کیا جدید تعلیم واقعی خواتین کو بااختیار بنا رہی ہے؟
سجاد سرور معاون شعبہ تعلیم و تربیت
یہ تحریر ندائے خلافت کے شمارہ 03، 2025ء میں
"Is Modern Education Truly Empowering’Women"
کے عنوان سے شائع ہونے والے انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ہے۔ ـ(ادارہ)
انگریزی مضمون کی مصنفہ کا تعارف: مقدس گھمن صاحبہ، ایک روایتی مسلم
گھریلو خاتون اور ندائے خلافت کی باقاعدہ لکھاری ہیں۔ وہ گھریلو تعلیم
(ہوم اسکولنگ) کے مختلف منصوبوں میں بھی سرگرم عمل ہیں۔
کسی بھی معاشرے کا تعلیمی نظام اس کی سماجی بنیادوں میں گہرائی سے جڑا ہوتا ہے۔ تعلیم ایک ذریعے کے طور پر کام کرتی ہے اور جب کسی معاشرے کے اہداف واضح ہوتے ہیں تو وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تعلیمی نظام کو تشکیل دے سکتا ہے۔ تاہم، جب سماجی مقاصد غیرواضح ہوں، تو ریاستی اشرافیہ عام طور پر حکمرانی اور فکری مکالمے دونوں پر قابض ہو جاتی ہے اور تعلیمی نظام کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔
موجودہ عالمی نظام کا مقصد کیا ہے؟ یہ ’’سرمایہ داری‘‘ ہے، اور اسی کے نتیجے میں ’’مادیت پسندی‘‘ فروغ پاتی ہے۔ یہ نظام ملک میں ایسا تعلیمی ماڈل مسلط کرتا ہے جو افراد کو سرمایہ دارانہ اور مادہ پرست انسان میں ڈھال دیتا ہے۔Adam Smith، جو سرمایہ داری کی اصطلاح کے بانی سمجھے جاتے ہیں، نے یہ مؤقف پیش کیا کہ جب افراد اپنے مفاد میں سرمایہ پیدا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں تو پورا معاشرہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، معاشرتی فلاح و بہبود صرف دولت کے حصول اور مادی فوائد سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً، ایک ایسے نظام میں جہاں مادیت کا غلبہ ہو، جو شخص سرمایہ پیدا کرنے میں معاون نہ ہو، اُسے غیر پیداواری حتیٰ کہ غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔
اسی سرمایہ دارانہ نقطۂ نظر کے تحت، وہ خواتین جو گھریلو زندگی کو ترجیح دیتی ہیں، اکثر ’’معاشرے کے لیے غیر مفید‘‘ تصور کی جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں اسلامی نقطۂ نظر (دین) اپنے حریف نظریات سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ اسلام میں کسی عورت کی قدر کا تعین اس بات سے نہیں ہوتا کہ وہ کتنا سرمایہ پیدا کر سکتی ہے، بلکہ اس کے برعکس، اس کا بطور ماں اور گھر سنوارنے والی کا کردار معاشرتی بھلائی کے لیے اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے جتنا کہ کسی مرد کا معاشی کفالت کرنا۔ ایک عورت جو اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت کرتی ہے، وہ معاشرے کے اخلاقی اور سماجی ڈھانچے میں انتہائی قیمتی حصّہ ڈالتی ہے، اور اس کا یہ کردار کسی بھی معاشی سرگرمی سے کم اہمیت کا حامل نہیں۔
بدقسمتی سے، صنعتی ترقی اور سرمایہ داری کے پھیلاؤ نے ان سماجی و اخلاقی اقدار کی اہمیت کو کم کر دیا ہے، اور مادہ پرستی کو اوّلین حیثیت دے دی ہے۔ اب اولاد کی صحت مند اور بااخلاق تربیت کو بے وقعت تصور کیا جانے لگا ہے، اور آئندہ نسلوں میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کرنے کے عمل کو مادی کامیابیوں کے مقابلے میں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جو یہ واضح کرتی ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان میں مردوں اور عورتوں کے لیے تعلیم کے اصول مختلف کیوں ہیں، کیونکہ وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو سرمایہ دارانہ مفادات کے بجائے اسلامی اصولوں کی رہنمائی میں چل رہا ہے۔ موجودہ دور میں عالمی ثقافت تمام معاشروں پر بے پناہ دباؤ ڈالتی ہے کہ وہ اس کے طے کردہ معیارات کے مطابق خود کو ڈھالیں، جس سے اقوام کے لیے اپنے مخصوص اقدار اور تعلیمی نظام کو مرتب کرنا مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ خصوصاً افغانستان کو خواتین کی تعلیم سے متعلق پالیسیوں پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
آج کی جدید تعلیم کو ورلڈ بینک جیسے ادارے ’’انسانی سرمائے کی ترقی کے لیے اہم سرمایہ کاری‘‘ قرار دیتے ہیں، اور او ای سی ڈی (OECD) جیسے ادارے اسے ’’زیادہ پیداواری صلاحیت اور اقتصادی ترقی کے حصول کا ذریعہ‘‘سمجھتے ہیں۔ تاہم، یہ تمام تصورات سرمایہ دارانہ نظریات سے جڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان، جو سرمایہ دارانہ معاشروں سے بالکل مختلف اقدار، اخلاقیات اور عقائد رکھتا ہے، کیوں ایسے تعلیمی نظام کو اپنائے جو سرمایہ دارانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہے؟
تعلیمی نظام میں اصلاح کی ضرورت صرف افغانستان تک محدود نہیں بلکہ ہر مسلم معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔یہ ضروری ہے کہ ایسا تعلیمی نظام تشکیل دیا جائے جو اسلامی سماجی کرداروں اور اقدار سے ہم آہنگ ہو۔ اسلام میں مرد کو اپنے خاندان کا سرپرست اور عورت کو شوہر کے گھر اور بچوں کی نگہداشت کرنے والی قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں واضح طور پر بیان ہوا ہے۔ (بخاری)
ذمہ داریوں کی یہ تقسیم معاشرے میں عورت کے کردار کی اہمیت کو اُجاگر کرتی ہے، جو آنے والی نسلوں کے اخلاقی اور روحانی کردار کو سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ عورت کا کردار صرف ایک ماں، بیوی، بہن یا بیٹی کا ہی نہیں، بلکہ ماں اور بیوی ایسی نسل کی پرورش کرتی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے افراد، دیانتدار تاجر، منصف مزاج قاضی، اہل قیادت، اور بہادر مجاہدین بن سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیےمہارت، عزم، اور وقت درکار ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ تعلیمی نظام خواتین کو ان اہم کرداروں کے لیے تیار کرتا ہے؟
اس کا جواب واضح طور پر ’’نہیں‘‘ ہے۔
لہٰذا، یہ ناگزیر ہے کہ ایک ایسا اسلامی تعلیمی نظام قائم کیا جائے جو مردوں اور عورتوں دونوں کی ان کے معاشرتی کرداروں کے مطابق تربیت کرے۔ یہ نظام مادہ پرستی کے محدود نقطۂ نظر سے ہٹ کر جامع اور اقدار پر مبنی تعلیم کو فروغ دے، جو ہر جنس کے مخصوص اسلامی تقاضوں اور ذمہ داریوں کے عین مطابق ہو۔