(الہدیٰ) مخلوق کی فرمانبرداری میں اللہ کی نافرمانی جائز نہیں - ادارہ

8 /

الہدیٰ

مخلوق کی فرمانبرداری میں اللہ کی نافرمانی جائز نہیں

 

آیت 8 {وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط} ’’اور ہم نے ہدایت کی ہے، انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی۔‘‘ 

{وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَاط} ’’اور اگر وہ تم پر دبائو ڈالیں کہ تم میرے ساتھ شریک ٹھہرائو ایسی چیزوں کو جن کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیںتو اُن کا کہنا مت مانو۔‘‘

یہاں ’’جہاد‘‘ کا لفظ مشرک والدین کی اس ’’کوشش ‘‘کے لیے استعمال ہوا ہے جو وہ اپنی اولاد کو دینِ اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے کر سکتے تھے۔ گویا یہاں یہ لفظ اپنے خالص لغوی معنی (جدّوجُہد کرنا‘ کوشش کرنا) میں آیا ہے۔ 

مکّہ کے مذکورہ حالات میں اسلام قبول کرنے والے بہت سے نوجوانوں کے لیے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی ایک بہت سنجیدہ مسئلہ پید ا ہو گیا تھا۔ ایک طرف قرآن کی یہ ہدایت تھی کہ انسان اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرے اور ان کی نافرمانی نہ کرے۔اس آیت میں بہت واضح انداز میں اولاد کے لیے والدین کی فرمانبرداری کی ’’حد‘‘ (limit)بتا دی گئی ہے کہ والدین کے حقوق بہرحال اللہ کے حقوق کے بعد ہیں۔ یعنی اللہ کا حق ‘ اس کا حکم اور اس کے دین کا تقاضا ہر صورت میں والدین کے حقوق اور ان کی مرضی پر فائق رہے گا۔ لہٰذا کسی نوجوان کے والدین اگر اُسے کفر و شرک پر مجبور کر رہے ہوں تو وہ ان کا یہ مطالبہ مت مانے۔ البتہ اس صورت میں بھی نہ تو وہ ان کے ساتھ بد تمیزی کرے اور نہ ہی سینہ تان کر جواب دے‘ بلکہ ادب سے اُنہیں سمجھائے کہ اُن کا یہ حکم ماننا اس کے لیے ممکن نہیں۔ ا س سلسلے میں حضرت ابراہیمd کا اپنے مشرک والد کے ساتھ مکالمہ (سورۂ مریم‘ آیات 42تا45) اِس حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔

{اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(8)} ’’ میری ہی طرف تمہیں لوٹ کر آنا ہے‘ پھر میںتمہیں بتادوں گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔‘‘

درس حدیث

اجتماعی معاملہ کی ذمہ داری

 

عَنْ مَّعْقَلِ بْنِ یَسَارٍ ؓ قَالَ سَمِعْتُ  رَسُوْلَ اللہُﷺ یَقُوْلُ: ((اَیُّمَا وَالٍ وَلِیَ مِنْ اَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ شَیْئًا فَلَمْ یَنْصَحْ لَھُمْ وَلَمْ یَجْھَدْ لَھُمْ کَنُصْحِہٖ وَجُھْدِہٖ لِنَفْسِہٖ کَبَّہُ اللّٰہُ عَلٰی وَجْھِہٖ فِی النَّارِ))  (رواہ طبرانی ) 

سید نا معقل بن یسار ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ جس کسی نے مسلمانوں کے اجتماعی معاملہ کی ذمہ داری قبول کر لی پھر اُس نے اُن کے ساتھ خیر خواہی نہ کی اور اُن کے معاملات کی انجام دہی میں اپنے آپ کو اُس طرح نہیں تھکایا جس طرح وہ اپنی ذات کے لیے اپنے آپ کو تھکاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس شخص کو منہ کے بل جہنم میں گرا دے گا۔‘‘