(زمانہ گواہ ہے) ’’عورت کے حقوق ‘‘کے نام پر دجالی تہذیب کا حملہ - وسیم احمد

8 /

اسلام نے عورت کو جو عزت بخشی ہے، آج مغربی تہذیب دجل

اور فریب کے ذریعے نام نہاد آزادی اور حقوق کی آڑمیں اس

عزت اور عصمت کو عورت سے چھیننا چاہتی ہے :خورشید انجم

عورت مارچ کا مقصد عورت کے حقوق کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ

مغرب کے ایجنڈے کی جنگ لڑ رہے ہیں: ڈاکٹر محمد عارف صدیقی

ویلنٹائن جیسی خرافات سے ہمارے معاشرے میں حیاء ، غیرت

اورایمان کا جنازہ نکل رہا ہے :قیصر احمد راجہ

’’عورت کے حقوق ‘‘کے نام پر دجالی تہذیب کا حملہ

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد

سوال:عالمی یوم خواتین کے موقع پر پاکستان میں بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت زیادہ آواز بلند کی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ دین اسلام واحد دین ہے جس نے خواتین کو سب سے زیادہ حقوق دئیے ہیں۔ آپ دیگر ادیان کے ساتھ تھوڑا موازنہ کرکے بتائیے کہ کیا واقعی اسلام نے خواتین کو سب سے زیادہ حقوق دئیے ہیں اور اگر یہ بات سچ ہے تو پھر عالمی یوم خواتین کے موقع پر کن حقوق کی مانگ کی جاتی ہے ؟
خورشیدانجم:سب سے پہلے تو ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دئیے ہیں جو اس کو پہلے حاصل نہیں تھے ۔ اسلام سے قبل عورت کو غلاموں کی طرح اپنی پراپرٹی سمجھا جاتا تھا۔ جیسے بھیڑبکریاں ، غلام اور دیگر چیزیں پراپرٹی میں شامل ہوتی تھیں۔ وہی حیثیت عورت کی بھی تھی ۔ یہاں تک کہ اگر کسی کی سوتیلی مائیں ہوتی تھیں اور والد فوت ہو جاتا تھا تو وہ سوتیلی مائیں بھی بیٹے کی وراثت میں شامل ہو جاتی تھیں اور وہ ان سے شادی کر لیتا تھا ۔ اس سے بھی بڑی برائی یہ تھی کہ وہ انہیں بیچ سکتا تھا جیسے غلاموں کو بیچا جاتا تھا ۔ پھر یہ کہ بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا تھا اور اُنہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ۔ اسلام نے ان چیزوں کو آ کر ختم کیا ، عورت کو حقیقی شرف ِانسانیت بخشا ، بحیثیت انسان اس کے حقوق کا تعین کیا ۔اسلام میں لڑکیوں کی پرورش کی باقاعدہ ترغیب و تشویق دی گئی ۔ احادیث میں یہاں تک فرمایا گیا کہ جس نے تین لڑکیوں کی صحیح طور پر پرورش کی تو وہ جنت میں داخل کیا جائے گا ، پوچھا گیا کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی ؟ فرمایا وہ بھی جنت میں جائے گا ۔ اسی طرح اسلام نے عورت کو ایک تشخص دیا ہے کہ وہ اگر اللہ کی بندگی کرے گی تو اس کو اس کا پورا اجر عطا کیا جائے گا جیسا کہ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ ؅ کے بارے میں فرمایا گیا کہ جنت میں اُن کا گھر ہے ۔ اسلام نے عورت کو تعلیم کا حق بھی دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؅سمیت کئی صحابیات عالمہ بھی تھیں اور احادیث کی راوی بھی رہیں۔ پھر کئی صحابیات ڈاکٹر بھی تھیں ۔ اسلام نے عورت کو نکاح کے موقع پر حق مہر دلوایا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام نے عورت کا وراثت میں حق مقرر کیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے عورت کا وراثت میں کوئی حق نہیں تھا ۔ ہندوؤں کے ہاں تو آج تک بھی عورت کا وراثت میں کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا، اسی طرح اسلام سے قبل عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا تھا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خواتین کے وراثت میں حق کاباقاعدہ تعین کرنے کے بعد فرمایا :
’’یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدود ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلے (اللہ) اسے بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہےاور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے وہ اسے آگ میں داخل کرے گا، ہمیشہ اس میں رہنے والا ہے اور اس کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ ‘‘(النساء :13،14)
یعنی اِس قدر سخت تاکید کی گئی ہے ۔ پھر یہ کہ اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ۔ اگر اُس کا خاوند ظلم کرتا ہے اور اس کےجائز حقوق اس کو دینے کو تیار نہیں تو عورت اس سے خلع لے کرشرعی تقاضے مکمل ہوجانے کے بعد دوسرے مرد سے شادی کر سکتی ہے ۔ جبکہ دیگر کئی مذاہب میں عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے ۔ ہندو مذہب میں تو خلع کا تصور ہی نہیں ہے ، وہاں اگر خاوند مرجاتا تھا تو عورت کو اس کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا ۔ اب بھی ہندو مذہب میں بیوہ کو شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی اچھا کھانےپینے اور زیور پہننے کی اجازت ہے۔ اسی طرح عورت کو مغرب میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں تھا ۔ امریکہ میں 1920ء میں جاکر یہ حق عورت کو ملا ہے ۔ اس سے قبل ایک عورت نے ووٹ ڈالا تھا تو اس کو باقاعدہ سزا دی گئی تھی ۔ جبکہ اسلام نے عورتوں کو آج سے 14 سو سال پہلے یہ حق دیا تھا۔ جب حضرت عثمان غنی؄ خلیفہ نامز ہوئے توحضرت سعد بن ابی وقاص ؄نے گھروں میں جاکر عورتوں اور بچوں سے بھی رائے لی تھی ۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو جو عزت بخشی ہے، آج مغربی تہذیب دجل اور فریب کے ذریعے نام نہاد آزادی اور حقوق کے نام پر اس عزت اور عصمت کو عورت سے چھیننا چاہتی ہے ۔
سوال: عورت مارچ میں شامل خواتین اور اس کی منتظم این جی اوز کیا واقعتاً خواتین کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں یا وہ خواتین کے حقوق کے نام پر کسی انٹرنیشنل ایجنڈے پر ہیں؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:پہلی بات یہ ہے کہ جو خواتین عورت مارچ کا ایجنڈا لے کر چل رہی ہیں کیا وہ عورت کی تعریف پر پورا اُترتی بھی ہیں یا نہیں ۔ ہمارا یہ سوال اُن سے بھی ہے اور عوام سے بھی ہے ۔ کیونکہ لفظ عورت کے معنی ہیں : مستور ! یعنی پردہ اور حجاب کرنے کی وجہ سے خواتین کو عورت کہا جاتاہے ۔لہٰذا جو بے پردہ اور بے حجاب ہے، وہ عورت ہے ہی نہیں ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ عورت مارچ میں شریک خواتین نے کبھی غزہ کی محصور، مجبور اور مظلوم خواتین کے حقوق کی بھی بات کی ہے؟ کشمیر ، شام اور برما کی مظلوم مسلم خواتین کی کبھی بات کی ہے ؟ اگر ان مظلوم خواتین کے حقوق کی بات کرنا عورت مارچ کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُن کا اصل مقصود کچھ اور ہے اور وہ کم وبیش اُن کے پلے کارڈز ، بینرز ، سلوگنز ، بیانیہ اور نعروں کے ذریعے بے نقاب بھی ہورہا ہے ۔ انہوں نے کبھی عورت کے اُن حقوق (وراثت میں حق ، شرعی تعلیم وغیرہ )کی بات نہیں کی جو اسلام عورت کو دیتاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا مقصد عورت کے حقوق کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ مغرب کے ایجنڈے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مغرب کا ایجنڈاکسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، سب کچھ دستاویزی صورت میں موجود ہے ۔ جیسا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ایجنڈا 2030 ء خاندانی نظام کو توڑنے اور آبادی کو کم کرنے کی بات کرتا ہے ۔ ظاہر ہے مادر پدر آزادی کے نام پر جب عورت گھر ، شادی ، نکاح کے بندھن سے آزاد ہو جائے گی، خاندانی نظام ختم ہو جائے گا تو بچے پیدا کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ایجنڈا پورا ہو جائے گا ۔ اس لیے یہ لوگ مرداور عورت کو ایک دوسرےکا حریف بنانا چاہتے ہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ عورت کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے وہ لوگ ہیں جن کے ہاں تین چار صدیاں قبل تک عورت کو چڑیل (جادو کرنے والی) قرار دے کر آگ میں جلایا جاتا تھا ، اسی طرح ایسے سیکولر لوگوں کے نزدیک راجہ داہر بھی سیکولر تھا جس نےاقتدار کے لیے اپنی بہن سے شادی کی تھی اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاں عورت کو’’ ستی‘‘ کے نام پر زندہ جلایا جاتا تھا۔ آج تک کوئی عورت امریکی صدر کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکی ۔ میرا خیا ل ہے کہ عورت کے حقوق کی بات کرنے والے یہ لوگ پہلے اپنے ہاں عورت کو حقوق دے لیں پھر ہمیں بتانے کی کوشش کریں ۔
سوال: کیا پاکستان میں عورت مارچ کی سرگرمیاں یا ان کے مطالبات پاکستانی ثقافت اور اسلامی اقدار سے سے کوئی مطابقت رکھتے ہیں ؟ کیا ہمیں عورت مارچ کو سپورٹ کرنا چاہیے ؟
قیصر احمد راجہ:عورت مارچ والوں کو جتنا میں نے پرکھا ہے تو یہ کلاسیکل لبرل ازم والے نہیں ہیں بلکہ یہ پروگریسو لبرل ازم والے ہیں اور پروگریسیو لبرل ازم والوں کا تعلق ثقافتی بائیں بازو سے ہے جو کہ مارکس ازم کا ایک تصور ہے ۔ ثقافتی بائیں بازو کے تصورات میں کارل مارکس کے مطابق عورت دو وجوہات کی بناء پر شادی کرتی ہے ۔ (1)۔ اُسے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ، (2)۔ اولاد کی پرورش کے لیے ۔ کارل مارکس کہتا ہے کہ اگر ریاست ان دونوں چیزوں کی ذمہ داری لے لے تو عورت کو شادی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نظریہ کے مطابق محبت ، الفت ، ممتا ، شفقت پدری وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ یہ نظریہ صرف مادہ پرستی پر مبنی ہے اور اس میں عورت کی حیثیت ایک مالِ تجارت سے زیادہ کچھ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ثقافتی بائیں بازو کے حامل معاشروں میں عورت کو بے پردہ کیا جاتا ہے اور اس کو تجارتی جنس کے طور پر استعمال کیا جاتاہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ مغرب کے لوگ مہذب ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کب سے مہذب ہوگئے ۔ 1960ء سے پہلے وہ باقاعدہ شادیاں کرتے تھے ، بچے ہوتے تھے ، گھر اور خاندان تھا ۔ اگرچہ لبرل تھے لیکن ان کا بڑا مضبوط خاندانی نظریہ تھا ، اس کے تحت بچوں کی تربیت ہوتی تھی ، بچوں کو والدین کا ادب سکھایا جاتا تھا ۔ 1945ء سے پہلے اگر کسی عورت کا ٹخنہ ننگا ہوتا تھا تو اس کو فاحشہ سمجھا جاتا تھا ، مہذب گھرانے کی عورتوں کا پورا لباس ہوتا تھا۔ لیکن 1960ء میں سیکسول ریزولوشن آیا اور نکاح ، شادی ، گھر اور خاندان کا تصور ختم ہوتا گیا ۔ بے حیائی اور فحاشی پھیل گئی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 1960ء سے پہلے کا مغرب مہذب تھا یا اب مہذب ہے ؟ اگر ہم کہیں کہ 1960ء سے پہلے مغرب مہذب تھا تو اس کا مطلب ہے کہ اب وہ مہذب نہیں رہا ۔ جو ثقافتی بائیں بازو کے لوگ ہیں وہ تو 1960ء سے پہلے والی تہذیب کو ختم کرکے آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کے ہاں اب عورت صرف بازار کی ایک چیز یا جنسی تسکین کا ٹول بن کر رہ گئی ہے اور بحیثیت بیٹی ، بہن ، ماں ، دادی ، نانی اس کی جو عزت اور تکریم تھی وہ بالکل ختم ہو گئی ۔ خالص مادہ پرستانہ سوچ کے تحت جسم فروشی کو بھی مزدوری قراردے دیا گیا ۔ لہٰذا عورت مارچ والوں کے ہاں عورت کی کیا حیثیت رہ گئی ہے ؟ کیا عورت مارچ والے اُن حقوق کی بات کرتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی عزت ، عصمت ، حیاء اور وقار تھا ؟ اسلام تو کہتا ہے کہ عورت کو کمائی کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، مردکی ذمہ داری ہے کہ وہ اُس کی تمام ضروریات کو پورا کرے۔ البتہ اگر عورت شرعی حدود میں رہتے ہوئے کوئی جائز کاروبار یا شعبہ اختیار کرتی ہے تو ممانعت بھی نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؄کی اہلیہ تجارت کرتی تھیں، حضرت شفاء بنت عبداللہ ؅ایک طبیبہ تھیں ، حضرت خدیجہ؅ انٹر نیشنل سطح کی تاجر تھیں ۔ لیکن اسلام کسی عورت کو کاروبار یا ملازمت کرنے کا پابندنہیں کرتا بلکہ ترغیب دیتا ہے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے ۔ لیکن عورت مارچ والے کہتے ہیں کہ عورت صبح اُٹھے اور سارا دن کمائی کرے اور گھر میں لا کر دے ۔ یہ کونسی آزادی ہے ؟پھر یہ کہ مغرب میں عورت کو مرد کے برابر مزدوری بھی نہیں دی جاتی تھی اور کام مرد کے برابر لیا جاتا تھا۔ 2010ء میں قانونِ مساوات پاس ہوا لیکن انڈسٹری کے مالکان اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عورت کو مرد کے مقابلے میں ہلکا کام دیا جائے یا اس کو حمل کے دوران چھٹیاں دی جائیں ، وہ چاہتے ہیں کہ مرد کے برابر کام کرے نہیں تو اُجرت کم لے۔ بی بی سی سے کتنی ہی خواتین اس وجہ سے احتجاجاً کام چھوڑ کر جا چکی ہیں کہ ہم کیمرے کے سامنے بیٹھ کر مردوں کے برابر کام کرتی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں اُجرت کم ملتی ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ عورت مارچ والوں کو عورت کی آزاد ی چاہیے مرد کی آزادی کیوں نہیں چاہیے ؟وہ کیوں نہیں کہتے کہ مرد بھی مختصر کپڑے پہنے اور نیم برہنہ ہو کر گھومے ؟صرف اس لیے کہ وہ عورت کو بطور جنس کمائی کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ۔ برطانیہ میں دہائیوں تک ایک اخبار کے تیسرے صفحہ پر برہنہ عورت کی بڑی تصویر شائع ہوتی رہی ہے اور آن لائن اب بھی شائع ہو رہی ہے ۔ کیا یہ عورت کے حقوق ہیں اور یہ آزادی ہے کہ اس کو بے پردہ کرکے کمائی کا ذریعہ بنایا جائے ؟ اسلام نے تو عورت کو پردہ ، عزت اور عصمت اوربلند مقام و مرتبہ عطا کیا ہے ۔
سوال:مغرب میں ویلنٹائن ڈے کو ایک تہوار کے طور پر منایا جارہا ہے ۔ کچھ عرصہ سے اس کے اثرات پاکستان میں بھی داخل ہورہے ہیں ۔ یہ فرمائیے کہ پاکستان کی نوجوان نسل پر اس کے کس قدر مہلک اور بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:ویلنٹائن ڈے کا ہماری معاشرتی اقدار اور ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ عیسائی بھی اس کو اپنا تہوار تسلیم نہیں کرتے ۔ لیکن ایسے تہواروں کو معاشروں پر مسلط اس لیے کیا جاتاہے تاکہ ہماری سوچ بدل جائے ، ہمارے رول ماڈلز بدل جائیں ، اقدار و روایات بدل جائیں اور خاص طور پر ہماری منزل بدل جائے۔ بحیثیت اُمت مسلمہ ہمیں اس وقت دیکھنا یہ چاہیے کہ غزہ میں کیا ہورہا ہے ، کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، ہمارے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہوں لیکن جب ویلنٹائن ڈے منائیں گے تو ہماری فکر ہوگی کہ اس دن ہم کیا پہن کر جائیں ، کیسے جائیں اور کیا کریں ،لازمی طور پر ہم مغرب کی نقالی کریں گے ۔ لہٰذا ہماری اور مغرب کی منزل ایک ہو گی ۔ اسی وجہ سے انہوں نے ہمارے تعلیمی اداروں اور میڈیا کو استعمال کیا ہے ۔ ہمارے ٹی وی چینلز، ڈرامے ، فلمیں ، اخبارات سب مغرب کی بے حیا تہذیب کو ہماری نسلوں پر مسلط کر رہے ہیں ۔ اگر ہماری نسلوں کی یہ سوچ بن جائے کہ گھر اور شادی اپنی جگہ ہے لیکن دل کے معاملات اپنی جگہ ہیں ، بوائے فرینڈ ، گرل فرینڈ کا تصور ہماری نسلوں میں بھی پیدا ہو جائے تودشمن کو ہم پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ پھر تو اس نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کو شکست دے دی۔ ہمارے کچھ دانش گردوں نے اس شیطانی حملے کی راہ ہوار کرنے کے لیے بڑے پُرفریب جملے ایجاد کیے ہوتے ہیں کہ تم اپنی بہن کے لیے پھول لے جاؤ ، ماں کے لیے لے جاؤ تمہیں کسی نے روکا ہے ؟ میں یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ خدارا! اس جھانسے میں مت آئیے گا۔ ہم ایسے تہوار کیوں منائیں جو ہماری معاشرتی اقدار اور دینی روایات کے خلاف ہیں۔
سوال: دین اسلام نے خواتین کو جو حقوق دئیے ہیں ، اگر وہ اُن کو نہیں دئیے جارہے تو اس پر اسلام ہمیں کیا وعید سناتاہے ؟
خورشیدانجم:نبی کریم ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر خواتین اور غلاموں کے حقوق کے بارے میں لازمی تاکید کی کہ ان میں کوتاہی نہ کی جائے ۔ اس لیے کہ عورت صنف نازک ہے ، کمزور ہے ۔ فرمایا کہ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ! احادیث میں واضح حکم ہے کہ عورت کا جو مہر مقرر ہوتاہے اس کولازمی دیا جائے اور جو ادا نہیں کرتا اور نہ ہی ادا کرنے کی اس کی نیت ہے وہ آخرت میں زانی کی حیثیت سے سزا پائے گا۔ آج ہمارے ہاں سوچ بن چکی ہے کہ شادی کے بعد معاف کروا لیں گے اس لیے پہلے بڑھا چڑھا کر لکھا جاتاہے ، یعنی ادا کرنے کی نیت ہی نہیں ہوتی ۔ عورت بے چاری مجبور ہوتی ہے اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی معاف کرنا پڑتا ہے ۔ حالانکہ گن پوائنٹ پر معافی نہیں ہوتی ۔ اسی طرح جو مرد عورتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ان کے لیے بھی سخت وعید ہے ۔ مثلاً ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس کی دو بیویاں ہوں پھر وہ بالکل ایک ہی کی طرف جھک جائے تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا جسم ساقط (فالج زدہ )ہوگا۔ اسی طرح دین اسلام کہتا ہے کہ شادی سے پہلے عورت کی مرضی پوچھی جائے ، اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو زبردستی شادی نہیں ہوسکتی ۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اتنا مقام دیا ہے کہ ایک صحابیہ؅ کو ان کے شوہر نے غصے میں ماں جیسی کہہ دیا جس سے ظہار کا معاملہ ہوگیا تو وہ صحابیہ حضور ﷺکے پاس آکر روئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا فوراً قبول کی اور آیات نازل فرمائیں :
{قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا} ’’اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات (جو اے نبیﷺ!) آپ سے جھگڑ رہی ہے اپنے شوہر کے بارے میں‘‘(المجادلہ:1)
حضرت عمر ؄کے دور خلافت میں جب خوشحالی آگئی تو لوگوں نے زیادہ مہر مقرر کرنا شروع کردئیے۔ اس پر حضرت عمر ؄نے نوٹس لیا تو ایک خاتون صحابیہ ؅نے آپؓ کو ٹوک دیا کہ حق مہر اللہ نے مقرر کیا ہے ، آپ کون ہوتے ہیں اس پر قدغن لگانے والے ۔ حضرت عمر؄ نے فوراً رجوع کرلیا اوراس صحابیہ کی تعریف فرمائی ۔ یعنی اسلام نے عورت کو اتنی جرأت دی ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے سامنے بھی کھل کر حق بات کہہ سکتی ہے۔ ایک بدو حضرت عمر ؄ کے پاس اپنی بیوی کی بد خلقی اور زبان درازی کی شکایت کرنے آیا ،لیکن دیکھا کہ امیر المومنین کی زوجہ بھی آپ سے جھگڑ رہی ہیں اور آپ بالکل خاموش ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ پلٹنے لگا تو حضرت عمر ؄نے اسے روکا اور نصیحت فرمائی کہ بیویاں ہمارے لیے اتنی مشقت اُٹھاتی ہیں ، گھر اور بچوں کو سنبھالتی ہیں ، کپڑے دھوتی ہیں ، کھانا تیار کرتی ہیں۔ ان سب احسانات کے بدلے ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی برداشت کریں ۔ اسلام نے عورت کو اتنی عزت اور مرتبہ عطا کیا ہے۔ جبکہ عورت مارچ والے جس کوعورت کی آزادی کہتے ہیں وہ آزادی نہیں بلکہ عورت کی بربادی ہے، ان کھوکھلے نعروں کی آڑ میں عورت کا جس قدر استحصال ہو رہا ہے شاید تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا ہو ۔
سوال:ایک رائے یہ ہے کہ ویلنٹائن جیسے تہواروں کی پاکستان میں پروموشن انٹرنیشنل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس ایجنڈے کا مقصد کیا ہے ؟
قیصر احمد راجہ:اگر کسی تہوار یا تقریب کا مقصد انسان کی بہتری ہوتو یقینی طور پر اس میں انسان کی بہتری ہو گی لیکن ویلنٹائن جیسے تہوار جو خالصتاً کمرشل ایونٹ ہیں اور ان میں انسان کو ایک صارف کے طور پر استعمال کیا جاتاہے ان سے کمرشل اداروں کی بہتری تو ہوگی لیکن انسان کی کوئی بہتری نہیں ہے ۔مغرب میں مذہب کو ثانوی حیثیت حاصل ہے جبکہ انڈسٹریل مفادات اولین ترجیح ہیں ۔ کرسمس بھی مذہبی تہوار نہیں رہا بلکہ ایک کمرشل ایونٹ بن گیا ہے ، پارٹیز ہوتی ہیں، شرابیں پی جاتی ہیں ، جشن منایا جاتا ہے ، اس کے فوراً بعد نیو ایئر نائٹ کا جشن منایا جاتاہےاور اس موقع پر بھی یہ سب کچھ ہوتا ہے جس کا فائدہ سب سے زیادہ انڈسٹری کو ہوتاہے ۔ فروری کو مغرب میں خشک ماہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں کمرشل ایکٹیوٹیز کم ہوتی ہیں۔ وہاں کا صنعت کاریا سرمایہ کار کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ پورا مہینہ کمائی کے بغیر گزر جائے لہٰذا ویلنٹائن جیسی خرافات کو بڑھا چڑھا کر رواج دیا گیا اور اس دن کی مناسبت سے مختلف پروڈکٹس مارکیٹ میں عام کی گئیں ۔ اسلام نے تو اپنے تہواروں میں عبادت پر زیادہ زور دیا ہے۔ عیدین پر آپ عید کی نماز پڑھتے ہیں ، بڑی عید پر قربانی کا اہم فریضہ بھی ادا کرتے ہیں ۔ اسلا م نے ان تہواروں کو کمرشل نہیں بنایا تھا مگر آج ہم نے بنا لیا ہے تو یہ ہماری غلطی ہے ۔ بہرحال ویلنٹائن جیسی خرافات سے ہمارے معاشرے کو فائدے سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ پہلا نقصان تو یہ ہے کہ اس سے حیا اور غیرت کا جنازہ نکل رہا ہے ، اسلام کسی غیر محرم کو دیکھنے اور چھونے سے بھی منع کرتاہے ، لیکن ویلنٹائن جیسی خرافات کے موقع پر ہماری نسلوں میں جو برائیاں پھیل رہی ہیں وہ اگلی نسلوں میں منتقل ہو کر روایت بن جائیں گی اور نتیجہ میں ہمارا معاشرہ بھی مغرب کی طرح اخلاقی طور پر بالکل تباہ ہو جائے گا ۔
سوال: پاکستانی معاشرے سے ویلنٹائن جیسے مغربی تہواروں اور دیگر ہندوانہ رسومات کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کیا اقدامات اُٹھانے ہوں گے ؟
خورشیدانجم:اصل حل یہ ہے کہ ہم اسلامی نظام کی طرف واپس آئیں ۔ مسئلہ یہ ہےکہ دینی طبقہ جماعتی اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہو جاتاہے جس کی وجہ سے لبرل اور سیکولر آگے نکل جاتے ہیں اور وہی ملک کو لیڈ کر رہے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ جس طرح ہم اقیمو الصلٰوۃ کے حکمِ الٰہی کو پورا کرنے کے لیے ایک صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں اسی طرح اقیموالدین کے فرض کو ادا کرنے کے لیے بھی تمام تر مسلکی اور جماعتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک صف میں کھڑے ہو جائیں اور بھرپور تحریک چلائیں ۔ آج پورا عالم کفر مسلمانوں کے خلاف الکفر ملت واحد کی مانند متحد اور منظم ہو چکا ہے ۔ لہٰذا ہمیں بھی دین کے نفاذ کے لیے متحد ہونا چاہیے ۔ دین کا نفاذ ہوگا تو خواتین کے جو حقوق اسلام نے مقرر کیے ہیں وہ بھی ان کو مل جائیں گے ، حیا ، عصمت اور عزت کی حفاظت بھی ہوگی ، چادر اور چاردیواری کا تقدس بھی بحال ہوگا ۔