستان میں صرف تین چینلز ہوا کرتے تھے : PTV, PTV WORLDاور STN ۔ لیکن نائن الیون کے بعد امریکہ کے بیانیہ کو پھیلانے کے لیے دھڑا دھڑ پرائیویٹ چینلز کھولے گئے ، مشرف نے کھلی اجازت دے دی ، بے نامی اکاؤنٹس میں صحافیوں کو پیسے آنا شروع ہوئے اور امریکہ کے بیانیہ کو میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پھیلایا۔ پھر 2006ء تک سوشل میڈیا بھی میدان میں آگیا ، پاکستان اور بالخصوص اسلام کے خلاف پروپیگنڈا اور زہر پھیلانے کا کام بھی شروع ہوا اور اس کا فائدہ اسلام اور پاکستان دشمنوں نے اٹھانا شروع کیا ۔ پیمرا اس وقت بھی موجود تھا آج بھی موجود ہے مگر ان چیزوں کو کنٹرول نہیں کر سکا ۔ کسی کی عزت اُچھالنی ہو ، کردارکشی کرنی ہو ، ملک اور قوم کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانی ہو تو اس کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم موجود ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ پھر یہ کہ مونیٹائزیشن اور کمائی کے چکر میں بے حیائی اور غیر اخلاقی چیزیں پھیلانے کا رواج عام ہورہا ہے ۔ اس کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ لوگ ہمارے معاشرے کو بہت گندا کر دیں گے ۔سکینڈلز عام کرنا بھی ایک غلط رجحان ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی سکینڈل سامنے آبھی جائے تودیکھا جاتاہے کہ کوئی ایسی خبر عام نہ کی جائے جس سے عوام پریشان ہوں یا کسی کی زندگی پر بُرے اثرات پڑیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں اگر کوئی سیکنڈل سامنے آجائے تو پورا میڈیا بال کی کھال اُتارتا ہے اور اس کو باربار دکھاتا اور خبریں جاری کرتا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر ہمارے ہاں اگر کسی کو بدنام کرنا ہو اور اس کا کوئی سکینڈل نہ بھی ہو تو اس کا جھوٹا سیکنڈل بنا کر پھیلا دیا جاتاہے ۔کچھ عرصہ سے لوگوں کو بلیک میل کرنے کے لیے بھی ویڈیوز بنانے کا کام شروع ہوگیا ۔ کسی شریف انسان کی ، کسی گھر کی عزت محفوظ نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ کو کوئی روکنے ٹوکنے والا ہے ۔علماء اور اکابرینِ ملت کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے ، مذہبی اور فکری انتشار کو ہوا دی جاتی ہے ۔ پھر یہ کہ سوشل میڈیا آج باقاعدہ ہتھیار بن چکا ہے جس کو دشمن اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتاہے ۔ پاکستان دشمن طاقتیں اس ہتھیار کے ذریعے پاکستان میں انتشار پھیلاتی ہیں ، پاکستان کا امیج پوری دنیا میں بدنام کرتی ہیں ۔ انڈیا اور دوسری طاقتیں ایسے لوگوں کو فنڈنگ کرتی ہیں ۔ لہٰذا ایسے قانون کی بہرحال ضرورت تھی اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جہاں تک اس قانون کو متنازعہ بنانے کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات سیاسی بھی ہو سکتی ہیں ۔ اگر قانون کا صحیح استعمال ہوگا تو کسی کو شکایت نہیں ہوگی۔ تاہم اس سے آگے بڑھ کر اصل اور حقیقی حل یہ ہےکہ ہم سچے مسلمان بن جائیں ۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں تو سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔حضرت علی کا قول ہے کہ بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے - کسی بے گناہ پر تہمت لگانا یا سزا دینا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی معافی نہیں ہےچاہے آپ 100 چادریں اپنی قبروں پر چڑھوا لیں ، 100 کنویں کھدوا لیں جب تک کہ متاثر بندہ معاف نہ کرے ۔
سوال:اپوزیشن میں شامل جماعتوں کی طرف سے بیان سامنے آیا ہے کہ وہ اس قانون کو عدالت میں چیلنج کریں گی، کچھ دیگر حلقوں کی جانب سے بھی اس قانون کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ اس کی کیا وجوہات ہیں اور کیا وہ درست ہیں ؟
رضاء الحق: دنیا میں کئی ممالک انتشار سے بچنے کے لیے ایسے قوانین بناتے ہیں ۔ جیسا کہ چائنہ میں ون پارٹی سسٹم ہے ، اگر کوئی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف بات کرے تو اس کو اٹھالیا جاتاہے ، وہاں 50 سال سے لوگ اس قانون کے عادی ہو چکے ہیں اور انہیں معلوم ہے کیا بات کہنی ہے اور کیا نہیں کہنی ۔ اسی طرح روس میں بھی کوئی صدر پیوٹن کے خلاف بات کرتا ہے تو اس کو سزا دی جاتی ہے ۔ برطانیہ میںبادشاہ کے خلاف کوئی بات کرے تو اس کے خلاف کیس دائر ہوتا ہے مگر سزا کے طور پر جیل نہیں ہوتی بلکہ کسی کمیونٹی ورک پر لگا دیا جاتاہے ۔ پاکستانی نظام حکومت میں اپوزیشن کا ایک تصور ہے جو کہ ہمیشہ حکومت کی مخالفت کرتی ہے ۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں اپوزیشن حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں اپوزیشن باقاعدہ طور پر ایک شیڈو گورنمنٹ بناتی ہے جس میں تمام وہ عہدے موجود ہوتے ہیں جو گورنمنٹ میں موجود ہوتے ہیں ۔ وہ پالیسیز بھی بناتے ہیں اور عوام تک پہنچاتے ہیں ۔ اسی طرح برطانیہ میں صرف 4 ٹی وی چینلز ہیں : BBC، آئی ٹی وی ، چینل 4اور سکائی ۔وہاں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے Ofcom کے نام سے باقاعدہ ادارہ کام کررہا ہے ۔ یہاں ماضی میں اپوزیشن کو زیر اعتاب لانے کے لیےقوانین کا غلط استعمال بھی ہوتا رہا ہے ۔ اسی طرح اپوزیشن کا طرزعمل بھی غیر منصفانہ ہوتاہے۔ یہاں حکومتی عہدیداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر جب تنقید کی جاتی ہے تو نوبت گالیوں تک چلی جاتی ہے ، بلاوجہ کردارکشی کی جاتی ہے ۔ پھر وہی اپوزیشن جب حکومت میں آتی ہے تو یہ ساری چیزیں اسے غلط نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ بہرحال میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون اور ادارے کی ضرورت ہے ۔
سوال: ادارے تو پہلے بھی یہاں موجود ہیں جیسا کہ پیمرا ہے ، وزارت اطلاعات و نشریات ہے ،پریس کونسل ہے ، PTA ہے ، قوانین بھی موجود ہیں ، وارننگز بھی جاری ہوتی ہیں چینلز بھی بند ہوتے ہیں مگر اس سب کے باوجود آج تک میڈیا کو لگام کیوں نہیں ڈالی جا سکی ؟
رضاء الحق: بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقی تربیت کا فقدان ہے ۔ یہاں ہر سیاسی جماعت خود کو پولیٹیکل آرگنائزیشن کہتی ہے مگر آرگنائزیشن میں تربیت کا نظام نہیں ہے ۔ حالانکہ تنظیم میں اپنے نظریہ کے مطابق تربیت کا اہتمام لازمی ہوتاہے جیسا کہ تنظیم اسلامی کے پاس ایک نظریہ ہے تو اس کے مطابق اس کے کارکنوں کی تربیت کا باقاعدہ نظام بھی موجود ہے اور اس کے تحت رفقاء کو ہر سطح پر باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے ۔
آصف حمید:پیکا قانون کے خلاف شور مچانے والوں میں بعض صحافتی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جبکہ یہاں زرد صحافت بھی بہت ہے ، ذمہ دارانہ صحافت بہت کم ہے ، زیادہ تر کمائی کا ذریعہ بنایاہوا ہے ۔ اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کوئی بھی ایشو اٹھاتے ہیں اور غلط بیانی اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے رائی کا پہاڑ بنایا جاتاہے ، توہین آمیز زبان استعمال کرنا اور ہارڈ ٹاک کرنا عام رواج بن گیا ہے ۔ یہاں تک کہ چینلز پر لوگوں کو بٹھا کر آپس میں لڑوا دیا جاتاہے تاکہ ویوز کی تعداد بڑھے اور چینل کو ریٹنگ ملے ۔
رضاء الحق:اگر آپ برطانیہ کی پارلیمنٹ کا جائزہ لیں تو وہاں زیادہ تر اراکینِ پارلیمنٹ سچائی اورامانت داری پر پورا اُتر رہے ہوتے ہیں ۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہمیں اس معیار پر اُترنا چاہیے تھا ۔ نوم چومسکی نے 2000ء کی ابتداء میں میڈیا کے حوالے سے Weapons of Mass Deception(بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے ہتھیار) کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی ۔
سوال:ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے ، جو چاہتا ہے کسی دوسرے پر گند اچھالتاہے ، جس انداز میں چاہے لکھتا ہے ، بولتا ہے ۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے لوگوں کو گتھم گتھا کروا دیا جاتاہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ بعض سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے منتظمین بیرون ممالک بیٹھے ہوتے ہیں ، وہ کسی قانون کے تحت نہیں آتے ۔ پھر اگر کوئی قانون بن بھی جائے تو اس کے خلاف صحافتی تنظیمیں اکٹھی ہوجاتی ہیں، عدالت کے ذریعے کالعدم قرار دلوایا جاتاہے۔اس مسئلے کا حتمی حل کیا ہے اور دین اس حوالے سے ہمیں کیا رہنمائی دیتاہے ؟
آصف حمید:جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بیرون ملک سے چلائے جارہے ہیں پیکا ایکٹ کے تحت ان کی رجسٹریشن پاکستان میں کی جائے گی ۔ اگر وہ قانون کے مطابق نہیں چلیں گے تو ان کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی اور ان کو بند کر دیا جائے گا ۔ بہرحال قانون اپنی جگہ ہے ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لیے سب سے بڑا قانون وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ۔ جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل میں کہا گیا :
’’اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘(آیت :36)
جو کچھ بھی ہم سوشل میڈیا پر دیکھ ، سن اور کر رہے ہیں اس حوالے سے اگر ہم دنیا میں قانون کی پکڑ میں آنے سے بچ بھی جائیں تو آخرت میں ہمیں ضرور جواب دینا ہوگا ۔ سورۃ الحجرات میں فرمایا :
’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو کہ کہیں کسی قوم کو نادانی میں ایذا نہ دے بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔‘‘(آیت :6)
اسی سورت میں آگے فرمایا:
’’اے اہل ایمان !تم میں سے کوئی گروہ دوسرے گروہ کا تمسخر نہ اڑائے‘ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں‘(اسی طرح) عورتیں بھی دوسری عورتوں کا تمسخر نہ اڑائیں‘ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور اپنے آپ کو عیب مت لگائو اور نہ آپس میں ایک دوسرے کے چڑانے والے نام رکھا کرو۔ ایمان کے بعد تو برائی کا نام بھی برا ہےاور جو باز نہیں آئیں گے وہی تو ظالم ہیں۔‘‘(الحجرات :11)
اسی سورت میں آگے پھر فرمایا :
’’اے اہل ِایمان! زیادہ گمان کرنے سے بچو‘بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘اور ایک دوسرے کے حالات کی ٹوہ میں نہ رہا کرو‘اور تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے ُمردہ بھائی کا گوشت کھائے؟یہ تو تمہیں بہت ناگوار لگا!‘‘(الحجرات:12)
سورہ نور میں فرمایا گیا:
’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘(آیت :19)
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺکی احادیث موجود ہیں ۔ آپ ﷺنے فرمایا :تنگ اور باریک لباس پہننے والی عورتیں جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکیں گی ۔ ایک حدیث میں فرمایا : دیوث مرد جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکتا ۔ دیوث مرد وہ ہے جو اپنی عورتوں کی عزت اور عصمت کی حفاظت نہیں کرتا ۔ آج سوشل میڈیا پر اپنی پوری فیملی کو بے پردہ دکھایاجاتاہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی حدیث ہے کہ زنا آنکھ کا بھی ہوتاہے ، دل کا بھی ہوتاہے ، کان کا بھی ہوتا ہے ۔ آج کوئی بھی سمارٹ فون والا اس سے بچا ہوا نہیں ہے (الا ماشاء اللہ)۔ اگر دین کی ان تعلیمات پر عمل کیا جائے تو الیکٹرانک کرائمز کا سدباب ہو سکتاہے۔ ہمارے دینی حلقوں کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے آگاہی مہمات شروع کریں ۔
سوال:پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آزادی اظہار رائے کے حق میں اور فیک نیوز کے خاتمے کے لیے آپ کیا تجاویز دیں گے؟
رضاء الحق: پہلی بات یہ ہے کہ مادر پدر آزادی کا اسلام قائل نہیں ہے ۔آزادی کی حدود ہیں جوکہ قرآن و سنت میں طے شدہ ہیں ۔ اسی طرح اسلام کا قانون قذف بہت اہم ہے ۔ اگر کسی کے خلاف کوئی جھوٹی گواہی دیتا ہے تو اس کی بھی سزا ہے ۔ اس کا اطلاق ہونا چاہیے ۔پھر یہ کہ مجرمین کو سرعام سزائیں دی جائیں تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو ۔ اسلامی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ آج بھی سعودی عرب میں قتل کے مجرموں کی لوگوں کے مجمع میں گردنیں اُڑائی جاتی ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے ۔ یہی معاملہ منشیات کی سمگلنگ میں ملوث لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں منشیات کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے ۔ پھر یہ کہ انسانی معاشرہ کی تربیت کا پہلو بہت اہم ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارا پورے کا پورا میڈیا گلیمرائز کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ حالانکہ یہی میڈیا اگر قوم کی اخلاقی بنیادوں پر تربیت اور اصلاح کا کام کرے تو معاشرے میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے ۔ اسی طرح نظام تعلیم تربیت کا اہم ذریعہ ہوا کرتاہے مگر ہمارے ہاں وہ بھی مغربیت پھیلانے میں لگا ہوا ہے۔ یعنی گھر اور ریاست دونوںمیں اخلاقی تربیت کا انتظام نہیں ہے ۔
سوال:جھوٹی افواہیں اور بے بنیاد خبریں پھیلانے کی روک تھام کیسے ممکن ہے ، آپ کیا تجاویز دیں گے ؟
آصف حمید:چاہے عوام ہوں یا قانون نافذ کرنے والے ادارے ،سب کے لیے اہم یہ ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور آخرت کی جوابدہی کا احساس دل میں پیدا کریں۔ اگر دنیا میں ہم قانون کی پکڑ سے بچ بھی جائیں گے تو آخرت میں نہیں بچ سکیں گے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے ۔ حدیث میں ہے کہ پہلی قومیں اسی وجہ سے برباد ہوئیں کہ ان کے بڑے جب کوئی جرم کرتے تھے تو ان کو معاف کردیا جاتا تھا اور کمزوروں کو پکڑ کر سزا دی جاتی تھی ۔ قانون کا نفاذ ہر جگہ یکساں ہونا چاہیے ۔ پھر یہ کہ ہماری نوجوان نسل کی دینی بنیادوں پر تربیت کا اہتمام ہونا چاہیےتاکہ وہ دین کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہو سکیں ۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اس حوالے سے اپنی اولاد کی تربیت کااہتمام کریں ۔ ان پر نظر بھی رکھیں کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کس طرح کر رہے ہیں ۔ اگرچہ آج کے دور میں دین پر چلنا بہت مشکل ہے مگر جو لوگ دین کو اپنا لیں گے ان کے لیے بہت بڑی خوشخبری اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے : ”اسلام اپنی ابتداء میں اجنبی تھا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع میں تھا، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے۔‘‘ بحیثیت امتی ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم ان خوش بخت لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں ۔ بیرونی ممالک سے جو سازشیں اور جو ایجنڈے اسلام اور پاکستان کے خلاف چلائے جاتے ہیں ان کا شکار ہونے سے اپنی نسلوں کو بچانا چاہیے ، سب سے اہم یہ ہے کہ اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کریں اور اپنی آخرت کو مدنظر رکھتے ہوئے دین کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025